اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

امام مہدی (عج) علمائے اہل سنت کی نگاہ میں

مقدمہ منجی عالم بشریت کے وجود اور روئے زمین پر عدل کے قیام پر عقیدہ، آسمانی ادیان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مکاتب فک
امام مہدی (عج) علمائے اہل سنت کی نگاہ میں

قدمہ

منجی عالم بشریت کے وجود اور روئے زمین پر عدل کے قیام پر عقیدہ، آسمانی ادیان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مکاتب فکر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آخری زمانے میں ایک شخص آئے گا جو پوری دنیا کو ظلم و جور سے نجات دلائے گا اور روئے زمین پر عدل و انصاف کا قیام عمل میں لائے گا۔ مثال کے طور پر ’’مکتب کمیونزم‘‘ جو تاریخ کو تضاد کی بنیاد پر تفسیر کرتا ہے کہتا ہے:

’’ ایک دن ایسا آئے گا جس میں تمام تضادات ختم ہو جائیں گے اور دنیا میں امن و شانتی قائم ہو جائے گی‘‘۔ [1]

ایسے مفکرین اور دانشمند جن کا کسی مذہب اور دین پر ایمان نہیں ہے وہ بھی ’’مصلح جہانی‘‘ پر عقیدہ رکھتے ہیں جیسے معروف برطانوی فلاسفر برٹرینڈ رسل کہتے ہیں:

’’ دنیا کو ایک ایسے مصلح کی انتظار ہے جو ایک پرچم اور ایک نعرے تلے سب کو جمع کرے‘‘ [2]

دنیا کے معروف فیزیک دان البرٹ آئنسٹائن لکھتے ہیں:

’’ وہ دن جس میں تمام دنیا کے اندر امن و سکون برقرار ہو گا اور لوگ پیار و محبت سے آپس میں زندگی گزاریں گے زیادہ دور نہیں ہے‘‘۔ [3]

ایئرلینڈ کے مفکر ’’برنادرشاو‘‘ نے مزید دقت اور وضاحت کے ساتھ عالمی مصلح کے ظہور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ وہ زندہ ہے اور قوی جسمانی ہیکل کا مالک ہے اس کے پاس فوق العادہ عقل و فکر ہے۔ وہ ایسا کامل انسان ہے کہ دوسرے انسان اپنی تلاش و کوشش کے ساتھ اس کے کمالات کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اس کی عمر طولانی ہو گی اور تقریبا تین سو سال تک پہنچ جائے گی اور وہ اپنی اس طولانی زندگی کے تجربات سے خوب استفادہ کر سکے گا‘‘۔ [4]

جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ تمام آسمانی ادیان، ایک عالمی مصلح کے ظہور کو یقینی جانتے ہیں اگر کوئی شخص ان کی مقدس کتابوں کا مطالعہ کرے تو اسے پتا چلے گا کہ جو عالمی مصلح کے بارے میں آسمانی بشارتیں پائی جاتی ہیں وہ عالمی مصلح اور منجی عالم بشریت در حقیقت وہی ’’ مہدی صاحب الزمان‘‘ ہیں۔[5]

قاضی ساباطی نے کتاب مقدس کے عہد عتیق کی کتاب اشعیاء میں موجود بشارتوں کے بارے میں تحقیق کی اور کہا:

’’یہ عبارتیں وضاحت کے ساتھ کہتی ہیں کہ وہ مہدی ہو گا‘‘

اس کے بعد مزید لکھتے ہیں:

’’امامیہ کہتے ہیں کہ وہ محمد بن حسن عسکری ہیں کہ جو سن ۲۵۵ ہجری میں معتمد عباسی کے دور حکومت میں سامرا میں پیدا ہوئے۔ ان کی ماں نرجس امام حسن عسکری کی کنیز تھیں۔ وہ ایک سال کے لیے غائب ہوگئے پھر دوبارہ ظاہر ہو گئے اور دوبارہ غائب ہو گئے جسے غیبت کبریٰ کہا جاتا ہے اور اس کے بعد جب تک اللہ نہیں چاہتا ظہور نہیں کریں گے۔

چونکہ یہ عبارت شیعہ عقیدہ کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتی ہے اس لیے اسے نقل کیا ہے اور میرا مقصد امت محمد(ص) کا دفاع کرنا ہے مذہبی تعصب سے قطع نظر۔ میں نے اسی لیے کہا کہ جو شیعہ مذہب کا عقیدہ ہے وہ کتاب مقدس کی نص کے عین مطابق ہے‘‘۔ [6]

