اردو
Friday 27th of September 2024
0
نفر 0

آثار و اولیاء سے تبرک و شفا طلب کرنا

وہابی فرقہ آثار اولیاء سے تبرک حاصل کرنے کو شرک جانتا ہے اور وہ شخص جو رسول (ص) کے محراب و منبر کو بوسہ دے اسے مشرک کہتا ہے ۔اگر چہ ایسا شخص اس عمل میں کسی قسم کی الوہیت کا قائل نہ بھی ہو اور صرف رسول(ص) کی محبت و مودت میں ان کے آثار کو بوسہ دے ۔ہم ان سے پوچھتے ہیں پیر اہن یوسف کے بارے میں کیا خیال ہے ؟!
''اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًااً'' (سورۂ یوسف ٩٣)
حضرت یوسف نے کہا میری قمیص کو لے جائو اور میرے بابا کی آنکھوں سے مس کرو تاکہ دوبارہ ان کی بینائی پلٹ آئے ۔حضرت یعقوب نے قمیص یوسف کو جس کی بافت و ساخت غیر معمولی نہ تھی (ایک عام کپڑا تھا ) اپنی آنکھوں سے مس کیا اور اسی وقت ان کی بینائی پلٹ آئی ،ارشاد ہوتا ہے :
''فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ''( سورۂ یوسف ٩٦)
اگر حضرت یعقوب نے ایسا کام ''نجدیوں ''اور ''محمد بن عبد الوہاب '' کے پیروکاروں کے سامنے انجام دیا ہوتا تو وہ ان کے ساتھ کیا برتائو کرتے ؟ اور گناہ سے پاک ،معصوم پیغمبر کے اس عمل کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ؟
اگر اب کوئی مسلمان ،خاتم الانبیاء علیہ السلام کی قبر ،ضریح اور مرقد کی خاک کو اپنی آنکھوں سے لگائے ،ائمہ کی قبور اور ضریح کو بعنوان احترام بوسہ دے یا ان سے تبرک حاصل کرے اور کہے کہ خدا نے اس خاک کو با اثر بنایا ہے اور اپنے عمل میں حضرت یعقوب کی پیروی کرے تو اس کی تکفیر کیوں ہو ؟( عصر پیغمبر سے آج تک تمام مسلمان سوائے وہابیوں کے آثار رسول (ص) سے تبرک حاصل کرتے رہے ہیں ، شیخ محمد طاہر مکی نے تاریخ کے قطعی شواہد کو ایک رسالہ میں جو ١٣٨٥ھ میں شائع ہوا ہے پیش کئے ہیں ۔اس بات کو ثابت کیا ہے اس رسالہ کا نام ''تبرک الصحابہ بآثار رسول اللہ '' جس کا فارسی ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے )
وہ لوگ جو پیغمبر (ص) کی سوانح حیات سے باخبر ہیں انہیں معلوم ہے کہ آنحضرت (ص) کے اصحاب ہمیشہ رسول (ص) کے وضو کے پانی کو ہاتھوں ہاتھ لینے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس موضوع کے لئے کافی ہے کہ ہم ''صحیحین '' (صحیح بخاری اور صحیح مسلم ) جنہیں صحاح ستہ کے درمیان صحیح ترین سمجھا جاتا ہے ۔کا مطالعہ کریں ۔جن میں سے بعض مطالب کو نمونے کے طور پر بیان کرتے ہیں ۔
١۔ ''صلح حدیبیہ '' کی سر گذشت میں ''بخاری '' رقمطراز ہیں : جس وقت پیغمبر اکرم (ص) وضو کرتے تھے ان کے اصحاب وضو کے پانی کے قطرات حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری ،ج٣،ص ٢٥٥)
٢۔ ''خاتم نبوت '' کے باب میں ''بخاری ''''سائب بن یزید '' سے نقل کرتے ہیں ،کہ سائب نے کہا کہ میری خالہ مجھے پیغمبر (ص) کی خدمت میں لے گئیں اور کہا کہ میری بہن کا بچہ (سائب ) بیمار ہے ۔پیغمبر (ص) نے وضو کیا اور خداوند متعال سے میرے لئے برکت طلب کی چنانچہ میں نے پیغمبر (ص) کے وضو کاپانی پی لیا ۔ (صحیح بخاری ،ج٤،ص ٢٢٧ ،صحیح مسلم باب خاتم النبوت)
