سوال علم کی کلید ہے ،انسان کی خلقت کے آغاز سے ہی سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اگر سوال نہ ہوتا تو علم بھی نہ ہوتا سوال ہی کے ذریعے علم وآگہی کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور علم کے بند دروازے کھلتے ہیں اور انسان اپنے سوالات اور تجسس کے ذریعے علم کی منزلیں طے کرتا ہے ۔کسی واقعہ اورتاریخی حادثے کے بارے میں سوالات ہر متجسس ذہن میں ہوتے ہیں اور وہ تاریخ کے اس اہم ترین واقعے کی تمام جزئیات تک پہنچ کر اس واقعے کی حق وباطل قوتوں کی پہچان حاصل کرنا چاہتا ہے ۔تاریخ اسلام بلکہ تاریخ انسانیت کا اہم تریں واقعہ ،قیام کربلا ہے کہ جس میں سلسلہ نبوت ورسالت کے آخری تاجدار جناب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور آدم (ع) سے لیکر خاتم (ص) کی نبوت کے امین ،نظام امامت وولایت کے تیسرے تاجدار نے حق و باطل کے اس معرکے میں شریعت کی پاسداری کے لئے اور دین اسلام کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی قربانی دی اور تمام مسلمانوں اور حق کے پیرو کاروں کے لئے ظلم وستم کے خلاف قیام کرنے کا راستہ ہموار کر دیا اور مظلوموں کو جرائت عطا کی کہ وہ ظالموں کے ظلم واستبداد کے سامنے کبھی بھی سر نہ جھکائیں ۔قیام امام حسین (ع) در حقیقت پاسداری شریعت کا نام ہے اور شرعی اصولوں کی حکمرانی اور غیر شرعی زندگی کے خاتمے کا اعلان ہے اس لئے میدان کر بلا میں امام عالی مقام کا ہر قدم اور ہر عمل شریعت اسلامیہ کے احیاء کے لئے اُٹھ رہاہے تھا اور انسانی عقل ومنطق کے عین مطابق تھا ۔اس لئے امامت و ولایت کی معرفت رکھنے والا کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا کہ امام حسین علیہ السلام نے کوئی قدم شریعت کے خلاف اٹھایا ہے اور اپنے جذبات واحساسات سے متاثر ہو کر یزید کے خلاف جنگ لڑی ہے ۔یہ بات وہی ذہن سوچ سکتا ہے جو امام عالی مقام (ع) کی عصمت اور ولایت کا قائل نہیں اور امام علیہ السلام کو ایک عام لیڈر یا عر ب سردار کے طور پر پہنچانتا ہے اور یزید و امام حسین(ع) کے معرکے کو دو شہزادوں کی جنگ سمجھتا ہے ۔لیکن امام حسین (ع) کے دین اسلام میں مقام ومنزلت اور رسول اکرم (ص) کی جانب سے امام علیہ السلام کی جو معرفت کرائی گئی ہے اس سے آشنا انسان کبھی بھی اس طرح کی سوچ نہیں رکھ سکتا ۔لیکن سوال وشبہہ خواہ معاند کی جانب سے ہو یا دوست کی جانب سے ہو اگر وہ حل ہو جائے اور علم کے دروازے کھول دے توعلم کی کلید ہے۔ اس لئے یہاں قیام امام عالی مقام (ع) کے بارے میں ایک اہم سوال پیش کیا جاتا ہے اور تار یخ اور عقل و شریعت کی روشنی میں اُس کاجواب تلاش کیا جاتاہے تا کہ معرفت امام (ع) میں اضافہ ہو سکے او ر قیام امام (ع) کے مقاصد سے آگاہی حاصل کی جاسکے ۔
