اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

نہج البلاغہ میں عبادت کی اقسام

نہج البلاغہ میں عبادت کی اقسام

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے اندر عبادت کرنے والوں کی تین اقسام بیان فرماتے ھیں۔

”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ التُّجَّارِ وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ، وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔[1]

”کچھ لوگ خدا کی عبادت کے انعام کے لالچ میں کرتے ھیں یہ تاجروں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتے ھیں یہ غلاموں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خدا کا شکر بجالانے کی کے لئے کرتے ھیں یہ آزاد اور زندہ دل لوگوں کی عبادت ہے“۔

 اس فرمان میں امام علیہ السلام نے عبادت کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔

پھلی قسم :تاجروں کی عبادت

فرمایا:  ”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ ۔۔۔“

یعنی کچھ لوگ رغبت اور انعام کے لالچ میں خُدا کی عبادت کرتے ھیں۔ امام فرماتے ھیں یہ حقیقی عبادت نھیں ہے بلکہ یہ تاجر لوگوں کی طرح خدا سے معاملہ کرنا چاہتا ہے ۔ جیسے تاجر حضرات کا ھم و غم فقط نفع اور انعام ھوتا ہے ۔ کسی کی اھمیت اُس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ اسی طرح یہ عابد جو اس نیت سے خدا کے سامنے جھکتا ہے در اصل خدا کی عظمت کا اقرار نھیں کرتا بلکہ فقط اپنے انعام کے پیش نظر جھک رھا ھوتا ہے ۔

دوسری قسم :غلاموں کی عبادت

”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ“۔

امام فرماتے ھیں کچھ لوگ خدا کے خوف سے اس کی بندگی کرتے ھیں یہ بھی حقیقی عبادت نھیں ہے بلکہ غلاموں کی عبادت ہے جیسے ایک غلام مجبوراً اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے ۔ اُس کی عظمت اس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ یہ عابد بھی گویا خدا کی عظمت کا معترف نھیں ہے بلکہ مجبوراً خدا کے سامنے جھک رھا ہے ۔

تیسری قسم :حقیقی عبادت :

”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔

امام فرماتے ھیں کہ کچھ لوگ ایسے ھیں جو خدا کی عبادت اور بندگی اُس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بجالاتے ھیں۔ فرمایا : یہ حقیقی عبادت ہے ۔ چونکہ یھاں پر عبادت کرنے والا اپنے منعم حقیقی کو پہچان کر اور اُس کی عظمت کا معترف ھوکر اُس کے سامنے جھک جاتا ہے ۔ جیسا کے کوئی عطیہ اور نعمت دینے والا واجب الاکرام سمجھا جاتا ہے ۔ اور تمام دنیا کے عاقل انسان اُس کی عظمت کو تسلیم کرتے ھیں۔ اسی عقلی قانون کی بناپر امام علیہ السلام فرماتے ھیں جو شخص اُس منعم حقیقی کو پہچان کر اُس کے سامنے جھک جائے ۔ اسی کو عابد حقیقی کھا جائے گا۔ اور یہ عبادت کی اٴعلیٰ قسم ہے ۔

عبادة کے آثار میں سے ایک اھم اٴثریہ ہے کہ عبادت دل کو نورانیت اور صفا عطا کرتی ہے ۔ اور دل کو تجلیات خدا کا محور بنا دیتی ہے ۔ امام علی(ع) اس اثر کے بارے میں فرماتے ھیں :

”إنَ اللہَ تَعَالیٰ جَعَلَ الذِّکْرَ جَلَاءً لِلْقُلُوْبِ“۔(2)

امام علی(ع) فرماتے ھیں کہ ”خدا نے ذکر یعنی عبادت کو دلوں کی روشنی قرار دیا ہے ۔ بھرے دل اسی روشنی سے قوة سماعت اور سننے کی قوة حاصل کرتے ھیں اور نابینا دل بینا ھوجاتے ھیں“


[1] نہج البلاغہ، حکمت ۲۳۷۔

[2] نہج البلاغہ، خطبہ ۲۲۲۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشات
ماہ رمضان کی فضیلت
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
قرآنِ کریم میں "حجاب" سے متعلق آیات
ماہ رمضان ، عظیم ترین مہینہ
کيا ہم بھي عيد غدير کي اہميت کو اجاگر کرنے ميں ...
قرآن مجید اور ازدواج
فضائل ماہ شعبان و شبِ براء ت
سکیولریزم قرآن کی نظر میں
اسلام کے عقا ئد قرآن کریم کی رو شنی میں

 
user comment