مسلمانوںکے درمیان ،جنگ صفین سے پھلے اور اس کے بعد بہت سے ایسے بنیادی مسائل تھے کہ جن کے حل کا ایک طریقہ ایسے فیصلہ کرنے والوں کا انتخاب کرنا تھا جوحقیقت بینی کے ساتھ مسائل کی دقیق اور بہترین تحقیق کریں اور پھر ان کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کریں۔ وہ مسائل یہ تھے:
۱۔ عثمان کا قتل ۔
۲۔ امام کے دوستوں پر خلیفہ کے قتل کا الزام ۔
۳۔ معاویہ کا دعویٰ کہ وہ عثمان کے خون کا ولی ھے ۔
بنیادی طور پر یھی مسائل تھے جس کی بنا پرجنگ صفین ھوئی اور ان مشکلوں کے حل کے لئے دو راستے تھے: پھلاراستہ یہ کہ دونوں فریق اپنے اختلافی مسائل کو مہاجرین اور انصار کے ذریعہ چنے ھوئے امام کے پاس پیش کریں اور وہ ایک آزاد شرعی عدالت میں خداکے حکم کو ان کے بارے میں جاری کریں اور یہ وھی راہ تھی جس کے بارے میں امام علیہ السلام نے صفین سے پھلے تاکید کی تھی اور اپنے خط میں معاویہ کو لکھا تھا: ” قد اکثرت فی قتلة عثمان فادخل فیمادخلَ فیہ النّاسُ ثمّ حاکمَ القومَ الیّ اٴن احملک وایّا ھم علی کتابِ اللّٰہ “[1]اور تم نے عثمان کے قاتلوں کا باربار ذکر کیا ھے اور جس دائرہ اطاعت میں لوگ داخل ھوچکے ھیں تم بھی (بیعت کرکے) داخل ھوجاوٴ پھر میری عدالت میں ان لوگوں کا مقدمہ پیش کرو تاکہ میں کتاب خدا کے مطابق تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کروں۔
دوسراراستہ یہ ھے کہ ان لوگوں کو ایک صلح پسند عدالت میں بھیج دیا جائے تاکہ وہاں منصف مزاج اورحقیقت پسند قاضی مشکل کا حل تلاش کرےں اور فیصلہ کرتے وقت اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی اور واقعی مصلحتوں سے چشم پوشی نہ کریں اور عمروعاص جیسے لوگوں کی ہر طرح کی بن الوقتی اور مفاد پرستی سےاور ابو موسیٰ جیسے لوگوں کے کینہ وبغض سے دو رھوں ، ایسی عدالت میں امام علیہ السلام اپنے حقیقی مقصد تک پھونچ سکتے تھے اور مشکلات کا حل وفیصلہ کرسکتے تھے۔
خلیفہ کا قتل بہت پیچیدہ مسئلہ نہ تھا ۔ اس کے عوامل و اسباب کئی سالوں پھلے سے وجود میں آ چکے تھے اور روز بروز بڑھتے ھی جا رھے تھے یہاں تک کہ دباؤ اور گھٹن کی شدت صالحین پر ظلم وستم اورمصلحین پر سختی و شکنجہ دھماکے (قت ) کا سبب بن گیا یہ ایسا دھماکاتھا جسے علی علیہ السلام بھی روک نھیں سکے اور خلیفہ کو قتل سے بچانھیں سکے۔
معاویہ اورمقتول خلیفہ کے ھواخواھوں کے دعوے کے لئے ضروری تھا کہ اُسے شرعی عدالت میں
پیش کیا جاتا اورحق وباطل میں تمیز پیدا کی جاتی ۔ دنیا کی کسی بھی جگہ مقتول کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لشکر کشی جائز نھیں سمجھی جاتی،تو پھر تقریباً ۶۵ ہزار انسانوں کے قتل کا جواز کیے ھو سکتا ھے ؟