وہ سوال یہ ہے کہ اگر ہم تمام انبیاء اور اولیاء اور معصومین علیہم السلام کی جہد مسلسل پر مشتمل زندگی کو دیکھیں تو ہم ایک چیز بہت واضح نظر آتی ہے اور وہ ہے خطرات کے مقابلے میں تقیہ کی حکمت عملی کہ جو شریعت میں حکم ثانوی کے طور پر جائز قرار دی گئی ہے ۔انبیاء اور ائمہ اطہار (ع) کی سیرت او رتاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ ان ذوات مقدسہ نے ضرورت کے وقت اس حکمت عملی سے استفادہ کیا ہے اور اپنے پیرو کاروں کو بھی تقیہ کا حکم دیا ہے ۔اگر تقیہ ایک شرعی رخصت ہے اور اس کا جواز روایات میں موجود ہے تو سیدالشہدا علیہ السلام نے تقیہ کا راستہ کیوں نہیں اختیار کیا ؟اور اس شرعی رخصت سے استفادہ کرتے ہوئے عالم اسلام کو کر بلا جیسے افسوس ناک واقعہ سے کیوں نہیں بچایا ؟کیا امام حسین تقیہ نہیں کر سکتے تھے یا وہ تقیہ کے قائل نہیں تھے ؟ یہ وہ سوالات ہیں کہ جو دینی معرفت سے عاری اذہان میں پید اہو سکتے ہیں ۔اس سوال کا جواب تلاش کر نے سے پہلے خود شریعت میں تقیہ کے مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے لہذا تمہید کے طور پر تقیہ کے بارے میں چند ضروری باتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں اور پھر ان کی روشنی میں معر کہ کر بلا میں امام حسین(ع) کے تقیہ نہ کر نے کی وجوہات پیش کی جائیں گی ۔
تقیہ کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم
سب سے پہلے تقیہ کا لغوی اور اصطلاحی معنیٰ بیان کیا جا تا ہے ۔لغت میں تقیہ مادہ ’’وَقیٰ ،یَقیِ‘‘ اور ’’اِتَّقی، یَتّقیِ‘‘سے مصدر ہے۔ ۱بعض نے اسے اسمِ مصدر کہا ہے۔ ۲ یہا ں ’’واو‘‘، ’’تاء‘‘ میں بدل گیا ہے۔اس مادہ کے تحت جو بھی کلمات آئے ہیں انکا معنی ، حفاظت کرنا،بچانا،پرہیز کرنا اور امور کی اصلاح کرنا ہے۔قرآن کریم میں بھی ’’وقیٰ‘‘ حفاظت اور بچانے کے معنی میں آیا ہے :’’فَوَقٰاہُ اﷲُ سَیِّءَاتِ مَامَکَرُوا‘‘۳یعنی: خدا وند متعال نے اس(موسی (ع) )کو ان برائیوں سے بچایا(کہ جو آل فرعون نے اس کے بارے میں سوچ رکھی تھیں)۔
تُقاۃ،تقیّۃ،تقویٰ و اتّقاء،سب ایک ہی (مادہ سے) ہیں۔اسی لئے بعض قرآنی قرائتوں کے مطابق آیہ مبارکہ:’’اِلّٰاأن تَتَّقُوامِنهم تُقٰاۃً ‘‘ ۴میں’’تُقٰاۃً‘‘کی جگہ ’’تقیّۃ‘‘ پڑھا گیا ہے۔۵
تقیہ کاا صطلاحی معنی بیان کرنے کیلئے بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں۔ان میں سے اکثر تعاریف ’’جامع افراد اورمانع اغیار‘‘نہیں ،کیونکہ ا ن میں سے کوئی بھی تقیہ کی حقیقی تعریف نہیں بلکہ ’’شرح الاسمی ‘‘تعریف ہے۔لہذاان پر جامع ومانع تعریف نہ ہونے کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔ یہاں بطور نمونہ بعض علماء سے منقول تقیہ کی چند تعریفیں نقل کی جاتی ہیں۔
۱۔شیخ مفید (رہ) تقیہ کا اصطلاحی معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :(التقیّةکتمان الحق و ستر الاعتقاد فیه ومکاتمةالمخالفین وترک مظاهرتهم بما یعقب ضرراًفی الدّین أو الدّنیا)۶ یعنی:’’حق کوپوشیدہ رکھنااورعقیدہ حقہ کومخالفین سے چھپانا اورجن چیزوں کے اظہار سے دینی ودنیوی نقصان کااندیشہ ہوان کوظاہر کرنے سے پرہیز کرنا،تقیہ کہلاتاہے‘‘۔
۲۔شیخ مرتضی انصاری(رہ) فرماتے ہیں:(والمراد هناالتحفظ عن ضررالغیر بموافقته فی قول اوفعل مخالف للحق)یعنی:’’یہاں تقیہ سے مرادیہ ہے کہ دوسروں کے مخالفِ حق،قول وفعل کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے ان کی طرف سے(متوقع)ضررونقصان سے اپنے آپ کومحفوظ رکھنا‘‘۔۷