نیز محمد رضا فخر الاسلام جو پہلے عیسائی تھے اور اس کے بعد مسلمان ہوئے اور اسلام کے مختلف فرقوں میں سے شیعہ مذہب انہوں نے اختیار کیا بھی اس نتیجہ پر پہنچے ہیں۔

انہوں نے یہود و نصاریٰ کی رد میں کتاب انیس الاعلام لکھی جو انسائکلوپیڈیا کے مشابہ ہے اس میں انہوں نے ’’کتاب مقدس‘‘ میں اس حوالے سے بیان ہوئی بشارتوں پر تحقیق کی اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ کتاب مقدس کی نص ’’مھدی بن حسن عسکری‘‘ پر تطبیق کرتی ہے۔[7]

جو شخص کتاب مقدس کی بشارتوں پر دقیق نگاہ دوڑائے جو ان میں عالمی مصلح کے بارے میں بیان کی گئی ہیں صفات امام مھدی (عج) کے علاوہ کسی پر بھی تطبیق نہیں کرتی اور اگر کوئی شیعہ عقیدہ سے ناآشنا ہو تو وہ کتاب مقدس کی بشارتوں کو سمجھ نہیں پائے گا جیسا کہ کتاب مقدس کے مفسرین نے ایسی باتیں لکھی ہیں۔ مثال کے طور پر انجیل کے مفسرین نے ’’سفر رویا‘‘ کے ۱ اور ۱۷ بند کے بارے میں لکھا ہے:

وہ شخص جس کے بارے میں یہ بشارتیں خوشخبری دیتی ہیں وہ ابھی پیدا نہیں ہوا ہے اس وجہ سے ان جملوں کی واضح تفسیر آئندہ معلوم ہو گی کہ عالمی مصلح نے ظہور کیا ہے‘‘۔ [8]

نیز بعض اہل سنت کے علماء بھی اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جو ہم نے بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر استاد سعید ایوب نے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ کتاب مقدس کے سفر رویا کی بشارتوں کا مصداق امامیہ عقیدہ ہے۔

انہوں نے لکھا ہے:

’’اسفار انبیاء میں لکھا ہوا ہے کہ مہدی کے عمل میں کوئی عیب نہیں ہے‘‘۔

اس کے بعد اس جملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ مہدی کو ان صفات کے ساتھ میں نے اہل کتاب کی کتابوں میں پایا ہے اور بیشک اہل کتاب نے مہدی کے بارے میں پائے جانے والی خبروں کی پیشگوئی کی ہے جیسا کہ ان کے جد (حضرت محمد مصطفیٰ) کے بارے میں پیشگوئی کی۔ سفر رویا میں ایک خاتون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس سے بارہ مرد پیدا ہوں گے‘‘۔

اس کے بعد ایک دوسری خاتون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی وہ خاتون جو آخری مرد جنم دے گی وہ پہلی خاتون کے صلب سے ہو گا اس سفر میں یوں آیا ہے:

’’اس عورت کو بہت ساری مشکلات اور خطرات کا سامنا ہو گا اور ان مشکلات کا سمبل تنین(اژدہا) ہے۔ تنین اس عورت کے سامنے کھڑا ہو گا جو منتظر ہو گا کہ وہ بچے کو جنم دے اور وہ اسے نگل جائے‘‘۔ [9]

یہ بات اشارہ کررہی ہے کہ حاکم وقت گویا اژدہا کی طرح اس بچے کے قتل کے لیے کوشاں ہو گا۔

معروف فلاسفر بارکلی اس بچے کی ولادت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ جب خطرات نے اس خاتون کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو خدا نے اس کے بیٹے کو نظروں سے غائب کر دیا تا کہ اسے محفوظ رکھ سکے‘‘۔ [10]

اس سفر میں مزید لکھا ہے:

’’ اس بچے کی غیبت ۱۲۶۰ دن ہو گی اور یہ وہ مدت ہے جو اہل کتاب کے نزدیک رمز و علامت ہے‘‘۔

اس کے بعد بارکلی پہلی خاتون کی نسل کے بارے میں لکھتے ہیں:

تنین(اژدھا) اس عورت کی نسل کے ساتھ بھیانک جنگ وجود میں لائے گا جیسا کہ سفر میں آیا ہے؛ تنین اس عورت پر غضبناک ہو جائے گا اور اس کی نسل کے ساتھ وحشیانہ انداز میں جنگ کرے گا چونکہ وہ الہی احکامات کی حفاظت کر رہے ہوں گے‘‘۔ [11]

