معاشرے ميں قرآن کا رواج ضروري ہے- ابھي تک جو کچھ انجام پايا ہے وہ صرف ايک قدم ہے- ابھي اس کے بعد سوقدم اٹھانے باقي ہيں- ہمارے عوام قرآن سيکھيں، حفظ قرآن کا رواج ہونا چاہئے، ہمارے گھروں ميں ہميشہ تلاوت قرآن ہوني چاہئے- پ کو معلوم ہے کہ اسلام قرآت قرآن کے سلسلے ميںکيا کہتا ہے؟
’’اشرف امتي اصحاب الليل وحملہ القرآن‘‘
ميري امت کے معززين شب زندہ دار اور حاملات قرآن افراد ہيں-
حمل قرآن کا مطلب صرف يہ نہيں ہے کہ ہم قرآني تعليمات و قوانين پر عمل کرتے ہيں بلکہ قرآن سے انسيت ضروري ہے- قرآن کي تلاوت کي جائے، قرآن کو حفظ کيا جائے، گھروں سے تلاوت قرآن کي دلنواز صدائيں بلند ہوں، نسل جوان قرآن پڑھے، بچے قرآن سيکھيں-
مائيں اپنے بچوں کو حتمي طورپر تلاوت قرآن کي تعليم ديں- باپ اپنے بچوںک تلاوت قرآن کي نصيحت کرنا ايک فريضہ سمجھيں-ذکر قرآن سے معاشرے کو معمور کرديجئے، ہماري زندگي کو قرآن سے معطر ہونا چاہئے، اس کے بغير نجات ناممکن ہے- صدر اسلام ميں قرآن عوام کے درميان رائج تھا، جو شخص قرآن لکھتا تھا،ياد کرتا تھا، اس کي تلاوت کرتا تھااسے معاشرے ميں عزت و قدر کي نگاہ سے ديکھا جاتا تھا، وہ پيغمبر0 کي نگاہوں ميں محبوب سمجھا جاتا تھا-
پيغمبر0 اسلام نے عظمت قرآن کا جو سکہ بٹھايا تھا، عوام کے درميان الفت قرآن کي جو موج ايجاد کي تھي وہ ايک عرصہ تک باقي رہي، عوام قرآن سے وابستہ رہے- اور قرآن زندہ تھا- اسلامي حکومت اس وقت اپني حقيقت کھو بيٹھي جب قرآن معاشرے سے رخصت کرديا گيا-
جب تک عوام ميں قرآن سے اس باقي تھي عياش وشہوت پرست بادشاہوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ علانيہ فسق و فجور کے بھي مرتکب ہوں اور عوام پر حکومت بھي کرتے رہيں- تاريخ ميں ايسے واقعات ملتے ہيں کہ عوام نے خليفہ کے مقابلے ميں قرآن کے ذريعہ مبارزہ و مجادلہ کرکے اسے عاجز و لاجواب کرديا- يہ سلسلہ خلفائے بني اميہ اور کسي حد تک خلفائے بني عباس کے دور تک باقي رہا- قرآن مجيد معيار و فرقان سمجھاجاتا تھا- عوا اس کے معتقد تھے- جب خليفہ کے رفتار وکردار اس معيارو فرقان سے ميل نہ کھاتے تو عوام ان سے جواب طلب کرتے تھے- لہٰذا قرآن مجيد کو عوامي زندگي سے دور کرنے کوششيں شروع کرديں- حتي کہ اموي خلفائ نے قرآن مجيد کو تيروںسے چھلني کرديا- ہماري تاريخ ايسے حوادث سے دوچار ہوئي ہے-
source : tebyan