” دومة الجندل “ کی عدالت میں اگرصحیح طریقہ سے فیصلہ ھوتا تو ان تمام مسائل کی صحیح چھان بین ھوتی اور مسلمانوں کا وظیفہ ان واقعات کے بارے میں واضح ھوجاتا۔ مگر افسوس ، اس عدالت میں جس چیز کے بارے میں بحث نھیں ھوئی وہ اختلاف کی جڑیں اور بنیادیں تھیں۔ عمروعاص اپنے رقیب ( ابوموسیٰ) کی عقل و رائے کو سلب کرنے کی فکر میں تھا تاکہ امام علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے کے لئے اس کو راضی کرلے اورمعاویہ کی خلافت نافذ کر دے اور ابوموسیٰ اس فکر میں تھا کہ اپنے ھمفکروھم خیال عبداللہ بن عمر کو خلافت تک پھونچادے کیونکہ اس کا ہاتھ دونوں طرف میں سے کسی ایک کے خون سے آلودہ نہ ھوا تھا ۔ جب عدالت کے نظریہ کا اعلان ھوا تو علی علیہ السلام نے اسے قانونی و اصولی طور پر قبول نہ کیا اورفرمایا: فیصلہ کرنے والوں نے اپنے عہد وپیمان کے خلاف عمل کیا ھے اور ارادہ کیا کہ اپنی فوج کو منظم کر کے معاویہ سے جنگ کنے کو روانہ ھوںلیکن خوارج کے حادثہ نے معاویہ کا پیچھا کرنے سے روک دیا۔
خوارج کے ساتھ امام علیہ السلام کا برتاؤ بہت ھی نرم اورلطف و مہربانی سے پُر تھا اور آپ جب بھی ان کو خطاب کرتے تھے تو صرف محبت ، نصیحت اور ہدایت وراہنمائی کرتے تھے اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز آپ سے نھیں سنی گئی ، حضرت نے بالکل اس باپ کے مثل جو چاہتا ھے کہ اپنے عاق اور سرکش بیٹے کوصحیح راستے پر لائے ان لوگوں سے برتاؤ کرتے تھے،ان کے حقوق کوبیت المال سے ادا کرتے تھے ، مسجد اور اس کے اطراف میں ان کے ظلم وستم اورشوروغل کرتے تھے، پرواہ نہ کی اور آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ اس گروہ کو مسخّر اور قابو میں کر کے معاشرے میں اتحاد کوواپس لے آئیں اور شام کے سرطانی غدّہ کو جڑ سے ختم کردیںکیونکہ خوارج بھی اسی کی پیداوار تھے ، اور صفین کا عہد وپیمان بھی امام علیہ السلام کو یہ حق دے رہا تھا کیونکہ عہدنامہ کی عبارت میں یہ بات لکھی گئی تھی کہ اگر حکمین نے قرآن وسنت کے برخلاف فیصلہ کیا تو امام علیہ السلام اپنے پھلے اصل منصب پر باقی رھیں گے۔[2]
اما م علیہ السلام نے لوگوں کو یہ بات واضح کرنے کے لئے بہت سی تقریر یں کیں کہ معاویہ سے دوبارہ جنگ صفین کے عہد نامہ کی خلاف ورزی نھیں ھے بلکہ اس کے مطابق تو جنگ دوبارہ ھونا چاھیے تاکہ دشمن کا خاتمہ ھوجائے ۔ آپ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ھیں :” وقد سبق استثناوٴنا علیھما فی الحکم بالعدل والعمل بالحقّ سوء راٴیھماوجور حکمھما ، والثّقةُ فی ایدینا بانفسنا حین خالفا سبیل الحق وآتیٰا بما لایعرف من معکوس الحکمِ “[3]،ھم نے تو ان کی غلط رائے اور ناروا فیصلوں سے پھلے ھی ان سے شرط کرلی تھی کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق پر قائم رہنے میں بدنیتی اور ناانصافی کو دخل نہ دیں گے ، اب جب کہ انھوں نے راہ حق سے انحراف کیاھے اور طے شدہ قرار داد کے برعکس حکم لگایا ھے تو ھمارے ہاتھ میں ان کا فیصلہ ٹھکرادینے کے لئے ایک مستحکم دلیل اور معقول وجہ موجود ھے۔
امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کی نظر میں شجرہ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور فساد کے غدہ کو نکال باہر کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا او ر ان لوگوں کی پوری سعی وکوشش یھی تھی لیکن اچانک تاریخ نے ورق پلٹا اور یہ واقعہ اس فکرونظر کے برخلاف ھوگیا اور معاویہ سے جنگ کے بجائے، خوارج سے جنگ ایک قطعی مسئلہ کی صورت میں چھڑ گئی، اب اس وقت دیکھنا یہ ھے کہ آخر کون سی چیز سبب بنی کہ امام علیہالسلام کے صبروتحمل کا جام لبریز ھوگیا اورآپ کو ان لوگوں سے جنگ کرنے پر مجبور کردیا۔ اس مسئلہ کی علت کو دومندرجہ ذیل باتوں سے معلوم کرسکتے ھیں :
۱۔ خبر ملی کی خوارج عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ھوئے ھیں اور امربالمعروف اور نھی عن المنکر کے عنوان سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ھیں اور اسی مقصد کے لئے بصرہ میں موجود اپنے ھمفکروں کو خط لکھا ھے اور ان لوگوں کو دعوت دی ھے کہ جتنی جلدی ممکن ھو خوارج کی چھاوٴنی ” خیبر“ کے پاس نہروان پھونچ جائیں ، بصرہ کے خوارج نے بھی اپنی آمادگی کا اعلان کردیاھے۔[4]
۲۔دومة الجندل کے قاضیوں کے فیصلے نے ، کہ جس میںنہایت بے حیائی سے امام علیہ السلام کو ان کے منصب سے معزول اور معاویہ کو ان کی جگہ پر منصوب کیا گیا تھا، امام علیہ السلام کوعمومی افکار کے واضح کرنے پر مجبورکیا۔ یھی وجہ ھے کہ امام علیہ السلام کوفہ کے منبر پر تشریف لائے اور خدا کی حمدو ثنا کے بعد فرمایا:” نیک، خیرخواہ اورصاحب علم وبصیرت شخص کی مخالفت حسرت وشرمندگی کاسبب ھے ، میں مسئلہ حکمیت اور ان دونوں آدمیوں کی قضاوت کے بارے میں منفی نظریہ رکھتا تھا لیکن تم لوگوں نے میرے نظریہ کو قبول نھیں کیا اور ان دونوں کو حاکمیت کے لئے معین کر دیا اور ان لوگوں نے اپنے عہد وپیمان کے برخلاف جس چیز کو قرآن نے مردہ کیا تھا اسے زندہ کردیا اور جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا تھا اسے مردہ کردیا اور اپنے خواہشات نفس کی پیروی کی اور بغیر دلیل اور حجت کے حکم جاری کردیا ، اسی وجہ سے خدا وپیغمبر اور مومنین ان دونوں قاضیوں سے بری ء الذمہ ھیں ،جہاد کے لئے آمادہ اور شام چلنے کے لئے تیار ھوجاوٴ ، اور دوشنبہ کے دن نخیلہ کی چھاوٴنی کے پاس جمع ھوجاوٴ، خدا کی قسم ! میں اس گروہ (شامیوں ) سے جنگ کروں گا ، اگرچہ ھمارے لشکر میں میرے علاوہ کوئی بھی باقی نہ رھے“۔
۳۔ امام علیہ السلام نے سوچا کہ جتنی جلدی ممکن ھو کوفہ چھوڑ کر صفین پھونچ جائیں ، آپ کے بعض دوستوں نے آپ سے کہا کہ بہتر ھے کہ خوارج جو ھمارے راستے سے دور ھوگئے ھیں انھیں بھی جنگ میں شریک ھونے کے لئے دعوت دیں ، اس وجہ سے امام علیہ السلام نے خوارج کے سرداروں کے پاس خط لکھا اور یاد دہانی کی کہ عمروعاص اورابوموسیٰ نے گناہ کیا ھے اور کتاب خدا کی مخالفت کی ھے اور اپنے خواہشات کی پیروی کی ھے نہ سنت پر عمل کیا ھے اور نہ ھی قرآن پر ، خدا اور اس کا رسول اور مومنین ان کے کرتوت سے بری ء الذمہ ھیں ، جب میرا خط تمہارے پاس پھونچے تو میری طرف آنے میں جلدی کرو تاکہ مشترک دشمن سے جنگ کرنے کے لئے ایک ساتھ چلیں ۔
