دوسری حدیث: ”حدیث المنزلة“
امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ اس حدیث کو بیان کیا ھے کہ حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا:
”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی“[33]
(اے علی تم میں اور مجھ میں وھی نسبت ھے جو جناب ھارون اور جناب موسیٰ (ع) کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں)
قارئین کرام ! اگرچہ یہ حدیث مختصر ھے لیکن پھر بھی بہت سے معنی کی طرف اشارہ کرتی ھے لیکن اگر کوئی طائرانہ نظر ڈالے گا تو اس پر حدیث کے معنی واضح نھیں هوں گے لیکن اگر کوئی شخص اس حدیث میں غور وفکر کرے گا تو اس پر یہ معنی بہت واضح هوجائیں گے۔
چنانچہ یہ حدیث شریف حضرت علی علیہ السلام کے لئے اشارہ کرتی ھے :
۱۔ حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ کے وزیر ھیں کیونکہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے وزیر تھے:
<وَاجعلْ لی وَزِیراً منْ اٴَھلی>[34]
”اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ھارون کو میرا وزیر بنادے“
۲۔آپ رسول اللہ کے بھائی ھیں کیونکہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے بھائی تھے:
<ہَارُوْنَ اَخِیْ>[35]
”میرے بھائی ھارون“
۳۔ آپ ھی رسول اللہ کے شریک ھیں کیونکہ جناب ھارون بھی موسیٰ کے شریک تھے:
<وَاشْرِکْہُ فِیْ اٴَمْرِیْ>[36]
”اور میرے کام میں اس کو میرا شریک بنا“
۴۔ حضرت علی علیہ السلام خلیفہ رسول ھیں ، جیسا کہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے خلیفہ تھے:
<وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ہَارُوْنَ اخْلُفْنِی فِیْ قَوْمِی>[37]
”(اورچلتے وقت ) موسی نے اپنے بھائی ھارون سے کھا کہ تم میری قوم میں میرے جانشین هو“
۵۔ امامت نبوت سے مشتق ھے کیونکہ حدیث میں ضمیر ”انتَ“ امامت کی طرف اشارہ کرتی ھے اور لفظ ”منّی“ نبوت کی طرف اشارہ کرتی ھے اور یھاں پر حرف ”جر “نشو ونمو اور وجود کے معنی میں ھے اور یہ نشو ونما اس بات کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ یہ دونوں درجہ میں برابر ھیں تب ھی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرق کو واضح کرتے هوئے فرمایا:
”الا انہ لا نبی بعدی“ (مگر میرے بعد کوئی نبی نھیں)
اور جب جناب موسیٰ (ع)نے خدوندعالم سے درخواست کی کہ ان کے اھل سے ان کا وزیر معین کردے (جیسا کہ مذکورہ آیت بیان کرتی ھے) تو یہ درخواستِ جناب موسیٰ اس بات پر بھی دلالت کرتی ھے کہ نبی کی خلافت ووزارت خدا کے حکم سے هوتی ھے لوگوں کے انتخاب اور اختیار سے نھیں۔
قارئین کرام ! جب ھم ”حدیث منزلت“ کے بارے میں غور وفکر کرتے ھیں تو یہ بھی واضح هوجاتا ھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے یہ سب کچھ فقط حضرت علی علیہ السلام کے اکرام اور تجلیل کی غرض سے نھیں بیان کیا بلکہ اس کے پسِ پردہ ایک بہت اھم مقصد تھا اور وہ یہ کہ آپ امت کو اس بات پر متوجہ کرنا چاہتے تھے کہ نبی اپنے بعد حکومت کی ریاست اور کشتی اسلام کی مھار کس کے ھاتھ میں دے کر جارھے ھیں۔