۳۔علامہ طبرسی(رہ) لکھتے ہیں :(وَالتَقِیَّة أَلأِظهارُ بِاللِّسٰانِ خِلاٰفُ مایَنطَوی عَلَیه القَلبُ لِلخوفِ عَلٰی النَفسِ )یعنی:’’اپنی جان کے خوف سے جوکچھ دل میں ہواس کے خلاف زبان سے اظہار کرنے کوتقیہ کہتے ہیں‘‘۔۸
۴۔شیخ طوسی(رہ) تقیہ کی اصطلاح کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :(التقیّة:الاظهارباللسان خلاف ماینطوی علیه القلب للخوف علی النفس اذاکان ماببطنه هوالحق)یعنی:’’اپنی جان کے خوف سے جوکچھ دل میں ہواس کے خلاف اظہارکرنے کانام تقیہ ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ جودل میں ہو،وہ حق بات ہو(نہ کہ خلافِ حق)‘‘۔ ۹
۵۔آیت اﷲبروجردی(رہ) لکھتے ہیں :(بِحِفظِ الشّخصِ عقیدَتَه مِن جِهةحِفظِ الأمرِالأَهمّ)یعنی:’’کسی شخص کااپنے عقیدے(اورنظریے)کوکسی اہم ونہایت ضروری امرکی خاطرچھپانا(محفوظ رکھنا)تقیہ کہلاتاہے‘‘۔ ۱۰
یہاں ہم نے علماء،فقہاء اورمفسرین میں سے چند برجستہ شخصیات کے اقوال نقل کیئے ہیں کہ جنہوں نے اپنے اپنے الفاظ میں تقیہ کی تعریف کی ہے اوراصطلاحی معنی بیان کیاہے۔مذکورہ تعریفوں میں سے بعض کادائرہ وسیع ہے اوربعض کادائرہ تنگ ہے اوربہت سے ایسے اقوال وافعال کوشامل نہیں جوتقیہ کامفہوم اداکرتے ہیں۔مثلاًجس تعریف میں فقط باطنی معتقدات کے برخلاف زبانی اظہار کوتقیہ کہاگیاہے وہ ان افعال کوشامل نہیں کہ جوانسان اپنے اعضائے جوارح سے باطنی اعتقاد کے خلاف انجام دیتاہے جیسے نماز میں تقیہ کہ جوزبان کے علاوہ انسانی اعضاء وجوارح کے ذریعے اظہار عمل کانتیجہ ہے۔لہذا اس اعتراض سے بچنے کیلئے ہم اس تعریف کووسعت دیتے ہوئے کہہ سکتے ہیں:(التقیّة هی الاظهارباللسان اوبسائر الاعضاء)کیونکہ تقیہ کے اکثرموارد ایسے اعمال میں پیش آتے ہیں کہ جوانسانی اعضاء وجوارح سے انجام پاتے ہیں۔
ان تعریفوں میں سے بعض نے فقط ’’خوف علی النفس‘‘کی قیدلگائی ہے لیکن ضروری نہیں تقیہ فقط جان کے تحفظ ہی کے لئے انجام پائے بلکہ عزت وناموس ،مال ودولت اوردینی وسیاسی اوراجتماعی مصلحتوں کی خاطر بھی تقیہ کیاجاتاہے۔جیساکہ بہت سی روایات واحادیث میں مذکورہ مصلحتوں کی خاطر بھی تقیہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔البتہ اجتماعی ودینی اورسیاسی مصلحتوں کو’’اولویت‘‘کے عنوان سے اس تعریف میں داخل کیاجاسکتاہے۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ’’جب تقیہ جان ونفس کی خاطرضروری ہے توعام مؤمنین کوضررونقصان سے بچنے اوراسلامی معاشرے وحکومت کی مصلحتوں کی خاطر بطریق اولیٰ لازمی ہوگا‘‘۔اس طرح عزت وناموس اورمال ودولت کوبھی اس تعریف میں داخل کیاجاسکتاہے اوریہ کہہ سکتے ہیں کہ:’’قدرومنزلت اورحرمت کے لحاظ سے مؤمن کی عزت وآبرواورمال ودولت اس کے نفس کی مانندہے۔جیساکہ حدیث میں آیاہے:قال النبی (ص):(حرمة مال المسلم کحرمة دمه)’’مسلمان کے مال کی حرمت ،اس کے خون کی حرمت کی مانند ہے‘‘۔ ۱۱ البتہ ان تمام اصطلاحی معنوں اورتعریفات کومدنظر رکھتے ہوئے بعض نے ایک جامع تعریف کرنے کی کوشش کی ہے چنانچہ ایک تعریف میں تقیہ کایہ مفہوم پیش کیاگیاہے:
’’بعض احکام شرع کودینی مصالح اوردوسرے اسلامی فرقوں اورمذاہب کے ساتھ مداراکرنے کی خاطرترک کرناتقیہ کہلاتاہے،اس شرط کے ساتھ (کہ اس ترک کرنے میں)کوئی غرض عقلائی موجودہویاجان ومال وعزت وناموس کاخوف ہو‘‘۔ ۱۲
