حضرت ابوعبد اللہ حسین ابن علی علیہ السلام
از: سید حسین مرتضی
والد حضرت علی ابن ابی طالب عمران بن عبد المطلب شیبة علیھم السلام
والدہ حضرت فاطمة الزھرا بنت محمد مصطفی صلی اللہ وآلہ وسلم
دادا حضرت ابی طالب عمرانبن عبد المطلب شیبة علیھم السلام
دادی حضرت فاطمة بنت اسد بن ھاشم علیھم السلام
نانا محمد مصطفی خاتم النبینین بن عبد اللہ بن عبد المطلب شیبہ الحمد صلی اللہ وآلہ وسلم
نانی حضرت خدیجہ بنت خویلد علیھما السلام
ولادت۳/ شعبان المعظم ۴ہجری /۸۵ عام الفیل/۸جنوری ۶۶۶ء مدینة الرسول
نام حسین علیہ السلام۔ شبیر علیہ السلام
کنیت اباعبد اللہ
القاب رشید، وفی، طیب، زکی، مُبارک، تابع رضات اللہ، دلیل علی ذات اللہ، سبط، سید شباب اھل الجنة وسید الشھدائ
بیویاں لیلیٰ بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی، ام اسحق بنت طلحہ بن عبید اللہ تمیمی، شاہ زنان بنت کسریٰ یزد جرد بادشاہ
ایران ورباب بنت امراء القیس بن عدی
بیٹے علی زین العابدین علیہ السلام، علی اکبر علیہ السلام، جعفر،عبد اللہ اصغرو علی اصغر
بیٹیاں سکینہ، فاطمہ ورقیہ
سیاسی فرمانروا معاویہ بن ابی سفیان ویزید بن معاویہ
آغاز امامت ۲۸ صفر ۵۰ہجری /۱۰۴عام الفیل/ ۶۷۰ء بسن ۴۷ سال۔
مرگ معاویہ وخلافت ۲۸/ رجب المرجب ۶۰ہجری ۱۱۴عام الفیل/ ۱۸۰ عیسوی
یزید و آغاز سفر
کربلا از مدینہ
مکہ سے کربلا ۹ذی الحجہ ۶۰ہجری/ ۱۱۴عام الفیل /۶۸۰عیسوی
وردو کربلا ۲محرم ۶۱ہجری/۱۱۵ عام الفیل ۶۸۰ئ
اھم واقعات واقعہ کساء، مباھلہ، حجة الوداع، غدیر خم، رحلت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، شھادت جناب سیدہ سلام اللہ علیھا۔
جنگ جمل وصفین ونھروان، شھادت علی ابن ابی طالب علیھم السلام ، صلح امام حسین علیہ السلام وشھادت امام حسین علیہ السلام انگوٹھی کا نقش حسبی اللہ
شاعر یحيٰ بن حکم او رکئی دوسرے شعرائ
دربان اسعد ہجری
شپہ سالار حضرت عباس بن علی ابن ابی طالب علیھم السلام
سفیر خاص حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام
معاون خاص حضرت زینب سلام اللہ علیھا
شھادت ۱۰محرم الحرام ۶۱ہجری /۱۱۵عام الفیل/ ۶۸۰عیسوی ، کربلا معلی
سن مبارک ۵۷ سال
مدمت امامت ۱۰سال
علمی آثار امام حسین علیہ السلام نے اپنے اشعار، مکتوبات ورسائل، خطبات اور وصایا علمی آثار کے طور پر چھوڑیں۔
شاگرد امام حسین علیہ السلام کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ھے، جن میں سے چند یہ ھیں:
امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت عباس علیہ السلام، زھر بن قین، حضرت مسلم علیہ السلام، حضرت حبیب بن مظاھر علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے اصحاب فقہ، تفسیر، حدیث، کلام، ھیئت، ریاضی،نجوم اور دوسرے مختلف علوم وفنون کے علاوہ سیاسی اور جنگی فنون میں بھی مھارت رکھتے تھے۔
صدقات وموقوفات امام حسین علیہ السلام کی سخاوت ودادودھش تاریخ میں انتھائی درخشاں باب کے طور پر مرقوم ھے۔
یہ بات امام حسین علیہ السلام کے خصائص میں سے بھی بیان کی جاتی ھے کہ جب آپ اپنے کسی غلام اور ملازم کی کسی بات پر خوش ھوتے تھے تو آپ اسے اپنی املاک میں سے کوئی باغ،نخلستان یا زمین کا ٹکڑا اس شرط کے ساتھ ہبہ فرمادیتے تھے کہ اس باغ، نخلستان یا زمین میں آنے والے ھر شخص کو تین دن تک مھمان کیا جائے او رکھانے پینے یا سیروتفریح میں آزادی دی جائے۔
اسی طرح تاریخ نے یہ بھی لکھا ھے کہ امام حسین علیہ السلام اپنے سفر کے دوران ھمیشہ وافر مقدار میں غلّہ اور
مال ودولت لے کر نکلتے تھے، اور راستہ میں ملنے والے سوالیوں نیز غریب دیھاتی قبائل اور صحرا نوردوں کو کم از کم سال بھر کا آذوقہ عنایت فرماتے ھوئےت اپنا سفر مکمل فرماتے تھے۔
حصوصاً کربلا کے سفر کے دوران مدینہ سے مکہ نیز مکہ سے کربلا تک امام حسین علیہ السلام نے ان افراد، قبائل، خاندانوں او رمسافروں کو کم از کم سال بھر کا آذوقہ عطا فرمایا جو راستہ میں ملے۔
پھر جن لوگوں نے آپ کی میزبانی کے فرائض سرانجام دئےے ان کو اور بھی نوازا۔
اس تمام داد ودھش کے باوجود جب کربلا پھونچے تو آپ کے پاس اس قدر اموال موجود تھے کہ آپ نے کربلا کے پورے شھر اور اس کے اطراف کی تمام زرخیز اور بنجر زمینیں اھالی شھر سے ان کی مطلوبہ قیمت سے دوگنی قیمت میں خرید کر راہ خدا میں وقف کیں اور بنی اسد کو اس شرط پر اس کا متولی بنایا کہ وہ تاقیام قیامت اس شھر میں آنے والے ھر شخص کو کم از کم تین دن مھمان رکھ کر کھانا کھلائیں گے۔