پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے ۖ فرماتے ہیں جب معاشرے میں بدعتیں آشکار ہوجائیں تو اس وقت ضروری ہے کہ علما اپنی عالمانہ روشوں اور روشن خیالی کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں.
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے ۖ فرماتے ہیں جب معاشرے میں بدعتیں آشکار ہوجائیں تو اس وقت ضروری ہے کہ علما اپنی عالمانہ روشوں اور روشن خیالی کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں ۔ ابن تیمیہ اور اس کے بعد محمد بن عبدالوہاب کے انحرافی نظریات وجود میں آنے کے بعد علماء دین نے ان بدعتوں کے خلاف خاموشی اختیار نہیں کی ۔ انہوں نے مراسلوں ، گفتگو اور اپنی کتابوں کے ذریعے وہابیت کے منحرف عقائد پر تنقید کی ۔ اہل سنت کے مشہور دانشور اور اپنے زمانے کی ممتاز شخصیت شمس الدین ذھبی نے ابن تیمیہ کےنظریوں کے بارےمیں بہت زیادہ تنقید کی ہے ۔ اہل سنت کے ایک بزرگ عالم امام سبکی نے بھی ابن تیمیہ کے منحرف عقائد اوربدعتوں کے مقابلے میں ، جو اس نے دین میں ایجاد کی ہیں ، خاموشی اختیار نہیں کی ۔ سبکی ابن تیمیہ کے بارےمیں کہتے ہيں اس نے کتاب و سنت کی اتباع کی آڑ میں اسلامی عقائد میں بدعت قائم کی اور ارکان اسلام کو درھم برھم کردیا ۔عصر حاضر کے علماء کرام نے بھی سلفیوں کے باطل عقائد اور بدعتوں کے مقابلے میں مقاومت کی اوران کے عقائد پر کڑی تنقید کی ہے ۔ آیۃ اللہ جعفر سبحانی اسلام کے وہ ممتاز عالم اورمحقق ہیں جنہوں نے سلفیوں کے عقائد پر تنقید کرتے ہوئے کئی سوال اٹھائے ہيں ۔ اس پروگرام میں ہم اس مسلمان دانشور کے سوالات اور تنقیدوں کاجائزہ لیں گے ۔سلفیوں کے عقائد کی اساس اور بنیاد ، فکر و عمل میں صحابہ اور تابعین کے تابع ہے ۔ سلفیوں کا کہنا ہے کہ تمام امور میں سلف صالح کی روش کی پیروی کی جائے ۔ اب وہابیت کے سرکردہ افراد سے یہ سوال ہے کہ وہ بتائیں کہ سلف صالح کون ہے ؟ اور ان کی کیا خصوصیات ہیں ؟ سلفیوں نے غیر سلف صالح سے سلف صالح کی شناخت کے لئے کوئی معیار پیش نہیں کیا ہے بلکہ وہ تین ابتدائی اسلامی صدیوں کے دوران کے ، تمام صحابہ اور تابعین کو سلف صالح قرار دیتے ہیں ۔ اسلام کی تین ابتدائی صدیوں میں اہم ترین اسلامی واقعات رونما ہوئے اوربہت سے صحابہ اور تابعین مختلف فرقوں اور گروہوں میں شامل ہوگئے ۔ آیۃاللہ سبحانی سلفیوں سے یہ سوال پوچھتے ہيں کہ کیا وہ اموی حکام جنہوں نے اہل بیت پیغمبر اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کاخون بہایا وہ بھی سلف صالح ميں شمار ہوتے ہیں ؟ کیا بنی عباس کے خلفاء کہ جن میں سے پہلےکو سفاح یا خونریز کا لقب ملا وہ بھی سلف صالح ميں سے ہے ؟ وہابیوں کے بزرگ علماء ایسے اہم سوالوں کا جواب دیئے بغیر اسے نظر انداز کردیتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو بھی تاریخی واقعات میں تحقیق اور جستجو کی اجازت نہیں دیتے ۔ آيۃ اللہ سبحانی اسی سلسلے ميں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں اگر سلفی گروہ ، تمام صحابہ اورتابعین کے رفتار و کردار کو اپنے عمل کا معیار قرار دے اورسب کو سلف صالح سمجھنے لگے تو پھر خلیفۂ سوم کے قتل کی توجیہ وہ کس طرح کرے گا ؟ کیوں کہ خلیفۂ سوم خود صحابی تھے اور ان کے قاتل بھی صحابہ اور تابعین ميں سے تھے ۔ سلفیوں نے اس سوال کے جواب ميں بھی خاموشی اختیار کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ہميں اس زمانے ميں رونما ہونے والے واقعات کے بارےمیں کچھ نہیں کہنا چاہیئے ۔ وہ اپنا دین ، صحابہ اورتابعین سے لیتے ہيں لیکن ان میں سے ناشائستہ رویوں کے بارے ميں ایک گروہ خاموشی اختیار کرتا ہے اور باطل کی اندھی تقلید کرتا ہے ۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ قرآن نے ماضی کے واقعات سے عبرت حاصل کرنے اور غور و فکر کرنے کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی ہے اور قرآن کو ، غلط راہ سے صحیح راہ کی شناخت کے لئے چراغ راہ متعا رف کرایا ہے ۔دین اسلام کی اہم ترین اور نمایاں خصوصیات میں سے ایک ، اس کے احکام کامتنوع اور جامع ہوناہے ۔ اس آسمانی دین کےاحکام ثابت اور متغیر دونوں ہیں ۔ یہ اس لئے ہے تاکہ اسلام مختلف حالات اور زمانے کے اعتبار سے اپنے پیروکاروں کے لئے جواب گو ہو سکے ۔ احکام متغیر ، مجتھدین اور بزرگ علماءکے توسط سے جاری ہوتے ہيں اور صرف وہی اجتہاد کی قوت رکھتے ہيں ۔ مجتہدین ، مسلمانوں کی فقہی ضروریات کا جواب ، جدید اور اپنے راہگشا فتووں کے ذریعے دیتے ہیں اس بناء پر اجتہاد کی قوت نے دین اسلام کو ایک متحرک اور مکمل دین ميں تبدیل کردیا ہے ۔ عصر حاضر میں ایسے نئے نئے انکشافات اورایجادات کا ظہور ہواہے کہ جن میں سے بعض کے استعمال کے لئے مجتہدین کی اجازت کی ضرورت ہے ۔مثال کے طور پر " ٹیسٹ ٹیوب بے بی " ان جدید مسائل میں سے ہے کہ بہت سے مسلمان اس کےحرام و حلال کےبارے میں نہيں جانتے تھے لیکن آیۃ اللہ مکارم شیرازی جیسے جید مسلم علما نے اس کےبارے میں فقہی حکم جاری کیا ہے اور حالات کے تحت ٹیسٹ ٹیوب کو حلال قرار دیا ہے ۔ اس حکم شرعی نے مسلمانوں کی شایان شان مدد کی تاکہ آسانی سے علمی پیشرفت سے استفادہ کریں اور اس سے بہرہ مند ہوں ۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ سلفی گروہ ، اسلامی فقہ پر اعتقاد نہيں رکھتا اور بدستور اپنے غلط نظریے یعنی تمام مسائل ميں سلف صالح کی پیروی پر تاکید کرتا ہے ۔ اس جاہلانہ نقطۂ نگاہ نے وہابیوں کو علمی اور جدید پیشرفتوں سے محروم کررکھاہے ۔ آیۃاللہ سبحانی سلفیوں سے یہ سوال کرتےہيں " کہ کس طرح سے تمہارے نظریے کو کافی سمجھا جاسکتا ہے جبکہ عقائد اور احکام کے میدان میں ایسے ہزاروں مسائل ہیں جن کے لئے جواب کی ضرورت ہے ؟ غورطلب بات یہ ہے کہ سلفیوں کے کوتاہ نظر علما کچھ عرصہ قبل تک موبائل سے استفادے کو بھی حرام قرار دیتے تھے ۔ وہابی گروہ ، اپنے وجود میں آنے کے وقت سے ہی مسلمانوں کے عقائد کی جستجو کے ساتھ ہی ان پر آسانی سے کفر وشرک کا الزام عائد کرتا اور مسلمانوں کی جان و مال اور ان کی ناموس کو اپنے لئے حلال قرار دیتا ہے ۔ جو سلف صالح کی پیروی کے مدعی ہیں وہ عقائد کی جستجو ميں اپنے اسلاف کی پیروی نہیں کرتے ۔ آیۃاللہ سبحانی معتقد ہیں کہ سلف ہونے کی روش یہ تھی کہ جو بھی کلمہ پڑھ لیتا تھا اسے مسلمان سمجھاجاتا تھااور کبھی لوگوں کے دل ميں جھانک کر ان کے عقائد کا پتہ نہیں لگایا جاتا تھا " رسول خدا ۖ کی روش ميں عقائد کی چھان بین کرنا اور دلوں کے اندر کے حالات اور ان کی نیتوں سے مطلع ہونا نہیں تھا۔ جس وقت پیغمبر کے ایک صحابی خالد بن ولید نے کہا کہ " بہت سے نمازی زبان پر ایسی باتیں لاتے ہیں جنہیں وہ دل سے قبول نہیں کرتے ہيں تو پیغمبرۖ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں ہرگز ، لوگوں کے دلوں میں کیا ہے یہ جاننے اور ان کے دلوں میں جھانکنے کے لئے مبعوث نہیں کیا گیا ہوں ۔