اقدار کا انقلاب
انسانوں کی دنیا اور آخرت نابود ہورہی تھی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مبعوث ہوئے اور لوگوں کی دنیا با مقصد ہوئی اور مادی قدریں الہی قدروں میں بدل گئیں۔ خرافہ پرستی اور توہم پرستی نے اپنی جگہ حقیقت کی تلاش کو دی گو کہ بعض لوگ آج تک حقیقت کی تلاش کو گمراہی کا سبب سمجھتے ہیں اور لکیر کی فقیری کو سنت حسنہ سمجھتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو تحقیق و تدبر کا راستہ دکھانے کے لئے تشریف لائے اور اگر طے یہ ہوتا کہ لوگ لکیر کے فقیر ہوں اور تبدیلی اور اصلاح اور تحقیق و مطالعہ نہ کریں تو بعثت کی ضرورت ہی کیا تھی؟
بعثت کے بعد رسول اللہ نے کشت و خون اور قتل و غارتگری اور ناانصافی کو قسط و عدل و مساوات اور مواسات میں بدل دیا؛ ـ مساوات اس لحاظ سے کہ انسان اللہ کی بارگاہ میں برابر ہیں اور کالے اور گورے میں فرق نہيں ہے اور مواسات کے معنی ایثار کے ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی دولت، اپنے لباس اور اپنے کھانے میں سے دوسروں کو بھی دے اور قرآنی حکم کے مطابق اپنی آمدنی میں غرباء کے لئے بھی ایک حصہ قرار دے اور صدقہ و خیرات ادا کرے ـ چنانچہ نیچ سمجھے جانے والوں کو اسلام نے انسانیت کا درجہ دیا اور سیاہ غلاموں کو مکہ اور مدینہ کے کافر و مشرک راجوں مہاراجوں پر فوقیت دی اور مسلمان سرداروں کے برابر لاکھڑا کیا۔ پست قبیلوں اور غلاموں کو باعزت معاشرتی درجہ دیا گیا اور مادی معیاروں نے رخت سفر باندھا اور معنوی معیار آگئے۔
یہ غلط فہمی نہ آنے پائے کہ یہ جو آج بھی اسلامی معاشروں میں غلامی، نا انصافی، عدم برابری، قتل و غارت، مختلف قسم کے قومی، فرقہ وارانہ اور معاشرتی حیثیت کے حوالے سے امتیازی رویئے پائے جاتے ہیں ان کا تعلق اسلام سے ہے! حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق دور جاہلیت سے ہے جس کا جدید ورژن دنیا بھر میں رائج ہے اور مسلمان کہلوانے والے جہلاء کے ساتھ ساتھ نام نہاد مغربی تمدن کے منتظمین بھی دور جدید کی جاہلیت کے علمبردار اور دنیا بھر میں امتیازی رویوں کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اقدار کا انقلاب تھی جس نے تمام غیرانسانی اور وحشیانہ اقدار کو بدل دیا اور اگر آج ہمارے مسلم معاشروں میں اس طرح کی قدریں پائی جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام میں کوئی نقص ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ "ہمارے معاشرے مسلمان ہیں لیکن اسلامی نہیں ہیں اور اگرچہ لوگ مسلمان ہيں لیکن ان کی رائج قدروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہيں ہے۔
اسلام نے درندگی پر مبنی رسم و رواج کو عادلانہ قوانین کے ذریعے ختم کیا اگر آج بھی ایسے قوانین اسلامی معاشروں میں دیکھے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرے دین کو اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کی بہتیری کوشش کی لیکن اگر یہ کوششیں ہمارے معاشروں میں بارآور دکھائی نہیں دے رہی ہیں تو یہ ہمارے انحراف کا ثبوت ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ انحرافات کب سے شروع ہوئے اور کیوں اور کیسے شروع ہوئے لیکن امر مسلم یہ ہے کہ رسول خدا (ص) نے ہماری سعادت کے سارے قوانین دیئے اور اگر ہم نے اپنی مصلحت اور اپنے مفادات کو ان قوانین اور احکامات سے دوری کرنے میں ڈھونڈی تو اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں ہے۔
