امريکہ کا مشہور ومعروف مورخ اپرونيک، واشنگٹن سے لکھتا ہے:
"امام حسين(ع) کے ليے ممکن تھا کہ يزيد کے آگے جھک کر اپني زندگي کو بچا ليتے- ليکن امامت کي ذمہ داري اجازت نہيں دي رہي تھي کہ آپ يزيد کو ايک خليفۃ المسلمين کے عنوان سے قبول کريں انہوں نے اسلام کو بني اميہ کے چنگل سے نجات دلانے کے ليے ہر طرح کي مشکل کو خندہ پيشاني سے قبول کرليا- دھوپ کي شدت طمازت ميں جلتي ہوئي ريتي پر حسين نے حيات ابدي کا سودا کر ليا ، اے مرد مجاہد، اے شجاعت کے علمبردار، اور اے شہسور، اے ميرے حسين"-
2:امام حسين (ع) کي ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد شہادت تک تمام موجودات عالم نے آپ پر گريہ کيا ہے- اور شہادت کے بعد قيامت تک گريہ کرتے رہے گے ايسا حادثہ کسي کے ليے نہ پيش آيا ہے اور نہ پيش آ ئےگا- ہاں حضرت يحيي (ع) کے ليے بھي آسمان نے گريہ کيا تھا- تفسير مجمع البيان ميں اس آيت " فما بکت عليھم السماء وا لارض " کے ضمن ميں مرحوم طبرسي نے فرمايا: دو آدميوں جناب يحيي اور حضرت امام حسين (ع) کے ليے آسمانوں اور فرشتوں نے چاليس دن تک گريہ کيا ہے- اور اسي تفسير ميں آيا ہے: سورج طلوع اور غروب کے وقت چاليس دن تک سرخ حالت ميں رہا ہے - ابن شہر آشوب کے مناقب ميں يوں آيا ہے:
بکت السماء علي الحسين (ع) اربعين يوماً-( تفسير صافي ، سورہ دخان)-
3: امام حسين (ع) تمام کمالات اور فضائل ميں تمام انسانوں سے برتر تھے- کيوں آپ کي کنيت ابا عبدا للہ ہے - کيا يہ ايک معمولي سي کنيت ہے؟ بظاہر اس کنيت کے اندر ايک ايسي خصوصيت ہے جو آپ کو تمام کمالات کا محور اور مرکز قرار ديتي ہے-
ابو عبد اللہ يعني اللہ کے بندے کا باپ- باپ کا ايک خاندان ميں بنيادي رول ہوتا ہے-وہ اس خاندان کے ليے نمونہ ہوتا ہے- باپ ايک مربي ہوتا ہے- پس امام حسين (ع) بھي تمام اللہ کے بندوں کے باپ ہيں يعني تمام عبادتگذار کمالات کو حاصل کرنے کے ليے آپ کے در پہ آتے ہيں - وہ ہر کمال کا نمونہ ہيں اور ہر کمال آپ ميں خلاصہ ہوتا ہے-
source : tebyan