اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

غدیر کا ھدف امام کا معین کرنا

غدیر کا ھدف امام کا معین کرنا

 غدیر کے مختلف پھلووں پرلوگوں کی جانب سے تنگ نظری

 پھلی بحث :  پھلے سے تعیین شدہ امامت

 دوسری بحث :  لوگ اور انتخاب

 تیسری بحث :  تحقق امامت کے مراحل واقعہٴ غدیر کے مقاصد کے اذھان سے پوشیدہ رھنے کی ایک اور افسوسناک وجہ یہ ھے کہ بعض لوگ اپنے قصیدوں یا تقاریر میں یہ کہتے ھیں کہ روز غدیر اسلامی امّت کے لیے امامت کی تعیین کا دن ھے ۔  روز غدیر ” حضرت امیر المؤمنین(ع) “ کی ولایت کا دن ھے ۔

  یہ تنگ نظری اور محدودفکر اس قدر مکرّر بیان ھوئیں کہ بہت سے لوگ غدیر جےسے عظیم واقعہٴ  کے دیگر نکات کی طرف توجّہ دینے سے قاصر رھے ۔

 کوتہ نظر ببین کہ سخن مختصر گرفت:

  غدیر کے مختلف پھلوٴوں پر لوگوںکی جانب سے تنگ نظری  :

ا فسوس کہ آج بھی اگر مشاھدہ کیا جائے تو جب بھی روزغدیر کا تذکرہ ھوتا ھے تو ھمارے لوگ اس دن کو صرف ’امام علی(ع) کی ولایت ‘ کی نسبت سے یاد کرتے ھیں اور غدیر کے دیگر اھم اور تاریخ ساز پھلوٴوں سے غافل نظر آتے ھیں ۔

 غدیر کے اصلی اھداف، نہ ھونے کے برابر تصانیف اور کتابوں میں ذکر ھوئے ھیں اور جس طرح  غدیر کے وسیع اور با مقصد ابعاد کو منابر کے ذریعے اور نماز جمعہ کے خطبوں میں بیان کیاجانا چاھےے بیان نھیں کےے جاتے ۔ مجلّوں اور اخباروں میں بھی صرف ”ولایت امام (ع) کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ھے یھی وجہ ھے کہ روز  غدیر لوگوں کے درمیا ن  فقط ولایت علی(ع) کے ساتھ خاص ھو کر رہ گیا ھے۔

۱۔  پھلے سے تعیین شدہ امامت :

  شیعہ نظریہ ،یہ ھے کہ حضرت علی(ع) اور انکے گیارہ بیٹوں کی امامت غدیر سے پھلے ھی معیّن ھو چکی تھی اس دن کہ جب موجودات اور ھماری اس کائنات کی خلقت کی کوئی خبر نہ تھی اس دن کہ جب ابھی تک پیغمبر ان ِ الٰھی کی ارواح بھی خلق نہ ھوئیں تھیں ۔

جناب رسول ِ خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور پنجتن آلِ عباء علیھم السلام کی ارواح خلق ھوچکی تھیں ۔ جناب رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور حضرت علی(ع) کے وجود کی انوار اس وقت خلق کی جا چکی تھیں کہ جب ابھی آدم (ع) خلق نہ ھوئے تھے ۔

 سارے پیغمبران خدا اپنے خدا ئی انقلاب کی ابتداء میں پنجتن آلِ عباء علیھم السلام کے اسمائے مبارک کی قسم کھاتے تھے ۔اور سخت مشکلات کے وقت خدا وند عالم کو  محمّد ، علی فاطمہ ، حسن اور حسین صلوٰةُ الله ِ عَلےہِم اٴَجمعین کے ناموں کا واسطہ و قسم دیتے اور انکی برکت سے توبہ کرتے اور خدا وند منّان کی بارگاہ میں عفو اور بخشش طلب کرتے تھے ۔

 حضرت آدم(ع) نے ان اسمائے مبارک کو جب عرش معلّیٰ پر دیکھا؛انکی نورانیّت کیو جہ سے حضرت آدم(ع) کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اورخدا وند عالم سے ان ناموںکے ذریعے بات کی۔