اسلام کے رہبر بزرگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ صرف خود جاہلانہ رسوم اور خرافات و توہمات کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی بلکہ اپنے صحابہ سے بھی فرماتے رہے کہ جہاں بھی جائیں سب سے پہلے خرافات و توہمات کا خاتمہ کریں تا کہ اسلام کا پودا لگانے کے لئے زمین زرخیز ہوجائے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاذ بن جبل کو تبلیغ کی غرض سے یمن روانہ کیا تو فرمایا: سب سے پہلے جاہلانہ رسموں کو مار دو اور پھر لوگوں میں اسلام کی حیات آفرین سنتیں رائج کرو۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے 23 سال تک محنت کی اور اپنی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں حجۃالوداع کے دوران لوگوں کو پھر بھی اقدار میں انقلاب بپا کرنے کی تلقین اور کمال انسانی کی خوبصورتیوں اور ارتقائی چوٹیوں کی طرف صعود و عروج کرنے کی تاکید فرمائی؛ فرمایا:
"ألا کُلُّ شَیءٍ مِنْ أمْرِ الْجاهِلیّةِ تَحْتَ قَدَمی موضوعٌ"۔
ترجمہ: جان لو کہ میں جاہلیت کی تمام باطل رسموں کو پاؤں تلے روندتا ہوں اور انہیں باطل قرار دیتا ہوں۔
سیرة ابن هشام، ابو محمد عبد الملک بن هشام حمیری، مطبوعہ دار القلم، بیروت، ج4، ص250۔
بعثت نبی (ص) کا فلسفہ:
مندرجہ بالا سطور میں عرض کیا گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں نجات اور سعادت کی ساری ترکیبیں سکھائیں لیکن ہم اپنے لئے زیادہ وقعت و اہمیت کے قائل ہوئے اور ہم نے بہت سی چیزیں آپ (ص) سے اخذ کرنے کو ضروری نہيں سمجھا اسی وجہ سے ہم بہت سے اسرار کو سمجھنے سے قاصر رہے کیونکہ ان تعلیمات میں عبور کے لئے کچھ رموز ہیں جو عمل نہ کریں تو کھوجاتے ہیں اور آج کی سائبر اصطلاحات کے مطابق جب آپ غلط یوزر نیم چند مرتبہ دہرائیں گے تو پاس ورڈ بھی ہاتھ سے نکلے گا اور آپ کو بیگانہ یا جارح اور متجاوز سمجھا جائے گا اور لوٹنے کے لئے پہلے جیسا سلسلہ طے کرنا پڑے گا۔ جب کوڈ ورڈ یا پاس ورڈ کھوجائے تو اسلامی تعلیمات کی جڑوں تک پہنچنے سے محرومی حاصل ہوگی اور بیگانوں کی طرف دیکھنا پڑے گا اور ہم مسلمانوں کے لئے یہ بات صدیوں کے تجربے سے ثابت ہے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام بھی بعثت نبی (ص) کو اقدار کا انقلاب قرار دیتے ہیں اور فلسفۂ بعثت کی وضاحت کرتے ہوئے اسی نکتے پر زور دیتے ہیں؛ فرماتے ہیں:
"ألا وَإنّ بَلیَّتَکُمْ قَدْ عادَتْ کَهَیئَتِها یَوْمَ بَعَثَ اللهُ نَبیَّهُ ـ صلّی الله علیه و آله ـ وَالَّذی بَعَثَهُ بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً وَلَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً وَلَتُساطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتّی یَعُودَ أسْفَلُکُمْ أعْلاکُمْ وَأعْلاکُمْ أسْفَلَکُمْ"۔
ترجمہ: ؛ جان لو اور آگاہ ہوجاؤ کہ تمہاری بدبختیاں اور تمہارے فتنے بعثت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل کے زمانے کی مانند، واپس تمہاری جانب لوٹ آئے ہیں۔ اس خدا کی قسم جس نے پیغمبر (ص) کو برحق مبعوث فرمایا تم کڑی آزمائش سے دوچار ہوجاؤگے اور چھلنی میں دانوں یا دیگ میں کھانے کی مانند الٹ پلٹ دیئے جاؤگے حتی کہ اوپر والے نیچے اور نیچے والے اوپر ہوجائیں۔
نهج البلاغه، ترجمة محمد دشتی، نشر ائمه، قم، 1379، ش، خطبه16.