٣۔ ''صفات پیغمبر (ص) '' کے باب میں '' بخاری '' (وہب بن عبد اللہ ) سے نقل کرتے ہیں کہ لوگ پیغمبر (ص) کے ہاتھ کو اپنے چہرے پر مس کرتے تھے ۔میں نے بھی آنحضرت (ص) کا دست مبارک اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے چہرے پر مس کیا ،ان کا ہاتھ مشک سے بھی زیادہ خوشبودار تھا ۔ (صحیح بخاری ،ج٤،ص ٢٢٦)
٤۔ باب '' صفات پیغمبر (ص) '' ہی میں بخاری نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر (ص) ''ابطح '' میں ایک خیمے میں تشریف رکھتے تھے ، بلال خیمے سے باہر آئے اور لوگوں کو نماز کے لئے بلایا ، پھر وہ خیمے کے اندر گئے ،آنحضرت (ص) کے وضو کے پانی کو باہر لائے ، لوگ بصورت ہجوم دوڑے چلے آئے اور حصول تبرک کے لئے وضو کے پانی کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا ۔ (صحیح بخاری ،ج٤،ص ٢٣١)
٥۔ مسلم اپنی صحیح میں انس سے نقل کرتے ہیں کہ جب پیغمبر (ص) حجامت بنواتے تھے تو ان کے اصحاب ان کے ا طراف میں ایک ایک بال حاصل کرنے کے لئے کھڑے رہتے تھے ۔ (صحیح مسلم ،ج٤،کتاب فضائل الصحابہ )
پیغمبر (ص) سے صحابہ کی محبت اور آنحضرت (ص) کے آثار و تبرک کے حصول کی یہ چند مثالیں تھیں اس قسم کے واقعات کی جمع آوری کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے ۔ قارئین محترم صحیح بخاری کے اواخر میں کتاب جہاد اور اسی طرح ''زرہ ،عصا ،شمشیر ،ظروف ،مہر ،انگشتری ،موئے مبارک اور کفن پیغمبر گرامی (ص) کے ابواب میں ان تبرکات کے نمایاں نمونوں سے آگاہ ہو سکتے ہیں ۔
یہ احادیث وہابی ثقافت کے بے اساس ہونے کو واضح و آشکار کرتی ہیں ،وہ ثقافت جو ضریح رسول (ص) سے تبرک حاصل کرنے سے مانع ہے اور چند افراد کو نوکر رکھ کر ضرب و شتم کے ذریعہ مسلمانوں کو اس قسم کی محبت اور اظہار مودت اور اس عمل سے روکتی ہے جو عصر رسول (ص) میں اور ان کے سامنے رائج تھا ۔
رسول گرامی (ص)کے آثار سے حصول تبرک اور ضریح و منبر آنحضرت (ص) کے بوسے کی ممانعت کا مسئلہ ''وہابی ازم '' کے نمایاں ترین نعروں میں سے ہے ۔سعودیوں کی وہابی حکومت ان اعمال سے روکنے کے لئے '' آمران معروف و ناہیان منکر '' کے بھیس میں ضریح مقدس پیغمبر (ص) کے اطراف میں سرکاری کارندے کھڑے کرتی ہے جو انتہائی خشونت و بے دردی سے اس قبر مطہر کے زائرین پر کوڑے برساتے رہتے ہیں ۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ زائرین کا پاک خون بھی بہایا جاتا ہے اور اکثر لوگوں کی عزت و ناموس کو آسیب پہنچتا ہے ۔ان کی کج فکری کی اساس یہ ہے کہ ضریح مبارک کو بوسہ دینے سے صاحب قبر کی پرستش ہوتی ہے ۔گویا ان کے نزدیک ''ہر قسم کا احترام عبادت ہے '' یہ بے چارے جو معارف اسلام سے بے بہرہ ہیں ۔عبادت کی منطقی تعریف کرنے سے عاجز رہے ہیں نتیجةً وادیٔ حیرت میں سرگرداں ہو کر ''میت '' کی ہر قسم کی تعظیم کو پرستش سمجھنے لگے ۔ہم آئندہ عبادت کی صحیح تعریف پیش کریں گے ۔فی الحال جو چیز اہم ہے ، وہ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی سیرت کو پیش کرنا ہے۔ اس سلسلے میں کثیر مطالب کے پیش نظر ہم ایک مختصر بیان پر اکتفا کرتے ہیں ۔