حضرت نوح  (ع) نے ا نھیں مبارک  اسما ء کو اپنی کشتی کے تختے پر لکھا اور جب شدید اور سخت طوفان میں گھر گئے تو ان ھی ناموںکا واسطہ دے کر خدا وند عالم سے مدد طلب کی۔ تمام پیغمبران خدا جانتے تھے کہ ایک پیغمبر خاتم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)آئیں گے اور انکے  اس راستے کو کمال  کے درجہ تک پھنچائیں گے ،اور اس بات سے بھی واقف تھے کہ آپ  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد آنے والے امام کون ھونگے اور دین و بشریت کو کمال تک  پھنچانے میں اُن اٴَئمّہ کو کن کن ناگوار حوادث کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

انھوں نے حضرت علی(ع) کی مظلومیت پر گریہ و زاری کی اور امام حُسین(ع) کی کربلا کو یاد کر کے اشک بھائے ۔ ا ن کے نام اور پیش آنے والے حوادث کواپنی امّتوں کے لےے بیان کےے؛ اسی لےے جب یھودی عالم نے امام حُسین(ع)  کو گھوارہ میں دیکھا تو اس کو وہ تمام نشانیاں یاد آگئیں جوذکرکی گئیں تھیں ؛وہ اسلام لے آیا اور امام حُسین(ع) کے بوسے لینے لگا۔

تو معلوم ھو اکہ روز غدیر صرف” تعیین امامت “کا دن نھیں تھا ؛بلکہ آغاز بعثت میں ھی پیغمبر گرامی  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے امام کو معیّن کر دیا تھا ۔ جس وقت عالم شیر خواری میں حضرت علی(ع)  کو پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے مبارک ھاتھوں میں دیا گیا تو حضرت علی(ع) نے پیغمبر گرامی  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر درود و سلام بھیجا اور قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت فرمائی جب کہ بظاھر ابھی قران نازل نھیں ھوا  تھا۔

آپ  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جب بھی اور جھاں بھی ضرورت محسوس کی بارہ ا ئمہ علیھم السّلام کے اسمائے مبارک ایک ایک کرکے بیان فرمائے ، اور اپنے بعد آنے والے امام (ع) کو مختلف شکلوں اور عبارتوں کے ذریعے بیان فرمایا۔ ائمہ علیھم السّلام کے ادوار میں رونما ھونے والی سیاسی تبدیلییوں کو آشکار کیا ؛مدینہ کے منبر سے  بار و بار ائمّہ علیھم السّلام کے اسماء مبارک انکی تعداد،حالات زندگی ، انکے زمانے کے ظالم حکمرانوںاور انکے نابکار قاتلوں کا تعارف کروایا۔

حضرت مھدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے زمانہٴ غَیبت کے بارے میں بار بار بات کی اورغَیبت کے دوران انکی راھنمائی کے بارے میں سننے والوں کے اعتراضات کے جواب دےئے ؛ حضرت مھدیعجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف  کی ساری دنیا پر حکومت کے بارے میں اتنا بیان کیا کہ اُمَوی و عبّاسی دور میں بعض لوگوں نے اس خیال سے کہ وہ اُمّت کے مھدی ھو سکتے ھیں قیام کیا تاکہ جو لوگ حضرت مھدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے انتظار میںھیں ا ُن کو آسانی سے گمراہ کیاجا سکے۔ لہٰذہ امامت کا عھدہ خدا وند عالم کی جانب سے مقرّر کردہ ھے جو ھمیشہ سے انسانوں کی ھدایت اور راھنمائی کرتا رھا ھے اور تا قیام قیامت انسانوں کی ھدایت اور راھنمائی کرتا  رھے گا ۔اگر انسان کی ھدایت ضرور ی ھے تو امام کا وجود بھی ضروری ھے ؛ اور صرف خدا وند عالم کی پاک اور بابرکت ذات ھی پیغمبران اور ائمہ(ع) کی تعیین اور انتخاب کر سکتی ھے۔