چند نکات تقیہ کے اصطلاحی مفہوم سے متعلق
مذکورہ بالا تمام تعریفوں کے مطالعے سے چند نکات سامنے آتے ہیں جن کی طرف توجہکرنے سے ہمیں تقیہ کاایک جامع مفہوم مل سکتاہے۔وہ نکات یہ ہیں:
۱۔عقیدہ حقہ کومخفی اورپوشیدہ رکھنا تقیہ کاایک اہم رکن ہے۔۲۔مخالفین حق کے ساتھ موافقت وہم آہنگی کرنا،تقیہ کاایک دوسرارکن ہے۔۳۔حق کایہ اخفاء اورباطل کاتظاہریاتوجان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت کیلئے ہے یا دینی واجتماعی وسیاسی مصالح اور عام مؤمنین کوضرروزیاں سے محفوظ رکھنے کی خاطرہے۔پس کسی دینی عقیدے کوضرر ونقصان کے خوف سے مخفی کرنے کانام اسی وقت تقیہ ہوگاجب وہ حق پر مبنی ہوگا۔خلاف حق نظریے وعقیدے کو مخفی کرناتقیہ نہیں کہلاتا۔۴ ۔تقیہ کے دوپہلوہوتے ہیں ایک سلبی پہلو اوردوسراایجابی پہلو۔حق کاکتمان اورحق کوپوشیدہ رکھنا،سلبی پہلو اورمخالفین حق کے ساتھ موافقت وقدم بہ قدم چلنا،تقیہ کاایجابی پہلوہے۔ان دونوں پہلوؤں کی علت ایک ہی ہے اوروہ ضررونقصان سے بچنا ہے،ضرر خواہ جانی ہویامالی،عزت وناموس کاضررہویااجتماعی وسیاسی۔۵۔تقیہ کابنیادی مقصدیہ ہے کہ اپنی قوت کو دشمن کے مقابلے کے لئے محفوظ رکھ کر اسے بلا مقصد ضائع ہونے سے بچایا جائے تاکہ دینی واجتماعی اہداف اور مصلحت عامہ کی خاطر اس ذخیرہ شدہ قوت سے بر وقت استفادہ کیا جاسکے۔ ۶۔آیت اﷲبروجردی(رہ) کی تعریف میں کسی اہم وضروری امرکی خاطراپنے عقیدے ونظریے کے کتمان کوتقیہ کہاگیاہے۔اس تعریف میں جوچیزمدنظررکھی گئی وہ تقیہ کافلسفہ ہے یعنی ایک عمیق جدوجہدکیلئے آمادہ ہونااوراپنی قوت کواجتماعی زندگی کے اہم ترین مقاصدکیلئے استعمال کرنا،تقیہ کہلاتاہے۔پس تقیہ تدبیراورحکمت عملی ہے جس کے ذریعے انسان کونظم وانضباط کیساتھ نظریاتی جدوجہداورمبارزے کیلئے تیارکیاجاتاہے۔۷۔تقیہ ہراس قوم وجماعت کیلئے ایک ڈھال وسَپرہے جس پراکثریت کاغلبہ ہواوروہ اکثریت،اس اقلیت کواظہارعقیدہ اوراس کے مطابق عمل کرنے کی اجازت نہ دیتی ہوتووہ اقلیت عقلی وشرعی رخصت سے استفادہ کرتے ہوئے فطرت انسانی کے عین مطابق اہم ترین مقاصدکی خاطرتقیہ کاسہارالیتی ہے۔
تقیہ ،حکم اولی یاحکم ثانوی
اصول فقہ میں احکام شرعیہ کوچند قسموں میں تقسیم کیا جاتاہے۔منجملہ احکام کو احکام اولیہ اوراحکام ثانویہ میں تقسیم کیاگیاہے۔یہاں ان احکام کی تفصیلی بحث مقصود نہیں ہے فقط موضوع کی مناسبت سے ان احکام کی طرف ایک اشارہ کرتے ہوئے یہ دیکھناہے کہ آیا تقیہ حکم اولیٰ ہے یا حکم ثانوی؟جس کے لیے حکم اولیٰ وحکم ثانوی کی اصطلاحی معنی بیان کرناضروری ہے۔
حکم اولیٰ اورحکم ثانوی کی گوناں گوں تعریفیں کی گئی ہیں ۔یہاں پیچیدہ اصطلاحی تعریفوں سے بچتے ہوئے ہم سادہ الفاظ میں وہ تعریف نقل کرتے ہیں کہ جوفقھا کے درمیان مشہورہے۔
حکم اولیٰ:ایسا حکم کہ جوافعال وذوات کے عناوین اولیہ کے لحاظ سے ان پرحمل ہوتاہے۔جیسے صبح کی نماز کاواجب ہونا،شراب کاحرام ہونا وغیرہ۔
