جب انسان اعتدال سے ہٹ کر کوئي بھي کام شروع کر ديتا ہے ، کوئي بھي روش اپناتا ہے تو وہ بيماري کے زمرے ميں آتي ہے - تاريخ ميں ہميشہ عورت کو افراط و تفريط کا نشانہ بنايا جاتا رہا - عورت کو کبھي بہت انچا درجہ دے ديا جاتا تو کبھي اس حد تک تذليل کا نشانہ بنايا جاتا کہ جہاں انسانيت کا سر شرم سے جھک جاتا - عورت کو کبھي تقدس کا اونچا درجہ دے کر پاربتي اور درگار ديوي بنايا گيا، جس کے قدموں ميں خود شنکر اور کيلاش پتي نظر آتے ہيں، کبھي اس بے بس مخلوق کو خدا کي لعنت اور ’’شيطاني کمند‘‘ قرار ديتے ہيں، کبھي اس کو اس حد تک اونچا کيا گيا کہ جائيداد منقول اور غير منقول کا حق صرف عورت تک محدود کر ديتے ہيں اور مرد کے بارے ميں فيصلہ کيا گيا کہ وہ نہ تو کسي جائيداد کا مالک ہو سکتا ہے اور نہ اُسے بيچ سکتا ہے، جيسا کہ افريقہ کے کئي قبائل خصوصاً ملثمين کے قوانين ميں درج ہے کہ عورت کو خود منقولہ جائيداد سمجھا گيا- جيسا کہ ارسطو طاليس کي تعليمات ميں ملتا ہے کبھي عورت کو وراثت سے کليتاً محروم کر ديا گيا ہے، کيونکہ اس سلسلے ميں بہت سے مفکروں نے مختلف خيالات کا اظہار کيا ہے، جيسے يونانيوں کا خيال تھا کہ آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسے جانے کا علاج ممکن ہے، ليکن عورت کے شر کا علاج محال ہے- سقراط کہتا ہے کہ عورت سے زيادہ فتنہ و فساد کي چيز دنيا ميں کوئي نہيں ہے، وہ ايک ايسا درخت ہے کہ بظاہر انتہائي خوبصورت اور خوش نما نظر آتا ہے، ليکن جب کوئي اسے کھاتا ہے تو مر جاتا ہے- افلاطون کا قول ہے کہ دنيا ميں جتنے ظالم اور ذليل مرد ہوتے ہيں وہ سب نتائج کي دنيا ميں عورت بن جاتے ہيں- مقدس قدس برنار کہتا ہے کہ عورت شيطان کا آلہ کار ہے- يوحنا دمشقي کہتا ہے کہ عورت مکر کي بيٹي ہے اور امن و سلامتي کي دشمن- غرضيکہ عورت کو مختلف طريقوں سے بدنام کيا گيا اور معاشرے ميں اس کي حيثيت پر سواليہ نشان لگايا گيا - ( جاري ہے )
source : tebyan