١۔ پیغمبر اکرم (ص) کی بیٹی اپنے باپ کے وصال اور دفن کے بعد ان کی مرقد اقدس پہ آئیں وہاں سے کچھ خاک لی ۔اسے اپنے چہرے پر ملا اور گریہ و زاری کرتے ہوئے یہ شعر پڑھے :
ما ذا علی من شمّ تربة احمدا
ان لا یشمّ مدی الزمان غوالیا
کیا اس شخص پر جو قبر احمد (ص) کی خاک کو سونگھے ، جب تک اس کی زندگی باقی ہے اسے کسی قیمتی مشک کی خوشبو کی حاجت نہیں ۔
صبت علیّ مصائب لوانّھا
صبّت علی الایام صرن لیالیا
(اس مطلب کو کئی محققین نے نقل کیا ہے سبزواری نے کتاب الاتحاف ،ص٩ پر سمہودی نے وفاء الوفاء ،ج٢،ص ٤٤٤ پر ،خالدی نے صلح الاخوان کے ص٥٧ پر )
مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑی ہیں جو اگر روشن دنوں پر پڑتیں تو وہ شب تار میں بدل جاتے ۔
٢۔ رسول خدا(ص) کے بزرگ صحابی بلال ،جو بعض وجوہات کی بنا پر مدینے کو خیرباد کہہ کر شام کے مضافات میں سرحد کی حفاظت میں مشغول ہوگئے تھے ۔نے خواب میں دیکھا کہ پیغمبر (ص) ان سے فرمارہے ہیں اے بلال ! یہ کیا جفا ہے ! کیا وہ وقت نہیں پہنچا ہے کہ تم ہماری زیارت کرو ۔ بلال اندوہ و غم کی حالت میں نیند سے بیدار ہوئے اور سواری پہ سوار ہوکر مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے ۔ جب وہ پیغمبر (ص) کی قبر کے پاس پہنچے تو ان کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے اپنے چہرہ کو مزار اقدس کی خاک پر ملا اور جب حسن و حسین علیہما السلام ،پر نظر پڑی تو دونوں کو فرط محبت سے بوسہ دیا ۔ (اس واقعہ کو کچھ لوگوں نے نقل کیا ہے ۔سبکی نے شفاء السقام میں ابن عساکر کی تاریخ شام اور ابن اثیر کی اسد الغابة ،ج١،ص ٢٨ سے نقل کیا ہے )
٣۔ امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں : رسول اکرم (ص) کو دفن ہوئے تین دن گزر چکے تھے کہ ایک عرب آیا اور اس نے اپنے آپ کو ان کی مزار پر گرادیا ۔ ان کی قبر کی خاک کو اپنے سر پر ڈالا اور پیغمبر (ص) سے گفتگو کرنے لگا : اے پیغمبر خدا (ص) آپ نے ہم سے گفتگو کی ہم نے اس پر کان دھرے آپ نے حقائق کو خداوند متعال سے حاصل کیا اور ہم نے آپ سے کسب فیض کیا ۔وہ امور جو خدا کی طرف سے آپ پر نازل ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے '' و لو انّھم اذ ظلموا انفسھم '' میں نے اپنی ذات پر ظلم کیا ہے ، خداوند متعال سے میرے لئے طلب بخشش فرمایئے ۔ ناگہاں ، اس نے ایک آواز سنی کہ تیرے گناہ بخش دیئے گئے ہیں ۔
اس واقعہ کو بہت سے تاریخ اور سوانح نگاروں نے بیان کیا ہے ۔ منجملہ ،سمہودی ، کتاب وفاء الوفاء ،ج٢،ص ٦١٢ میں اور شیخ دائود خالدی متوفیٰ ١٢٩٩ نے صلح الاخوان وغیرمیں ۔
