وما کان المؤمنون لینظروا کافة فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقہوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون ۔''تمام مومنین کے لئے اپنے وطن کو چھوڑ کر تحصیل علم کے سلسلہ میں ممکن نہیں ہے لہذا مؤمنین میں ایک گروہ فقہائے دین کا ہو جو تحصیل علم کے بعد وطن لوٹے تو ان کو چا ہیئے کہ لو گوں کو دینی تعلیم اور دینی احکام کی تعلیم دے ،ان کو عذاب الہی سے ڈرائے شاید لوگ عذاب الہی سے ڈریں ''(٤)
ایک جلیل القدر عالم دین آیة اللہ طاہری نے فرمایا : جو نادان لوگ اجتہاد و تقلید کے اسلامی روحانی سلسلہ کا انکار کرتے ہیں وہ قرآن و آیات کے بعد فرامین معصومین کا ملاحظہ کریں انھیں عقل و نقل کی روشنی میں مسلمات مذہب شیعہ سے واقفیت ہو جا ئیگی ۔
امام عصر ارواحنالہ الفداء نے اپنے نائب خاص جناب محمد بن عثمان عمری بغدادی کو جو توقیع ارسال فرمائی اور غیبت صغری کی خبردی اور فرمایا کہ: ''واما الحوادث الواقعہ فارجعوا فیھا الی رواة احادیثنا فانھم حجتی علیکم و اناحجة اللہ علیکم ''''اور لیکن آئیندہ حوادث و واقعات جنمیں تم کو فتوی کی ضرورت ہے ان کے متعلق ہمارے روایان حدیث کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہ تم پر میری طرف سے حجت ہیںاور میں خدا کی طرف سے تم پرحجت خدا ہوں ۔'' (٥)
اس توقیع مقدس میں امام زمانہ نے اپنے شیعوں کو ہرگز یہ حکم نہیں دیا کہ تم ہماری احادیث کا از خود مطالعہ کر کے اپنے وظائف شرعی کا پتہ لگا لینا بلکہ فرمایا تم ہماری احادیث کے راوی (علماء ) کی طرف رجوع کرنا جو احادیث سے فقہی احکام کے استنباط کا ملکہ رکھتے ہیں اور وہ فتوی ہماری احادیث کی روشنی میں دیں گے ،تم کو اسے قبول کرنا واجب ہوگا کیو نکہ میں ان کو تم پر حجت قرار دے رہا ہوں . امام حسن عسکری علیہ السلام نے فقہاء کی تقلید کا حکم دیا جو لوگوں پر ضروری اور واجب ہے : ''و اما من الفقہاء من کا صائناً لنفسہ حافظاًلدینہ فخالفاً لہواہ مطیعاًلامر مولاہ فللعوام ان یقلدوہ.''اور فقہاء میں سے جو فقیہ اپنے نفس کا محافظ، اپنے دین کا نگہبان ،اپنی خواہشات نفسانی کا مخالف اوراپنے مولا کے حکم کا پا بند ہو تو عوام پر لازم و ضروری ہے کہ اس کی تقلید کریں ۔(٦)
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا : ''لو من یبقی بعد غیبة قائمنا من العلماء الداعین الیہ و الذین علیہ والذین عن دینہ بحج اللّٰہ و المنفذین لضعفآء عباد اللّٰہ عن شباک ابلیس و مروتہ و من فخاخ النواصب لما بقی احدالا ارتد عن دین اللّٰہ و لکن ھم الذین یمسکون ازمة قلوب الضعفاء کما یمسک صاحب السفینة بسکانھا اولئک الافضلون عند اللّٰہ.''اگر ہمارے قائم آل محمد ۖ کی غیبت کبری کے بعد وہ علماء باقی نہ رہ جا ئیں جو ان کی طرف دعوت دیتے ہیں اور انکے دین کا حجت الہی کے ساتھ دفاع کرتے ہیں اور اللہ کے بندوں کو شیطان کے جالوں سے بچاتے ہیں اور سرکشوں اور ناصبوں کی دھوکہ بازیوں سے نجات دیتے ہیں تو کو ئی بھی اللہ تعالی کے دین پر با قی نہ رہتا بلکہ مرتد ہو جا تا لیکن یہی علماء ہی کزور شیعوں کے دلوں کو اس طرح تھا مے ہو ئے ہیں کہ جس طرح کشتی بان اپنے کشتی کے سواروں کو محفوظ رکھتا ہے یہی لوگ اللہ کے نزدیک افضل ہیں ۔''(٧)
امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ مجتہدین آئمہ معصومین کے مقرر کردہ حاکم ہیں :ایاک اذا وقعت بینکم خصومة او تداری فی شئی من الا خذ و العطاء ان تحاکموا الی احد من ھؤلاء الفساق اجعلوا بینکم رجلاًتدعون حلالنا و حرامنا فانی قد جعلتہ علیکم قاضیا۔امام نے فرمایا :'' خبرادر یاد رکھو !کہ اگر شیعوں میں کو ئی تنازعہ ہو جائے یا لین دین کے معاملے میں کو ئی اختلاف پیدا ہو جائے تو تم ان فاسق لوگوں کی طرف نہ جا نا بلکہ دیکھ لینا کہ جو شخص تم میں سے ہمارے احکام حلال وحرام کی معرفت رکھتا ہو تم اس سے فیصلہ کرا لینا ،مین ایسے عارف عالم کو اپنی طرف سے تم پر قاضی مقرر کرر رہا ہوں ۔''(٨)
(اس فرمان معصوم میں بھی واضح انداز سے شیعان علی پر فقہا ء کی دینی حاکمیت کا منصب خود آئمہ معصومین کی جانب سے منصوص اور ثابت ہے ۔)
امام تقی علیہ السلام نے شہر ری کے ایک مومن حماد رازی سے فرمایا :یا حماد اذا اشکل علیک شئی من امر دینک بنا حیتک فاسئل عنہ عبد العظیم بن عبد اللّٰہ الحسنی و اقرء منی السلام ۔''اے حماد اگر تمہیں اپنے علاقے میں دینی امور میں کسی امر کے بارے میں مشکل ہو تو تم وہاں سید عبد العظیم حسنی کی طرف رجوع کرکے اپنے مسئلے کو دریافت کرو اور انھیں میرا سلام کہو۔(٩)
(اس حدیث سے ثابت ہوا کہ امام کو شاہ عبد العظیم کے علم پر اعتماد تھا کہ آپ نے ری کے باشندوں کو سامراء کی طرف رجوع کرنے کی بجائے شاہ عبد العظیم کی طرف رجوع کرنے کا حکم فرمایا !)پس تقلید اسی رجوع کا نام ہے اور اسے ہی تقلید کہتے ہیں ۔مدینہ سے دور رہنے والے شیعہ عبد اللہ یعفور کی عرض حال کے جواب میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا :انی الست ساعة القاک ولا یمکنی القدوم و یجئی الرجال من رجالنا فیسئلی و لیس عندی کل ما یسئلنی عنہ قال فمما یمنعک عن محمد بن مسلم الثقفی فانہ قد سمع من أبی وکان عندہ وجیھا مرضیا۔''عبد اللہ یعفور نے عرض کیا ! اے میرے امام حق میں آپ سے دور دراز علاقہ میں رہتا ہوں ،میں ہر وقت آپ سے شرف ملاقات حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ممکن ہے ۔بہت سارے شیعہ میرے پاس آکر مسائل پو چھتے ہیں اور ہر مسئلہ کا جواب میرے پاس نہیں ہوتا تو مولا اس صورت حال میں میں کیا کرو ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا تمہیں کیا مانع ہے کہ تم محمد بن مسلم ثقفی کی طرف رجوع کیا کرو انھوں نے میرے والد گرامی سے بہت کچھ سنا ہے اور وہ ان کے نزدیک مقبول و پسندیدہ رہے ہیں،ہر وہ چیز جو تمہیں بتائیں گو یا وہ میری طرف سے بتائیں گے اور جو کچھ کہیں گے وہ میری طرف سے کہیں گے تم ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو یہ ثقہ اور امین۔'' ہیں اور ان کے والد کی وفات کے بعد ان کی طرف حضرت امام عصر نے تعزیتی بیان پر مشتمل توقیع صادر فرمائی : کان من کمال سعادة ان رزقہ اللّٰہ ولداً مثلک یخلفہ من بعدہ و یقومہ مقامہ بامرہ و اقول الحمد للّٰہ فان الانفس طیبہ بمکانک وما جعلہ اللّٰہ فیک و عندک ۔''آپ کے والد مرحوم کی کمال و سعادت ہے کہ اللہ نے ان کو تم جیسا بیٹا عطا کیا جو کہ ان کے بعد ان کا قائم مقام اور نایب بنا اور میں کہتا ہو ں کہ الحمد للہ کہ ہمارے دل میں تمہارے رتبہ اور تمہاری باطنی قابلیت پر خوش ہیں ۔''محمد بن ابراہیم اہوازی کے نام امام عصر کی توقیع میں یہ الفاظ آئے:''.... محفوظ رکھے یہ اپنے والد کی زندگی میں بھی ہمارے ثقہ تھے اور پھر ہمارے نزدیک ان کے قائم مقام ہیں اور ہمارے ہی حکم سے باپ نے بیٹے کو مأمور کیا اور وہ اس پر عمل کرہے ہیں تم بھی ان کے حکم کو تسیلم کر لینا ۔(١٠)
