اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

جناب فاطمہ(ع) حضرت رسول خدا (ص)کی اکلوتی بیٹی

جناب فاطمہ(ع) حضرت رسول خدا (ص)کی اکلوتی بیٹی



شیعہ حضرات سوائے جناب فاطمہ(س) کے اور کوئی بیٹی حضرت رسول خدا (ص) کی تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں: زینب ، رقیہ اور ام کلثوم جن کو اہل سنت حضرات رسول خدا (ص)کی بیٹیاں بتاتے ہیں ، ان کی صلبی بیٹیاں نہیں تھیں بلکہ ربیبہ﴿لے پالک﴾ تھیں جو یا تو حضرت خدیجہ (س)کے پہلے شوہر سے تھیں یا حضرت خدیجہ (س) کی بہن ہالہ کی لڑکیاں تھیں اور چونکہ عرب میں پروردہ لڑکیا ں بھی صلبی اولاد کی طرح سمجھی جاتی تھیں اس لئے یہ مجازا ً’’ابنات رسول‘‘ کہلائیں۔
زینب کا عقد ابوالعاص سے ہوا ، رقیہ اور ام کلثوم کا نکاح ابولہب کے دونوں بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے ہوا۔ عتبہ کے مرنے اور عتیبہ کے طلاق دینے کے بعد پھر ان دونوں لڑکیوں کا عقد یکے بعد دیگرے حضرت عثمان سے ہوا۔
فریقین کی کتابوں سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) کی اولادیں چار تھیں، تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی۔ تفصیل یہ ہے کہ سب سے بڑے قاسم﴿طیب﴾ پھر عبداللہ ﴿طاہر﴾جناب خدیجہ کے بطن سے تھے اور یہ دونوں جناب فاطمہ زہرا(س) سے بڑے تھے ، ان دونوں صاحبزادوں نے شیر خوارگی کے زمانے میں حضرت فاطمہ(س) کی ولادت سے پہلے ہی انتقال فرمایا تھا۔ ان کے بعد جب حضرت خدیجہ (س) کے بطن سے حضرت فاطمہ (س)پیدا ہوئیں ۔ تیسرے صاحبزادے ابراہیم حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور تقریباً چھ مہینے زندہ رہے۔ رسول خدا (ص)کی ان چار اولادوں میں سوائے جناب سیدہ (س)کے آپ (ص) کی کوئی صلبی اولاد آپ (ص) کے بعد باقی نہیں رہی۔
ابن قتیبہ نے اپنی کتاب معارف میں لکھا ہے: ’’حضرت خدیجہ کا عقد پہلے عتیق ابن عائد مخزومی سے ہوا جس سے ایک لڑکی پیدا ہوئی پھر ابوہالہ ابن زرارہ اسیدی تمیمی سے نکاح ہوا جو قبیلہ بنی حبیب ابن جردہ سے تھے ، اس نے مکہ میں بحالت جاہلیت وفات پائی ، اس سے ایک لڑکا ہند ابن ابی ہالہ پیدا ہوا۔ اس کے بعد جناب رسول خدا (ص) سے عقد ہوا اور ہند ابن ابی ہالہ آپ کے ربیب ﴿پروردہ﴾ قرار پائے ۔ وہ کہتے تھے میں سب لوگوں سے از روئے باپ ، ماں، بھائی اور بہن کے افضل ہوں کیونکہ میرے باپ تو حضرت رسول خدا (ص) ہیں اور ماں حضرت خدیجہ ،بھائی حضرت قاسم اور بہن حضرت فاطمہ(س)‘‘۔
مشاہدہ کیا آپ نے کہ ہند ابن ابی ہالہ اگرچہ رسول خدا (ص) کا صلبی بیٹا نہیں تھا لیکن وہ رسول خدا (ص) کو اپنا باپ قرار دیتا تھا اور جناب فاطمہ زہرا٪ کو اپنی بہن اور حضرت قاسم کو اپنا بھائی قرار دیتا تھا۔
قریب قریب یہی روایت روضۃ الاحباب میں بھی تحریر ہے۔ اس سے تین باتیں معلوم ہوتی ہیں:


۱۔حضرت خدیجہ کے پہلے اور دوسرے شوہر سے ایک لڑکی اور لڑکے کا پیدا ہونا۔
۲۔ دوسرے ہند ابن ابی ہالہ ﴿جو حضرت (ص) کے پروردہ تھے﴾ کا آپ کو باپ کہنا۔
۳۔ ہند نے بہنوں میں صرف حضرت فاطمہ (س) کا نام لیا نہ زینب کا نہ رقیہ کا نہ ام کلثوم کا۔ اس سے اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ وہ اولاد حضرت خدیجہ سے بھی نہ تھیں چہ جائیکہ اولاد رسول سے ہوں، عقلاً بھی اگر دیکھاجائے تو یہ تینوں لڑکیاں رسول خدا (ص) کے صلب سے نہیں معلوم ہوتیں ۔ ذیل میں ہم چند عقلی ثبوت بھی درج کرتے ہیں:


۱۔ واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لڑکیوں ﴿زینب، رقیہ، اور ام کلثوم﴾ کی پرورش طریقہ کفر پر ہوئی اور حالت کفر سے انہوں نے اسلام قبول کیا، پس یہ حضرت رسول خدا (ص) کی صلبی لڑکیاں نہیں ہو سکتیں۔


۲۔ دونوں فریقین کی کتابوں سے یہ بات ثابت ہے کہ ان لڑکیوں کی شادی کفار سے ہوئی۔ اگر یہ رسول کی صلبی بیٹیاں ہوتیں تو حضرت ان کی شادی کفار سے کبھی نہ کرتے کیونکہ آپ (ص) قبل بعثت بھی نبی تھے جیسا کہ فرمایا ہے: کنت نبیا وآدم بین المائ والطین، میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے۔


۳۔ رقیہ، ام کلثوم اور زینب کا نکاح اول مشرکین عرب سے کیا گیا،ایک کا عتبہ بن ابولہب سے ، دوسری کا عتیبہ ابن ابولہب سے اور تیسری کا ابوالعاص بن ربیع سے۔ لیکن حضرت فاطمہ زہرا(س) کا عقد اس اہتمام سے کیا گیا کہ حضرت ت ابوبکر وعمر یکے بعد دیگرے خواستگار ہوئے مگر آنحضرت (ص) نے منظور نہ کیاباوجودیکہ یہ دونوں مسلمان تھے بلکہ حضرت علی - سے تزویج فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ’’ اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو نہیں تھا۔ ﴿دیلمی﴾


۴۔ حضرت رسول خدا (ص) کی اگرتین لڑکیاں اور تھیں تو تعجب ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کا خون بھی نہ اچھلاجب رسول خدا جنگ احد میں زخمی ہوئے تھے اور جب رسول خدا (ص) کی شہادت کی خبر مدینہ پہنچی تو فاطمہ زہرا(س) کس قدر بے تاب ہو کر میدان احد میں پہنچی تھیں جبکہ باقی تین بیٹیوں کے بارے میں ہمیں تاریخ میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی۔رسول خدا (ص) زخمی تھے اور حضرت فاطمہ زہرا (س) مسلسل آپ کی تیمارداری میں مصروف تھیں جبکہ باقی تینوں بیٹیاںتیمارداری تو درکنار خالی مزاج پرسی تک کو بھی نہ آئیں۔ اس مصیبت ناک واقعہ کا ان صاحبزادیوں کے دل پر اثر ہی نہیں ہوا یا حقیقت میں وہ رسول زادیاں ہی نہ تھیں، محض غلط فہمی کی بنیاد پر لوگ ان کو حضرت (ص) کی بیٹیاں کہنے لگے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ پرائے بدن کی بوٹی کو درد نہیں محسوس ہوتا، جس کا خون رسول کا خون اور جس کا گوشت وپوست رسول کا گوشت وپوست تھا وہ کیسی بے چین ہو کرمیدان احد کی طرف دوڑ پڑیں تھیں۔


۵۔ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو رسول اللہ (ص) نے اپنی چادر میں صرف علی، فاطمہ، حسن وحسین علیھم السلام کو لیا اور فرمایا: ’’اللھمّ ھؤلائ اھل بیتی..... واذھب عنہم الرجس وطھّرھم تطہیراً ، خدایا!یہی ہیں میرے اہل بیت ، ان سے ہر قسم کی نجاست کو دور رکھ اور پاک کر دے حق پاک کر دینے کا‘‘۔اس کا کیا سبب ہے کہ اس چادر میں رقیہ اور ام کلثوم داخل نہ کی گئیں، کیا اس وجہ سے کہ رقیہ اور ام کلثوم دختران رسول تھیں ہی نہیں؟ ﴿امام احمد البلاذری﴾ یا اس وجہ سے کہ رقیہ اور ام کلثوم میں مباہلہ کے موقع پر پیش کئے جانے کی اہلیت نہ تھی، ان میں سے جو جواب بھی ہوگا ہمارے مدعا کے موافق ہے۔


