’’نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا؟ شاید میں نے غلط سنا ہے۔ کیا میرے بہن بھائی میرے ساتھ ایسا بھی کر سکتے ہیں۔ نہیں نہیں۔۔۔ جن بہن بھائیوں کے لئے میں نے اپنی ساری زندگی وقف کردی، انہوں نے میرے ساتھ کیا کیا۔۔ کاش اُس وقت میں اماں کی بات مان لیتی، تو آج اتنی تنہا نہ ہوتی۔‘‘
---
ابا کے چالیسویں سے پہلے ہی اس نے اماں سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ’’اماں وہ ۔۔۔ میں نے کل سے کالج نہ جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘ اس نے جھجکتے ہوئے بتایا۔
’’کیوں فرحین بیٹا کیوں نہیں جاؤگی؟‘‘ ماں سمجھ نہیں پائی۔
’’وہ اماں میں نے لٹل روز والوں سے بات کی تھی ان کو ایک سائنس ٹیچر کی ضرورت ہے۔‘‘ فرحین نے محلے کے اسکول کی ضرورت بتائی۔
’’نہیں فرحین ابھی میری ہڈیوں میں اتنا دم ہے کہ میں کچھ نہ کچھ کر کے گھر چلالوں گی۔‘‘ امی نے سلائی مشین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں اماں آپ کی طبیعت بالکل ٹھیک نہیں رہتی۔ اور اب آپ سوچیے گا بھی نہیں دوبارہ سے سلائی شروع کرنے کے بارے میں۔ ڈاکٹر نے آپ کو سختی سے منع کیا ہے۔‘‘
’’نہیں بیٹا ۔۔ پہلے کی بات اور تھی۔ تمہارے ابا جب تک زندہ تھے مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ عزت کے ساتھ روکھی سوکھی کھا رہے تھے۔۔ لیکن بیٹا اب تو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘ اماں کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں تھا۔
’’اماں ۔۔ اسی لئے تو میں کہہ رہی ہوں کہ میں صبح اسکول جوائن کرلوں گی اور شام کو محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا لوں گی۔ اللہ بہتر کرے گا!‘‘
’’فرحین تمہیں تو خود پڑھنے کااتنا شوق ہے بیٹا۔ تم کیسے کالج چھوڑو گی؟!‘‘ اماں نے روتے ہوئے فرحین کو گلے لگایا ۔
’’ارے اماں میں پرائیویٹ پڑھ لوں گی۔ آپ بالکل فکر مت کریں۔ اور دیکھیں نادیہ، وسیم اور فواد کے سامنے کسی بات کو ظاہر مت کیجئے گا۔ وہ ابھی چھوٹے ہیں، پریشان ہوجائیں گے۔ اللہ نے چاہا تو وقت گزر ہی جائے گا۔ بس آپ کو حوصلے سے کام لینا ہوگا۔‘‘ فرحین نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔
----
اگلے دن سے فرحین نے اسکول جانا شروع کر دیا اور محلے کے گھروں میں بھی کہلوا دیا کہ جو لوگ اپنے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا چاہیں وہ چار سے سات کے درمیان بھیج دیں۔ آہستہ آہستہ فرحین کے پاس بچوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ۔
ایک دن اماں نے فرحین کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا: ’’فرحین میں خدا کا جتنا شکر ادا کروں، کم ہے۔ تم نے اپنے ابا کے مرنے کے بعد ا س گھر کو بڑی ذمہ داری سے سنبھالا ہے۔‘‘