یعنی اے مسلمانو! تم عصر بعثت کی طرح منقلب اور دیگرگوں ہوجاؤگے اور ایک بار پھر اقدار کا انقلاب رونما ہوگا۔
اس ارشاد مولا سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ ایک بار طبقاتی نظام کا شکار ہوجائیں اور جاہلیت کی طرف لوٹیں گے اور وہ ایک بار پھر اقدار کے انقلاب کے محتاج ہونگے اور ان کے اوپر کے طبقوں کو نیچے لایا جائے گا اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کو ان کا جائز مقام دیتے ہوئے مالداروں اور صاحب حیثیت لوگوں کے برابر میں لایا جائے گا اور مادی و ظاہری اقدار کو ایک بار پھر معنوی اور انقلابی اقدار میں تبدیل کیا جائے گا اور حق ایک بار پھر اپنے محور کی طرف لو ٹے گا جس کا مسلمانان عالم، عیسائی دنیا اور یہودی مکتب سے لے کے بدھ مت اور ہندومت نیز دیگر مشرقی فلسفی مکاتب کے پیروکار بھی اس دن کے منتظر ہیں جب حق اپنے محور کی جانب لوٹے گا اور حق کے معیارات پہچانے جائیں گے چنانچہ حق اہل حق بھی پہچانے جاسکیں گے اور اہل باطل بھی؛ چنانچہ مولائے کائنات علیہ السلام کے کلام میں بوضوح فرمایا گیا ہے کہ"چونکہ تم نے پیشرفت کی بجائے پسرفت کی ہے اور ترقی کی بجائے تنزل اور اوج و عروج کی بجائے حضیض کی طرف لوٹے ہو اسی لئے اب ایک بار تمہیں ترقی اور پیشرفت کی جانب کے لئے ان ہی مراحجل سے گذرنا پڑے گا اور ان ہی واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا اور حق سے دور کئے جانے والے حق کو ایک بار پھر اپنے محور کی طرف لوٹایا جائے گا؛ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
"عليّ مع الحق والحق مع عليّ لن يفترقا حتي يردا عليّ الحوض"۔
ترجمہ: علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دو ہرگز الگ نہ ہوگے حتی کہ قیامت کے روز حوض کوثر پر مجھ سے آملیں۔
تاريخ بغداد، ج 14، ص 321.
طبراني اور دوسرے راویوں سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کی بارگاہ میں التجا کرتے ہوئے عید غدیر کے دن یوں دعا کی:
"اللّهم وال من والاه وعاد من عاداه ۔۔۔ وادر الحق معه حيث دار"۔
ترجمہ: اے اللہ تو محبت کر اس سے جو علی سے محبت کرے اور دشمنی کر اس سے جو علی کی دشمنی کرے اور حق کو اسی طرف پلٹا دے جس طرف کہ علی پلٹتے ہیں۔
المعجم الأوسط، ج 5، ص 455، ح 4877.
یعنی علی علیہ السلام کو معیار اور مدار قرار دے اور ہم جانتے ہیں کہ ایک ایک طرف دعا ہے تو دوسری طرف سے ایک خبر بھی اور اس کے ذریعے مسلمانوں کو بتایا جارہا ہے کہ حق کا دارو مدار علی علیہ السلام کی شخصیت پر ہے اور علی ہے میزان حق و باطل ہیں چنانچہ سب کچھ علی اور آل علی علیہم السلام کی طرف لوٹے گا تو دنیاوی اور اخروی سعادت ملے گی اور علوم و معرفت کے دروازے مل جائیں گے اور رمز کی علامتوں اور کوڈ لفظوں کا حصول ممکن ہوجائے گا۔
میرے خیال میں انسانوں نے موجودہ بدبختیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے تمام راستے طے کئے ہیں اور تمام تر روشوں کو بروئے کار لا چکے ہیں لیکن وہ گویا دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور جتنا نکلنے کے لئے زور لگاتے ہيں اس میں مزید دھنس رہے ہیں لیکن انھوں نے حقیقی راستہ اپنانے کی طرف توجہ نہیں کی ہے اور وہ حقیقی راستہ درحقیقت محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا راستہ ہے جہاں سعادت یقینی ہے اور وہاں کسی طرح کے بحران اور ناہمواری کا تصور نہیں ہے اور اگر بحران بھی آتا ہے تو وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ان کے راستے پر گامزن نہيں ہیں خواہ ہم محمد و آل محمد (ص) کی پیروکاری کے دعویدار ہی کیوں نہ ہوں۔
روح کی تربیت اور تہذیب و تزکیہ