۴۔ امام علیہ السلام کا خط خوارج کے لئے ذرہ برابر بھی موٴثر ثابت نہ ھواان لوگوں نے حضرت کی درخواست کو رد کردیا۔ اس وجہ سے امام علیہ السلام ان لوگوں سے مایوس ھوگئے اور ارادہ کیا کہ ان لوگوں کا انتظار نہ کریں اور جتنے سپاھی موجود ھیں یا آنے والے ھیں ان کے ساتھ صفین کی طرف جائیں، پھر آپ نے بصرہ کے حاکم ابن عباس کے پاس خط لکھا اور ان سے مدد طلب کی، جب امام علیہ السلام کا خط بصرہ کے حاکم کے پاس پھونچا تو انھوں نے لوگوں کے درمیان اس خط کو پڑھ کر سنایا مگر افسوس کہ صرف پندرہ سو آدمیوں نے اخنف بن قیس کی سرداری میں امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کھی۔ ابن عباس فوج کی اقلیت پر بہت رنجیدہ ھوئے اور لوگوں کے مجمع میں بہترین تقریر کی اور کہا: ” امیر المومنین علیہ السلام کا خط میرے پاس آیا ھے اور اس میں مجھے حکم دیا ھے کہ لوگوں کو میرے پاس جنگ میں شرکت کرنے کے لئے روانہ کرو لیکن صرف پندرہ سو (۱۵۰۰) لوگ جہاد کے لئے آمادہ ھیں جب کہ سرکاری رجسٹر میں ساٹھ ہزار آدمی کا نام درج ھے ۔جلدسے جلد روانہ ھوجاوٴ اور عذر اور بہانہ سے پرھیز کرو اور جو شخص بھی اپنے امام کی دعوت کی مخالفت کرے گا بہت زیادہ شرمندہ ھوگا ۔ میں نے ابوالاسود کو حکم دیا ھے کہ تم لوگوں کی روانگی کا پروگرام ترتیب دیں۔
ابوالاسود اور دوسرے افراد کی تمام تر کوششوں کے باوجود صرف اٹھارہ سو (۱۸۰۰) لوگ پھلے گروہ سے ملحق ھوئے اور بالآخر تین ہزار دوسو (۳۳۰۰) افراد پر مشتمل ایک لشکر کوفہ کے لئے روانہ ھوا ، امام علیہ السلام بصرہ کی فوج کی کمی پر بے حد رنجیدہ ھوئے اور کوفہ کے لوگوں کے درمیان آپ تقریر کرنے کے لئے اٹھے اور ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہا:اے کوفہ کے لوگو! تم لوگ حق کے امور میں میرے بھائی اور میرے دوست ھو میں تم لوگوں کی مدد سے ،جوحق سے منھ موڑے گا اسے سرنگوں کردوں گا۔ مجھے امید ھے کہ تم لوگ اس راہ میں حق کے پاسدار اور ثابت قدم رھو گے ، تمھیں معلوم ھونا چاھیے کہ بصرہ سے صرف تین ہزار دوسو لوگ ھمارے پاس آئے ھیں۔ تم لوگوں پر لازم ھے کہ خلوص کے ساتھ اوردھوکہ ، فریب و خیانت سے دور رہ کر میری مدد کرو، اور قبیلے کے بزرگ اور سردار اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کو خط لکھیںاور ان سے کھیں کہ جو لوگ جنگ کرنے کی طاقت رکھتے ھیں وہ اس جنگ میں شرکت کریں ۔