’’ارے اماں یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ۔ میں نے تو بس تھوڑی سی محنت کی ہے اور کچھ نہیں ۔۔‘‘ فرحین نے کاپیاں چیک کرتے ہوئے سر اٹھا کر جواب دیا۔
’’بیٹا تم نے اپنا فارم بھی جمع کرایا کہ نہیں؟‘‘ اماں کو جیسے کچھ یاد آگیا۔
’’ہاں اماں، ابھی میرے امتحانات میں وقت ہے لیکن میں نے فارم جمع کرادیا ہے۔ ابھی تو بس اسکول کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔ نادیہ، وسیم اور فواد سے بھی کہتی ہوں کہ بچوں کے جانے کے بعد وہ لوگ بھی میرے پاس پڑھنے بیٹھ جایا کریں۔‘‘
’’ہاں میں بھی تم سے کہنے والی تھی، بس تمہاری مصروفیات دیکھ کے ہمت نہیں ہوتی تھی۔‘‘
’’نہیں اماں ۔۔ پتہ چلاکہ میں محلے کے بچوں کو تو اچھے نمبروں سے پاس کرادوں اور میرے بہن بھائیوں کے کم نمبر آئیں۔ ویسے یہ لوگ ہیں کہاں نظر نہیں آرہے؟‘‘ فرحین نے صحن کی طرف نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
’’نادیہ تو پڑوس میں مرزا صاحب کے ہاں گئی ہے۔ اور وسیم اور فواد باہر کھیلنے گئے ہیں۔‘‘
’’اماں بس اب ان لوگوں کو زیادہ باہر نکلنے سے منع کردیں۔ امتحانات سر پر ہیں اور یہ لوگ پڑھائی سے لاپرواہ ۔۔ چلیں یہ لوگ آتے ہیں تو میں خود ہی پوچھ لیتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر فرحین اٹھ گئی۔ اسے اب کھانا بنانا تھا۔
مغرب کے وقت نادیہ، وسیم اور فواد کی واپسی ہوئی تو فرحین نے آواز دے کر کہا: ’’تم تینوں نماز سے فارغ ہو جاؤ تو ذرا میرے پاس آجانا۔ میں بھی پہلے نماز پڑھ لوں۔‘‘
’’جی اچھا باجی!‘‘ تینوں نے سعادتمندی سے کہا اور وضو کرنے چلے گئے۔
نماز کے بعد فرحین کے پاس تینوں بہن بھائی آگئے۔ ’’جی باجی کیا بات ہے ؟‘‘
’’بھئی یہ تم لوگ ابھی تک کھیل کود میں پڑے ہوئے ہو۔ امتحان میں کتنا ٹائم رہ گیا ہے، کچھ پتا بھی ہے؟!‘‘ فرحین نے تینوں کو گھورا۔
’’وہ باجی ہم پڑھ تو رہے ہیں۔‘‘ تینوں نے بیک وقت جواب دیا۔
’’جی نہیں! اسے پڑھنا نہیں کہتے۔ اب مغرب کے بعد تم لوگ مجھ سے پڑھو گے۔ نادیہ تمہارا یہ میٹرک کا سال ہے اور وسیم اور فواد تم لوگ بھی اب 8th اور 9th میں آگئے ہو۔ ان کلاسوں کو اتنا آسان مت لو۔ چلو اب وقت ضائع مت کرو اور کتابیں لے آؤ۔ اور اب باہر نکلنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔جب تک امتحان ختم نہ ہوجائیں باہر آنا جانا بند ۔سمجھے۔۔‘‘ فرحین نے سختی سے کہا۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر ماں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی لیکن پھر اگلے ہی لمحے انہیں اداسی نے گھیر لیا۔ وہ دیکھ رہی تھیں کہ ایک معصوم سی گڑیا نے کس طرح گھر کی تمام ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں اور کل کی الہڑ فرحین اب ایک ذمہ دار بہن کے روپ میں جلوہ گر ہو رہی ہے۔
’’جی اچھا باجی ۔جیسا آپ کہیں گی ہم ایسا ہی کریں گے۔‘‘ تینوں نے سعادتمندی سے سر ہلایا اور کتابیں اٹھانے چلے گئے۔
-----
آج کل فرحین کو سر اٹھانے کی فرصت نہیں تھی ۔صبح اسکول، شام کو ٹیوشن اور پھر ان تینوں کو پڑھانالیکن جیسے تیسے وقت گزر ہی گیا۔ جس دن تمام بچوں کے امتحانات ختم ہوئے، اس دن فرحین کے ساتھ ساتھ اماں نے بھی سکون کا سانس لیا۔ شام کو ماں نے فرحین سے کہا: ’’فرحین بیٹا آج ایسا کرو کہ تم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گھوم پھر آؤ ۔‘‘
’’ارے اماں یہ کیا بات ہوئی کہ بہن بھائیوں کے ساتھ گھوم پھر آؤ۔ آپ کیوں نہیں چلیں گی؟‘‘ فرحین نے ماں کا ہاتھ محبت سے تھاما۔
’’ارے میں کہاں جاؤں گی؟‘‘
’’اگر آپ نہیں جائیں گی توہم میں سے بھی کوئی نہیں جائے گا۔‘‘ سب بہن بھائیوں کا متفقہ فیصلہ تھا۔ اماں نے بچوں کے چہرے پر جو نظر ڈالی تو انہیں لگا کہ بچوں کی خاطر انہیں جانا ہی پڑے گا ۔
’’چلو بھئی چلو! تم لوگ ایسے نہیں مانو گے ۔‘‘ ماں نے ہتھیار ڈالے تو فواد اور وسیم نے ہرا کہا اور اچھلنے لگے۔
------
ایک عرصے کے بعد وہ لوگ کہیں گھومنے کے لئے نکلنے تھے۔ جب تک ابا زندہ تھے، تو وہ بچوں کو مہینے میں ایک بار ضرور گھمانے لے جاتے تھے۔ لیکن ابا کے مرنے کے بعد نہ تو کسی رشتہ دار نے کبھی پوچھا تھا اور نہ ہی ان لوگوں کا دل چاہتا تھا کہ وہ لوگ ابا کے بغیر کہیں جائیں۔ اسی لئے راستے بھر وہ ابا کو ہی یاد کرتے ہی رہے۔
وقت کا پہیہ اپنی مخصوص رفتار سے چلتا رہا اور فرحین کو تجربے اور محنت کی بنیاد پر اچھے اسکول میں جاب مل گئی۔ اس کی محنتیں اب نظر آنے لگی تھیں۔ نادیہ کی گریجویشن مکمل ہونے والی تھی۔ فواد اور وسیم کالج میں پہنچ گئے تھے۔ گھر کے حالات بھی قدرے بہتر ہوگئے تھے۔ ایک دن اماں نے فرحین سے کہا:
’’فرحین برابر والے مرزا صاحب کی بیگم نے اپنے رشتے داروں میں سے ایک رشتہ بتایا ہے۔ کہہ رہی تھیں کہ بہت اچھے لوگ ہیں۔ تمہیں انہوں نے مرزا صاحب کے گھر میں دیکھا تھا۔‘‘
’’ارے ۔۔ اماں آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ میں کیسے آپ لوگوں کو چھوڑ کر شادی کرسکتی ہوں ؟!‘‘
’’ارے بیٹا سب کا اللہ مالک ہے۔ مرزا صاحب کی بیوی نے ان لوگوں کو تمام حالات بتادئیے ہیں۔ ان لوگوں کو شادی کے بعد بھی نوکری کرنے پر کوئی اعترض نہیں ہے۔‘‘ اماں نے اصرار کیا۔
’’اماں کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہے۔ شادی کے بعد کی زندگی اور اب کی زندگی میں بڑا فرق ہے۔ مجھے ابھی شادی وادی نہیں کرنی۔مجھے ابھی تینوں بھائی بہن کی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔‘‘ فرحین نے دوٹوک لہجہ اپنایا۔
’’لیکن بیٹا گھر تو بسانا ہی ہے نا! ان کا بھی کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔‘‘ ماں ابھی تک اصرار کر رہی تھی۔
’’نہیں اماں میں آپ لوگوں کو نہیں چھوڑ سکتی۔ فواد اور وسیم ابھی پڑھ رہے ہیں۔ کل دونوں اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں تو دیکھوں گی ۔‘‘
