امام عليہ السلام نے مختلف حکاّم دنيا کے دور ميں زندگي بسر کي آپ کا دور حالات کے اعتبار سے نہايت مصائب اور شديد مشکلات اور خفقان کا دور تھا ہرآنے والے بادشاہ کي امام پر سخت نظر تھي ليکن يہ آپ کا کمالِ امامت تھا کہ آپ انبوہ مصائب کے دورميں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم وہدايت عطافرماتے رہے، ایسے ناسازگار حالات ميں آپ نے اس دانشگاہ کي جوآپ کے پدر بزرگوارکي قائم کردہ تھي پاسداري اور حفاظت فرمائي آپ کا مقصد امت کي ہدايت اور نشرعلوم آل محمد تھا جس کي آپ نے قدم قدم پر ترويج کي اور حکومت وقت تو بہرحال امامت کي محتاج ہے -
چنانچہ تاريخ ميں ملتا ہے کہ ايک مرتبہ مہدي جو اپنے زمانے کا حاکم تھا مدينہ آيا اور امام مو سيٰ کاظم سے مسلۂ تحريم شراب پر بحث کرنے لگا وہ اپنے ذہنِ ناقص ميں خيال کرتا تھا کہ معاذاللہ اس طرح امام کي رسوائي کي جائے ليکن شايد وہ يہ نہيں جانتا تھا کہ يہ وارث باب مدينۃ العلم ہيں چنانچہ امام سے سوال کرتا ہے کہ آپ حرمتِ شراب کي قرآن سے دليل ديجئے امام نے فرمايا " خداوند سورۂ اعراف ميں فرماتا ہے اے حبيب !کہہ دو کہ ميرے خدا نے کارِ بد کو چاہے وہ ظاہر ہو یا مخفي وہ اثم ہے جسے حرام قرار ديا ہے اور يہا ں اثم سے مراد شراب ہے " امام يہ کہہ کر خاموش نہيں ہوتے ہيں بلکہ فرماتے ہيں کہ خداوندعالم نيز سورۂ بقرہ ميں فرماتا ہے اے ميرے حبيب! لوگ تم سے شراب اور قمار کے بارے ميں سوال کرتے ہيں تو کہہ دو کہ يہ دونوں بہت عظيم گناہ ہے اسي وجہ سے شراب کو قرآن ميں صريحاً حرام قرار دیا گیا ہے۔
مہدي، امام کے اس عالمانہ جواب سے بہت متاثر ہوا اور بے اختيارکہنے لگا ايسا عالمانہ جواب سوائے خانوادۂ عصمت و طہارت کے کوئي نہيں دے سکتا يہي سبب تھا کہ لوگوں کے قلوب پر امام کي حکومت تھي اگر چہ لوگوں کے جسموں پر حکمران حاکم تھے- اسی طرح ہارون کے حالات ميں ملتا ہے کہ ايک مرتبہ قبرِ رسول اللہ پر کھڑ ے ہو کر کہتا ہے اے خدا کے رسول آپ پر سلام اے پسرِ عمّو آپ پر سلام - وہ يہ چاہتا تھا کہ اپنے اس عمل سے لوگ يہ پہچان ليں کہ خليفہ، سرور کائنات کا چچازاد بھائي ہے - اسي ہنگام امام موسی کاظم علیہ السلام قبر پيغمبر کے نزديک آئے اورفرمايا: اے رسول خدا آپ پرسلام، اے پدر بزرگوار! آپ پرسلام، ہارون ، امام علیہ السلام کے اس عمل سے بہت غضبناک ہوا- فوراً امام کي طرف رخ کر کے کہتا ہے ،آپ فرزند رسول ہونے کا دعوی کيسے کرسکتے ہيں ؟جب کہ آپ علي مرتضيٰ کے فرزند ہيں - امام علیہ السلام نے فرمايا: تونے قرآن کريم ميں سورۂ انعام کي وہ آيت نہيں پڑھي جس ميں خدا فرماتا ہے " قبيلۂ ابراہيم سے داۆد، سليمان، ايوب، يوسف، موسيٰ، ہارون، زکريا، يحييٰ، عيسيٰ، اورالياس يہ سب کے سب ہمارے نيک اورصالح بندے تھے ہم نے ان کي ہدايت کي۔ اس آيت ميں اللہ نے حضرت عيسيٰ علیہ السلام کو گزشتہ انبياء کا فرزند قرار ديا ہے - حالانکہ عيسيٰ بغير باپ کے پيدا ہوئے تھے - حضرت مريم کي طرف سے پيامبران سابق کي طرف نسبت دي ہے اس آيۂ کريمہ کي رو سے بيٹي کا بيٹا فرزند شمار ہوتا ہے - اس دليل کے تحت ميں اپني ماں فاطمہ کے واسطہ سے فرزند نبي ہوں - اس کے بعدامام علیہ السلام فرماتے ہيں: کہ اے ہارون! يہ بتا کہ اگر اسي وقت پيغمبر دنيا ميں آجائيں اور اپنے لئے تيري بيٹي سے نکاح کرنا چاہیں تو کیا تواپني بيٹي کو پيغمبر کي زوجيت ميں دے گايا نہيں ؟ ہارون برجستہ جواب ديتا ہے نہ صرف يہ کہ ميں اپني بيٹي کو پيامبر کي زوجيت ميں دوں گا بلکہ اس کارنامے پرتمام عرب و عجم پر افتخار کروں گا، امام علیہ السلام فرماتے ہيں: کہ تو اس رشتے پر تو سارے عرب و عجم پر فخر کرےگا ليکن پیغمبر ہماري بيٹي کے بارے ميں يہ سوال نہيں کر سکتے اس لئے کہ ہماري بيٹياں پيغمبر کي بيٹياں ہيں اور باپ پر بيٹي حرام ہے امام کے اس استدلال سے حاکم وقت نہايت پشيمان ہوا۔
فرزند رسول حضرت امام موسيٰ کاظم علیہ السلام نے علم امامت کي بنياد پر بڑے بڑے مغرور اور متکبر بادشاہوں سے اپنا علمي سکّہ منواليا ، امام قدم قدم پر لوگوں کي ہدايت کے اسباب فراہم کرتے رہے- چنانچہ جب ہارون نے علي بن يقطين کو اپنا وزير بنانا چاہا اور علي بن يقطين نے امام موسيٰ کاظم علیہ السلام سے مشورہ کيا تو آپ نے اجازت ديدي ، امام علیہ السلام کا ہدف يہ تھا کہ اس طريقہ سے جان و مال اور شیعوں کے حقوق محفوظ رہيں- امام علیہ السلام نے علي بن يقطين سے فرمايا: تم ہمارے شيعوں کي جان و مال کو ہارون کے شر سے بچانا ہم تجھ سے تين چيزوں کي ضمانت ليتے ہيں اگر تو نے اس عہد کو پورا کيا تو ہم ضامن ہيں دیکھو تم تلوار سے ہرگز قتل نہيں کئے جاۆگے- ہرگز مفلس نہیں ہوگےاور تمہيں کبھي بھی قيد نہيں کيا جائے گا- علي بن يقطين نے ہميشہ امام کے شيعوں کو حکومت کے شر سے بچايا اور امام کا وعدہ بھي پورا ہوا- نہ ہارون، پسر يقطين کو قتل کرسکا- نہ وہ تنگدست ہوئے اور نہ ہی قيد میں ڈالے گئے ، لوگوں نے بہت چاہا کہ فرزند يقطين کو قتل کرا ديا جائے ليکن ضمانتِ امامت، علي بن يقطين کے سر پر سايہ فگن تھي۔
ايک مرتبہ ہارون نے علي بن يقطين کو لباس فاخرہ ديا علي بن يقطين نے اس لباس کو امام موسيٰ کاظم علیہ السلام کي خدمت ميں پيش کر ديا مولا يہ آپ کي شايانِ شان ہے- امام علیہ السلام نے اس لباس کو واپس کرديا اورفرمایا: اے علي بن يقطين اس لباس کو محفوظ رکھو يہ برے وقت ميں تمہارے کام آئے گا ادھر دشمنوں نے بادشاہ سے شکايت کي کہ علي ابن يقطين امام کاظم کي امامت کا معتقد ہے يہ ان کو خمس کي رقم روانہ کرتا ہے يہاں تک کہ جو لباس فاخرہ آپ نے علي ابن يقطين کو عنايت کيا تھا وہ بھي اس نے امام کاظم کو دے ديا ہے- بادشاہ سخت غضبناک ہوا اور علي ابن يقطين کے قتل پر آمادہ ہو گيا فورا علي ابن يقطين کو طلب کيا اور کہا وہ لباس کہاں ہے جو ميں نے تمہيں دیا تھا؟ علي بن يقطين نے غلام کو بھيج کر لباس منگوایا اور ہارون کے سامنے پيش کر ديا ۔
امام علیہ السلام کے انہیں فضائل و کمالات کی وجہ سے ہارون الرشید کے دل میں بھرا بغض وحسد ظاہر ہونے لگا اور آپ کو قید خانہ میں بھیج دیا گیا اور جب اس پر بھی ہارون کو سکون نہ ملا تو امام کو ایک قید خانہ سے دوسرے قید خانہ میں منتقل کرتا رہا امام علیہ السلام کو تعلیم وتربیت کا موقع نہ مل سکے ۔لیکناس کے باوجود بھی آپ نے اپنی آزاد زندگی میں وہ عظیم علمی آثار چھوڑے ہیں جو اسلام کے عظیم منابع میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کی شہادت شب ۲۵ رجب ۱۸۳ھ کو ہوئی اور آپ کو قریش کے قبرستان میں دفن کیا گیا جس کو آج کاظمیہ یعنی کاظمین کہا جاتا ہے آج بھی آپ کا روضہ مرجع خلائق بنا ہوا ہے ۔
source : abna