حضرت طوسی کا بیان ہے کہ ان کی امانت و جاہت اور عدالت پر تمام شیعوں کا اتفاق رہا ہے ،اور شیعوں نے ان کے سوائے کسی کی طرف رجوع نہیں کیا ان کے ہاتھوں جو معجزات امام ظاہر ہو ئے ان سے شیعوں کو بڑی بڈیرت حاصل ہو ئی آپ معروف و مشہور مرجع اعلم تھے پچاس برس تک اس مہد مرجعیت پر فائز رہے اور ٣٠٤ ھ میں وفات پا ئی اور ان کے بعد مرجع اعلم جناب محمد عثمان اور ان کے بعد امام عصر کے خصوصی حکم پر حضرت ابو القاسم حسین بن روح نو بختی امام کے نائب خاص اور مرجع دینی قرار پا ئے ۔جناب محمد بن عثمان عمری نے زندگی کے آخری ایام امام عصر کے حکم پر ان کو نائب خاص مقرر کیا جس کے روای احمد بن متیل ہے کہ انھوں نے وفات سے قبل ان کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرمایا امرت ان اوصی الی ابی القاسم الحسین بن روح بعدی فارجعوا الیہ ۔''مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں ابو القاسم حسین بن روح کی طرف وصیت کروں ،تم میرے بعد ان کی کی طرف رجوع اور اپنے معاملات میں ان پر اعتماد کرو۔''(١١)
شیخ طوسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جب انھوں نے حسین بن روح کی سفارت کا اعلان کیا تو اس وقت بڑے بڑے اکابر فقاء و شیعہ مومنین کی جماعت مو جود تھی، اور پھر ان کے کرامات لاتعداد کا ذکر مو جود ہے ،اورنیمۂ شعبان کے عرائض حاجت انہی کے نام پرڈالے جاتے ہیں یہ اکیس برس تک نیابت و مرجیعت کے رتبہ پر فا ئز رہے اور ٣٢٦ھ میں انکی وفا ت ہو ئی ۔انکی وفات کے بعد حضرت علی بن محمد سمری کو حضرت حسین بن روح کا نائب مقرر کیا گیا ۔ حسین بن علی بن یقطین نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا کہ مولا دینی مسائل کے حل کے لئے آپ کی خدمت اقدس میں حاضر نہیں ہو سکتا کیا آپ کے معتمد یونس بن عبد الرحمن کی طرف تفہیم مسائل میں رجوع کر سکتا ہوں ؟
انی لا اکاد اصل الیک عن کل ما احتاج الیہ من معالم دینی افیونس بن عبد الرحمن ثقة اخذ عنہ ما احتاج الیہ من معالم دینی قال نعم ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : ''ہاں تم ضرور ان سے معلومات حاصل کیا کرو ۔
اس مسلمات سے یہ ثابت ہوا کہ امام معصوم کی زندگی میں آپ کے معتمد ثقہ مرجع ، فقہاء موجود تھے جو دینی امور کے بارے میں دور دراز علاقوں میں بیٹھکر بحکم امام فتوی دیتے تھے اور بحکم امام ان فقہاء کے حکم کو تسلیم کرنا واجب تھا اور یہی تقلید کا اصل مفہوم ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ رجوع آج تک چلا آرہا ہے ۔
جناب علی بن سمری تین سال تک اس مرتبہ پر فائز رہے اور وفات پا گئے اور وفات کے وقت کسی کو اپنا نائب مقرر نہیں کیا لوگوں کے عرض کرنے پر کہا کہ اس بارے میں مجھے کو ئی حکم نہیں دیا گیا ہے بلکہ امام زمانہ کی تو قیع ان کے نام اس الفاظ میں آئی تھی'' توصی الی احد فیقوم مقامک فقد وقعت الغیبة فلا ظہور الا باذن اللہ ۔''امام زمانہ نے فرمایا : تم کسی کو وصیت نہ کرو کہ وہ تمہار جانشین بنے اب غیبت کبریواقع ہو گئی ہے اور ظہور امام زمانہ ،اللہ کے حکم اور اسکے اذن ہی سے ہو گا۔(١٢)