’’فرحین میں تو چاہتی ہوں کہ میری زندگی میں تم دونوں بہنیں اپنے گھربار کی ہوجاؤ۔ وسیم اور فواد تو لڑکے ہیں اپناکرہی لیں گے۔ زندگی کا کیا بھروسہ ہے۔ تمہارے ابا اچانک چلے گئے، میں بھی ۔۔‘‘ انہوں نے پلو سے آنسو خشک کئے۔
’’اماں پلیز ایسی باتیں نہ کریں! خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے! آپ کی وجہ سے ہمیں کتنی ڈھارس ہے ۔آئندہ ایسی باتیں مت کیجئے گا ۔‘‘ اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے۔
’’ارے پاگل اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ سب کو واپس جانا ہے ۔‘‘ فرحین کے آنسو دیکھ کر ماں اپنا رونا بھول گئی۔
’’اچھا تو ٹھیک ہے نا آپ ایسی باتیں مت کریں ۔‘‘
------
مرزا صاحب کی بیوی کو اماں نے منع کر دیا لیکن لڑکے والوں کے بہت اصرار پر کئی دن کے مذاکرات کے بعد طے ہوا کہ فرحین پہلے لڑکے سے ملاقات کرے گی۔ دو دن بعد مرزا صاحب کے گھر پر ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ فرحین مرزا صاحب کے گھر پہنچی تو سلیم پہلے سے وہاں موجود تھا۔ ڈرائنگ روم میں دونوں کو چائے دے کر مرزا صاحب کے گھروالے باہر نکل گئے تو فرحین نے بولنا شروع کیا۔
’’سلیم صاحب! آپ جانتے ہیں کہ ابا کے انتقال کے بعد میں نے ہی اس گھر کو سنبھالا ہے۔ بھائیوں کی تعلیم ابھی باقی ہے، بہن کی شادی بھی کرنی ہے، اس کے بعد بھائیوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع دینا ہے۔ میں آپ سے صاف کہتی ہوں کہ میں اس وقت تک شادی نہیں کروں گی جب تک یہ لوگ اپنے گھر کے نہیں ہوجاتے۔‘‘
’’لیکن فرحین صاحبہ! آپ کی بہن میری بہن اور آپ کے بھائی میرے بھائی ہیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا آپ کی جاب پر۔ آپ اسی طرح سپورٹ کرتی رہئے گا بھائی بہنوں کو۔ البتہ آپ کی خودداری کی وجہ سے میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں ان کی ذمہ داری لے رہا ہوں۔‘‘ سلیم نے سلجھے ہوئے انداز میں اپنی بات بیان کی۔
’’نہیں سلیم صاحب! میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ میں ان سے پہلے اپنا گھر بسا کر بیٹھ جاوں۔‘‘ فرحین نے پھر انکار کیا۔
’’لیکن ہم آپ کو روک تو نہیں رہے، ان کی مدد سے۔ آپ کے دونوں بھائی ماشائ اللہ اب بڑے ہو گئے ہیں، سمجھدار بھی ہیں۔ انہیں بھی اب اپنے گھر کی ذمہ داریاں اٹھانی چاہئیں۔‘‘ سلیم نے سمجھایا۔
’’سلیم صاحب! میں ابھی ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی۔ میں چاہتی ہوں کہ جو وعدہ میں نے اپنے آپ سے کیا تھا، اسے پورا کروں۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘‘ فرحین نے پُرعزم لہجے میں کہا۔
’’دیکھیں میں آپ کو ذمہ داریوں کی ادائیگی سے روک نہیں رہا ہوں۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں، اپنے لئے بھی سوچیں بعد میں آپ کو پچھتانے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔‘‘
