یہ ایک مشھور و معروف سوال ھے جو قدیم زمانہ سے بھا نہ باز لو گوں کے درمیان ھوتا آرھا ھے اس کی وجہ بھی یہ ھے کہ ٹھیک ھے حضرت علی علیہ السلام نے سب سے پھلے اظھار اسلام کیا، لیکن اس دس سالہ اور نابالغ بچہ کا اسلام قابل قبول ھے یا نھیں؟ اور اگرآپ کے بلوغ کو معیار قرار دیں تو دوسرے بہت سے لوگ اس وقت اسلام یا مسلمان ھو چکے تھے ۔
یھاں ”مامون عباسی“ اور اس کے زمانہ کے ایک مشھور و معروف سنی عالم دین ”اسحاق“ کی گفتگو کا بیان کرنا مناسب ھے، (اس واقعہ کو ”ابن عبدربّہ“ نے اپنی کتاب ”عقد الفرید“ میں تحریر کیا ھے)
مامون نے اس سے کھا: پیغمبر اکرم (ص)کی رسالت میں سب سے افضل کونسا عمل ھے؟
اسحاق نے کھا: خدا کی توحید اور پیغمبر اکرم (ص)کی رسالت کی گواھی میں اخلاص سے کام لینا۔
مامون نے کھا: کیا تم کسی ایسے شخص کو پہچانتے ھو جو حضرت علی علیہ السلام سے پھلے مسلمان ھوا ھو؟
اسحاق نے کھا: علی اس وقت اسلام لائے جب وہ کم سن اور نابالغ تھے، اور شرعی ذمہ داریاں بھی ان پر نافذ نھیں ھوئی تھیں۔
مامون نے کھا: حضرت علی علیہ السلام کا اسلام پیغمبر اکرم (ص)کی دعوت کی بنا پر تھا یا نھیں؟ اور پیغمبر اکرم (ص)نے ان کے اسلام کو قبول کیا یا نھیں؟ یہ کس طرح ممکن ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کسی ایسے شخص کو اسلام کی دعوت دیں جس کا اسلام قابل قبول نہ ھو!
یہ سن کر اسحاق لاجواب ھوگیا۔[1]
مرحوم علامہ امینی علیہ الرحمہ ”عقد الفرید“ سے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد مزید فرماتے ھیں: ابوجعفراسکافی معتزلی (متوفی ۲۴۰ھ) اپنے رسالہ میں لکھتے ھیں کہ سب مسلمان اس بات کو جانتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام سب سے پھلے اسلام لانے والوں میں سے تھے، پیغمبر اکرم (ص)پیر کے روز مبعوث برسالت ھوئے اور حضرت علی علیہ السلام نے منگل کے روز اظھار اسلام فرمایا، اور آپ فرماتے تھے کہ میں نے دوسروں سے سات سال پھلے نماز پڑھی ھے، اور ھمیشہ فرماتے تھے کہ ”میں اسلام لانے والوں میں سب سے پھلا شخص ھوں“اور یہ ھر مشھور بات سے زیادہ مشھور ھے، ھم نے گزشتہ زمانہ میں کسی کو نھیں دیکھا جو آپ کے اسلام کو کم اھمیت قرار دے، یا یہ کھے کہ حضرت علی ﷼ اس وقت اسلام لائے جب آپ کم سن تھے، عجیب بات تو یہ ھے کہ ”عباس“ اور ”حمزہ“ جیسے افراد اسلام قبول کرنے میں ”جناب ابوطالب‘﷼‘ کے عکس العمل کے منتظر تھے ، لیکن فرزند ابوطالب (حضرت علی علیہ السلام) نے اپنے پدر بزرگوار کے اسلام کا انتظار نہ کیا اور فوراً ھی اظھار ایمان کردیا۔[2]
خلاصہٴ گفتگو یہ ھے :
پھلی بات یہ ھے کہ پیغمبر اسلام (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کا اسلام قبول کیا ، لہٰذا اگر کوئی شخص اس کم سنی میں حضرت کے اسلام کو قبول نہ کرے تو گویا وہ پیغمبر اکرم (ص)پر اعتراض کرتا ھے۔
