اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

محمد بن عبد الوھاب اور ابن تیمیہ کے نظریات میں چند فرق


محمد ابو زھرہ نے محمد بن عبد الوھاب اور ابن تیمیہ کے نظریات میں چند فرق بیان کئے ہیں اور وہ فرق اس طرح ہیں:
چنانچہ ابوزھرہ صاحب کہتے ہیں کہ :وھابیوں نے ابن تیمیہ کے نظریات کے علاوہ کچھ بھی اضافہ نہیں کیا بلکہ اس کے نظریات کو شدت پسندی کے ساتھ پھیلایا اور عملی طور پر وہ کام انجام دئے جن کو ابن تیمیہ بھی نہیں کرسکے تھے، وہ چیزیں ان چند امور میں خلاصہ ہوتی ہیں:
۱۔ ابن تیمیہ کا عقیدہ یہ تھا کہ عبادت فقط وہ ہے جس کو قرآن اور سنت نے بیان کیا ہو، لیکن وھابیوں نے اس پر اکتفاء نہیں کی بلکہ عادی اور معمولی چیزوں کو بھی اسلام سے خارج کردیا، مثلاً تمباکو نوشی کو بھی حرام قرار دیدیا اور اس کی حرمت میں بہت زیادہ سختی کی، چنانچہ وھابی حضرات جس کو بھی سگریٹ وغیرہ پیتا دیکھتے ہیں اس کو مشرکین کی طرح سمجھتے ہیں، ان کا یہ نظریہ خوارج کی طرح ہے کہ جو شخص بھی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا، کافر ہوگیا۔
۲۔ شروع میں چائے اور قھوہ کی حرمت کا فتویٰ دیا لیکن جیسا کہ معلوم ہوتا ہے بعد میں اس کی حرمت میں لاپرواہی کی۔ (۲۶۱)
۳۔ وھابیوں نے فقط لوگوں کو ان اعمال کی دعوت ہی نہیں دی بلکہ اگر کسی نے ان کے نظریات کو نہیں قبول کیا توان سے جنگ وجدال کی، اور ان کا نعرہ یہ تھا کہ بدعتوں سے جنگ کرنا چاہئے، میدان جنگ میں ان کا رہبر (شروع میں) محمد بن سعود (خاندان سعود کا جد اعلیٰ) محمد بن عبد الوھاب کا داماد تھا۔
۴۔وھابی حضرات جس گاوٴں اور شھر کو فتح کرلیتے تھے اس شھر کے روضوں اور قبروں کو ویران کرنا شروع کردیتے تھے ، اور اسی وجہ سے بعض یورپی رائٹروں نے ان کو معابد (عبادت گاہوں) کے ویران کرنے والوں کا لقب دیا ہے، جبکہ ان کی یہ بات مبالغہ ہے کیونکہ ضریحوں اور عبادتگاہوں میں فرق ھے، لیکن جیسا کہ معلوم ھے کہ یہ لوگ اگر قبور کے نزدیک کسی مسجد کو دیکھتے تھے اس کو ویران کردیتے تھے۔
۵۔ ان کاموں پر بھی اکتفاء نہ کی بلکہ وہ قبریں جو مشخص اور معین تھیں یا ان پر کوئی نشانی ہوتی تھی ان کو بھی مسمار کردیا اور جس وقت ان کو حجاز پر فتح ملی تو انھوں نے تمام اصحاب کی قبور کو مسمار کردیا ، چنانچہ اس وقت صرف قبور کے نشانات باقی ہیں(۲۶۲)اور ان قبور کی زیارت کی اجازت فقط اس طرح دی گئی کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
" السلام علیک یا صاحب القبر" اور ان پر درود بھیج سکتے ھیں۔
۶۔وھابیوں نے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی اعتراضات کئے اور ان کے منکر ہوئے جو نہ تو بت پرستی تھیں اور نہ ہی بت پرستی پر تمام ہوتی تھیں مثلاً فوٹو وغیرہ لینا، بہت سے علماء نے اپنے رسالوں میں اس کی (حرمت)کو ذکر کیا ہے لیکن ان کے حاکموں نے اس مسئلہ پر توجہ نھیں کی۔
۷۔ وھابیوں نے بدعت کے معنی میں ایک عجیب انداز اپنایا، اور اس کے معنی میں وسعت دی، یہاں تک کہ روضہ رسول (ص) پر پردہ لگانا بھی بدعت قرار دیدیا ، اور روضہ رسول پر لگے پرانے پردوں کو بدلنا بھی ممنوع قرار دیدیا جس کے نتیجے میں وہاں موجود تمام پردہ پرانے ہوگئے۔ (۲۶۳)
قارئین کرام! :
"حق بات تو یہ ہے کہ وھابیوں نے ابن تیمیہ کے عقائد کو عملی کیا اور اس راستہ میں اپنی پوری طاقت صرف کردی، اور انھوں نے بدعت کے معنی میں وسعت دی یہاں تک کہ وہ کام جن سے عبادت کا کوئی مطلب نہیں ان کو بھی بدعت قرار دیدیا، جبکہ تحقیقی طور پر بدعت ان چیزوں کو کہا جاتا ھے کہ جن کی دین میں کوئی اصل اور بنیاد نھیں لیکن ان کاموں کو انجام دینے والے ان کو عبادت کے قصد سے انجام دیتے ھیں، اور ان کے ذریعہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس بناپر کوئی بھی روضہ رسول (ص)پر پردوں کو عبادت کے قصد سے نہیں لگاتا، بلکہ ان کو زینت کے لئے لگاتے ہیں جس طرح مسجد نبوی میں دوسری چیزوں کو زینت کے لئے لگایا گیا ھے۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ روضوں پر پردے لگانے کو منع کرتے ہیں لیکن دوسری مسجدوں میں پردے لگانے کو عیب نھیں مانتے۔ایک دوسری بات یہ ھے کہ وھابی علماء اپنے نظریات اور عقائد کو مکمل طور پر صحیح جانتے ہیں اور دوسروں کے عقائد کو غلط اور غیر صحیح مانتے ھیں۔ (۲۶۴)
(۲۶۱)یہ بات معلوم ھے کہ تمباکو نوشی اور چائے وغیرہ جس طرح وھابیوں کے زمانے میں تھی، ابن تیمیہ کے زمانے میں اس طرح رائج نھیں تھی،مقصد یہ ھے کہ جو چیزیں سلف صالح کے زمانے میں نھیں تھیں ان کو وھابیوں نے عملی طور پر ممنوع قرار دیا، نہ صرف یہ کہ تمباکو نوشی اور چائے وغیرہ کی کوئی خاص وجہ تھی.
(۲۶۲) گلدزیھر (العقیدة والشریعة فی الاسلام ص ۲۶۷) کے مطابق وھابیوں کا قیام ابن تیمیہ کے اھداف کو عملی جامہ پہنانا ھے۔
(۲۶۳)ابو زھرہ صاحب، اس مطلب کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ عبد العزیز آل سعود نے حکم دیا کہ روضہ رسول ﷺ کے پرانے پردوں کو ہٹاکر نئے پردے لگادئے جائیں لیکن مسجد نبوی کی تجدید عمارت کے تکمیل ہونے تک پردوں کے بدلے جانے کو روک دیا، (ص ۳۵۱) یہاں پر یہ عرض کردینا ضروری ھے کہ" ملک سعود" جانشین سلطان عبد العزیز نے روضہ منورہ پر پردہ لگوائے.
(۲۶۴) المذاھب الاسلامیہ ص ۳۵۱،اور اس کے بعد.


source : alkausar.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment