قرآن كريم، خداوند عالم كي جانب سے انسانوں كے لئے عظيم ترين تحفہ ہے جو سعادت جاوداني كي طرف ان كي ہدايت كرتا ہے.
قرآن مجيد، اسلام اور پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ و سلّم كي رسالت كي حقانيت پر بہترين دليل ہے جو ہميشہ اپنے اعجاز آفرين بيان سے تمام انسانوں كے لئے حجت تمام كرديتا ہے.
قرآن حكيم، اسلامي احكام و معارف كے اثبات كي معتبر ترين سند ہے خداوند متعال نے جس كي بقا كي ضمانت لي ہے اور ہر طرح كي تحريف سے اس كو محفوظ و مصئون ركھا ہے.
قرآن شريف، تمام مسلمانوں كے درميان اتحاد و اتفاق كا محكم ترين محور ہے جس ميں تمام فرقوں اور گروہوں كے درميان اختافات مٹانے كا منبع و وسيلہ بننے اور تمام حق كے متلاشيوں كے سامنے دين كے اصل خطوط واضح كرنے كي صلاحيت موجود ہے.
ان سب كے باوجود مسلمانوں نے حقائق كي شناخت اور اس كے اصول و قوانين كي اطاعت كے سلسلہ ميں ضروري اہتمام سے كام نہيں ليا ہے اسي بنا پر رحمت الہي كا پيغام لانے والا بارگاہ پروردگار ميں شكايت كرتا نظر آتا ہے:
“وَقال الرسول يارب انَّ قومي اتَّخذوا ھ?ذا القرانَ مھجوراً”
(اور رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلّم نے كہا: اے ميرے پالنے والے ! بے شك ميري اس قوم نے اس قرآن كو مہجور و تنہا چھوڑ ديا ہے) ( فرقان)
ہمارے عصر كي جليل القدر ہستي علامہ طباطبائي رضوان اللہ عليہ نے حوزہ علميہ قم ميں قرآن كے احياء كا پرچم بلند كيا اور اپنے دروس نيز “الميزان” جيسي تفسير لكھ كر اس راہ ميں ايك عظيم قدم اٹھايا كہ انشاء اللہ خداوندعالم انہيں اس كا اجر عطا كرے گا اس جذبہ سے سرشار ہوكر ہم نے قرآني افكار سے آگاہي حاصل كرنے كے لئے اس كے مطالب كو چند عنوانات كے تحت جديد پيرائے ميں اختصار كے ساتھ درس كے عنوان سے رواں و عام فہم زبان ميں پيش كرنے كي كوشش كي ہے
جيسا كہ اميرالمونين صلوات اللہ عليہ نے فرمايا ہے كہ قرآن ايك بے كراں سمندر ہے جس كي گہرائيوں تك پہنچنا معصومين صلوات ا للہ عليہم اجمعين كے علاوہ كسي كے لئے ممكن نہيں ہے اس كے باوجود خود قرآن نے بھي اور حضرت ائمہ طاہرين عليہم السلام نے بھي لوگوں كو قرآني آيات كے بارے ميں غور و فكر سے كام لينے كي دعوت دي ہے قرآن كہتا ہے:
“كِتَاب اَنزلناہ اليك مبارك ليدّبروا آياتہ ” (سورہ ص )
ہم نے بركتوں سے معمور كتاب تم پر اس لئے نازل كي ہے تاكہ لوگ اس كي آيتوں پر غور و فكر كريں
قرآن اسي پر اكتفا نہيں كرتا بلكہ وہ لوگ جو قرآن ميں فكر و تدبر سے كام نہيں ليتے ان كو مورد مواخذہ قرار ديتا ہے:
“اَفَلا يَتَدَبّرونَ القرآن اَم عَلي قُلُوب اَقضَالُھَا” (سورہ محمد)
آيا وہ قرآن كے بارے ميں غور و فكر نہيں كرتے يا ان كے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہيں
پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلّم اور ائمہ ہدي عليہم السلام نے بھي قرآن كي طرف رجوع كرنے اور اس كي آيتوں پر غور و فكر كرنے كي بڑي شدّت كے ساتھ تاكيد كي ہے، خصوصاً جبكہ معاشرہ كي فكر ظلمبت و آشفتگي كا شكار ہو اور مسلمانوں كے درميان ايسے شكوك و شبہات سر اٹھارہے ہوں جوان كو فكري و عقيدتي انحرافات ميں مبتلا كرنے كا سبب ہوں تو ايسے حالات ميں قرآن كي طرف رجوع كرنے كي شديد لہجہ ميں تاكيد كي گئي ہے:
اِذّا التَبَسَت عليكم الفتن كقطع الليل المظلم فعليكم بالقرآن
جب فتنے اندھيري رات كے ٹكڑوں كي مانند تم كو گھير ليں تو قرآن كي جانب رجوع كرو
بشکریہ رضویہ اسلامک ریسرچ سینٹر
source : tebyan