دوسری بات یہ ھے کہ دعوت ذوالعشیرہ کی مشھور و معروف روایات میں بیان ھوا ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے کھانا تیار کرایا اورقریش میں سے اپنے رشتہ داروں کی دعوت کی اور ان کو اسلام کا پیغام سنایا، فرمایا: جو شخص سب سے پھلے اسلام کے پیغام میں میری نصرت و مدد کرے گا وہ میرا بھائی، وصی اور جانشین ھوگا، اس موقع پر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کسی نے رسول اسلام کی دعوت پر لبیک نھیں کھی، آپ نے فرمایا: یا رسول اللہ ! میں آپ کی نصرت و مدد کروں گا، اور آپ کے ھاتھوں پر بیعت کرتا ھوں، اس موقع پر پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: یا علی! تم میرے بھائی، میرے وصی اور میرے جانشین ھو۔
کیا کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)ایک نابالغ شخص کو (جس کے لئے لوگ کہتے ھیں کہ ان کا اسلام قابل قبول نھیں ھے) اپنا بھائی ، وصی اور جانشین قرار دیں اور دوسروں کو ان کی اطاعت کی دعوت دیں ! یھاں تک کہ مشرکین ِمکہ ابو طالب کا مذاق اڑاتے ھوئے ان سے کھیں کہ تم اب اپنے بیٹے کی اطاعت کرنا، بے شک، اسلام قبول کرنے کے لئے بالغ ھوناشرط نھیں ھے، ھر وہ نوجوان جو صاحب عقل وشعور ھواگراسلام کو قبول کرے اور بالفرض اس کا باپ بھی مسلمان نہ ھو تو وہ اپنے باپ سے جدا ھوکر مسلمانوں میں شامل ھوجائے گا۔
تیسری بات یہ ھے کہ قرآن مجید سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ حتی نبوت کے لئے بھی ”بلوغ“ کی شرط نھیں ھے اور بعض انبیاء کو یہ مقام بچپن میں ھی مل گیا تھا، جیسا کہ جناب یحيٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے: < وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا >[3]’اور ھم نے انھیں بچپنے ھی میں نبوت عطا کردی’“۔
اور جناب عیسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں بھی ملتا ھے کہ انھوں نے پیدائش کے بعد ھی واضح الفاظ میں کھا: < قَالَ إِنِّی عَبْدُ اللهِ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا>[4] ” (جناب) عیسیٰ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ھوں، اس نے مجھے کتاب دی ھے اور مجھے نبی بنایا ھے“۔
ان دلیلوں میں سب سے بہترین دلیل یھی ھے کہ خود پیغمبر اسلام (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کے اسلام کو قبول کیا اور دعوت ذوالعشیرہ میں یہ اعلان کیا کہ علی علیہ السلام میرے بھائی، میرے وصی اور میرے جانشین ھیں۔
بھر حال وہ روایت جس میں بیان ھوا کہ حضرت علی علیہ السلام سب سے پھلے اسلام لانے والوں میں ھیں، یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک ایسی عظیم فضیلت بیان کرتی ھے جس میں کوئی دوسرا شریک نھیں ھے ، اسی دلیل کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم (ص)کی جانشینی کے لئے امت میں سب سے زیادہ حقدار اور مناسب شخص ھيں۔[5]
[1] عقد الفرید ، جلد ۳، صفحہ ۴۳ (تلخیص کے ساتھ)
[2] الغدیر ، جلد ۳، صفحہ ۲۳۷۔
[3] سورہٴ مریم ، آیت ۱۲۔
[4] سورہٴ مریم آیت۳۰۔
[5] تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۳۵۵۔