٤۔ حاکم مستدرک میں نقل کرتے ہیں :مروان بن حکم مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ ایک شخص اپنا چہرہ قبر رسول پر رکھے ہوئے ہے ، مروان نے اس کی گردن پکڑی اور کہا تو جانتا ہے کہ کیا کر رہا ہے ؟ جب اس شخص نے سر اٹحایا تو وہ (جلیل القدر صحابی رسول ) ابو ایوب انصاری تھے ،اور کہنے لگے میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں ،پیغمبر (ص) کے پاس آیا ہوں ۔لیکن اے مروان میں نے پیغمبر (ص) سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب معاشرہ کی صالح افراد رہبری کریں اس وقت آنسو نہ بہائو ۔اس وقت گریہ کرو ، جب نا اہل لوگ رہبر بن جائیں (یعنی تو اور بنو امیہ،)( مستدرک حاکم ،ج٤،ص ٥١٥)
تاریخ کے اس حصے سے پتہ چلتا ہے کہ رسول گرامی (ص) کے اصحاب باوفا ہمیشہ قبر مطہر سے تبرک حاصل کرنے کی غرض سے آتے تھے ، تاہم یہ مروان بن حکم جیسے افراد تھے جو اس جائز عمل سے روکا کرتے تھے ۔
اس موضوع پر تاریخی واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں یہاں نقل کرنا بات کو طول دینا ہو گا ۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کتاب ''تبرک الصحابہ '' اور کتاب گراں مایہ ''الغدیر '' ج٥،ص ١٤٦،١٥٦ کی طرف مراجعہ کر سکتے ہیں ۔
آخر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک اہم نکتہ کی طرف متوجہ کروں وہ یہ کہ : یہ تمام تاریخی بیانات کسی صورت میں بے اساس اور جعلی نہیں ہو سکتے ۔اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ سب جعلی اور بے بنیاد ہیں ،پر بھی ہمارے مقصود پر گواہ ہیں کیونکہ اگر اس قسم کے کام ،شرک بدعت یا نا مشروع اور حرام ہوتے تو کذابین ان کی نسبت اسلامی شخصیات کی طرف قطعاً نہ دیتے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ ان موارد اور مقامات پرجعل سازی کا کام انجام دیتے ہیں۔ جو عوام کے لئے قابل قبول ہو تاکہ عوام ان پر یقین بھی کر لیں ۔ کسی صورت میں بھی ایسے کام کو جو شرک و بدعت اور حرام و نا مشروع ہو ، صالحین کی طرف نسبت نہیں دیتے ۔ کیونکہ ایسی صورت میں عوام ان سے بھڑک جائیں گے اور ان کی من گھڑت باتوں کو قبول نہیں کریں گے اور اس طرح وہ اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں گے

 

 


source : alkausar.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ولادت باسعادت حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) ...
زندگی میں قرآن کا اثر
اسلامی جہاد کا مقصد
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق
دینی اقدارکوزندہ کرنے میں امام عالی مقام کا کردار
انقلاب اسلامی ایران کی چونتیسویں سالگرہ
بی بی معصومہ (س) کی ولادت کا جشن، عشرہ کرامت کا ...
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
قضا و قدر اور عقيدہ توحيد
آج کا یزید بھی مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے میں ...

 
user comment