آپ (ع) کا مشهور لقب "رضا" ھے۔ آ پ (ع) کی ولادت باسعادت ۱۱ ذیقعدہ ۱۴۸ھ کو مدینہ منورہ میں هوئی۔
آپ (ع) کے زمانہ میںسب سے پھلاعباسی خلیفہ بنا اورآپ اپنے پدربزرگوار پر پڑنے والی تمام مشکلات میں شریک تھے، جس وقت مامون کو خلافت ملی تو اسلامی علاقوں میں بہت سی اھم مشکلات پیدا هوگئیں جن میں سے بعض یہ ھیں:
امین و مامون کے درمیان هوئی جنگ کے نتیجہ میں حکومت کی ساکھ کمزور پڑگئی اور چونکہ مامون نے ایران کو دار السلطنت بنالیا تھا لہٰذا عباسی افراد اور ان کے طرفدار برائی کیا کرتے تھے اور اسی طرح علویوں کی طرف سے مکہ مکرمہ، یمن، کوفہ، بصرہ اور خراسان سے قیام هوئے۔
چنانچہ ان تمام مشکلات کو حل کرنے کے لئے ھمیشہ مامون پریشان رہتا تھا چنانچہ اس کو کوئی چارہ کار دکھائی نہ دیا مگر یہ کہ امام علیہ السلام کو "مرو" (خراسان کا ایک علاقہ) میں بلالیا اور جب آپ سے ملاقات هوئی تو خلافت آپ کے سپرد کرنے کی پیش کش کی، (لیکن امام علیہ السلام نے قبول نھیں کی) اس کے بعد مامون نے ولی عہدی کے لئے بہت اصرار کیا (چنانچہ امام علیہ السلام نے مجبوراً ومصلحتاً قبول کرلیا)
مامون اس کام کے ذریعہ موجودہ حالات سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا خصوصاً عالم اسلام کے بعض مناطق میں حکومت کی مخالفت میں قیام هوچکے تھے۔ لہٰذا اس حکومت میں امام رضا علیہ السلام کی شرکت (اگرچہ برائے نام ھی کیوں نہ هو) بھڑکے هوئے آگ کے شعلوں کو خاموش کرنے میں مددگار ثابت هوئی، کیونکہ ان مناطق میں حب آل علی پائی جاتی تھی اور چونکہ امام علیہ السلام اولاد علی میں سے تھے لہٰذا ان کا قیام ختم هوگیا۔
امام علیہ السلام جانتے تھے کہ مامون کا اصرار صرف ایک چال ھے کیونکہ یھی مامون مستقبل میں میرے خلاف ایک زبردست مھم چلائے گا یا بعض علویوں کے ضمیروں کو خرید کر اس تحریک کا علمدار بنادے گا۔
لیکن امام علیہ السلام اس علم کے باوجود یہ احساس کررھے تھے کہ اگر اس پیش کش (ولی عہدی) کو قبول نہ کیا تو باعث عسر وحرج هوگا کیونکہ اگر آپ قبول نہ کرتے تو اس کے معنی یہ تھے کہ آپ اصلاً مستحق خلافت نھیں ھیں یا خلافت کی مھار سنبھالنے کی لیاقت نھیں رکھتے۔
اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے ولی عہدی کو قبول کرلیا تاکہ مامون کا امتحان لیا جاسکے اور اس کو آزماسکیں۔
چنانچہ امام علیہ السلام رسمی طور رپر ولی عہد هوگئے۔
اس کے بعد بہت سے واقعات رونما هوئے اور امام علیہ السلام کی وفات ایسے حالات میں هوئی جن کو دیکھ کر انسان شک میں پڑجاتا ھے (اور وہ یہ کہ آپ کی شھادت مامون کے ذریعہ هوئی ھے) لیکن ان تمام تفصیلات کو یھاں ذکر نھیں کیا جا سکتا۔
امام علیہ السلام کے علمی آثار وہ عظیم مجموعہ ھے جن کا اسلامی منابع میں شمار هوتا ھے ان میں سے ایک رسالہ جس کو مامون کے لئے لکھا تھا جس کا نام "الذھبیہ" تھا جو طبی مسائل میں تھا اور "طب الرضا" کے نام سے مشهور هوا، اس رسالہ کی شرح ڈاکٹر زینی صاحب نے کی ھے، اور اس رسالہ کے مطالب او رعلم طب کے درمیان مقایسہ کیا ھے،چند سال قبل یہ رسالہ بغداد سے شایع هوچکا ھے۔
آپ کی شھادت صفر ۳۰۳ھ کو طوس میں هوئی اور طوس (خراسان) میں دفن هوئے ھیں، آج آپ کے مدفن کو "مشہد" کھا جاتا ھے۔
source : www.tebyan.net