’’سلیم صاحب! پلیز، میں کس بات پر پچھتاوں گی اور کس بات پر نہیں، دیٹ از نوٹ یور میٹر۔ میں نے جو فیصلہ کیا ہے، میں اس پر قائم رہوں گی۔‘‘ تلخ لہجے میں یہ کہہ کر فرحین اٹھی اور فوراً کمرے سے نکل گئی۔
------
’’فرحین، تم نے بہت برا کیا! جب وہ تمہیں گھروالوں کی سپورٹ سے روک نہیں رہا تھا تو تمہیں اس سے پوری طرح بات کر لینی چاہئے تھی۔‘‘ ماں نے پوری بات سنتے ہی اسے لتاڑا۔
’’نہیں امی! میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ پہلے نادیہ کی شادی اور فواد اور وسیم کا روزگار اس کے بعد میری باری۔‘‘ فرحین ابھی تک اپنی بات پر ڈٹی ہوئی تھی۔
ماں نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ اپنی بات پر سختی سے ڈٹی رہی۔ آخر ماں نے یہ کہہ کر ہتھیار ڈال دیئے: ’’فرحین! تم اپنی ذمہ داریوں سے زیادہ اپنی انا کی غلام ہوگئی ہو۔ اناپرستی کر کے تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ پھر خدا بھی تمہارا ساتھ نہیں دے گا۔‘‘
-----
نادیہ کیلئے آیا ہوا رشتہ تھوڑے پس و پیش کے بعد قبول کرلیا گیا۔ لڑکا ایک بینک میں ملازم تھا ۔گھر والے بھی بات چیت میں اچھے لگ رہے تھے ۔شادی چھ ماہ بعد ہونا قرار پائی ۔ان لوگوں کے جانے کے بعد اماں نے فرحین سے فکرمند لہجے میں کہا۔ ’’بیٹا کچھ زیادہ مہلت لے لی ہوتی تو بہتر تھا؟‘‘
’’ارے نہیں اماں! اللہ بہتر کرے گا۔ وہ مسبب الاسباب ہے۔ آپ فکر نہ کریں سب ہو جائے گا ۔‘‘
اور سب نے دیکھا کہ فرحین نے نادیہ کو اپنی بساط سے بڑھ کر دے کر رخصت کیا۔ سب لوگ اس کی تعریف کر رہے تھے اور وہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھی۔ اماں تو جیسے انتظار کررہی تھیں کہ نادیہ کی شادی ہو اور وہ ان کو چھوڑ کر چلی جائیں۔ چنانچہ ایک دن رات کو اماں جو سوئیں تو سوتی ہی رہ گئیں۔ فرحین و نادیہ کی آہ و زاری اور وسیم و فواد کا تڑپنا‘ اماں کو کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
’’اماںآپ کس کے سہارے ہمیں چھوڑ کر جارہی ہیں۔ ابا نے تو آپ کے پاس چھوڑا تھا آپ ۔۔ آپ کس پر چھوڑ کر جارہی ہیں!‘‘ جنازہ اٹھنے کے وقت رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آرہے تھے ۔۔ لیکن جانے والے کو کون روک سکتا ہے۔ سوئم تک تو دو چار خاندان کے بزرگ رُکے۔ اس کے بعد فرحین کو نصیحتیں کر کے سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ نادیہ بھی دسواں کر کے چلی گئی۔ اس کی ساس کی طبیعت کا فی خراب ہوگئی تھی۔ اب فرحین ،وسیم اور فواد تھے اور گھر کا سناٹا۔ دن تو جیسے تیسے گزر جاتا لیکن رات کے مہیب سناٹے میں فرحین کیلئے وقت گزارنا مشکل ہو جاتا۔ آنکھیں بند کرتے ہی اماں کا چہرہ فرحین کی نگاہوں میں پھرنے لگتا۔ لیکن کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ فرحین کو بھی آہستہ آہستہ صبر آہی گیا۔ اب اس کے سامنے وسیم اور فواد کا مستقبل تھا۔ فواد تو انجینئرنگ کررہا تھا اور وسیم نے انٹر کے بعد آرمی جوائن کرلی تھی۔ اب گھر میں فرحین اور فواد رہ گئے تھے ۔
