یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے دنیائے عرب میں ایک عالم گیر شخصیت رونما ہوئی، جس کا نام محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا اور جس نے اس بات کا دعوی کیا کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا نبی ہوں اس شخص کے دعوی نبوت پر کچھ ہی عرصے میں عرب اور عجم کی اکثریت ایمان لے آئی اور اس عظیم شخصیت کے پاس ایک کتاب تھی جسے وہ اپنے رب کی طرف منسوب کرتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ کتاب تم کو الہی معارف، احکام شریعت اوراخلاق انسانی کی تعلیم دینے کے لئے نازل ہوئی ہے اوروہ شخص اپنی نبوت اور اپنے لائے ہوئے دین پراسی کتاب کو دلیل بنا کرپیش کرتا تھا۔ وہ اس کتاب سے لوگوں کی ہدایت کرتا اور مخالفین کے لئے حجت قرار دیتا تھا اس کا کہنا تھا
کہ اگر تم کو میری نبوت اور اس مقدس کتاب پر یقین نہیں ہے تو تم بھی اس کے مقابل اپنی کوئی کتاب لے آو اور اگر ساری کتاب کا جواب تم سے ممکن نہیں ہے تو صرف ایک سورہ یا چند آیتیں ہی لا کر بتلا دو ۔
عرب کو اس زمانے میں اپنی زبان و بیان پر بڑا ناز تھا۔ لیکن اس کے باوجود کہ چودہ سو سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گذر گیا ہے، اس کتاب کا کوئی جواب نہیں یا اور جن لوگوں نے اس کتاب کے جواب میں چند سطریں بھی پیش کیں تو خود مخالفین کتاب نے اس مقدس سمانی کتاب کا دفاع کیا اور کہا کہ زبان و بیان اور معنی و مفہوم ..... و ہنگ کلام کے اعتبار سے یہ جواب عرب کے جاہلوں کے کلام سے بھی گیا گذرا ہے تو کجا یہ مقدس کتاب کہ جس کے مطالب و مفاہیم بھی عالی ہیں اور از لحاظ زبان و بیان حرف آخر ہے۔
سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس مقدس کتاب کا نام قرآن اور جو دین آپ لے کر آئے ہیں اسے اسلام کہتے ہیں اور جو کتاب مسلمانوں کے بیچ بنام قرآن رائج ہے ،یہ وہی کتا ب ہے جو آپ پر نازل ہوئی تھی اور جس کا جواب آج تک نہ سکا اور جو آج بھی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر محکم اور متقن دلیل ہے۔
جس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں، اسی طرح یہ کتا ب بھی کاروان ہدایت کا آخری چراغ ہے اور دین اسلام عالم بشریت کی نجات کا آخری راستہ ہے ۔
اب ایسی اہم کتاب صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ، بلکہ ساری بشریت کے لئے آب حیات کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کے بغیر ایک حقیقی زندگی گذارنا مشکل ہی نہیں، بلکہ محال ہے۔ یہ کتاب بشریت کی روح ہے یعنی اس کے بغیر انسان ایک زندہ لاش ہے ۔
لیکن یہ مقدس آسمانی کتاب، اسی وقت راہ ہدایت کا چراغ بن سکتی ہے جب یہ کتاب تحریف و تغییر کے ناپاک ہاتھوں سے محفوظ رہے ۔ اس لئے کہ اسلام سے پہلے تمام سمانی کتابیں تحریف کا شکار رہی ہیں اور اسی تحریف کی وجہ سے ان کتابوں میں موجود معارف پر اعتماد اور اعتقاد کو نقصان پہونچا ہے۔ اب چونکہ اسلام آخری اور کامل ترین دین ہے اور یہ دین ایسے قوانین کا حامل ہے جو انسان کی مادی و معنوی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور ان تمام قوانین کا جاوادانہ ماخذ او ر منبع یہی قرآن ہے ، پس اس کتاب کا تحریف سے پاک ہونا لازمی ہے ۔