استاد سعید ایوب ان جملوں کی وضاحت میں لکھتے ہین:

’’ یہ تمام اوصاف و صفات مہدی کے ہیں اور انہیں صفات کی وجہ سے شیعہ اثنا عشری مہدی کے قائل ہیں‘‘۔[12]

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ واضح ہونے کی وجہ سے متعدد اور مفصل کتابیں لکھی گئی ہیں اور ائمہ طاہرین سے بھی منقولہ روایات کو جمع کیا گیا ہے ہم یہاں پر صرف امام علیہ السلام کی ولادت کے سلسلے میں علمائے اہل سنت کے چند اقوال نقل کرتے ہیں جن میں انہوں نے اہل سنت کے رائج عقیدہ کے برخلاف آپ کی ولادت کے حوالے سے اعتراف کیا ہے کہ آپ کی ولادت ہو چکی ہے چونکہ اہل سنت کا عام عقیدہ یہ ہے کہ امام مہدی کی ابھی ولادت نہیں ہوئی ہے اس وجہ سے وہ شیعوں کی طرح امام مہدی (ع) کے ظہور کے منتظر نہیں ہیں بلکہ ان کی ولادت کے منتظر ہیں۔

علمائے اہل سنت کا ولادت امام مہدی(ع) پر اعتراف

اہل سنت کے بہت سارے علماء نے حضرت امام مہدی (عج) کی ولادت کا اعتراف کیا ہے اور بہت سارے علماء نے اپنی کتابوں میں ان اعترافات کو جمع کیا ہے۔ امام عصر کی غیبت صغریٰ( ۲۶۰ سے ۳۲۹ ھ ق تک) سے لے کر اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

ہم اس مختصر تحریر میں چند علماء کے اعترافات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور مزید مطالعہ کے لیے اصلی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں[13]:

۱: ابن اثیر جزری عزالدین( متوفیٰ ۶۳۰ھ)

انہوں نے کتاب الکامل فی التاریخ، میں ۲۶۰ ھجری قمری کے واقعات تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ اس سال ابومحمد علوی عسکری دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ امامیہ عقائد کی بنا پر گیارہویں امام تھے اور محمد کے والد تھے جنہیں امام منتظر کیا جاتا ہے‘‘ [14]

۲: ابن خلکان( متوفیٰ ۶۸۱ھ)

وہ اپنی کتاب وفیات الاعیان میں لکھتے ہیں:

’’ابوالقاسم محمد بن حسن عسکری بن علی الہادی بن محمد الجواد شیعوں کے بارہویں امام اور حجت کے عنوان سے معروف ہیں۔ ۱۵ شعبان سن ۲۵۵ میں آپ کی ولادت ہوئی‘‘۔

اس کے بعد انہوں نے معروف سیاح ابن ازرق فارقی( متوفیٰ ۵۷۷) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے تاریخ میافارقین میں کہا ہے:

’’ یہ مذکورہ حجت ربیع الاول کی نویں تاریخ سن ۲۵۵ کو پیدا ہوئی اور کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت آٹھ شعبان سن ۲۵۶ ہجری کو واقع ہوئی اور یہی صحیح ہے‘‘۔ [15]

امام مہدی (عج) کی ولادت کے سلسلے میں صحیح قول ابن خلکان کا قول ہے یعنی آپ روز جمعہ ۱۵ شعبان سن ۲۵۵ ہجری کو دنیا میں تشریف لائے اور تمام علمائے تشیع کا اسی قول پر اتفاق ہے۔ اس بارے میں صحیح روایات نقل ہوئی ہیں جن پر بزرگ علماء نے تاکید بھی کی ہے۔

شیخ کلینی کہ جنہوں نے تقریبا غیبت صغریٰ کے زمانے کو درک کیا ہے اس تاریخ کو مسلمات میں سے جانا ہے اور اس تاریخ سے مربوطہ روایات کو دیگر روایات پر ترجیح دی ہے انہوں نے آنحضرت کی ولادت کے بارے میں لکھا ہے:

’’ آپ نیمہ شعبان سن ۲۵۵ ہجری قمری کو پیدا ہوئے‘‘۔ [16]

شیخ صدوق (متوفیٰ ۳۸۱) نے اپنے استاد محمد بن محمد عصام کلینی انہوں نے محمد بن یعقوب کلینی انہوں نے علی بن محمد بن بندار سے روایت کی ہے:

’’صاحب الزمان(عج) نیمہ شعبان سن ۲۵۵ ہجری کو پیدا ہوئے‘‘۔ [17]

قابل ذکر ہے کہ کلینی نے اپنے قول کو علی بن محمد کی طرف منسوب نہیں کیا اس لیے کہ یہ قول معروف اور سب کے نزدیک مورد قبول ہے۔

الذھبی (متوفیٰ ۷۴۸)

انہوں نے اپنی تین کتابوں میں امام مہدی(عج) کی ولادت پر اعتراف کیا ہے؛

کتاب العبر میں لکھتے ہیں:

’’ سن ۲۵۶ ہجری میں محمد بن حسن بن علی الہادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق العلوی الحسینی پیدا ہوئے ۔ وہ وہی ابوالقاسم ہیں جنہیں رافضی حجت کہتے ہیں اور مہدی، منتظر اور صاحب الزمان کے جیسے القاب دیتے ہیں وہ ان کے بارہ اماموں میں سے آخری امام ہیں‘‘۔ [18]

اس طرح تاریخ دول الاسلام میں امام حسن عسکری (ع) کے حالات لکھتے ہوئے رقمطراز ہیں:

حسن بن علی بن محمد بن علی الرضا بن موسی بن جعفر الصادق، ابو محمد الہاشمی حسینی شیعوں کے ایک امام ہیں جن کی عصمت کے وہ قائل ہیں اور انہیں حسن عسکری کہا جاتا ہے اس لیے کہ وہ سامرا میں سکونت پذیر تھے اور اس شہر کو عسکر کہا جاتا تھا۔ آپ رافضیوں کے امام منتظر کے والد ہیں آپ آٹھ ربیع الاول سن ۲۶۰ ہجری کو دنیا سے رخصت ہوئے اور آپ کو آپ کے والد کے پاس سپرد خاک کر دیا گیا۔ لیکن آپ کے بیٹا محمد بن حسن کہ رافضی جنہیں قائم اور حجت کہتے ہیں سن ۲۵۸ ہجری میں پیدا ہوئے‘‘۔ [19]

نیز کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں:

’’منتظر شریف، ابوالقاسم محمد بن حسن العسکری بن علی الہادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن زین العابدین بن الحسین الشہید بن الامام علی بن ابی طالب العلوی الحسینی بارہ اماموں میں سے آخری امام ہیں‘‘۔ [20]

یہ بات مخفی نہ رہے کہ ہم نے ذھبی کے قول کو اس بات پر تائید کے عنوان سے نقل کیا ہے کہ وہ امام مہدی (عج) کی ولادت کے قائل ہیں اگر چہ ان کے نزدیک ولادت کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

۴: ابن الوردی( متوفیٰ ۷۴۹)

تاریخ ابن الوردی میں بھی یوں نقل ہوا ہے:

’’ محمد بن حسن الخالص نے سن ۲۵۵ ہجری میں دنیا میں قدم رکھا‘‘۔ [21]

۵: احمد بن حجر ہیثمی شافعی (متوفیٰ ۹۷۶)

انہوں نے الصواعق المحرقہ کے گیارہویں باب کی آخری فصل میں یوں لکھا ہے:

’’ ابو محمد الحسن الخالص کہ ابن خلکان نے جنہیں عسکری کا نام دیا ہے سن ۲۳۲ ہجری میں پیدا ہوئے، اور ۲۸ سال کی عمر میں سامرا میں دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنے والد اور پھوپھی کے پاس سپرد خاک کیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں زہر دیا گیا۔ ان کے یہاں ابوالقاسم محمد الحجۃ کے علاوہ کوئی بیٹا نہیں تھا جو اپنی والد کی وفات کے وقت پانچ سال کے تھے لیکن خداوند عالم نے انہیں اسی عمر میں حکمت سے نوازا تھا انہیں منتظر اور قائم کہا جاتا ہے چونکہ کہا گیا ہے کہ وہ مدینہ میں نظروں سے اوجھل ہو گئے اور معلوم نہیں ہوا کہ کہاں گئے‘‘۔ [22]

۶: شبراوی شافعی( متوفیٰ ۱۱۷۱)

انہوں نے کتاب الاتحاف میں وضاحت کی ہے کہ حضرت مہدی محمد بن حسن عسکری نیمہ شعبان سن ۲۵۵ ہجری میں رات کے وقت پیدا ہوئے‘‘ [23]