انبیاء علیہم السلام کے اہم ترین اہداف و مقاصد میں میں ایک تہذیب نفوس اور باصلاحیت افراد کی تربیت ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی کوشش ہوتی ہے کہ انسانوں کی اندرونی قوتوں اور صلاحیتوں کو اندرونی قابلیت سے عملی صلاحیت میں تبدیل کرتے ہیں اور کمال و سعادت کی چوٹی تک پہنچنے میں ان کی مدد کرتے ہیں اور ان کا ساتھ دیتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام اور بالخصوص سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انسانوں کو مبدأِ وجود یعنی رب متعال سے متصل کرنے کے لئے راستہ ہموار کرتے ہیں اور انسانوں کے کمالی اور تعالِيکے لئے تمہید و مقدمہ تیار کرتے ہیں۔
خداوند متعال قرآن مجید کی سورہ آل عمران میں اس نکتے امر کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے میں ارشاد فرماتا ہے:
"لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلیَ المُؤْمِنینَ إذْ بَعَثَ فیهِمْ رَسولاً مِنْ أنْفُسِهِمْ یَتْلُوا عَلَیْهِمْ آیاتِهِ وَیُزَکّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُم الْکِتابَ وَالْحِکْمَةَ وَإنْ کانُوا مِنْ قَبْلُ لَفی ضَلالٍ مُبینٍ"۔
ترجمہ: خداوند متعال نے مؤمنوں پر احسان فرمایا جب اس نے ان کے درمیان سے ہی ان ہی میں سے ایک نبی مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ و تہذیب کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہيں؛ خواہ وہ بعثت سے قبل کھلی گمراہی میں ہی کیوں نہ رہے ہوں۔
آل عمران/ 164.
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کلام اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہوئے ان کی روح و جسم کو صیقل اور جلا دیتے ہیں اور ان کے دلوں اور ذہنوں سے جہل، خود پرستی، تکبر، خرافات اور توہم پرستی کا زنگ صاف کردیتے ہوئے انہیں کمال تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
انسان کو مقام عبودیت تک پہنچانا
قرآنی تعلیمات کے مطابق انسانی خلقت کا مقصد خدائے یکتا کی عبادت و پرستش کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس کائنات میں جتنی بھی نعمتیں اور اشیاء خلق ہوئی ہیں انہیں انسان کے لئے قرار دیا گیا ہے اور انسان کو اتنی سہولتیں اور نعمتیں دینے کا واحد مقصد یہ ہے کہ انسان عبودیت کے راستے پر گامزن اور "عبد" کے مقام کی بلند چوٹی کو سر کردے۔ عبودیت کاملہ یہ ہے کہ انسان کائنات کے قادر مطلق اور کمال مطلق کے سوا کسی اور موضوع کو سوچنے اور غور کرنے کا قابل ہی نہ سمجھے اور اپنے افکار اور اعمال کو بھی اسی امر کی طرف معطوف کردے۔
ارشادہ ربانی ہے:
"وَما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالانْسَ إلاّ لِیَعْبُدونَ"۔
ترجمہ: اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔
ذاریات / 56۔
رسول خدا (ص) حقیقی دستگیر
انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد بنی نوع بشر کی دستگیری اور مدد کرنا ہے تا کہ مقام عبودیت تک پہنچ سکیں اور دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کریں۔
الہی راہنما انسانوں کو عبودیت کا راستہ دکھاتے اور اس راہ پے گامزن ہونے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں اور اپنی تعلیمات کے ذریعے ان کو سہارا دے کر اس راہ پر منزل مقصد تک راہنمائی فراہم کرتے اور آگے لے جاتے ہیں گو کہ انسان کے پاس بھی یہ راہنمائیاں وصول کرنے کا ظرف اور صلاحیت و اہلیت ہونا بھی ضروری ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بعثت کے دن سے ہی ایک نعرہ اپنے لئے مقرر فرمایا تھا جس کو آپ (ص) دہراتے رہتے تھے؛ فرمایا کرتے تھے:
"قُولُوا لا إلهَ إلاّ اللهُ تُفْلِحُوا"
ترجمہ: کہدو! کوئی معبود نہيں ہے تا کہ فلاح پاؤ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پیغام کے ذریعے بتانا چاہتے ہیں کہ فلاح اور رستگاری صرف خدائے یکتا کی بندگی اور دیگر زندہ اور مردہ یا جامد اور بے جان خداؤں یا پھر انسان یا دیگر موجودات کی صورت میں خدا بنائے جانے والے انسانوں اور طاقتوں کی بندگی ترک کرنے میں رستگاری ہے۔
بحار الانوار، علامه محمد باقر مجلسی، نشر الوفا، بیروت، 1404، ج18، ص202.