ان مراجع عالیقدر نوائب اربعہ جن کی نیابت خاصہ کا توقیعات و ارشادات میں ذکر آیا ہے ان کی عظمت و جلالت اور حجت پر تمام علماء و مجتہدین متفق ہیں ۔غیبت کبری کے بعد یہ حکم آئمہ اطہار نے صادر فرمایا کہ شیعہ کی مرکزیت قائم کرنے اور مسائل کے حل کے لئے علمائ،فقہاء کی طرف رجوع کرو اور مرجع اعلم کی تقلید عقلاًاور نقلاًسب پر واجب ہے ۔
''واما الحوادث الواقعہ فارجعوا فیھا الی رواة احادیثاً فانھم حجتی علیکم و اناحجة اللہ علیکم ''یعنی آمدہ حوادث و مسائل کیلئے اب تم پر ساری احادیث کے روایوں کی طرف رجوع کرنا کیونکہ وہ تم پر میری طرف سے حجت ہیں اور میں حجت خدا ہوں ۔ (١٣)
اس توقیع امام کے کل روای ثقہ ہیں اور اس بات پر تمام علماء رجال متفق ہیں ۔فقیہ اسلامی کے مسائل پر اصحاب آئمہ ہی نے کتب تألیف فرمائی ہیں جن کی باقاعدہ تأئید معصومین علیہم السلام نے کی ہے جیسے جناب زرارہ حضرت معروت برید ، ابو بصیر ، برید فضیل محمد بن مسلم ...یہ سب اکابر مجتہد و فقہاء میں شمار کیے جا تے ہیں بلکہ ان کو افقہ الاولین کا لقب دیا گیا ہے ۔(١٤)
ان اہل قلم فقہاء مجتہدین میں سر فہرست یونس بن عبد الرحمن ،فضل بن شاذان سلیم بن قیس ،عبداللہ بن علی العلبی ہیں ۔یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ آئمہ اطہار نے خود اپنی حیات مقدسہ میں فقہی مسائل اور فقہاء مجتہدین کے علمی قلمی کام کی حوصلہ افزائی فرمائی اور شیعہ عوام کو فقائے شیعہ کے فتوی پر عمل کرنے کی ترغیب دلا ئی ہے اس ترغیب رجوع ہی کو تقلید کہتے ہیں ۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: علینا ان نلقی الیکم الاصول و علیکم تضعوا ۔''ہم پر یہ لازم ہے کہ تم کو اصول بتلائیں اور علماء فقہاء مجتہدین کا کام یہ ہے کہ وہ تم شیعہ کو تفریعات بتائیں ۔''(١٥)
یہ حدیث گراں قدر دو امام ،امام الصادق و امام الرضا علیہم السلام سے مروی ہے اس فرمان معصوم سے ثابت ہے کہ ہر شیعہ کو یہ حق نہیں ہے اور نہ ہی صلاحیت ہے کہ وہ امام کے بتا ئے ہو ئے احمالی اصول سے تفریحی جزوی مسائل شرعیہ کا استنباط کرے اور اسے سمجھ سکے ۔عوام کے مقابلے میں یہ کام فقہاء کا ہے کہ وہ اجتہاد کر کے مسائل کو پہلے خود سمجھیں اور عوام کی رہنمائی کریں ۔اور عوام کا کا م یہ ہے کہ وہ ان فقہائے امامیہ مجتہدین کے حکم و فتوی کو حجت تسلیم کر کے ان پر عمل کریں اور یہی تقلید ہے ۔
تقلید کے منکران کا یہ دعوی کہ تقلید کے بغیر ہم دینی مسئلے کو خود سمجھ سکتے ہیں اس لئے تقلید اور علماء کی پیروی ضروری نہیں ہے !تو یہ جنھیں اپنے ذاتی مسائل کا حل سمجھ میں نہیں آتا وہ دین کے مسئلے کو کیا سمجھیں گے !نتیجتاً یہی ہو گا کہ: عہ . نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے، دین و دنیا دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھنا پڑے گا !قرآن مجید اور سنت نبویہ چونکہ محکم و متاشبہ مجمل و مفصل،مقید وغیر مقید، ناسخ و منسوخ امور پر مشتمل ہے اور ایسے مرحلہ میں ہر شخص کے یہ بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے روز مرہ میں پیش آنے والے شرعی مسائل کا حل قرآن و احادیث کے ذریعہ اخذ کریں !