ایک روایت میں ابی جعفر شب قدر کی تاریخ کے بارے میں فرماتے ہیں :'' خدا وند متعال نے شب قدر کو کائنات کی تخلیق کی ابتدا میں اور اس وقت جب اپنے پہلے نبی اور وصی کو پیدا کیا، وجود بخشا۔ اس نے ارادہ کر رکھا ہے کہ ہر سال ایک رات قرار دے کہ جس میں آئند ہ سال تک کے تمام امور کی تفسیر نازل ہو۔ اور جو شخص بھی اس حقیقت کا انکار کر ے گو یا اس نے اس کے بارے میں خدا کے علم انکار کیا ہے کیو نکہ انبیاء ا و رر سول اور محدثین
قیام نہیں کر تے مگر یہ کہ ایسی رات میں ان کے ذریعہ اتمام حجت کی جائے ... خدا کی قسم! آدم نے وفات نہیںپائی مگر یہ کہ ان کے وصی تھے اور آدم کے بعد اسی رات میں خدا کا امر ہر نبی(صاحب امر ) پر وارد ہو ا اور اس نے اپنے بعد اپنے وصی کو سونپ دیا۔ (٣)
حضرت امام جواد فرماتے ہیں : خدا وند متعال نے شب قدر کو خلقت کائنات کے آغاز میں ہی بنایا۔ اسی طرح اس رات میں اپنے پہلے نبی اور وصی کو بھی خلق کیا۔ خدا کی قضا اور حتمی فیصلہ یہ ہے کہ ہر سال ایک ایسی رات ہو جس میں تمام امور اور مقدّرات نازل کئے جائیں ( اور معین کئے جائیں ) خدا کی قسم! اس رات روح اور ملائکہ نازل ہوئے اوروہ مقدّرات امور کو ان کے پاس لا ئے . حضرت آدم نے رحلت نہیں کی مگر یہ کہ اپنے لئے وصی اور جانشین معین کیا ۔ تمام انبیاء جو حضرت آدم کے بعد آئے، ان پر بھی شب قدر میں خدا کا امر نازل ہو تا تھا . اور ہرنبی نے اپنے بعد اس مر تبہ اور مقام کو اپنے وصی کے سپرد کیا (٤)
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے حضرت امام صادق سے پوچھا : مجھے شب قدر کے بارے میں بتائیں کہ کیا یہ ایک مخصوص رات تھی جو گزر گئی یا ہر سال آتی ہے ؟ امام نے جواب میں فرمایا: اگر شب قدر اٹھالی جائے تو قرآن بھی اٹھالیا جاتا (٥)
اسی طرح کی ایک اور روایت میں پیغمبر ۖ کے مشہور صحابی ابوذر نے نقل کیا ہے ،ابوذر کہتے ہیں : میں نے پیغمبر ۖ سے عرض کیا: اے رسول خدا ! کیا شب قدر صرف انبیاء کے زمانے
میں ہو تی ہے کہ امر ان پرنازل ہوتا ہے اور جب دنیا سے گزر جائیں تو شب قدر بھی اٹھالی جائے گی ؟ حضرت ۖ نے فرمایا: نہیں بلکہ شب قدر روز قیامت تک باقی ہے '' لا بل ھو الی یوم القیامة '' (٦)
ابن عمر کہتے ہیں . بعض صحابہ کرام نے پیغمبر ۖ اکرم سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا . میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا :'' ھی فی کلّ رمضان '' (٧) یعنی شب قدر ہر ماہ رمضان میں ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔اصول کافی، ابو جعفر کلینی ،ج ١ ،ص ٣٦٦
٢۔تفسیر قرآن ، استادشہید مطہری ؛ ص ٣٤٥
٣۔پرتوی از قرآن ، آیت اللہ سید محمود طالقانی ،قسمت ٢ جزء ٣٠ ،ص ١٩٦
٤۔اصول کافی، ج١،ص٣٥٠
٥۔من لا یحضرہ الفقیہ ، ابن بابویہ،ج٢ ص٥٠٢
٦۔ نور ا لثقلین ،ابن جمعہ ،ج. ٥ ص ٦٢٠، مجمع البیان،ج ٢٧،ص١٩٩
٧۔ در المنثور ،جلال الدین سیوطی ،ج٦،ص
source : abna