اور جیسا کہ یہ حدیث شریفہ اشارہ کرتی ھے کہ حضرت علی (ع)،نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ساتھ شریک ھیں لیکن یہ شرکت کسی تجارت، صنعت او رزراعت میں نھیں ھے بلکہ آپ کی شرکت دین اور اسلام میں ھے اور اسلام میں پیش آنے والی تمام زحمتوں کو برداشت کیا اور دین کی اھم ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی،اور چونکہ ایک معمولی انسان شرکت کے حدود کو آسانی سے نھیں سمجھ سکتا (خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم هو کہ جناب ھارون نبی بھی تھے) اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حدیث منزلت میں ایسی قید لگادی تاکہ اشکال نہ هونے پائے اور اس شرکت کی حدود بھی معین کردی اسی وجہ سے مطلق طور پر نبوت کی نفی کردی اور نبوت کو شرکت کے حدود سے نکالتے هوئے فرمایا:
” میرے بعد کوئی نبی نھیں“
اور شاید اس حدیث کے معنی اس وقت مزید روشن هوجائیں جب یہ معلوم هو کہ حدیث منزلت کو رسول اسلام نے اس وقت بیان فرمایا جب آپ مدینہ منورہ سے ”جنگ تبوک“ میں جارھے تھے اس وقت نائب اور قائم مقام بنایا ۔
لیکن شیخ ابن تیمیہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ھیں کہ اس حدیث سے حضرت علی علیہ السلام کی کوئی بھی فضیلت ثابت نھیںهوتی کیونکہ جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمجنگ تبوک کے لئے نکلے ھیں تو آپ کے ساتھ تمام اصحاب اور تمام مومنین تھے او رمدینہ میں عورتوں اور بچوں کے علاوہ کوئی نھیں تھا یا وہ لوگ جو جنگ میں نھیں گئے تھے چاھے وہ مجبور هوں یا منافق تو ایسے لوگوں پر کسی کو خلیفہ بنانا کوئی بھی فضیلت نھیں رکھتا۔ [38]
لیکن حدیث پرغوروفکر کرنے والاشخص ابن تیمیہ کے نتیجہ سے مطمئن نھیں هوتا بلکہ ایک دوسرا نتیجہ نکالتا ھے کہ:
اس وقت مدینہ منورہ مرکز نبوت اور دار السلطنت تھا۔
جب کسی حکومت کا رئیس اپنے دار السطنت سے کسی دوسری جگہ جاتا ھے (جیسے تبوک) اور چونکہ اس وقت کا مواصلاتی نظام بہت ھی کمزور هوتا تھا تو گویا جانے والا ایک طویل مدت کے لئے وھاں سے غائب هورھا تھا اور چونکہ جنگ کے مسائل ایسے هوتے ھیں جن کے بارے میں یہ بھی معلوم نھیں هوتا کہ کب ختم هوگی اور کب پلٹ کر آنا هوگا تو ایسے موقع پر کسی رئیس کا نائب بنانا اور اس کو دار السلطنت میں جانشین بناکر چھوڑنا ایک عظیم معنی رکھتا ھے اور وہ بھی ایسے ماحول میں جب دشمنان اسلام اور منافقین کی طرف سے ھر ممکن خطرہ موجود هو اور وہ ایک ایسی فرصت کی تلاش میں هوں کہ موقع ملنے پر اسلام اور مسلمانوں کو نابود کر ڈالیں، لہٰذایسے ماحول میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ معین کرنا ایک عظیم فضیلت ھے۔
تیسری حدیث: ”حدیث غدیر“
اس حدیث کو اکثر صحابہ وتابعین نے روایت کیا ھے اور بہت سے علماء وحفاظ نے اس کو نقل کیا ھے۔ [39]
بطور اختصارھم صرف حدیث کے محل شاہد اور ان چیزوں کو بیان کرتے ھیں جو امامت وامام کی وضاحت سے متعلق ھیں۔
چنانچہ اکثر روای کہتے ھیں:
”جب ھم حجة الوداع سے واپس پلٹ رھے تھے ، اورغدیر خم میں پهونچے تو رسول اسلام نے نماز ظھر کے بعد مسلمانوں کے درمیان خطبہ دیا اورحمد باری تعالیٰ کے بعد فرمایا:
”اے لوگو ! قریب ھے کہ میں اپنے پروردگار کی دعوت پر لبیک کهوں میں بھی مسئول هوں او رتم بھی مسئول هو، پس تم لوگ کیا کہتے هو؟