۶۔ جب آیہ مودۃ ’’قل لا اسئلکم علیہ اجرا الّا المودّۃ فی القربٰی‘‘ نازل ہوئی تو اصحاب نے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں کہ جن کی محبت ہم پر فرض کی گئی ہے،تو حضرت رسول خدا (ص)نے فرمایا: وہ علی وفاطمہ اور حسن وحسین ٪ہیں۔ اس روایت کو امام احمد ابن ابی حاتم، طبرانی، بغوی، کلبی، حاکم اور دیلمی نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ پس رقیہ اور ام کلثوم سے کیا خطا ہوئی تھی کہ ان کو ذوی القربیٰ میں نہیں لیا گیا اور نہ ان کی محبت اہل اسلام پر واجب کی گئی ، کیا یہ دختران رسول تھیں؟۔


۷۔ جب آیہ ’’وآت ذا القربٰی حقہ ،اپنے ذوی القربیٰ کو ان کا حق دیدو‘‘نازل ہوئی تو حضرت رسول خدا (ص) نے فاطمہ(س) کو فدک ہبہ کر دیا ، رقیہ ، ام کلثوم اور زینب سے کیا خطا ہوئی تھی کہ ان کو ترکہ پدری سے محروم رکھا گیا؟ کیا یہ امر شان رسالت کے خلاف نہ تھا؟۔


۸۔ جناب سیدہ (س) کی فضیلت میں سینکڑوں حدیثیں حضرت رسول خدا (ص) نے بیان فرمائیں جو تواریخ وسیر واحادیث کی کتابوں میں درج ہیں مگرکیا رقیہ ، زینب اور ام کلثوم کے متعلق کوئی ایک حدیث فضیلت بھی ایسی پیش کی جاسکتی ہے جیسی جناب سیدہ (س) کے متعلق ارشاد فرمائی گئی ہیں؟۔ ایک سچے مسلمان کو اس بات میں شبہہ ہوتا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے ایسا کیوں کیا؟ ایک صلبی دختر کو تو اتنا بلند کر کے دکھایا جائے جس کی کوئی حد نہ ہو اور دوسروں کیلئے کچھ نہیں ،آخر اس کا کیا سبب ہے؟۔


۹۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جب کسی کی اولاد دیکھتی ہے کہ ان کے ماں باپ کسی ایک بچہ سے زیادہ محبت کرتے ہیںاور جابجا بار بار اس کی تعریف کرتے ہیں تو انہیں شکایت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اپنے ماں باپ سے انصاف کے طالب ہوتے ہیں ، اگر باپ سے نہیں تو ماں سے ضرور شکایت کرتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے ماں سے بھی نہیں کہہ سکتے تو اہل محلہ سے شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے والدین یا صرف ماں یا باپ فلاں فرزند کو زیادہ چاہتے ہیں اور ہمیں نہیں چاہتے ۔ لیکن تمام کتب اہل سنت ،کتب تواریخ وسیر کو الٹنے کے بعد بھی حضرات اہل سنت اس بات کو ثابت نہیں کر سکتے کہ کبھی رقیہ ، ام کلثوم یا زینب نے حضرت رسول خدا (ص) یا حضرت خدیجہ (س) سے اس نا انصافی کی شکایت کی ہویا کسی غیر ہی سے کنایتاً یا صراحتاً اس کا کبھی ذکر کیاہو۔ آخر یہاں یہ قانون قدرت کیوں بدل گیا اور فطری صفت جو ہر بچہ میں پائی جاتی ہے رقیہ اور ام کلثوم سے کیوں زائل ہوگئی؟ کیا اس کا یہ سبب نہیں تھا کہ چونکہ وہ دختران رسول نہیں تھیں ؟اس لئے شکایت کا کوئی موقع نہیں تھا۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

لڑکیوں کی تربیت
جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده )
عبادت،نہج البلاغہ کی نظر میں
اخلاق کى قدر و قيمت
اسوہ حسینی
ائمہ اثنا عشر
فلسفہٴ روزہ
نہج البلاغہ اور اخلاقیات
عید مبعث اور شب معراج ، رحمت اللعالمین کی رسالت ...
عورت کا مقام و مرتبہ

 
user comment