< ولله ُ اٴَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسٰالَتَہُ>

خداوند عالم سب سے زیادہ آگاہ ھے کہ اپنی رسالت کو کھاں قرار دے) کیونکہ ایک انسان کے ليے دوسرے انسان کی شناخت مشکل ھے اور وہ ایک دوسر ے کے باطن سے آگاھی حاصل نھیں کر سکتے ۔ لہٰذا اسی دلیل کے تحت کہ جس کے تحت  پیغمبران خدا کا انتخاب اور چناؤ خدا کی طرف سے ھوتا ھے ائمّہٴ معصومین علیھم السّلام کا تعیّن اور انتخاب بھی  خدا وند عالم کی جانب سے ھے اور فرشتہٴ وحی کے توسّط سے رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر ابلاغ حکم ھوا۔

واقعیت یہ ھے کہ ا س حقیقت (تعیین امامت )کا غدیر کے دن سے کوئی تعلّق نھیں ھے بلکہ آغاز بعثت ھی میں اس کو مطرح کیا جا چکا تھا ۔ہجرت کے دوران اور مختلف جنگوں کے درمیان رسول گرامی اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے امامت کا تعیّن اور تعار ف کروا دیا تھا جب حضرت زھرا علیھا سلام کے یھاں امام حسین(ع) کی ولادت کا وقت نزدیک آیا تو جناب ختمی مرتبت  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت زھرا علیھا سلام کو خبر دی کہ تمھارے یھاں بیٹے کی ولادت ھو گی اور اسکا نام حُسین(ع) ھوگا جس کا ذکر گذشتہ آسمانی کتابوںمیں آچکا ھے جناب زھرا علیھا سلام کے چھرے پر خو شی کے آثار نمودار ھوے ا ور جب آپ(ص) نے امام حُسین(ع)کی کربلا میں شھادت کی خبر دی  تو جناب زھراعلیھا سلام نے فرمایا:

” یٰا اٴَبَتٰاہُ مَنْ یَقْتُلُ وَلَدیْ وَ قُرَّةَ عَیْنیْ وَثَمَرَةَ فُؤَادیْ ؟ قٰالَ  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)! شَرُّ اٴُمَّةٍ مِنْ اٴُمَّتیْ ۔قٰالَتْ! یٰا اٴَبَتٰاہُ إِقْرَاٴْ جِبْرَئیْلَ عَنّیْ السَّلٰامَ  وَقُلْ لَہُ فی اٴَیِّ مَوْضِعٍ یُقْتَلُ ؟[1]۔  فیْ مَوْضِعٍ یُقٰالَ لَہُ کَرْبَلٰا!!  >

اے بابا جان!  میری آنکھوں کے قراراوردل کے ثمر بیٹے کو کون قتل کرےگا ؟ آپ  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: میری امت کے سب سے زیادہ بدترین اور برُے لوگ۔ دوبارہ پوچھا ؛اے بابا جان:  جبرائیل کو میرا سلام کھےے اور پوچھےے کہ میرے بیٹے حُسین(ع) کو کس جگہ شھید کیا جائے گا ؟ جناب رسولِ خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا اس سر زمین پر جس کو کربلا کھا جاتا ھے ایک دوسری روایت میں ھے کہ حضرت زھراعلیھا سلام نے فرمایا :

” یٰا اٴَبَةَ سَلَّمْتُ وَ رَضیْتُ وَ تَوَکَّلْتُ عَلَی الله۔“ اے بابا جان: میں خواستہ خدا پر تسلیم اور راضی ھوں اور خدا وند عالم کی ذات پر توکّل کرتی ھوں [2] جب جناب زھر  = کے یھاں حضرت امام حُسین(ع) کی ولادت ھونے  والی تھی خدا کے رسول  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنی بیٹی کو اطلاع دیتے ھوئے فرمایا کہ: (حضرت جبرئیل نے مجھے خبر دی ھے کہ ؛ تمھار ا بیٹا کربلا میں شھید کر دیا جائے گا ۔)

جناب فاطمہ علیھا سلام نے انتھائی غم و اندوہ کے عالم میں ارشاد فرمایا:

 < لَیْسَ لیْ فیْہِ حٰاجَةٌ یٰا اٴَبَةَ > اے بابا جان ! مجھے ایسے بیٹے کی کوئی حاجت نھیں ھے ۔