اگر چہ پچھلی آسمانی کتابوں میں تحریف و تغییر نے ادیان الھٰی کو خدشہ دار بنا دیا ہے، لیکن الھٰی قوانین کا تدریجی سفر اور پچھلی شریعتوں کے بعد نے والی نئی شریعتوں نے تحریف سے ابھرنے والے خطرات کو کسی حد تک کم کر دیا ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ یا قرآن مجید بھی اپنی تاریخ کے نشیب و فراز میں اس حالت سے دچار ہوا یا نہیں ؟اور اس سوال کا جواب اس لئے بھی ضروری ہے کیوں کہ خود قرآن مجید میں خدا وند عالم نے اس کتاب کو مھیمن سے یاد کیا ہے۔ یعنی یہ کتاب پچھلی آسمانی کتابوں کی مصدق اور محافظ ہے ۔
و انزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیه من الکتاب و مهیمنا علیه فاحکم بینهم بما انزل الله ولا تتبع اهوائهم مما جا ئک من الحق (مائدہ ٨ ٤ )
ترجمہ : اور اس کتاب کو ہم نے حق کے ساتھ تم پر نازل کیا، جبکہ یہ گذشتہ کتب کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی محافظ اور نگہبان ہے۔ لھٰذا اللہ نے جو احکام نازل کیئے ہیں ان کے مطابق عمل کرو ۔ اور ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو اور جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اس سے منھ مت پھیرو ۔
قرآن مجید کی یہ خصوصیت اسی وقت باقی رہ سکتی ہے جب یہ قرآن دو اعتبار سے اپنا تشخص قائم رکھے ۔
اوّل : یہ معجزہ بن کر ابھرے
دوّم : یہ صرف معجزہ بن کر ابھرنا بھی کافی نہیں ہے ، بلکہ اس قرآن کو اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے تحریف سے محفوظ رہنا ہو گا، کیونکہ ایک تحریف شدہ کتاب معجزہ کی صلاحیت نہیں رکھ سکتی ۔
اب بحث کا آغاز یوں ہوگا کہ قرآن تحریف سے محفوظ ہے یا نہیں ؟ لیکن اس بات کو بھی روشن کرنا ضروری ہے کہ’’ تحریف قرآن کی بحث تاریخ اسلام کے ایک خاص زمانے سے مربوط ہے، کیونکہ اس زمانے کے بعد تحریف قرآن کا تصور بھی نہیں ہو سکتا اور وہ زمانہ خلیفہ ثالث کی جمع وری قرآن کا زمانہ تھا‘‘
یہاں پرحضرت عثمان کی جمع آوری قرآن سے مراد یہ ہے کہ حضرت عثمان نے صرف ایک قرآت پرقرآن کوجمع کیا ہے۔ کیونکہ قرآن تو رسول کے زمانے ہی میں جمع کردیا گیا تھا اورایک کتاب کی صورت میں محفوظ تھا چنانچہ جیسے ہی آیت نازل ہوتی حفاظ اسے حفظ کرتے اورکاتبان وحی اسکی کتابت کرلیتے تھے اور حضرت علی ٴ ان کاتبان وحی میں سرفہرست تھے اور اسی طرح حضرت علی ٴکے قرآن جمع کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سے پہلے قرآن کتاب کی شکل میں موجود نہیں تھا، بلکہ آپ نے قرآن کوشان نزول کے اعتبارسے مرتب کیا تھا۔پس ابتدائے اسلام سے خلافت عثمان تک جوزمانہ ہے، اسی زمانہ میں تحریف قرآن کی حقیقت کا پتہ لگایا جائے گا۔