۷: مومن بن حسن شبلنجی( متوفیٰ ۱۳۰۸)

انہوں نے اپنی کتاب نور الابصار میں امام مہدی(عج) کا اسم گرامی، شجرہ نسب، کنیت اور القاب کو تفصیل سے بیان کیا ہے اس کے بعد لکھا ہے کہ: ’’آپ مکتب امامیہ کے بارہ اماموں میں سے آخری امام ہیں‘‘۔ [24]

۸: خیر الدین زرکلی( متوفیٰ ۱۳۹۶)

انہوں نے کتاب اعلام میں امام مہدی کے حالات لکھتے ہوئے بیان کیا ہے:

’’ محمد بن حسن عسکری الخالص بن علی الہادی ابوالقاسم مکتب امامیہ کے بارہ اماموں میں سے آخری امام ہیں ۔۔۔ آپ سامرا میں پیدا ہوئے جب آپ پانچ سال کی عمر میں تھے تو آپ کے والد کا انتقال ہو گیا کہا جاتا ہے کہ آپ نیمہ شعبان سن ۲۵۵ ہجری کو پیدا ہوئے اور سن ۲۶۵ میں غیب صغریٰ میں چلے گئے‘‘۔ [25]

یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ شیعوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیب صغریٰ کا سلسلہ سن ۲۶۰ سے شروع ہوا اور شاید کتاب اعلام میں ۲۶۵ جو آیا ہے وہ غلطی سے چھپ گیا ہو چونکہ اس کتاب میں عدد سے لکھا گیا ہے عدد میں خطا کا احتمال زیادہ رہتا ہے خاص طور پر عربی میں پانچ اور صفر چونکہ شکل میں بہت قریب ہیں اس غلطی کا احتمال قوی ہے۔

 حوالہ جات

[1]بحث حول المہدی، آیت اللہ باقر الصدرص۸۷

[2]المھدی الموعود و دفع الشبھات عنہ، عبد الرضا شھرستانی، ص۶

[3]وہی حوالہ

[4]برنارد شاو، عباس محمود العقاد: ۱۲۴،۱۲۵

[5]بشارات عھدین، محمد صادقی

[6]البراھین الساباطیہ، بنقل از کشف الاستار، تالید میرزای نوری۔ ص۸۴

[7]بشارات عھدین، محمد صادقی، ۲۳۲

[8]بشارات عھدین، ۲۶۴

[9]سفر رویا، ۳،۱۲

[10]سفر رویا؛ ۱۲/۵

[11]سفر رویا، ۱۲/ ۱۳

[12]المسیح الدجال۔ سعید ایوب؛ ۳۷۹ تا ۳۸۰

[13]رجوع کریں: کتاب الایمان الصحیح؛ الامام المھدی فی نھج البلاغہ، شیخ مھدی فقیہ قزوینی ایمانی، من ھو المھدی؟ یزدی حائری، الامام المھدی، استاد محمد علی دخیل؛ دفاع عن الکافی، سید ثامر العمیدی۔

[14]الکامل فی التاریخ، ج۷ ص۲۷۴

[15]وفیات الاعیان ج۴ ص ۵۶۲ و ۱۷۶

[16]اصول کافی، ج۱، ص۵۱۴، باب ۱۲۵

[17]کمال الدین، ج۲، ص۴۳۰ باب ۴۲

[18]العبر فی خبر من غبر ج۳ ص۳۱

[19]تاریخ الاسلام، ج۱۹ ص۱۱۳

[20][20]سیر اعلام النبلاء، ج۱۳ ص۱۱۹

[21]نور الابصار، ۱۸۶

[22]الصواعق المحرقہ، ابن حجر ہیثمی، چاپ اول، ص۲۰۷ چاپ دوم، ص۱۲۴

[23]الاتحاف بحب الاشراف، ۶۸

[24]نور الابصار، ۱۸۶

[25]الاعلام، ۶ ، ۸۰


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

سول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اکلوتی ...
اطاعت و وفا کے پیکر علمدار کربلا کی ولادت با سعادت
قرآن و علم
فاطمہ، ماں کي خالي جگہ
خلاصہ خطبہ غدیر
امام علی(ع)اور آج کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کا ...
امام رضا علیہ السلام کے فضائل کے چند گوشے
امام خمینی (رہ):غدیر کے پس منظر میں ہمارے فرائض
امام علی کا مرتبہ شہیدمطہری کی نظرمیں
علم کا مقام

 
user comment