جناب رسول خد ا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا :(میری بیٹی تمھارا یہ بےٹا حُسین(ع) ھے اور نو معصوم امام اسکے وجود سے پیدا ھونگے جودین خدا کی بقاء کا سبب ھونگے ۔)   

(ب)  بحارالانوار ، ج ۴۴ ص ۲۶۴  : علّامہ مجلسی (رہ) ( متوفّیٰ   ۱۱۱۰    ھ )

 (ج)  تفسیر فرات الکوفی  ،  ص  ۵۵  :  فرات الکوفی  ( متوفّیٰ   ۳۰۰    ھ  )

 جناب زھرا علیھا سلام نے فرمایا:” یٰا رَسُوْلَ الله ِ قَدْ رَضیْتُ عَنِ الله ِ عَزَّ وَ جَلَّ۔“ (اے خدا کے رسول! میںخدا وند بزرگ و برتر سے راضی ھوں )[3] اس قسم کے اظھارات بہت سطحی فکر اور کوتاہ نظری ھیں کہ یہ کھا جائے :

غدیر خم کے دن لوگوں کی امامت مشخّص ھوئی۔  غدیر کا دن امامت کے تعیّن کا دن ھے ۔ غدیر کا دن ولایت کے تعیّن کا دن ھے ۔کیونکہ امامت، رسالت ھی کی طرح الٰھی اصولوں میں سے ایک اصل ھے جو خلقت کے آغاز میں ھی معین ھو گئی تھی اور گذشتہ پیغمبروں کی لائی ھوئی آسمانی کتابوں میں اس کو بیان کر دیا گیا تھا ۔اور بعثت سے غدیر تک سینکڑوں بار بے شمار احادیث وروایات میں پیغمبر گرامی اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جھان والوں کی رھنمائی کرتے ھوئے امامت کا تعارّف کر وا دیا تھا۔

۲۔  لوگ اور انتخاب :

یہ درست ھے کہ شیعوں کے امام خدا وند عالم کی طرف سے پھلے سی ھی منتخب ھو گئے تھے اور بعثت کے بعد سے ھر اھم مقام اورموقع پر خود رسول گرامی اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زبانی انکا تعارف ھو چکا تھا لیکن ابھی بھی یہ کام مکمّل نھیں ھوا کھیں لوگ خود امام کا انتخاب نہ کرلیں ، اور اپنی کج فکری اور گمراھی کے سبب اٴَئِمّہ معصومین علیھم السّلام کی امامت کو قبول نہ کریں نیز اسلام کی اصیل ثقافت اور امامت کے درمیان فاصلہ ڈال دیں اور حضرت علی (ع)اوربا قی ا ماموں کی بیعت نہ کریں تو رسول اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا   

بتا یا ھوا راستہ خطرے میں پڑجائیگا اور پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رسالت ان تمام ز حمتوں اور قربا نیو ں کے باوجود نامکمّل ر ھے ۔ چنانچہ خدا وند عالم نے بھی ھوشیار کرنے والے کلمات کے ساتھ فرمایا:

  <وَ إِنْ لَم  تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰا لَتَکَ >

  ترجمہ ۔ اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو میری رسالت کا کوی کام نھیں کیا اگر لوگ امام بر حق کی بیعت نہ کریں اور امام کو لوگوں کی حمایت حاصل نہ ھو تو امام سیاسی طاقت اور قدرت اپنے ھاتھ میں نھیں لے سکتا ،بعنوان امام اور حاکم دستور نھیں دے سکتا؛ امر و نھی نھیں کرسکتا حکومتی کام انجا م دینے والے افراد کا تعیّن نھیں کرسکتا۔

 یہ جو سیاسی جما عتوں کے سربراھوں ، جاہ طلب منافقوں اور ثقیفہ کے مکاّروں نے غدیر کے دن تک سکوت اختیار کیا اور کوئی خطرناک اقدام نھیں کیا صرف اس وجہ سے تھا کہ ابھی تک امّت کی رھنمائی و رھبری کا مسئلہ تحریرو تقریر تک محدود تھا ۔ صرف رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی تقاریر میں ولایت امیرالمؤمنین(ع) کا ذکر ھوا تھا اور وہ لوگ بھی تحمّل کر رھے تھے ۔