حکم ثانوی:ایساحکم کہ جوکسی موضوع پراضطرار،اکراہ اوردوسرے عارضی عناوین کومدنظر رکھتے ہوئے حمل ہوتاہے۔جیسے ماہ رمضان المبارک میں بیمارکے لیے افطارکاجائزہونا یابیمارکے لیے بیٹھ کرنمازپڑھنے کاجائزہونا۔ ۱۳ یادرہے کہ اسے حکم ثانوی اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ حکم اولی کے طول میں واقع ہوتاہے یعنی پہلے حکم اولی ہے اگراس پرعمل نہ کیاجاسکے توحکم ثانوی ہے۔
تقیہ اوردوسرے احکام ثانویہ میں ارتباط
گوکہ تقیہ خود حکم ثانوی ہے لیکن تقیہ کابعض دوسرے احکام ثانویہ کے ساتھ گہرا ربط موجودہے۔۱۴ چونکہ بہت سے موارد میں تقیہ کے جواز کا ملاک ومعیار اضطرارہے۔جیسا کہ روایت میں ہے:التقیۃ فی کل شئیٍ یضطرإلیہ ابن آدم۱۵’’تقیہ ہراس چیزمیں ہے کہ جس میں انسان مضطرہوجائے‘‘۔اسی طرح بعض مقامات پرتقیہ عسروحرج کی وجہسے جائزہوجاتاہے۔بعض مواردمیں’’اکراہ‘‘کوبھی تقیہ کے جوازکاباعث قراردیاجاتاہے۔جیساکہ تقیہ کی قرآنی ادلہ میں سے سورہ نحل کی آیت ۱۰۶ میں تقیہ کی علت اکراہ کوقراردیاگیاہے۔
تقیہ کی ایک دوسری تقسیم:
فقہائے امامیہ نے تقیہ کے احکام تکلیفی بیان کرتے ہوئے اسے بھی دوسرے افعال کی ماننداحکام خمسہ میں تقسیم کیاہے چنانچہ شہید اول(رہ) اوراستادالفقہاء شیخ انصاری(رہ) نے تقیہ کے احکام خمسہ اس ترتیب سے بیان فرمائے ہیں:
۱۔ تقیہ واجب:
جب دفع ضرربالفعل واجب ہو۱۶ اورانسان جان لے کہ تقیہ نہ کرنے کی وجہ سے اسے یاکسی مؤمن کوضررپہنچے گاتوتقیہ واجب ہوگا۱۷۔ انسان کسی ایسے ماحول میں زندگی گزاررہاہوکہ جہاں اظہاراسلام کرنے یا اہل بیت اطہار(ع) سے اظہارمودت کرنے سے جان کاخطرہ ہویاکسی حاکم جائرکے سامنے کوئی بات کہنے سے کسی مؤمن کی جان خطرے میں پڑ جائے تویہاں تقیہ اورکتمان حق واجب ہوجاتاہے۔
۲۔تقیہ مستحب:
جب تقیہ نہ کرنے کی وجہ سے طرف مقابل کی جانب سے تدریجاًضررپہنچنے کااحتمال ہوتوتقیہ مستحب ہے۔دوسرے الفاظ میں اپنے آپ کوخطرے سے دوررکھنے کے لیے تقیہ کرنامستحب ہے۔مثلاًمخالفین کے ساتھ ان کی اکثریت کے علاقے میں زندگی گزارنے کے باوجودمدارانہ کرنا،تدریجی طورپران میں نفرت پیداہونے کاسبب بنتاہے جس سے مستقبل میں خطرات پیداہوسکتے ہیں۔یہاں تقیہ کرنا مستحب ہوگا یاکسی مستحب امرمیں تقیہ کیاجائے جیسے تسبیحات حضرت زھرا (س)کی ترتیب میں تقیہ کرنایااذان کی بعض فصول(مثلاًحی علی خیرالعمل)میں تقیہ کرناوغیرہ۱۸۔
۳۔تقیہ مکروہ:
جہاں تقیہ نہ کرنا اورضرربرداشت کرنا،تقیہ کرنے سے بہترہو۔مثلاًکسی قوم کے رئیس وسردارکے تقیہ کرنے کی وجہ سے اس کے پیروکاروں میں شکوک وشبہات پیداہونے لگیں اوروہ گمان کریں کہ حکم واقعی ویسے ہے جیسے اس نے انجام دیاہے ۔تویہاں لوگوں کوگمراہی وسرگردانی سے بچانے کے لئے تقیہ نہ کرنا بہترہے۔
۴۔تقیہ حرام:
جب تقیہ کرنے کی وجہ سے کسی مؤمن کاخون بہے جانے کااندیشہ ہوتووہاں تقیہ حرام ہے(۷)البتہ تقیہ حرام کی تفصیل ’’مستثینات تقیہ‘‘میں پیش کی جائیں گی۔