قرآن کے الفاظ میں تصرف کرنے کوتحریف کہتے ہیں۔پس پتہ چلا کہ تحریف لغوی سے مرادتحریف معنوی ہے اورتحریف لفظی سے مرادتحریف اصطلاحی ہے ۔
١) تحریف عملی: یعنی قرآنی تعلیمات کے برخلاف عمل کرنا۔
٢)تحریف معنوی : یعنی کلام الہٰی کے حقیقی مفہوم کواس کے برخلاف تفسیروتاویل کرنا۔
٣)تحریف لفظی : یعنی کلام الہٰی میں کمی یا زیادتی کرنا اور آیات قرآنی کونزول قرآن کی ترتیب سے پیش نہ کرنے کو بھی تحریف لفظی سے تعبیرکیا جاتا ہے ۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ تحریف عملی اورتحریف معنوی، ان دونوں کے بارے میں علماء کا متفقہ فیصلہ اور ہمارا اور آپ کا روزمرہ کا مشاہدہ بھی ہے کہ قرآن میں تحریف عملی بھی ہوئی اورتحریف معنوی بھی، یعنی ہر روز کتنی ایسی اسلامی اور قرآنی تعلیمات ہیں کہ جو امت اسلام کے ہاتھوں پامال ہوتے ہیں اورکتنی ایسی خلاف ورزیاں ہیں کہ جو ہر روز انجام پاتی ہیں ۔ پس اس حقیقت کونظرمیں رکھتے ہوئے کوئی یہ دعويٰ نہیں کرسکتا کہ تمام مسلمان قرآن پرصد درصد عمل پیرا ہیں۔ اگرچہ وہ قرآن کی حقانیت کوتسلیم کرتے ہیں،اوراس پرکامل ایمان رکھتے ہیں۔
تحریف معنوی :
اسی طرح تحریف معنوی کامسئلہ ہے یعنی آسمانی کتابوں کی ہمیشہ یہ مظلومیت رہی ہے کہ ہر دور میں آسمانی کتابوں کومفسروں نے تفسیر بالرائے کے ذریعے اس کے حقیقی معنی کوبدل دیا ہے۔ خود قرآن مجید اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے:
فاماالذین فی قلوبهم زیغ فیتبعون ماتشابه منه ابتغائ الفتنه وابتغائ تاویله ( آل عمران : ٧)
ترجمہ : اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں، تاکہ فتنہ برپا کریں اور من مانی تاویلیں کریں ۔
اور آئمہ علیم اسلام کے کلام میں قرآن کے اندر تحریف معنوی کے واقع ہونے کا ذکر ملتا ہے کہ قرآن میں تحریف معنوی ہوئی اورلوگوں نے اس کتاب کا معنوی چہرہ بگاڑنا چاہا ہے، اورافسوس تویہ ہے کہ جاہل افراد ایسی تحریف پرخوش ہیں ، اور اگر قرآن کی حقیقی تفسیرکی جائے تو وہ قرآن کو بے اہمیت سمجھنے لگتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام ٴفرماتے ہیں: اليٰ الله اشکو من معشر یعشون جهالاً و یموتون ضلالاً لیس فیهم سلعة ابور من الکتاب اذاتليٰ حق تلاوته ولاسلعة انفق بیعاً ولااغليٰ ثمناً من الکتاب اذاحرف عن مواضعه
ترجمہ : اللہ ہی سے شکوہ ہے ان لوگوں کا جو جہالت میں جیتے ہیں اورگمراہی میں مرجاتے ہیں ، ان میں قرآن سے زیادہ کوئی بے ارزش چیز نہیں ہے جبکہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسا کہ پیش کرنے کا حق ہے۔ اوراسی طرح قرآن سے زیادہ ان میں مقبول اورقیمتی چیزنہیں ہے اس وقت جب کہ اس کی یتوں کا بے محل استعمال ہو۔
ہمارامشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ تمام اسلامی فرقے اپنے مکتب اورمسلک کی حقانیت کوثابت کرنے کیلئے قرآ ن کا سہارا لیتے ہیں اوراسی سے استناد کرتے ہیں،جبکہ تمام فرقے حق پرنہیں ہیں، صرف ایک فرقہ حق پر ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تمام اسلامی فرقوں کا منبع اورماخذ یہی قر آن ہے ، دراصل یہ لوگ یت کی ڈور پکڑ کراس کارخ اپنی ہوا و ہوس اور اپنی ذاتی اور شخصی فکر کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
اب یہاں کوئی سوال کرسکتا ہے کہ جب مسلمانوں کی کتاب ایک ہے اور دین ایک ہے، تو پھر یہ فکری اختلاف اور اختلاف مسالک کا کیا سبب ہے ؟ جواب یہ ہے کہ جب گھرکی بات کو گھر والوں سے نہ سمجھا جائے توتفرقہ اس کا لازمی نتیجہ ہے ۔ جب رسول اکرم (ص ) نے حدیث ثقلین میں پہچنوا دیا کہ دیکھو قرآ ن کے حقیقی مفسر اور ظاہر و باطن کے جاننے والے یہ اہل بیت (ع ) ہیں۔ اس کے باوجود امت نے اہل بیت (ع) کوچھوڑ کردشمنان اہلبیت سے اور اہلبیت کے علاوہ دوسرے افراد سے قرآن سیکھنا چاہا ، جس کا نتیجہ ایک اسلام کے بہتّر فرقے ہیں۔ اہل بیت کو چھوڑنے والوں نے اس خیال میں چھوڑ دیا کہ ہمارے لئے کتاب کافی ہے۔ کیونکہ یہ روشن عربی میں نازل ہوئی اوراس کا سمجھنا ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ آج مفوضہ اورشیجینہ اورباطنیہ اشاعرہ جیسے کلامی فرقے وجودمیں آئے ۔تفسیربالرای کے خطرات کی واضح مثال فرقہ باطنیہ میں دیکھ سکتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ قرآن کاایک ظاہراورایک باطن ہوتاہے، ظاہر کی مثال ’’ قشراورچھلکے ‘‘ کی طرح ہے اور باطن کی مثال مغز اور لب کی طرح ہے اور اسی ادراک کا نتیجہ ہے کہ وہ احتلام سے مرادافشاء راز اور غسل سے مراد تجدیدعہد لیتے ہیں اور زکات کوتزکیہ نفس اور ان الصلوٰۃ تنھيٰ عن الفحشاء والمنکر میں صلوٰۃ کو رسول اکرم (ص ) سے تعبیرکرتے ہیں۔
آئمہ (ع) اسی دن سے ڈرتے تھے اورلوگوں کو تفسیر بالرائے سے روکتے تھے۔ کیونکہ تفسیربالرائے کا نتیجہ تفرقہ اور اختلاف ہے ۔ آئمہ (ع) کی اتنی مخالفت کے باوجودہم دیکھتے ہیں کہ امت اسلامیہ کاشیرازہ بکھرا ہواہے ۔
اس تاسف بار کا ذکر کرتے ہوئے امام باقر ٴ فرماتے ہیں:
وکان من تبعهم الکتاب ان اقامواحروفه وحرفواحدوده فهم یرونه ولایرعونه والجهال یعجبهم حفظهم للروایةوالعلماء یحزنهم ترکهم للروایة(البیان فی تفسیرالقرن ج٥ ص٢٨٤)
ان مختلف دلائل سے روشن ہوتاہے کہ قرآن کے اندر معنوی اورعملی تحریف واقع ہوئی اوراس سے انکارایک ناممکن سی بات ہے۔ آج قرآن کو لیکر اسلام کا ہر فرقہ اپنی حقانیت ثابت کرنے پرتلا ہے۔ اور اس پردوسرے فرقے اسی قرآن کی بنیاد پر باطل پر ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس کامطلب بالکل واضح ہے کہ یہاں پر دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں یا انہوں نے قرآن کوسمجھا نہیں ہے، یا پھرسمجھ لیا ہے لیکن اپنے مفادات کی خاطراس کے حقیقی اورواقعی معنی کو حاصل نہیں کرنا چاہتے ہیں اوراس طرح معنوی تحریف کرکے قرآن کواپنے لئے ایک سپربنائے ہوئے ہیں
source : alhassanain