لیکن غدیر کے دن ، اس عظیم اور کم نظیر اجتماع کے درمیان اور چونکا دینے والی خصوصیات کے ساتھ ؛ سب نے دیکھا کہ جناب رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے صرف خطبہ اور بیان پر اکتفاء نھیں کیا بلکہ عملاً سب سے پھلے حضرت علی(ع) کا ھاتھ بلند کرکے خود بیعت کی اور اسکے بعد سب لوگوں کو حضرت علی(ع) کی بیعت کرنے کا دستور دیا اور آخر کار  ایک زیبا اور شانداربیعت وجود میں آئی۔ مخالفین اور منافقین بھی ایسے حالات اور شرائط سے دُچار ھو گئے تھے

کہ اب انکے پاس سوائے بیعت کرنے کے اور کوئی چارہ باقی نہ رہ گیا تھا۔یھاں انکی خواہشات کو ٹھیس پھنچی اور انھوں نے اپنی تمام سیاسی آرزوؤں اور شیطانی امیدوں پر پانی پھرتا محسوس کیا ۔وہ یہ بات صاف طور پر محسوس کر رھے تھے کہ اب انکے لےے اور حکومت کے پیاسے سیاستدانوں کی لیے کوئی مقام نھیں ھے اوریہ کہہ رھے تھے کہ!

علی (ع) خدا کی طرف سے بھی معیّن ھوئے ھیں اور پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے بھی انکی بیعت کی ھے اور سارے مسلمانوں نے بھی انکی بیعت کی ھے ۔عقلی اور عقیدتی حمایت کے ساتھ ساتھ  لوگوں کی سیاسی حمایت بھی ھے ، او ر پھر فرشتہٴ وحی نے بھی ا نھی کو معیّن کیا ھے اور اس طرح حضرت علی (ع)کے لےے عمومی بیعت نے حقیقت کا روپ بھی دھارا ھے ۔ لہٰذا پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد سیاسی طاقت اور حکومت حاصل کرنے کے تمام راستے اور طریقے بند ھیں ۔اب اسکے سوا کوئی چارہ نھیں کہ پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو قتل کر دیا جائے اور  (سازشی اور قابل نفرین ) تحریر لکھی جائے۔ اسکے علاوہ کوئی چارہ باقی نھیں رہ گیا کہ ایک فوجی بغاوت کی جائے اور مخالفوں کا قتل عام کیا جائے ۔  اگر غدیر کے دن عمومی بیعت نہ ھوئی ھو تی تو منا فق اور سیاسی جماعتوں کے سربراہ اتنے غضب ناک نہ ھوتے اور رسول خدا(ص)  کے مسلّحانہ قتل کا منصوبہ نہ بناتے ۔ لہٰذ ا  غدیر کا دن صرف تعیین امامت کا دن نھیں تھا بلکہ:  روز غدیر ” امام اور عترت کی ولایت‘ کے تحقق کا دن تھا۔ غدیر کا دن مسلمانوں کی حضرت علی(ع) کے ساتھ اور دوسرے اٴَئمّہ کے ساتھ تا قیامت عمومی بیعت کا دن تھا۔

غدیر کا دن وہ دن ھے ! جس دن رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد مسلمانوں کی رھبری اور امامت کا مسئلہ روشن ھوا ؛ خاندان علی ابن ابی طالب(ع) سے گیارہ ائمّہ کی تا قیامت جاری رھنے والی امامت کا اعلان ھو ا اور اس سلسلے میں عمومی بیعت لی گئی۔ولایت کے غاصبوں پر لعنت ملامت ھوئی اور امامت و رھبری کے تعیّن اور مسلمانوں کی قیامت تک کے لیے بیعت عام نے راہ رسالت کو دو ا م بخشا ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تربیت اور تربیت کا مفہوم
قرآن ہدایت دینے والی کتاب
مکروفریب
قرآنِ کریم: جاوداں الٰہی معجزہ
انتظار احادیث کی روشنی میں
اسلام میل جول اور تعلقات کا دین ہے
شعب ابی طالب سے غزہ تک
آخري سفير حق و حقيقت
نماز کی فضیلت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ...
غیب پر ایمان

 
user comment