------
’’باجی اب آپ بھی شادی کرلیںآپ نے ہماری خاطر اتنی بڑی قربانی دی ہے۔ ‘‘ ایک دن نادیہ نے فرحین سے کہا ۔
’’ارے پہلے میں فواد اور وسیم کو تو اپنے پاؤں پر کھڑا کردوں ۔‘‘ فرحین اس مرتبہ بھی وہیں کھڑی تھی۔
’’ارے باجی اب تھوڑے دنوں کی تو بات ہے۔ فواد کی پڑھائی مکمل ہوجائیگی۔اور وسیم بھی ماشائ اللہ اچھی لائن میں چلا گیا ہے ۔‘‘
’’چلو ابھی مجھے تھوڑا وقت اور دے دو پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے ۔‘‘ فرحین نے ٹالا۔
’’نہیں میں آج رات کو فواد آئے گا تو بات کرکے گھر جاؤں گی ۔‘‘
رات کو کھانے کے بعد نادیہ نے فواد سے کہا: ’’فواد مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔‘‘
’’میں بھی تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔ مجھے بھی تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ فواد فوراً بولا۔
’’اچھا چلو تم بتاؤ پہلے کیا بات ہے۔ پھر میں بتاؤں گی۔‘‘ نادیہ نے پیشکش کی۔
’’وہ باجی ۔۔ مجھے یونیورسٹی میں ایک لڑکی پسند آگئی ہے۔‘‘ فواد نے جھجکتے ہوئے بتایا۔ ’’اب تھوڑے عرصے میں میری پڑھائی ختم ہونے والی ہے ۔اور میرا باہر جانے کا بھی ارادہ ہے تو میں چاہتا ہوں کہ جانے سے پہلے شادی کرکے جاؤں۔‘‘
’’لوجی میں باجی کی شادی کی بات کرنے والی تھی اور تم نے اپنا چکر چلا دیا۔‘‘
’’باجی کی شادی؟ کیا کوئی رشتہ آیا ہے؟‘‘ فواد نے بھنویں سکیڑیں۔
’’نہیں رشتہ تو نہیں آیا لیکن ہم لوگ کوشش تو کریں شاید کہیں بات بن جائے ۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے تم دیکھ لو کوئی نظر آئے تو بتانا۔ ابھی میری بات تو پکی کرواؤ کہیں اس کی دوسری جگہ نہ ہوجائے ۔‘‘ فواد نے لجاجت سے کہا۔
’’اچھا بھئی میں باجی سے بات کرتی ہوں۔ اس کا ایڈریس اور فون نمبر مجھے بتا دو۔ ویسے تمہیں سب سے پہلے ہر بات باجی کوبتانی چاہئے تھی۔‘‘ نادیہ نے اس کو سرزنش کیا۔
’’ارے بھئی تمہیں بتادی نا اب تم بتادینا۔‘‘
------
’’چلو ایک ذمہ داری سے تو سبکدوش ہوئے کہ لڑکی ڈھونڈنی نہیں پڑی۔ اور ویسے بھی زندگی فواد کو ہی گزارنی ہے وہ جو فیصلہ کرے گا تو سوچ سمجھ کر ہی کرے گا۔‘‘ فرحین نے ناراضگی کے بغیر کہا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن باجی۔۔! اسے آپ سے پہلے شادی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ نادیہ ناراض تھی۔
’’کوئی بات نہیں نادیہ! تم کسی دن فون کر کے ان لوگوں سے ٹائم لے لینا۔ اچھا ہے جتنی جلدی بات ہوجائے ۔‘‘
نادیہ کے فون کرنے کی دیر تھی۔ وہ لوگ تو جیسے انتظار ہی کر رہے تھے۔ دوسرے دن وہاں پہنچے تو ایسا لگا کہ تمام معاملات طے ہوچکے ہیں بس ایک رسمی کارروائی پوری کرنا تھی۔ اور ایک ہی ہفتے میں مہرین فواد کی دلہن بن گئی۔