انسانوں کے درمیان انتشار کا سد باب کرنا
نبوت کی مضبوط رسی واحد وسیلہ ہے جو انسانوں کو اپنے پرچم وحدت کے سائے تلے متحد کرنے کے اسباب فراہم کرتی ہے۔ وہ انسان جو تنازعات اور تفرقہ و اختلافات سے تنگ آگئے ہیں اور معاشرتی تنازعات میں انفرادی اور خاندانی سکون بھی کھو چکے ہیں اور زندگی کی سمت کو درست کرنے کے لئے قابل اعتماد سہارے کی تلاش میں ہیں اور ان تنازعات کو برادری اور اخوت میں بدلنا چاہتے ہيں وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات اور سیرت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
عظیم انسانی معاشروں کے افراد اور اقوام اور قبائل اور جماعتوں کے درمیان شدید اور خانمان سوز تنازعات عظیم سرمایوں کو تباہ کرتے ہیں اور زندگی کے حسین ترین ماحول کو جان و دل جلانے والے جہنم میں تبدیل کردیتے ہیں۔ لیکن اگر انسان وحی کے امینوں اور اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء علیہم السلام کی بات سنیں اور ان کی ندا کو لبیک کہیں اور توحید کے علم تلے متحد ہوجائیں تو تفرقہ اور انتشار سے محفوظ رہيں گے اور کلمہ توحید کے سائے میں اپنا کلمہ اور اپنا نعرہ اور اپنا کلام اور مدعا بھی ایک اور متحد کردیں اور ایک ہی مقصد کے حصول کے لئے متحد ہونے کا عزم کریں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا استحصال نہ کرسکے گی۔
خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
"كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ"۔
البقره / 213۔
ترجمہ: ابتداء میں لوگ ایک امت تھے (یا ایک ہی دین کے پیروکار تھے) اور پھر (اختلافات رونما ہونے پر ان میں اختلاف پڑگیا چنانچہ) خداوند متعال نے بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبروں کو بھیجا، اور ان کے ساتھ حق پر مبنی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں میں ان امور کا فیصلہ کر دے جن میں وہ اختلاف کرنے لگے تھے اور (مؤمنین نے انبیاء کی اطاعت کی اور ان کی بات مان لی لیکن) اس میں اختلاف بھی فقط ان ہی لوگوں نے کیا جنہیں وہ کتاب دی گئی تھی، باوجود اس کے کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آچکی تھیں، (اور انہوں نے یہ اختلاف بھی) محض باہمی فرمانی، فتنہ انگیزی اور دوسروں کے حقوق پر ہاتھ ڈالنے کی بنا پرکیا پھر اﷲ نے ایمان والوں کو اپنے حکم سے وہ حق کی بات سمجھا دی جس میں وہ اختلاف کرتے تھے، اور اﷲ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما دیتا ہے۔
اس آیت شریفہ کی رو سے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد لوگوں کے اختلافات کا خاتمہ کرنا تھا جو جہل، غفلت اور نا آگہی اور نفس کی اطاعت نیز دوسروں پر اپنی برتری اور فوقیت جتانے جیسے رجحانات کی بنا پر نمودار ہوتے ہیں۔ اور انبیاء علیہم السلام بالخصوص سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ان تمام رجحانات کے خاتمے کی سعی وافر کی جن کی بنا پر یہ اختلافات سامنے آتے ہیں۔
source : abna