عرب کے ماہرین ادیب و فاضل قرآن کے آئین و حکم پر سرگردان رہتے ہیں۔جنکی مادری زبان عربی ہے وہ تو اپنے شرعی مسائل کا حل خود قرآن سے تعین نہیںکر سکتے تو وہ بھلا عجموں کے سمجھ میں قرآن کی بلاغت و نزاکت کہاں سے آئے گی !کیونکہ نہ ہی انکی یہ اپنی مادری زبان ہے اور نہ ہی اس زبان سے انکا کو ئی خاص تعلق ۔ انہیں بواطن قرآن تو دور ظواہر قرآن کی بلاغت سمجھ میںکیا آئے گی ! کیونکہ نہ ہی انہوں نے اس مسئلہ میں تخصص حاصل کیا ہے اور نہ ہی اسکے سمجھنے کی سعی کی ہے !جیسا کہ اصول کافی اور امالی شیخ صدوق کے حوالہ سے الاصول الاصلیہ صفحہ ٢٢١ پر منقول ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے قتادہ سے فرمایا : ان کنت انما فسرت القرآن من تلقاء نفسک فقد ھلکت و اھلکت '' اگرتم نے قرآن مجید کی تفسیر اپنی جانب سے کردی تو تم خود ہلاک ہو جا ؤ گے اور دوسروں کو بھی ہلاک کرو گے ۔''ان فی اخبارنا متشابھاً کمتشابہ القرآن و محکما لمعکم القرآن فردوا متشابھا الی محکمھا ولا تتبعوا متشابھا دون محکمھا فتضلواً ۔(١٦)
اس فرمان کی روشنی میں لہذا جب کہ امام زمانہ پردۂ غیب میں ہیں ہمیں لازمی طور پر ایسے عالم کی طرف رجوع کرنا ضروری و واجب ہے جو استنباط احکام اور تفریحات میں پختہ کا ر ہو اور اصول استنباط سے کما حقہ واقف ہو اس عالم فقیہ کے بتلائے ہو ئے مسائل بلا دلیل ماننا تقلید شرعی ہے ۔مجتہد کے حکم کو ٹھکرانا گو یا آئمہ اطہار کے حکم کو ٹھکرانے کے مترادف ہے ۔
عمر بن حنظلہ نے امام الصادق علیہ السلام سے سوال کیا : سئلت عن رجلین من اصحابنا بینھما منازعة فی دین او میراث فکیف یصعان قال ینظر ان الی من کان منکم ممن روی حدیثنا و نظر فی حلالنا و حرامنا و عرف احکامنا فلیر ضوا بہ حکما فا نی قد جعلتہ علیکم حاکما فذا حکم بحکمنا فلم یقبل منہ فانما استخلف بحکم اللّٰہ فعیلنا رد و الہراد علینا الراد علی اللّٰہ و ھو علی حد الشرک با للّٰہ ۔(١٧)
'' اگر ہمارے شیعہ اصحاب میں سے دو آدمیوں کا آپس میں کسی قرض یا میراث وغیرہ کا تنازعہ ہو تو وہ کیا کریں گے ؟امام معصوم نے فرمایا : وہ لکھیں کہ جو شخص تم میں سے ہماری حدیث کا روای ہو اور احکام حلال و حرام پر نظر رکھتا ہو اور ہمارے احکام کی معرفت بھی رکھتا ہو اور ایسے عالم کو اپنا ثالث مققر کر لیں اور اس پر راض ی ہو جا ئیں ،کیونکہ ایسے عالم کو میں نے تم پر اپنی طرف سے حاکم قرار دیا ہے اور جب وہ ہمارے احکام کے مطابق فیصلہ کردیں اور رد کر دیں گے توگے گو یا انھوں نے اللہ کے فیصلے کو رد کیا اور حقیر سمجھا اور ہمارے حکم کو ٹھکرا دیا اور ہمارے حکم کو ٹھکرانے والا حکم الہی کو ٹھکرانے والا ہے جو کہ حد شرک با للہ کے متراف ہے ۔'' اس فرمان معصوم سے بخوبی واضح ہے ہوا کہ عام شیعہ حضرات کو خود سے احادیث اپنے احکام معلوم کرنے کاحق نہیں ہے اور آخری فیصلہ ایسے دینی عالم کا ہو گا جو احادیث کا روای ہو نے کا ساتھ ساتھ عارف احکام حلال و حرام بھی ہو اور ایسا شخص امام کی طرف سے ہم پر شرعی حکمران ہے اور اس کے شرعی حکم کو ٹھکرانا خود امام کے حکم کو ٹھکرانے کے علاوہ حد شرک تک گناہ کبیرہ ہے ،اور یہی تقلید کا مفہوم اور یہی تقلید کے واجب ہو نے کی دلیل ہے ۔