مہرین بظاہردیکھنے میں تو اچھی لگ رہی تھی۔ ویسے بھی وہ جانتی تھی کہ اسے تھوڑا ہی عرصہ یہاں رہنا ہے۔ فرحین کی بھی عادت ایسی نہیں تھی کہ وہ فواد اور مہرین کے کسی معاملے میں دخل اندازی کرتی۔
ایک ماہ کے اندر ہی برطانیہ سے فواد کا ویزا آگیا تو اس نے جانے کی تیار یاں شروع کردیں۔ اور ایک دن ائیر پورٹ پر نادیہ، وسیم اور فرحین نے فواد اور مہرین کو رخصت کیا۔
دوسرے دن صبح وسیم واپس چلا گیا۔ اب فرحین تھی اور گھر کا گہرا سناٹا۔ کبھی کبھی نادیہ چکر لگا لیتی۔ وہ بھی اپنے سسرال کے جھمیلوں میں پھنسی ہوئی تھی۔ شروع شروع میں تو فواد اور مہرین کے فون آتے رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں کمی ہوتی رہی۔ فرحین خود ہی فون کر کے ان لوگوں کی خیریت معلوم کر لیتی اور ان کی مصروفیات کا احوال سن لیتی۔ بقول فواد کے باجی یہاں تو زندگی بھاگ رہی ہے اسے پکڑنا پڑتا ہے۔
-----
’’وسیم اب تم بھی شادی کرلو تو میں مطمئن ہوجاؤں۔ ماشائ اللہ فواد اور نادیہ اپنی اپنی زندگیوں سے مطمئن ہیں۔‘‘ فرحین نے وسیم سے فون پر کہا۔
’’اچھا ہوا باجی آپ نے مجھ سے یہ بات کی۔ میں خود اس معاملے میں آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھا۔ میرے دوست شہباز کی بہن مجھے پسند ہے۔ ہم لوگ کبھی کبھی چھٹیوں میں شہباز کے گھر اسلام آباد جاتے ہیں۔ وہیں میری ملاقات سارہ سے ہوئی ہے۔ ہم دونوں کے خیالات آپس میں کافی ملتے جلتے ہیں۔ آپ اپنی اسکول کی چھٹیوں میں اسلام آباد آکر سارہ سے مل لیں۔‘‘
’’اچھا بھئی معاملہ یہاں تک پہنچ گیا اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوئی۔‘‘ فرحین نے مسکراتے ہوئے وسیم کو چڑایا۔
’’وہ ۔۔ باجی میں آپ سے کافی عرصے سے بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن ۔۔۔‘‘
’’ارے میںتو مذاق کررہی ہوں۔ اچھا ہے تم اپنی پسند سے شادی کرلو۔ ابھی دیکھو دسمبر کی چھٹیوں میں آنے کا پروگرام بناتی ہوں۔‘‘ وسیم سے بات ختم ہوتے ہی فرحین نے نادیہ کو فون کر کے ساری بات بتائی۔
’’چلیں اچھا ہے باجی ہمارے بھائیوں نے ہمیںلڑکی دیکھنے کی زحمت سے بچالیا۔‘‘
’’ہاں بھئی یہ بھی ایک بڑا کام ہوتا ہے۔ نادیہ تم بھی میرے ساتھ چلنا ۔‘‘ فرحین نے پیشکش کی۔
’’ارے نہیں باجی میں گھر چھوڑ کر کیسے جاسکتی ہوں۔ اور ویسے بھی فواد کی طرح یہ بھی بس ایک فارمیلٹی نبھانا ہے۔ آپ جائیے اور شادی طے ہوجائے تو مجھے بتا دیجئے گا، میں بھی آجاؤں گی۔‘‘ نادیہ نے صاف انکار کردیا۔
’’لو تم تو ایک ہفتے میں شادی بھی کروارہی ہو۔ ابھی مجھے جانے تو دو ۔‘‘
’’میں تو مذاق کر رہی تھی۔ بہرحال سارہ کی تصویر لیتی آئیے گا میں بھی دیکھ لوں گی ۔‘‘
-------