بڑی شخصیتیں مثلاً سعد بن قیس ھمدانی ، عدی بن حاتم ، حجر بن عدی اور قبیلوں کے بزرگ افراد نے امام کے فرمان کو دل وجان سے قبول کیا اور اپنے اپنے قبیلوں کو خط لکھا ، اور اس طرح چالیس ہزار (۰۰۰،۴۰) بہادر جنگجو اور سترہ ہزار (۱۷۰۰۰) نوجوان اور آٹھ ہزار (۸۰۰۰) غلام کوفہ میں داخل ھوئے اور بصرہ کا لشکر بھی اسی میں شامل ھوگیا اور ایک قابل دید اور دشمن شکن لشکر امام علیہ السلام کے پرچم تلے جمع ھوگیا۔
کچھ لوگوں نے امام علیہ السلام سے بہت زیادہ اصرار کیا کہ معاویہ سے جنگ کرنے سے پھلے خوارج کے معاملے کو ختم کردیں ، لیکن امام علیہ السلام نے ان کی درخواست پر توجہ نہ دی اور فرمایا: ان لوگوں کو چھوڑ دو اورایسے گروہ کی طرف چلو جو چاہتے ھیں کہ زمین پر ستمگروں کے بادشاہ رھیں ، اور مومنین کو اپنا غلام بنائیں ، اس وقت فوج کے ہر گوشہ سے آواز بلند ھوئی اور لوگوں نے امام سے کہا :آپ جہاں بھی مصلحت سمجھیں ھمیں بھیج دیں کیونکہ ھم سب کا دل ایک آدمی کے دل کی طرح ھے اور آپ کی نصرت و مدد کے لئے تڑپ رہا ھے۔
۵۔ایسے حساس حالات میں خبر پھونچی کہ خوارج نے عبداللہ بن خباب کو نہر کے کنارے بھیڑ کی طرح ذبح کردیا ھے اور صرف اتنے ھی پر اکتفا نھیں کیا ھے بلکہ ان کی بیوی کوبھی قتل کردیا ھے اور ان کے شکم سے بچہ نکال کر اسے بھی ذبح کردیا ھے۔
ابن قتیبہ ” الامامة والسیاسة “ میں اس بارے میں لکھتے ھیں :جب خوارج عبداللہ کے سامنے آئے تو ان سے کہا: تم کون ھو؟ انھوں نے کہا خدا کا مومن بندہ ھوں۔ ان لوگوں نے کہا: علی کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ھے ؟ انھوں نے کہا: وہ امیرالمومنین اور خدا اوراس کے رسول پر سب سے پھلے ایمان لانے والے ھیں ۔ ان لوگوں نے کہا: تمہارا نام کیا ھے ؟ انھوں نے کہا ، عبداللہ بن خباب بن الارّت ۔ ان لوگوں نے کہا: تمہارا باپ پیغمبر کا صحابی ھے ؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ ان لوگوں نے کہا: ھم نے تمھیں ناراض کیا ھے ؟ کہا : ہاں ان لوگوں نے کہا۔ وہ حدیث جو کہ تم نے اپنے باپ سے اور انھوں نے پیغمبر سے سنی ھے ھمارے لئے نقل کرو ۔ انھوں نے کہا: میرے باپ نے نقل کیا ھے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایاھے:” میرے بعد ایسا فتنہ برپا ھوگا کہ مومن کا دل اس میں مرجائے گا ، رات کو باایمان سوئے گا اور دن میں کافر ھوجائے گا “۔ان لوگوں نے کہا :ھم لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ یہ حدیث تم سے سنیں قسم ھے تمھیں اس طرح قتل کریں گے کہ آج تک اس طرح کسی کو قتل نھیں کیا ھے اور پھر فوراً ھی ان کے ہاتھ پیر باندھ دیئے اورانھیںان کی حاملہ بیوی کے ساتھ کھجور کے درخت کے پاس لائے ۔اس وقت ایک کھجور پیڑ سے گری اور خوارج میں سے ایک شخص نے اُسے منھ میں رکھ لیا فوراً ھی اس کے ھم خیالوں نے اعتراض کیاکہ لوگوں کے مال کو بغیر اجازت یا بغیر قیمت دیئے ھوئے کھارھے ھو؟ اس نے فوراً کھجور منھ سے نکال دی اور پھینک دیا! اور اسی طرح ایک عیسائی کا سور وہاں سے گزررہا تھا جو کسی خوارج کے تیر سے اس وقت دوسروں نے اعتراض کیا کہ تمہار ایہ کام زمین پر فساد کرنا ھے لہٰذا اس کے مالک سے لوگوںنے رضایت طلب کی ۔