انا للہ و انا الیہ راجعون و الحمد للہ رب العالمین ۔۔۔ انی خفقت برأسی فعن لی فارس و ھو یقول: القوم یسرون و المنایا تسری الیھم فعلمت انھا انفسنا نعیت الینا ۔۔۔ جزاک اللہ من ولد خیر ما جزی ولدا عن والدہ_ توضیح و ترجمہ: منزل قصر بنی مقاتل میں رات کے آخری پہر امام نے حکم دیا کہ نوجوان اپنی مشکیں پانی سے پر کریں اور حرکت پر آمادہ ہوں۔
جب یہ قافلہ چلا تو قافلہ والوں کے کان میں امام کی یہ آواز پہنچی ﴿انا للہ و انا الیہ راجعون والحمد للہ رب العالمین﴾۔ امام بار بار یہ جملہ فرما رہے تھے۔ حضرت علی اکبر(ع) - امام حسین(ع) کے دلیر فرزند- اس کلمہ استرجاع (انا للّٰہ۔۔۔) کے بارے میں آپ سے سوال کرتے ہیں۔ امام نے جواب میں فرمایا: ﴿انی خفقت برأسی﴾ ”میں نے اپنا سر گھوڑے کی زین پر رکھا ہوا تھا کہ ہلکی سی نیند میری آنکھوں پر مسلط ہوئی۔ اس موقع پر میں نے ہاتف کی آواز سنی کہ کہہ رہا تھا ﴿القوم یسرون۔۔۔﴾ یہ لوگ رات کے اس اندھیرے میں جا رہے ہیں اور موت بھی ان کے تعاقب میں ہے۔ پس مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ میری موت کی خبر ہے۔ حضرت علی اکبر(ع) نے عرض کیا: ﴿لا اراک اللہ بسوء السنا علی الحق؟﴾ ”خدا کوئی برا حادثہ نہ لائے۔ کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟“ امام نے فرمایا: ”ہاں خدا کی قسم ہمارے حق کے بغیر قدم ہی نہیں اٹھاتے“۔ حضرت علی اکبر(ع) نے عرض کی: ﴿اذا لانبالی ان نموت محقین﴾ اگر راہِ حق میں ہی مرنا ہے تو ہمیں موت سے کوئی ڈر نہیں۔ امام نے اس موقع پر اپنے لخت جگر کو دعا دی اور فرمایا: ﴿جزاک اللہ من ولد۔۔۔﴾ ”اے بیٹے خدا تجھے بہترین بیٹا ہونے کی جزا عنایت فرمائے۔۔۔“ جی ہاں اگر مارنا اور مارا جانا یا قیام و انقلاب خداوند کریم کی راہ میں ہو تو ایسی موت سے خوف نہیں ہونا چاہیئے اور یہ وہ درس ہے جو مکتب ِ حسین (ع) سے نہ صرف بیٹے کو سکھایا جا رہا ہے بلکہ تمام حسینی پیرو کاروں کو یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ
مرگ اگر مرد است گو پیش من آی تا در آغوشش بگیرم تنگ تنگ
source : tebyan