۵۔تقیہ مباح: جب تقیہ کرنے اورنہ کرنے میں کوئی فرق نہ ہواورانسان دونوں کے انجام دینے میں مخیرہو۔مثلاًپیغمبر اسلام(ص) کے زمانے میں جب’’مسیلمۃ کذاب‘‘نے نبوت کادعویٰ کیاتودومسلمانوں کواس کے ساتھیوں نے پکڑلیا اوران سے کہاکہ وہ مسیلمۃ کذاب کے نبی ہونے کی گواہی دیں۔ان دونوں میں سے ایک نے کہا:میں گواہی دیتاہوں کہ محمد صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم خداکے نبی ہیں اورمسیلمۃ جھوٹاہے۔مسیلمہ نے اسے قتل کردیا۔دوسرے مسلمان نے مسیلمہ کے کہنے پرعمل کیااوراس کے نبی ہونے کی گواہی دے دی۔مسیلمہ نے اسے آزادکردیا۔جب یہخبرپیغمبر اسلام(ص) تک پہنچی توآپ(ص)نے فرمایا:
’’پہلاشخص کہ جس نے اقرارنہیں کیااورقتل ہوگیا وہ بہشت کی طرف روانہ ہوگیاہے ۔دوسراشخص کہ جس نے اپنے فریضہ پرعمل کیااورتقیہ اختیارکرکے محفوظ ہوگیاہے۔لہذا ہردومأجورہیں‘‘۔یعنی تقیہ مباح کی صورت میں تقیہ کرنے والا اورنہ کرنے والا ہردومأجورومثاب ہوتے ہیں۱۹۔
امام خمینی (رہ) کے نزدیک تقیہ کی اقسا م :تقیہ کومختلف لحاظ سے چنداقسام میں تقسیم کیاجاتاہے۔جتنے بھی محققین اورعلماء نے تقیہ کے بارے میں کچھ لکھاہے ان میں سے کسی نے بھی تقیہ کی اقسام اتنی دقت سے بیان نہیں کیں جتنی دقت اورباریک بینی سے امام خمینی علیہ الرحمہ نے بیان کی ہیں۔ امام امت(رہ) نے تقیہ کومختلف لحاظ سے تقسیم کیاہے۔جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
(الف) تقیہ کی ذاتی تقسیم:
تقیہ ذاتی طورپرچندقسموں میں تقسیم ہوتاہے۔اسے ہم اسباب کے لحاظ سے بھی تقیہ کی تقسیم کہہ سکتے ہیں۔یعنی تقیہ کرنے کاسبب کیاہے۔
۱۔تقیہ خوفیہ:
کسی خوف اورخطرے کے سبب تقیہ کرنا،تقیہ خوفیہ کہلاتاہے۔اسے ہم تقیہ اکراہیہ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی جبرواکراہ کی وجہ سے تقیہ کرنا۔یہاں خوف وخطرہ بھی تین طرح کاہوسکتاہے۔
(۱)اپنی جان ومال یاعزت وآبرو کے خطرے وخوف کی وجہ سے تقیہ کرنا۔ (۲) دوسرے مؤمنین کوضررپہنچنے کے خطرے وخوف کے سبب تقیہ کرنا۔(۳) دنیائے اسلام یااسلامی معاشرے کو(ناقابل تلافی)ضررونقصان پہنچنے کے خطرے وخوف کے سبب تقیہ کرنا۔
خوف وخطریاجبراکراہ کی بناء پرتقیہ کرنے کی طرف آیات وروایات میں بھی واضح اشارہ ملتاہے۔چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت۲۸’’لایَتّخِذِالمُؤمِنَون الخ‘‘تقیہ خوفیہ ہی کی طرف ناظرہے۔اسی طرح سورہ نحل کی آیت ۱۰۶ ’’وَمَن کَفَرَباﷲ مِن اِیمٰانِه اِلَّا مَن اَکرِہَ۔۔۔الخ‘‘بھی جبرواکراہ کی بناء پرتقیہ کرنے کے جوازپردلالت کررہی ہے۔بعض روایات واحادیث میں بھی جان ومال اورعزت وآبروکے خوف کی وجہ سے تقیہ کرنے کی تاکیدکی گئی ہے۔جیساکہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک حدیث گذشتہ صفحات میں نقل کی گئی ہے جس میں آپ(ع) فرماتے ہیں:
’’تقیہ مؤمن کے بہترین اعمال میں سے ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کواوراپنے دینی بھائیوں کوظالموں سے بچاتاہے۔۔۔‘‘۔۲۰ اسی طرح دوسری بہت سی روایات میں بھی تقیہ کاسبب خوف وخطرکوقراردیاگیاہے اوراس کی بناء پرتقیہ کرنے کی تاکیدکی گئی ہے۔چندروایات ادلہ تقیہ کے ذیل میں نقل کی گئی ہیں۔
