قرآن پاک کے اسامي اور ناموں کے بارے ميں کتاب اور سنت کے پيروکاروں اور بہت سارے محققين نے مفصل کتاب ، تحقيقي مقالات اور جريدے نشر و اشاعت کئے ہيں ، لہذا شايد قارئين محترم يہ تصور کريں کہ اس موضوع پر اتني ساري کتابيں اور مقالات ہونے کے باوجود مزيد اس موضوع پر قلم اٹھانا چنديں افاديت کا حامل نہ ہو ، ليکن مرحوم علامہ طباطبائي عارف زمان علم و عمل ، زہد و تقوي کے بينظير ہستي کا فرمان ہے کہ فہم قرآن کي خاطر ہر سال جديد تفسير اور تحرير کي ضرورت ہے لہذا جتنے مقالات اور کتابيں اس موضوع پر لکھي گئي ہيں پھر بھي ہماري ذمہ داري يہ ہے کہ ہم اس جديد دور کے تقاضے کے مطابق علوم قرآن کے موضوع پر جو فہم قرآن کے لئے بنيادي حيثيت رکھتا ہے مقالات ، جريدے اور کتابوں کي شکل ميں تحرير کريں تاکہ ہر ايک طالبعلم اپني شرعي ذمہ داري سمجھے لہذا دانشمند حضرات ميں سے نامور علوم قرآن کے ماہر مرحوم علي بن احمد جوحرّالي کے لقب اور ابوالحسن کي کنيت سے معروف ہيں-
اسامي قرآن کے عنوان پر مستقل ايک کتاب لکھي ہے جس ميں انہوں نے فرمايا ہے کہ اللہ نے کلام پاک ميں قرآن کو 90 عناوين سے ياد کيا ہے- جس کي حقيقت درک کرنے کي خاطر ماہرين علماء اور مفسرين کي ضرورت ہے-
شافعي مذہب کے معروف فقيہ جو ابولمعالي کي کنيت سے معروف ہيں، ان کي معروف کتاب کا نام البرہان في مشکلات القرآن ہے جس ميں انہوں نے فرمايا : کلام پاک ميں قرآن مجيد کو 55 عناوين اور ناموں سے ياد فرمايا ہے-
جناب حسين بن علي رازي اماميہ کے برجستہ اور نامور و مشہور علماء ميں سے ايک ہيں جن کي کنيت ابو الفتوح تھي ، آپ مرحوم طبرسي صاحب مجمع البيان اور آقاي زمخشري کے ہم عصر تھے آپ نے فرمايا کہ قرآن مجيد کو قرآن مجيد ميں 43 ناموں اور عناوين سے ياد کياہے-
مرحوم طبرسي جو ابو علي کي کنيت امين الدين يا امين الاسلام کے لقب سے معروف اور مشہور ہيں فرمايا قرآن کريم کے چارنام ہيں: 1- قرآن 2- کتاب 3- فرقان 4- ذکر
اور بہت سارے مفسرين او رعلوم قرآن کے محققين نے انہيں چار عناوين اور ناموں کي تفسير اور وضاحت فرمائي ہے لہذا ہمارے دور کے بہت سارے محققين نے اسامي قرآن کو فقط پانچ عناوين قرار ديے ہيں. 1- قرآن 2-کتاب 3-ذکر 4-تنزيل، 5-فرقان، ديگر تمام عناوين کو قرآن مجيد کے اوصاف قرار ديے ہيں، ليکن دقت کے دامن ميں تمام محققين کے کلام اور تحقيقات کو بيان کرکے نقد و بررسي کرنے کي گنجايش نہيں ہے، فقط بيشتر مفسرين او رعلوم قرآن کے ماہرين کے نظريہ کو اجمالي طور پر نقل کرنے پر اکتفا کرو نگا جس پر ہمارے استاد محترم حضرت حجۃ الاسلام و المسلمين الحاج رجبي نے بھي اپنے لکچر ميں اشارہ کيا تھا آپ اس دور ميں حوزہ علميہ قم ميں علوم قرآن کے ماہر ترين استاد ، موسسہ امام خمينيط“ کے شعبہ علوم قرآن کے ڈائريکٹر ہيں ، آپ نے فرمايا قرآں مجيد کے اسامي معروف مفسرين او رعلوم قرآن کے محققين کي نظر ميں درج ذيل ہيں:
1- قرآن 2-کتاب 3-فرقان 4-ذکر 5-تنزيل 6-مبين 7-کريم 8-نور 9-ہدي 10- موعظہ 11-شفاء 12-مبارک 13-عليّ 14-حکمۃ 15-حکيم 16-مصدّق 17-مہيمن18-حبل 19-صراط المستقيم 20-قيّم 21-قول فصل 22- نباء العظيم 23-احسن الحديث 24-متشابہ 25-مثاني 26-روح 27-وحي 28-عربيّ 29-بصائر 30-بيان 31-علم 32-حق 33-ہادي 34-عجب 35-تذکرہ 36-العروۃ الوثقي 37-عدل 38-صدق 39 امر 40-منادي 41-بشري 42-مجيد 43-زبور 44-بشير 45-نذير 46-عزيز 47-بلاغ 48-قصص 49-صحف 50-مکرّمہ 51-مرفوعہ 52-مطہرۃ 53-کلام اللہ 54 -رزق الرّب 55- تبيان 56-نجوم 57- سراج المنير 58-نعمۃ 59 -مصحف -
اگر چہ ديگر کچھ محققين نے اس سے زيادہ ذکر کئے ہيں، ليکن اکثر علوم قرآن کے ماہرين نے انہيں مذکورہ عناوين پر اکتفا کئے ہيں، لہذا يقيني طور پر کہہ سکتے ہيں کہ قرآن مجيد کے متعدد نام او راسامي ہيں جس پر سارے مسلمانوں کااتفاق ہے ، ليکن ان کي کميت او رتفسير کے بارے ميںمسلمانوں کے درميان اختلاف ہے-
مگر اختصار اور فرصت کي قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے قارئين محترم کو اس موضوع کے متعلق ديگر مفصل کتابوں کي طرف محوّل کرتا ہوں رجوع کيجئے-
source : tebyan