تب لوگوں نے کھا: ”ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے دین اسلام کی تبلیغ کی، ھم کو وعظ ونصیحت کی اورجھاد کیا ، ”فجزاک اللّٰہ خیراً“
یھاں تک کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”ان اللّٰہ مولای واٴنا مولی الموٴمنین ، وانا اولی بھم من انفسھم، فمن کنت مولاہ فہذا علی مولاہ، اللّٰھمّ وال من والاہ وعاد من عاداہ وانصر من نصرہ، واخذل من خذلہ واٴدر الحق معہ حیثما دار۔“
(اللہ میرا مولا ھے او رمیں مومنین کا مولا هوں اور میں ان کے نفسوں پر اولیٰ بالتصرف هوں پس جس کا میں مولا هوں اس کے یہ علی بھی مولا ھیں، خدایا تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے، خدا یا تو اس کی نصرت فرما جو علی کی نصرت کرے، اور اس کو ذلیل کردے جو علی کو ذلیل کرنا چاھے او رجدھر علی جائیں حق کو ان کے ساتھ موڑدے)
اور جب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا یہ کلام تمام هوا تو سب لوگ حضرت علی علیہ السلام کی طرف مبارکباد دینے کے لئے بڑھے، چنانچہ حضرت عمر نے کھا:
”بخ بخ لک یا علی، اصبحت مولانا ومولی کل مومن ومومنة“
(مبارک هو مبارک اے علی، آپ ھمارے اورھر مومن ومومنہ کے مولا هوگئے)
اس کے بعد جناب جبرئیل یہ آیت لے کر نازل هوئے:
<اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاٰمَ دِیْناً>[40]
”آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردیں اور تمھارے اس دین اسلام کو پسند کیا“
قارئین کرام ! یہ تھا حدیث غدیر کا خلاصہ،اور یہ تھی شان نزول اور یہ تھے الفاظ حدیث، اس حدیث شریف میں نظریہ ”امامت“ کی مکمل وضاحت کی گئی ھے اور یہ واضح کردیا گیا ھے کہ یہ امامت ، ولایت عام او رمطلقہ مسئولیت کی حامل ھے اور سول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وفات کے بعد جس امام کے بارے میں سوال کیا جارھا تھا اس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے لوگوںکے سامنے پیش کردیا اور اس حدیث ودلیل کو سن کر لوگوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا جس کے نتیجہ میں تہنیت اور مبارکباد پیش کرنے لگے۔
لیکن بعض لوگوں نے فلسفہ چھاڑنا شروع کیا درحالیکہ وہ حدیث کی صحت کا انکار نہ کرسکے بلکہ یہ کھا کہ یہ حدیث آپ کے مدعا کو ثابت نھیں کرتی چونکہ لغت میں لفظ” مولا“ کے بہت سے معنی ھیں جیسے ناصر، ابن عم، رفیق، وراث وغیرہ اور ھم یہ نھیں جانتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی مراد کون سے معنی تھے اور کس معنی میں حضرت علی علیہ السلام کو مولا کھا ھے۔
لیکن یہ فلسفہ تراشی خود غرضی اور هوا وهوس کی دین ھے اور نہ ھی معترض نے موضوع میں غور وفکر کیا ھے۔ ان اعتراضات کو ختم کرنے کے لئے درج ذیل امور رپر توجہ کرنا:
۱۔ اعلان ولایت سے قبل آیہ بلّغ کا نازل هونا چنانچہ مورخین ومفسرین نے روایت کی ھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمآخری حج سے واپس آرھے تھے تو اس وقت خداوندعالم نے وحی فرمائی:
<یَاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ>[41]
”اے رسول جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ھے پهونچادو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو) تم نے اس کا کوئی پیغام ھی نھیں پهونچایا اور (تم ڈرو نھیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“
