پيامبر اسلام (ص) كے فراق ميں حضرت زہرا (ص) كا رنج و غم اتنا زيادہ تھا كہ جب بھي پيغمبر اسلام (ص) كي كوئي نشاني ديكھتي گريہ كرنےلگتي تھيں اور بے حال ہوجاتي تھيں .
پيغمبر اسلام حضرت محمد (ص) كي رحلت كے بعد مصيبتوں نے حضرت زھرا (ص) كے دل كو سخت رنجيدہ ، ان كي زندگي كو تلخ اور ناقابل تحمل بنا ديا تھا ؟ ايك طرف تو پدر بزرگوار سے اتني محبت تھي كہ ان كي جدائي اور دوري برداشت كرنا ان كے لئے بہت سخت تھا ؟
يہ رنج وغم اور دوسري مصيبتيں باعث ہوئيں كہ حضرت زھرا (ص) پيامبراسلام (ص) كے بعد گريہ و زاري كرتي رہتي تھيں كبھي اپنے بابا رسول خدا (ص) كي قبر مبارك پر زيارت كي غرض سے جاتي تھيں تو وہاں گريہ كرتي تھيں اور كبھي شھداء كي قبروں پر جاتيں تو وہاں گريہ كرتي تھيں اور گھر ميں بھي گريہ و زاري برابر رہتا تھا ؟ چونكہ آپ (ص) كا گريہ مدينہ كے لوگوں كو ناگوار گذرتا تھا اس لئے انھوں نے اعتراض كيا تو حضرت علي عليہ السلام نے قبرستان بقيع ميں ايك چھوٹا سا حجرہ بنا ديا جسكو بيت الحزن كے نام سے ياد كيا جاتا ہے ؟ حضرت زہرا (ص) حسنين عليھم السلام كو ليكروہاں چلي جاتي تھيں اور رات دير تك وہاں گريہ كرتي تھيں ؟ جب شب ہوجاتي تھي تو حضرت علي عليہ السلام جاتے اور حضرت زہرا (ص) كو گھر لاتے ؟ يہاں تك كہ آپ مريض ہوگئيں ؟
يہ خبر بلال تك پہونچي اور حضرت زہرا (ص) كے احترام ميں اذان كہنے كے لیۓ كھڑے ہوگۓ جيسے ہي بلال نے اللہ اكبر كہا حضرت زہرا (ص) گريہ نہ روك سكيں اور جيسے ہي بلال نے كہا اشھد ان محمدالرسول اللہ حضرت زہرا (ص) نے ايك فرياد بلند كي اور بيہوش ہوگئيں ؟ لوگوں نے بلال سے كہا كہ اذان روك دو۔ رسول (ص) كي بيٹي دنيا سے چلي گئي؟
آپ كي وفات كا وقت قريب آ پہنچا تو آپ نے كنيز كو پاني لانے كا حكم ديا تاكہ غسل كركے نيا لباس پہن ليں كيونكہ بابا سے ملاقات كا وقت بہت قريب تھا ، كنيز نے حكم كي تعميل كي اور آپ نے غسل كركے نيا لباس زيب تن فرمايا اور اپنے بستر پر جا كر رو بقبلہ ہو كر ليٹ گئيں ؟ تھوڑي دير كے بعد آنكھيں بند اورلب خاموش ہوگۓ اور آپ جنت كو سدھار گئيں ۔ انا للہ و انا اليہ راجعون ۔ علي عليہ السلام نے وصيت كے مطابق غسل و كفن ديكر شب كي تاريكي ميں آپكے جسد اطہر كو سپرد خاك كرديا ليكن آپ كي قبر كو پوشيدہ ركھا اور اب تك پوشيدہ ہے اس لیۓ تاكہ كوئي يہ نہ جان سكے كہ آپ كي قبر كہاں ہے كيونكہ اس وقت كے سياسي افراد فاطمہ (ص) كي قبر كھود كر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے پر كمر بستہ تھے۔ فاطمہ (ص) كي وصيت سے اس وقت اور بعد كو آنے والي تمام نسلوں پر يہ واضح ہوگيا كہ رسول (ص) كي بيٹي فاطمہ (ص) پر ظلم ہوا ہے ، اور فاطمہ (ص) ان ظالم افراد سے مرتے دم تك ناراض رہيں لہذا وہ انتقام دينے كے لیۓ آمادہ رہيں ۔
با الآخر انھيں صدمات كي بنا پر 13 جمادي الاول يا 3 جمادي الثاني 11 ھجري كو يعني رحلت پيغمبر (ص) كے 75 يا 90 دن كے بعد آپكي شہادت واقع ہوئي اور اپنے شيعوں كو ہميشہ كے لیۓ غم زدہ كرديا ۔
source : tebyan