اس روایت کے مطابق پیغمبر اسلام ۖ ہر قسم کے عقائد کی چھان بین کے مخالف تھے ۔ بعثت پیغمبر ۖ کی ابتدائی صدی ميں ، سوائے " خوارج " کے کوئی اور گروہ اہل تکفیر تھا ہی نہیں کہ جس کے انحرافی افکار کو وہابی ، صحابہ اور تابعین یا سلف صالح سے موسوم روش سے نسبت دیں ۔اس وقت سلفی گروہ ، جو سلف صالح کی پیروی کا دعوی کررہا ہے، صرف مسلمانوں کو کافر کہتا ہے یا دھماکوں اور دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے ان کا قتل عام کررہا ہے ۔ اس وقت تکفیر کی لہر سے ، جو سلفی گروہوں کی جانب سے چل پڑی ہے ، دو جہت سے مسلمانوں کونقصان پہنچارہی ہے ۔ ایک طرف تو وہ اسلامی ملکوں میں مداخلت کےلئے صہیونزم اور ان کے مغربی حامیوں کی خدمت کے آلۂ کار میں تبدیل ہوگئے ہیں تو دوسری طرف سلفی گروہ اسلام کی انصاف پسندانہ ، انسان ساز اور حریت پسندانہ تعلیمات سے غلط فائدہ اٹھا کر خوفناک اقدامات انجام دے رہے ہيں جس نے عالمی رائےعامہ کی نظرميں اسلام کے چہرے کو مخدوش بنا دیا ہے اور وہ دین اسلام کی ، ایک تشدد پسند دین کے طورپر شہرت حاصل کرنےکا باعث بنے ہیں ۔اس جہت سے بھی وہ اسلام کا چہرہ مخدوش کرنے کے لئے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خدمت کررہے ہيں ۔ سلفیوں کے مہمل عقائد پر جو ایک اور اعتراض وارد ہوتا ہے وہ فکری جمود اور ان کا متحجر ہونا ہے ۔ یہ فکری جمود ، عقل و منطق اور استدلال کی قوت کو بالائے طاق رکھنے کےسبب ہے ۔ پیغمبر اسلام ۖ نے ریسمان ہدایت ، کتاب و سنت کی پیروی میں قرار دیا ہے۔ اسلامی احادیث میں ، خداوند عالم کی خلقت میں ایک ساعت، غورو فکرکو ستر سال کی عبادت کے برابر ذکر کيا گیا ہے ۔ قرآن میں 49 مرتبہ عقل کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ خداوند عالم کی شناخت ، نعمتوں اور خلقت ميں غوورفکر سے حاصل ہوتی ہے اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ باب عقل کو بند کردیا جائے اور اس پر مضبوط تالا چڑھا دیاجائے جیسا کہ سلفیوں نے کیا ہے ۔ پیغمبر اکرم کے بزرگ اصحاب آيات وحی میں غورو فکر کرتے تھے اور اس آسمانی دین کو تسلیم کرکے اس کی تبلیغ کا کام انجام دیتے تھے ۔ پس یہ کسیے ممکن ہےکہ سلفی عقل سے بہرہ مند ہونے کو " عقلیون" یا فلاسفہ کا کام قرار دیں اسی لئے وہ معتقد ہیں کہ "عقلیون" کی مسلمانوں کے درمیان کوئی جگہ نہیں ہے ۔ آیۃاللہ سبحانی کا یہ نظریہ ہے کہ سلفیہ اس مسئلے پر توجہ نہيں دیتے کہ عقل و خرد کو بالائے طاق رکھنا اس امر کا سبب بنے گا کہ دین کی بنیاد متزلزل ہوجائے ۔ کیوں کہ دین کی بنیاد کہ جو خدا و انبیاء اور آخری پیغمبر کی شناخت ہے غورو فکر سے حاصل ہوتی ہے۔ فوجی روشوں میں سلف صالح کی روش عوام کے ساتھ محبت اور نرمی کے ساتھ پیش آنا تھا ۔ اسلام کی کامیابی اور اس کے تیزی سے فروغ کو بھی بعض عظیم اصحاب پیغمبر اور حقیقی تابعین کے بہترین رویوں کا مرہون منت سمجھنا چاہيئے ۔ اس لئے کہ وہی تھے جنہوں نے اسلام ومسلمین کی عزت و کرامت اور اپنی وسیع کوششوں کے ذریعے اسلام کو فروغ دیا ۔لیکن بعض کج فکر اور سلفی گروہوں کی جانب سے اسلامی تعلیمات سے غلط اور انحرافی نتیجہ اخذ کرنے سے گذشتہ ایک دہائی میں القاعدہ جیسے گروہ وجود میں آئے جو نہ صرف یہ کہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے باعث عزت و آبرو نہیں ہیں بلکہ آئے دن کفار کے دام میں گرفتار اور مزید شکست اور نقصان سے دوچار ہیں ۔
source : www.abna.ir