پھر عبداللہ کو جنھیں باندھ رکھا تھا نہر کے کنارے لائے اور بھیڑ کی طرح ذبح کردیا اور صرف اسی پر اکتفاء نھیں کیا بلکہ ان کی بیوی کوبھی قتل کردیا اور ان کے شکم کو چاک کرکے بچے کے سر کو بھی کاٹ دیا ، اور پھر بھی اتنے ھی پر اکتفاء نھیں کیا بلکہ تین اور دوسری عورتوں کو بھی قتل کردیا جن میں سے ایک صحابیہ تھیں جن کا نام ام ّ سنان تھا۔[5]
خباب بن الارّت ، عبداللہ کے والد ، اسلام کے سابقین میں سے تھے اور قریش کے شکنجوں کے نشانات ان کے بدن پرآخر وقت تک موجودتھے۔ وہ امام علیہ السلام کے صفین سے کوفہ پھونچنے سے پھلے ھی انتقال کرگئے اورامام علیہ السلام صفین سے آنے کے بعد ان کی قبر پر گئے اور ان کے رحمت کی اور تعریف کی۔
مبرّدنے اپنی کتاب ” کامل “ میں عبداللہ کے دردناک قتل کا تذکرہ کرتے ھوئے لکھا ھے کہ جب قاتل نے انھیں پکڑا تو عبداللہ نے کہا : میں تم سے درخواست کرتاھوں کہ جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا ھے اسے زندہ کرو اور جس چیز کو مردہ کیاھے اسے ماردو، پھر عبداللہ کی روایت ان کے والد کے واسطے پیغمبر سے نقل کرنے کے بعدمبرد لکھتے ھیں:خوارج نے کھجور کے مالک سے درخواست کی کہ اس کی قیمت لے لے، اس نے کہا کہ میں نے اس پیڑ کی کھجور کے استعمال کو تم لوگوں کے لئے بخش دیاھے لیکن ان لوگوں نے قبول نھیں کیا اورکہا کہ تم کو اس کی قیمت لینا پڑے گی ، اس وقت ایک عیسائی نے فریاد بلند کی کہ تم لوگ ایک مسلمان کا خون بہانے سے نھیںڈرتے لیکن ایک پھل کھانے سے پرھیز کرتے ھو جب کہ اس کے مالک نے رضایت بھی دیدی ھے ؟! [6]
۶۔ امیرالمومنین علیہ السلام جب عبداللہ کے قتل سے باخبر ھوئے تو حارث بن مرّہ کو خوارج
کی چھاوٴنی بھیجا تاکہ واقعہ کی حقیقت معلوم کریں جب حارث ان کے پاس پھونچے تاکہ واقعہ کا صحیح پتہ لگائیں تو ان لوگوں نے تمام اسلامی اورانسانی اصولوں کے برخلاف انھیں قتل کردیا۔ امام علیہ السلام پر سفیر کے قتل ھونے کی وجہ سے بہت اثرھوا ۔اس موقع پر کچھ لوگ امام علیہ السلام کے پاس پھونچے اور کہا : کیا یہ صحیح ھے کہ ایسے خطروں کے باوجود ھم شام جائیں اور اپنے بچوں اور عورتوں کو ان کے پاس چھوڑدیں؟
[1] نہج البلاغہ مکتوب نمبر۶۴
[2] عہد نامہ کی عبارت یہ تھی : وان کتاب اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ بیننا عن فاتحتہ الیٰ خاتمتہ ، نحیی ما احیی القرآن ونمیت مااٴمات القرآن ۔ فان وجد الحکمان ذالک فی کتاب اللّٰہ اتبعناہ وان لم یجداہ اخذا بالسنة العادلة وغیر المفرقة۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ص۲۳۴
[3] نہج البلاغہ (عبدہ) خطبہ ۱۷۲
[4] الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۳۲
[5] الامامة والسیاسة: ص۱۳۶۔
[6] الکامل: ص ۵۶۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۲، ص۲۸۲۔