تقیہ خوفیہ کی تیسری قسم وہ تقیہ ہے کہ جودنیائے اسلام واسلامی معاشرے کوناقابل تلافی نقصان وضررسے بچنے کی وجہ سے کیاجاتاہے۔اس سے واضح ہوتاہے کہ تقیہ فقط جان ومال کی حفاظت اورخطرے سے بچنے ہی کے لیے نہیں ہوتابلکہ ان چیزوں سے بھی زیادہ اہم مقصدکے لیے تقیہ کیاجاتاہے اوروہ اہم مقصددین اسلام اورمذہب حقہ کی حفاظت اوراسے دشمنوں کے خطرے سے محفوظ رکھناہے۔امام خمینی(رہ) تقیہ کی اس قسم کواذاعہ وافشاء کے مقابلے میں بیان کرتے ہیں۔اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:(ومنها:ماتکون واجبۃ لنفسها،وهی ماتکون مقابلة للإذاعه،فتکون بمعنی التحفظ عن إفشاء المذهب وعن إفشاء سرّاهل البیت ۔فینظهرمن کثیرمن الروایات أن التقیة التی بالغ الأئمة(ع)فی شانها،هی هذہ التقیة فنفس إخفاء الحق فی دولة الباطل واجب وتکون المصلحةفیه جهات سیاسیة دینیة ولولاالتقیة لصارالمذهب فی معرض الزوال والانقراض)۲۱
’’تقیہ کی ایک قسم وہ ہے کہ جوذاتاًواجب ہے اوریہ وہ تقیہ ہے جواذاعہ وافشاکے مقابلے میں ہے ۔پس اس کامعنی مذہب حقہ کوافشاء ہونے سے محفوظ رکھنااوراہل بیت (ع) کے اسرارکوآشکارنہ کرناہے۔بہت سی روایات سے ظاہرہوتاہے کہ آئمہ اہل بیت (ع) جس تقیہ کی تاکیدفرماتے تھے وہ یہی تقیہ تھا۔بنابرایں باطل حکومت کے دوران حق کوپنہان رکھناواجب ہے اوراس اخفاء وپوشیدگی حق کی مصلحت اس کادینی وسیاسی پہلو ہے۔اگرتقیہ نہ ہوتاتومذھب حقہ زوال وانقراض کے خطرے سے دوچارہوجاتا‘‘۔
پس جان ومال اورعزت وآبروکے علاوہ دین اسلام اورمذہب حقہ کی حفاظت جیسے اہم مقصدکی خاطرتقیہ کرناواجب ہے۔اگردین اورمذہب خطرے سے دوچارہوجائے اورہماراتقیہ کرنااسے بچاسکتاہوتوتقیہ کرناواجب ہوجاتاہے جیساکہ سیرت آئمہ اطہار(ع) خصوصاًامیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی مقدس زندگی اس کی شاہدہے کہ آپ(ع) نے اپنی زندگی کاایک بڑاحصہ دین اسلام اورمذہب حقہ کی مصلحت وحفاظت کی خاطرتقیہ میں گزارا۔
تقیہ مدارا تیہ:
دین اسلام میں دوسروں کے ساتھ صلح وآشتی اورمداراکرنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے۔تقیہ مداراتیہ یہ ہے کہ وحدت مسلمین کی خاطرمخالف مذہب مسلمان بھائیوں کے ساتھ صلح وآشتی اورمداراکرتے ہوئے ایسا کوئی عمل انجام نہ دینا جوان کی دل شکنی اورنفرت کاباعث بنے،بلکہ چھوٹے موٹے اختلافات کوبالائے طاق رکھ کردوسرے مسلمانوں کی محبت ومودّت حاصل کرنا چاہیئے۔تقیہ مداراتیہ میں ضررونقصان کاخوف نہیں ہوتا بلکہ فقط مسلمانوں کے اتحاداورباہمی اخوت ومحبت کوبرقرارکرناہی اس قسم کے تقیہ کامقصدہے۔تقیہ مداراتیہ کے بارے میں بہت سی احادیث وروایات ملتی ہیں اورآئمہ طاہرین (ع) کی طرف سے اس سلسلے میں خصوصی تعلیمات ملتی ہیں؛چندروایات ذیل میں نقل کی جاتی ہیں۔
۱۔(عن عبداﷲبن سنان،عن أبی عبداﷲعلیه السلام قال:قال رسول اﷲصلی اﷲعلیه وآله:أمرنی ربی بمداراۃ الناس کماامرنی بأداالفرائض)۲۲
’’عبداﷲبن سنان امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص)نے فرمایا:میرے پروردگارنے مجھے جیسے واجبات وفرائض کی انجام دہی کاحکم دیاہے ویسے ہی لوگوں کے ساتھ مدارااورآشتی کرنے کاحکم بھی دیاہے‘‘۔
۲ ۔ (عن أبی عبداﷲعليه السلام قال:قال رسول اﷲصلی اﷲعلیه وآله:مداراۃ الناس نصف الإیمان والرفق بهم نصف العیش)۲۳
’امام جعفرصادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ رسول خدا (ص)نے فرمایا:لوگوں کے ساتھ آشتی ومدارانصف ایمان ہے اوران سے نرمی ومہربانی کرنانصف زندگی ہے‘‘۔
