علامات ظہور
الاشاعۃ (برزنجی)، الفتن( حماد) اور آثارالقیامۃ فی حجج الکرامۃ (نواب صدیق حسن خان ) کے حوالے سے کم و بیش ایک ہی عبارت نقل کرتے ہیں۔
'' ان کے (مھدی عج) کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قمیص مبارک، تلوار اور سیاہ رنگ کا ریشمی روئیں دار جھنڈا ہو گا۔ اور وہ جھنڈا کسی روحانی بندش کی وجہ سے حضور کی وفات سے لیکر ظہور مہدی (ع) سے قبل نہیں پھیلایا جا سکے گا، اور اس جھنڈے پر یہ الفاظ لکھے ہوںگے ''البیعۃ للہ''۔
امام مہدی (عج) کی تصدیق اور تائید کے لئے ان کے سر پر ایک بادل سایہ فگن ہوگا جس میں سے ایک منادی کی یہ آواز آ رہی ہوگی:
''ھذا المھدی خلیفۃ اللّٰہ فاتبعوہ ''
یہ اللہ کے خلیفہ مہدی ہیں لہذان کا اتباع کرو۔
اور اس بادل میں سے ایک ہاتھ نکلے گا جو امام مہدی (عج )کی طرف اشارہ کرے گا کہ یہی مہدی ہیں ان کی بیعت کرو۔ (الاشاعۃ ۔ص ۱۹۸)۔
روح قیام
بعد قیام و ظہور جن اوامر کا نفاذ آپ (ع) فرمائیں گے وہی تو آپ کے قیام کی روح ہے ظلم وجور کے خاتمہ کا تعین اور قسط وعدل کی بحالی کی پہچان بھی انہیں قوانین پر منحصرہو گی جن کو آپ (ع) نافذ کریں گے۔ اسی ذیل میں کتاب مذکور میں نقل کیا گیا سید برزنجی کا یہ بیان بھی دیکھئے۔
ہم اس بیان کو خط کشیدہ نقل کریں گے درمیان کے جملے ہمارے ہیں۔
امام مہدی (عج) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کریں گے،
گویا قانون مہدی (ع) سنت رسول (ص) کا واضح تعین کرے گا، تو آج بھی یہ پیمانہ ہاتھ سے گیا تو نہیں۔
کسی سوئے ہوئے شخص کی نیند خراب کرکے اسے جگائیں گے نہیں، ناحق خون نہیں بہائیں گے، ہاں البتہ سنت کے خلاف کام کرنے والے سے جہاد کریں گے۔ تمام سنتوں کو زندہ کردیں گے اور ہر قسم کی بدعت کو ختم کئے بغیر چین نہ لیں گے، آخر زمانے میں ہونے کے باوجود دین پر اسی طرح قائم ہونگے جیسے حضور قائم تھے۔
جب اول بھی قائم ہے اور آخر بھی قائم تو درمیان میں گیارہ ہادیوں کی فہرست کا تعین ان کے قائم ہونے کی خصوصیت سے کیا جاسکتا ہے۔
ذوالقرنین سکندر اور حضرت سلیمان (ع) کی طرح پوری دنیا کے فرمانروا ہوں گے۔
یعنی نیابت رسول (ص) میں سارے عالم کی فرمانروائی ہے تو پھر اگر سقیفہ کو نیابت حاصل تھی تو ان کی فرمانروائی مکہ اور مدینے ہی میں کیوں رہی۔ ؟
صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کردیں گے۔ (عیسائیت کو مٹا دیں گے ) زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دیں گے جس طرح پہلے وہ ظلم وجور سے بھری ہوئی ہوگی۔لوگوں کو بے حسب لپ بھر بھر کر مال دیں گے۔
اس کا مطلب ہے کسی سخی اور کریم کا لہو رگوں میں گردش کر رہا ہوگا۔ ہاں تو ''ھل اتی '' کا تسلسل ختم کیسے ہو سکتا ہے۔
مسلمانوں میں الفت ، پیار و محبت اور نعمتوں کو لوٹا دیں گے اور تقسیم بالکل ٹھیک ٹھیک کریں گے ۔
کیوں نہ ہو قسیم النار والجنۃ کے لال جو ٹھہرے۔
آسمان میں رہنے والے ملائکہ بھی ان سے راضی ہوں گے اور زمین پر بسنے والے جاندار بھی ان سے خوش ہوں گے۔ پرندے فضاؤں میں، وحشی جانور جنگلات میں اور مچھلیاں سمندروں میں ان سے خوش ہوں گی۔
تو اگر بارہ میں کا آخری امام کائنات ہے تو باقی گیارہ بھی امام کائنات ہی ہونے چاہئے۔
امت محمدیہ کے دلوں کو غنا سے بھر دیں گے حتی کہ ایک منادی آواز دے گا کہ جس کو مال کی ضرورت ہو وہ آ کر لے جائے تو اس کے پاس صرف ایک آدمی آئے گا اور کہے گا کہ مجھے ضرورت ہے، منادی اس سے کہے گا کہ تم خزانچی کے پاس جا کر کہو کے مہدی (ع) نے مجھے مال دینے کا حکم دیا ہے چناچہ وہ شخص خزانچی کے پاس جاکر اسے پیغام پہنچا دے گا تو وہ کہے گا کہ تم حسب منشاء جتنا چاہو لے لو، وہ شخص اپنی گود میں بھر بھر کر مال جمع کرنا شروع کردے گاکہ اچانک اسے شرم سی محسوس ہوگی اور وہ اپنے دل میں کہے گا کہ تو امت محمدیہ (ص) کاسب سے زیادہ لالچی انسان ہے، یہ سوچ کر وہ شخص اس مال کو واپس کرنا چاہئے گا تو اس سے وہ مال واپس نہیں لیا جائے گا اور اس سے یہ کہا جائے گا کہ ہم لوگ کچھ دے کر واپس لینے والوں میں سے نہیں ہیں۔
کاش یہ آواز امت نے گیارہ آئمہ علیہم السلام کے زمانے بھی سن لی ہوتی۔
ان کے زمانے میں تمام لوگ ایسی نعمتوں میں ہوں گے کہ اس سے پہلے اس کی مثال لوگوں نے سنی تک نہ ہوگی۔
ہاں وہی اکملت لکم نعمتی کا وارث اور انعمت علیہم کا آخری مصداق ہو گا۔تو مصداق اوّل سے روگردانی کیا معنی رکھتی ہے۔؟
بارشیں اس کثرت سے ہوں گی کہ آسمان اپنا کوئی قطرہ پس اندوختہ نہیں چھوڑے گا، اور زمین اتنی پیداور اگائے گی کہ ایک بیج بھی ذخیرہ نہیں کرے گی۔ ان کے زمانے میں جنگیں ہونگیں وہ زمین کے نیچے سے اس کے خزانوں کو نکال لیں گے۔
کیا ابوتراب (ع) کے بیٹے کے علاوہ بھی زمین کسی کو اپنے خزانے دے سکتی ہے۔؟
اور شہروں کے شہر فتح کرلیں گے۔
واہ رے فاتح بدر وحنین (ع) کے پسر ، لاریب آپ ہی اپنے اجداد کی قولی وفعلی تصدیق کریں گے۔
ہندوستان کے بادشاہ انکے سامنے پابند سلاسل پیش کئے جائیں گے اور ہندوستان کے خزانوں کو بیت المقدس کی آرائش اور تزئین کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ لوگ ان کے پاس اس طرح آئیں گے جیسے شہد کی مکھیاں اپنی ملکہ اور سردار کے پاس آتی ہیں۔
source : tebyan