آج عصر حاضر میں کچھ ایسے سفیانی مزاج کے لوگ ہیں جو اس بات پر معترض ہیں کہ کیوں مجتہد کو نائب امام کہا جا ئے !یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک معصوم کا نائب غیر معصوم ہو جا ئے ؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ اگر چہ معصوم کے تمام علوم و کما لات اور فضائل میں کو ئی غیر معصوم ان کا نا ئب نہیں بن سکتا لیکن علماء مجتہدین اور فقہائے اسلام چو نکہ امام کے صرف منصب ولایت تشریحی کے تحفظ کے ان کی عدم مو جودگی یا غیبت میں ان ذوات مقدسہ کی طرف سے شریعت کا تحفظ کرتے ہیں لہذا ان کو نائب امام کہا جا سکتا ہے ۔اور یہ بات احادیث سے ثابت بھی ہے جیسا کہ علامہ عبد اللہ شبر فرماتے ہیں : ''روی با سانید عدیدة عن الرضا عن ابائہ قال قال رسول اللّٰہ ۖ اللّٰھم ارحم خلفا ئی ثلاثا قیل یا رسول اللّٰہ ۖ و من خلفائک قال الذین یاتون من بعدی و یروون عن احادیثی و سنتی فیعلمو نھا الناس۔(١٨)
'' حضرت امام الرضا علیہ السلام سے حدیث کی واسطوں اور اسانید سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے آباء و اجداد کی سند سے ارشاد فرمایا کہ آنحضرت ۖ نے تین بار فرمایا ! ائے میرے خدا میرے خلفا و جانشین حضرات پر رحمت فرما ، لوگوں نے پو چھا ''یارسول اللہۖ ''آپ ۖ کے جانشین کون لو گ ہیں ؟
حضور ۖ نے فرمایا : !وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور میری احادیث اور میری سنت کو حاصل کر کے لوگوں تک پہنچا ئیں گے اور انھیں تعلیم دیں گے ۔''امام مصوم نے فرمایا : جو ہماری احادیث کی روایت کرے گا اور ہمارے حلال و حرام پر نظر رکھے گا اور ہمارے احکام کی معرفت رکھے گا میں اس کو تم پر حاکم بنا رہا ہون اگر وہ ہمارے فیصلے کے مطابق فیصلہ کرے اور کو ئی قبول نہ کرے تو اس نے اللہ کے فیصلے کی تو ہین کی اور ہمارے حکم کو ٹھکرایا اور ہمیں ٹھکرانے والا خود توحید کو ٹھکرانے والا ہے ۔ (١٩)
اور آیة اللہ طاہر ی نے اس منزل پر یہ فرمایا کہ اس واضح تأکید کے بعد مجتہد اعظم کو نائب امام کہتے ہیں کیا اشکال رہ جا تا ہے کہ امام عصر نے تو خود اپنی تو قیع میں فرمایا : ھم حجتی علیکم و انا حجة اللّٰہ ۔یعنی فقہاء تم پر میری حجت ہیں اور میں اللہ کی حجت ہوں ۔ابو الآئمہ حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام نے فرمایا : ''الفقہاء قادة و الجلوس الیھم ''یعنی فقہاء اسلام تمہارے قائدہیں اور ان کے پاس تمہارا بیٹھنا عبادت ہے ۔(٢٠)
مولائے کائنات نے فرمایا : اسلام تسلیم کا نام اور تسلیم تصدیق یقین کا نام ہے اور یقین اداء اور ادائے عمل ہے ۔(٢١)
امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا : بتحقیق اللہ کا دین ناقص عقول اور باطل آراء اور فاسد قیاسات سے حاصل نہیں کیا جا سکتا صرف تسلیم سے حاصل ہو سکتا ہے اور جو شخص احکام تسلیم کریگا اور ہم سے ہدایت حاصل کرے گا، اور جو قیاس و رائے پر دین و ایمان رکھے گا وہ ہلاکہو گا اور جو ہمارے فیصلوں اور ارشادات کے متعلق اپنے دل میں تنگی پا ئے گا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرے گا جبکہ اس کو علم ہی نہ ہو گا ۔ امام عصر نے غیبت صغری کی ابتداء سے غیبت کبری تک تقریباً ستّر ٧٠برس تک جن چار نائبین کو یکے بعد دیگرے مقام نیابت پر مقرر فرمایا ان کا مقام بلند ترین ہے اور تھا ،آئمہ نے با رہا ان حضرات کے متعلق شیعوں کو نہ صرف مطمئن کہا بلکہ ان کو اپنے وظائف شرعیہ پر اپنی اتھارٹی تک مہیا کی ،ان حضرات کی وساطت سے جو تو قیعات ناحیہ مقدسہ سے صادر ہو تی تھیں ان میں امام عصر کی تحریر مہر دستخط سب کچھ دیکھکر جانچ پڑتال اور خوب چھان بین کر کے ان تو قیعات کو امام زمانہ کے احکام پر مبنی سمجھا جا تا تھا ۔مجتہدین کا نائب امام ہونے پر ایک نہیں سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں امام معصوم سے احادیث وارد ہو ئی ہیں ۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: میرے شیعہ آگاہ رہو تم آج کے بعد نہ حجت قائم کو دیکھو گے حتی کہ ان کی عمر کا ایک ایک پورا حصہ ہو جا ئے جب وہ حصہ پورا ہو گا یعنی غیبت صغری واقع ہو گی تو اس وقت تم عثمان بن اسدی ( جو امام زمانہ کے سب سے پہلے نائب تھے جنکی اطاعت شیعوں پرضروری اور واجب تھی اور عدم پیروی ہلاکت کا سبب )کی تقلید کرنا اور انکی باتوں کو ماننا کیونکہ وہ تمہارے امام زمانہ کے خلیفہ ہو ں گے آئمہ معصومین علیہم السلام کے وقول و فعل سے متواتراً مرفوعاً ثابت ہوا کہ غیر معصوم کو نائب امام کہا جاسکتا ہے اور فقہائے عصر نائب امام ہیں اب اس کے بعد اجتہاد و تقلید و مرجع سے انکار کرنا دیوانگی نہیں تو کیا ہے !(٢٢)
پس عوام کامجتہد و فقیہ عادل کی تقلید کرنا اس لئے واجب ہے کہ خود امام علیہ السلام نے اسکا حکم دیا ہے۔ نہ یہ کہ عوام نے اس کو نصب و مقرر کیا ہو اور عوام کی طرف سے اس کو یہ منصب دیا گیا ہو ۔مجتہد و مرجع تقلید میں مرتبہ ٔ اجتہاد پر فائز ہو نے کے علاوہ مندجہ ذیل شرائط کا ہو نا بھی ضروی ہے :
١) مجتہد کی تقلید کرنے سے پہلے ان میں پائے جانے والے شرائط پر ضرور نظر رکھے کہ جس مجتہد کی تقلید کی جا رہی آیا وہ مجتہد عال ہے بھی یا نہیں یعنی اس کا یمان اس قدر کامل و قوی ہو کہ واجبات میں سے کسی واجب کو ترک نہ کرے اور محرمات میں سے کو ئی حرام کام انجام نہ دے ،دوسرے لفظوں میں گناہاں کبیرہ سے دور رہے اور گناہاں صغیرہ کا تکرار نہ کرے ،پس گنہگار جتنا بڑا بھی عالم کیوں نہ ہو اس کی تقلید جائز نہیں ہے ۔
٢)مجتہداعلم ہو یعنی دوسرے علماء سے زیادہ رکھتا ہو چند صاحبان علم و فضل مجتہدین میں سے مقلد ( جو از سر نوع کسی مجتہد کی تقلید کرنا چاہتا ہے ) کو ایسے مجتہد کی تقلید اختیار کرنا چاہیئے جو بقیہ مجتہدین سے علم و فضل میں برتر ہو ۔
٣) مجتہد زندہ ہو پس جو شخص ابتداہی سے علماء گزشتہ میں سے کسی کی تقلید کرے اس کی تقلید صحیح نہیں ہے کیونکہ عوام کا مجتہد کی طرف رجوع کرنا مریض کے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے کی طرح ہے اور واضح رہے کہ عقلاء و خردمندان کی روش و طریقہ ہی ہے کہ اپنا بیماریوں کے بارے میں زندہ ڈاکٹر کی طرف مراجعہ کرتے ہیں اور اس کے دستور پر عمل کرتے ہیں اور کسی مردہ ڈاکٹر کے دیے ہو ئے کسی پرانے نسخے پر عمل نہیں کرتے ہاں اگر کسی نے زندہ مجتہد کی تقلید کر لی ہے کچھ مدت اس کے مسائل پر عمل کرنے کے بعد وہ مجتہد فوت ہو گیا تو اس صورت میں اس کی تقلید پر باقی رہ کر اس کے دستور ات پر عمل کر سکتا ہے ،پس نتیجتاً فوت شدہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہنا صحیح ہے لیکن ابتداء ہی سے فوت شدہ مجتہد کی تقلید کر نا صحیح نہیں ہے ۔