۲۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا اعلان ولایت کے لئے جنگل میں ظھر کے وقت کا انتخاب کرنا۔
۳۔کلام پیغمبر میں تینوں ولایت کا ذکر هونا:
الف: اللّٰہ مولای۔
اللہ میرا مولا ھے۔
ب: انامولی المومنین۔
میں مومنین کا مولا هوں۔
ج: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ۔ [42]
جس کا میں مولا هوں اس کے یہ علی (ع)بھی مولا ھیں۔
۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا حضرت علی علیہ السلام کے لئے دعا کرنا:
”اللّٰھمّ وال من والاہ وعاد من عاداہ واخذل من خذلہ وادرالحق معہ حیث دار۔[43]
پروردگارا ! تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے اور ذلیل کر اس کو جو علی کو ذلیل کرنا چاھے، اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی جائیں ۔
جبکہ اس دعا میں ولایت کے معنی بغیر حاکم کے مکمل نھیں هوسکتے ھیں
۵۔ آیہ اکمال کا نازل هونا: الیوم اکملت لکم دینکم ۔۔۔[44] جو اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ یہ ایک اھم مسئلہ تھا جس وجہ سے خداوندعالم نے دین کو کامل کیا اور نعمتیں تمام کیں۔
۶۔ حاضرین غدیر خم کا حضرت علی علیہ السلام کا مذکورہ الفاظ میں مبارک باد پیش کرنا۔[45]
مذکورہ چھ نکات میں غور وفکر کرنے سے انسان کو یہ یقین هوجاتا ھے کہ مسلمانوں کی نظر میں حضرت علی (ع) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے وراث ،ناصر ،دوست او رابن عم نھیں ھیں اور نہ ھی ارث ونصرت کا مسئلہ ھے اور اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمان باتوںکاقصد کرتے توپھر غدیر کے ماحول اور ان آیات جن کو خدا نے اس موقع پر نازل فرمایا اور تبریک وتہنیت کے لئے ایسے الفاظ کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اگر لفظ مولا سے مراد امامت وخلافت نہ هو تو پھر ان سب چیزوں کا وجود کوئی معنی نھیں رکھتا۔
اور جیسا کہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی نے حقیقت کا انکشاف کیا ھے اور جو لوگ اس حدیث کا انکارکرتے ھیں ان کے لئے بہترین جواب دیا ھے، چنانچہ موصوف کہتے ھیں:
”چونکہ اھل ظاھر(حنبلیوں) اور سلفیوں( وھابیوں)کے نزدیک معاویہ سے محبت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نھیں تھا لہٰذا اس سے محبت کرنا ھی اپنا شعار بنارکھا ، اسی وجہ سے انھوں نے مذکورہ حدیث کے معنی اس لحاظ سے کئے تاکہ علی کی محبت کو ترک کرنے میں کوئی مضائقہ پیش نہ آئے۔ [46]
مذکورہ باتوں سے یہ بات ثابت هوجاتی ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنی امت کی قیادت ورھبری کے لئے امام کی معرفی کی ھے۔
اور مذکورہ حدیث (اگرچہ اس کے الفاظ او رمناسبت مختلف ھیں) امامت کے بارے میں صاف اور روشن ھے جو مکمل طریقہ سے ھمارے مقصود پر دلالت کرتی ھے۔
لیکن اب سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ کیا فقط امام اول کا معین هوجانا کافی ھے اور باقی ائمہ علیھم السلام کے بارے میں تعیین کی ضرورت نھیں ھے یا ان کے لئے بھی نص اور احادیث کا هونا ضروری ھے؟
یعنی باقی ائمہ (ع) کی امامت کیسے ثابت هوگی؟ اور ان کو بارہ کے عدد میں محدود کرنا (نہ کم وزیاد) کیسے صحیح ھے؟