فرحین کو اسلام آباد پہنچ کر نادیہ کا کہنا سچ معلوم ہوا۔ وہ لوگ ہتھیلی پر سرسوں جمائے بیٹھے تھے۔ ویسے دیکھا جائے تو آج کل اچھے لڑکے لوگوں کو مشکل سے ہی ملتے ہیں۔ وسیم نے بھی فرحین سے کہا: ’’باجی آپ کا آنا جانا بھی مشکل ہے۔ نادیہ کے بچوں کی بھی چھٹیاں ہیں۔ اس کو بلالیں اور سادگی سے نکاح کر لیں۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ آرمی میں چھٹیاں ملنا کتنا مشکل ہے ۔‘‘
’’چلو میں نادیہ سے بات کرتی ہوں۔‘‘ اور پھر نادیہ کے آتے ہی چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ سامنے آیا۔
اسلام آباد سے واپسی پر نادیہ نے فرحین سے کہا: ’’باجی میں نے آپ سے کہا تھانا کہ تمام معاملات بالا ہی بالا طے ہوچکے تھے۔ ہمیں تو بس دنیا دکھاوے کیلئے بلایا گیا تھا۔ ویسے مجھے تو کافی تیز لگے سارہ کے گھر والے۔‘‘
’’ چلو ہمیں کیا دونوں خوش رہیں۔‘‘ فرحین نے دعا دی۔
’’اچھا وہ تو خوش رہیں گے اب آپ بتائیے آپ کا کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’میرا کس بات کا؟‘‘
’’ارے شادی کا اور کس بات کا ۔‘‘ نادیہ نے آنکھیں پھاڑیں۔
’’اب میں کیا کروں گی اس عمر میں شادی کرکے؟!‘‘
’’باجی آپ کی عمر ایسی کوئی زیادہ نہیں ہے میں نے ایک دو لوگوںسے کہا ہوا بھی ہے ۔دیکھیں اللہ کوئی سبیل نکال دے گا۔ ‘‘
’’اچھا دیکھا جائے گا ابھی تو کوئی رشتہ تو نہیں ہے ۔جب ہوگا تو سوچو ں گی ۔‘‘
کراچی پہنچ کر نادیہ کی کوششوں سے ایک دو لوگ فرحین کو دیکھنے بھی آئے لیکن آج کل تو ہر ایک کو چھوٹی لڑکی چاہئے ہوتی ہے، چاہے لڑکے کی عمر کچھ بھی ہو۔
-------
وقت گزرتا رہا اور فرحین کے سر میں چاندی اتر آئی۔ کبھی کبھی فرحین پیچھے پلٹ کر دیکھتی تو اسے لگتا جو اس نے چاہا تھا وہ کر دیا۔ آج اس کے بہن بھائی اپنی اپنی زندگیاں خوش وخرم گزارہے ہیں اس کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔
لیکن آج ۔۔۔ فواد کے فون نے اس کی ساکت زندگی میں وہ پتھر پھینکا تھا جس سے وہ سر سے پاؤں تک لہولہان ہوگئی تھی۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ۔۔ اس کے بہن بھائی ۔۔
’’نہیں نہیں یہ فواد نہیں کہہ سکتا۔ مجھے ضرور غلط فہمی ہوئی ہے۔ مگر وہ تو کہہ رہا تھا کہ نادیہ اور وسیم کا بھی یہی خیال ہے۔‘‘
سوچ سوچ کر اس کی دماغ کی نسوں میں درد ہونے لگا۔ لیکن اسے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس کے بہن بھائیوں کے خیال میں یہ گھر اس کی ضرورت سے زیادہ ہے اور ویسے بھی یہ گھر ابا کے نام ہے اور انہیں اس گھر میں اپنا حصہ چاہیے، وہ کیوں گھر پر قبضہ کر کے بیٹھ گئی۔ ماں باپ کی جائیداد پر سب کا حق ہے۔ گھر بیچ کر وہ اپنے حصے سے کوئی چھوٹی جگہ اپنے لئے لے لے۔
آج اسے ماں کی باتیں یاد رہی تھیں۔ اگر اس نے ماں کی بات مان کر سلیم کے ساتھ شادی کرلی ہوتی تو اس کی زندگی کا یہ گوشہ خالی نہ رہتا۔ وہ اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کرلیتی اور گھر بھی بسا لیتی۔ لیکن جھوٹی انا نے اسے تباہ و برباد کردیا۔
source : alhassanain