اور ہاں رہی بات اعلمیت کی تشخیص کا جیسا کہ بیان ہوا کہ مجتہد اعلم ہو تو یہ نہ ممکن شئی ہے کہ ایک عام انسان اعلمیت کو تشخیص دے سکے ! لہذا اس کے لئے عوام کو چاہیئے کہ ایسے لوگوں کی طرف رجوع کریں جو فقہاء کے علمی قابلیت کو جانتے اور سمجھتے ہوں جنھیں اصطلاح میں اہل خبرہ کہتے ہیں یہی افراد بتا سکتے ہیں کہ کون اعلم ہے اور کون غیر اعلم اور اگر دو مجتہد علمی قابلیت مساوی ہو تو مقلد کو اختیار ہے کسی ایک کا انتخاب کر سکتا ہے ۔
اور ہاں اگر کو ئی ایسا شخص ہو جس کی آدھی عمر بغیر تقلید کے گزری اور اس نے جتنے اعمال انجام دیے وہ والدین اور دوسروں کے بتائے ہو ئے نسخہ پر تھا لیکن اب اسے تقلید کا مفہوم سمجھ میں آیا کہ بغیر تقلید کے انسان کا کو ئی علم بھی قابل قبول نہیں ہے لہذا وہ ایسی صورت حال پر مجتہد جامع الشرائط کی تقلید کرنا چہا تا ہے تو وہ کیا کرے ؟ تو ایسے اشخاص کے لئے سب سے اہم اور ضروری چیز یہ ہے کہ اب جس مجتہد جامع الشرائط کی تقلید کر نا چاہتا ہے وہ اپنے سارے اعمال سابقہ کو اسکے فتوی کے مطابق دیکھے کہ آیاہم نے جو اب تک عبادات کیے وہ اس مجتہد جامع الشرائط کے فتوی کے مطابق تھے یا نہیں اگر اس فتوی کے مطابق تو ٹھیک ہے اور اگر اسکے بالکل برعکس ہے تو اگر ممکن ہو تو اسے دوبارہ اپنے مجتہد جامع الشرائط کے فتوی کے مطابق بجا لائے چونکہ دستورات الہی کو اسکے قانون کے مطابق انجام دینا ہر مکلف کے لئے واجب و ضروری ہے اور شرعاًو عقلا ً اپنے ہر وظیفہ کے روز قیامت جواب دہ ہے ۔اور تقلید کی دو قسمیں ہیں اصول دینی اور فروع دینی ، اصولی مسائل جیسے توحید ،عدل نبوت ،امامت و قیامت اور ان مسئلوں کا تعلق عقائد سے اور عقائد میں تقلید نہیں ہے لاتقلید فے اصول۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ اصول میں تقلید نہیں ہو سکتی بلکہ ہر عقال و بالغ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود دلائل و براہین کے ذریعہ عقائد اسلام کو سمجھے اور اس پر عقیدہ رکھے ۔بلکہ تقلید صرف اورصرف فروعات اسلام میں ہو تی ہے جب تک قوم میں جہالت پرورش پاتی رہے گی لوگ علماء و علم سے دور رہیں گے جب علم آجا ئے گا تو معرفت دین کے ساتھ علماء سے متمسک ہو جا ئیں گے مسئلہ تقلید پر اس بیان حق اور اتمام حجت کے بعد اور کیا باقی رہ گیا ! اب اسکے بعد بھی کو ئی انکار کرتا ہے تو پھر اس سے خدا ہی سمجھے !آخر میں یہ دعا ہے کہ پروردگارا ! ہمارے ہر خالص عمل کو مورد رضایت خود قرار دے اور ہمیں اس راستے پر گامزن رکھ جو کہ تیرا راستہ ہے اور اس راستے پر تیری رضایت ہے خدایا! ہمیں علمائ،مراجع ،مجتہدین اور فقہاء جامع الشرائط کے فتوی اور انکے حکم پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرما تا کہ ہمارا ہر عمل شریعت کے عین مطابق ہو ۔آخر میں معبود یہ دعا ہے کہ تو اپنے محبوب حضرت مہدی کو جلد از جلد بھیج دے تاکہ ہم انکی زیارت کا شرف اور انکے اعوان و انصار میں شمار ہو کر دشمنان اسلام بالاخص ضروریات دین کے منکروں کا قلع قمہ کر سکیں .(آمین یارب العالمین )
source : http://www.ahlebait.in