۳۔(عن أبی عبداﷲعلیه السلام فی رِسٰالَتِه إِلیٰ أصحٰابه قال:وَعَکَیکُم بِمُجٰاملة أھل البٰاطل۔۔۔۔۔۔)۲۴
’’حضرت جعفرصادق علیہ السلام اپنے اصحاب کے نام ایک خط میں فرماتے ہیں:تمہارے لیے اہل باطل کے ساتھ خوش رفتاری وخوش کلامی کرناضروری ہے‘‘۔
آئمہ معصومین علیہ السلام کی طرف سے مخالف مذہب کے دینی بھائیوں اوردوسرے مسلمانوں کے ساتھ حسن معاشرت اورمداراوآشتی کی اس قدرتاکیدکافلسفہ درحقیقت قرآن کے اس فرمان کی تعمیل ہے کہ جس میں خداوندمتعال مسلمانوں کوتفرقہ سے بچنے کاحکم دیتاہے ۔چنانچہ خداوندفرماتاہے:
(وَاعتَصِمُوابِحَبلِ اﷲِجَمِیعاًوَلاٰتَفَرَّقُواوَاذکُرُوانِعمَتَ اﷲِعَلَیکُم إذکُنتُم اعداءَ فَأَلَّفَ بَینَ قَلُوبِکُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِه إِخوٰانَا۔۔۔)۲۵
’’تم سب لوگ اﷲتعالیٰ کی رسی کومضبوطی سے پکڑے رہو اورمتفرق نہ ہواوریادکرتے رہواﷲتعالیٰ کی نعمت کوجوتم پر ہے جبکہ تم دشمن تھے۔پس اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تم اس نعمت کے طفیل بھائی بھائی ہوگئے‘‘۔
متقی (تقیہ کنندہ)کے لحاظ سے تقیہ کی اقسام
۱۔عام انسانوں کاتقیہ:معاشرے کے عام لوگوں کاتقیہ کرناکہ جوکسی مقام وعہدے پرفائزنہیں۔
۲۔معاشرے کے دینی وغیر دینی رہنماؤں کاتقیہ:ان لوگوں کاتقیہ کرناکہ جودینی یادنیوی لحاظ سے لوگوں کے درمیان کسی مقام وحیثیت کے حامل افراد ہیں مثلاًنبی اکرم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کاتقیہ کرنا(اگرنبی(ص) کے لیے تقیہ کرناجائزہو)یاآئمہ طاہرین علیہ السلام ،فقہا ،رؤسائے مذہب اورسلاطین وحکام کاتقیہ کرنا۔ان میں سے ہرایک کے تقیہ کے بارے میں جداگانہ بحث کی ضرورت ہے۔
(د) متقی منہ(جس سے تقیہ کیاجاتاہے)کے لحاظ سے تقیہ کی اقسام
۱۔کفارومشرکین سے تقیہ کرنا،خواہ وہ حکام وسلاطین ہوں یارعایا۔۲۔ مخالف مذہب حکام وسلاطین سے تقیہ کرنا۔۳۔ مخالف مذہب فقہاء وقضات سے تقیہ کرنا۔۴۔ مخالف مذہب عوام سے تقیہ کرنا۔۵۔شیعہ عوام اورحکام وسلاطین سے تقیہ کرنا۔۲۶
(ج) متقی فیہ (جس چیز میں تقیہ کیاجاتاہے)کے لحاظ سے تقیہ کی اقسام
۱۔فعل حرام انجام دینے میں تقیہ کرنا۔۲۔ترک واجب کرنے میں تقیہ کرنا۔۳۔شرط وجزء ترک کرنے میں یامانع وقاطع انجام دینے میں تقیہ کرنا۔۴۔موضوع خارجی کے مطابق عمل کرنے میں تقیہ کرنا۔مثلاًجس دن اہل سنت عیدمناتے ہیں لیکن شیعہ کے نزدیک (عدم رویت ہلال کی وجہ سے)عیدنہ ہو اس دن افطارکرنے میں تقیہ کرناوغیرہ۔۲۷
مستثنیاتِ تقیہ
احکام ثانویہ کے دوسرے قواعدکی مانندقاعدہ تقیہ سے بھی کچھ مواردمستثنیٰ قرارپاتے ہیں۔فقہاء نے ادلہ تقیہ بالخصوص روایات اورقانون اہم ومہم سے استفادہ کرتے ہوئے جن امورکوقاعدہ تقیہ سے مستثنیٰ کیاہے اوران میں تقیہ کوحرام قراردیاہے وہ یہ ہیں:
۱۔ دین میں فسادکی صورت میں تقیہ حرام ہے۔
جوکام بھی دین میں فتنہ وفسادکاباعث بنے اورجس سے ارکان اسلام کے متزلزل ہونے اورشعائرالٰہی کے محوہونے کاخطرہ ہواس میں تقیہ کرناحرام ہے۔مثلاًتقیہ کے طورپرکعبہ اوردوسرے مشاھدشریفہ کواس طرح تباہ وبربادکرناکہ ان کااثرتک باقی نہ رہے یامذہب کی ایسی تفسیرکرناکہ جوالحادکے مطابق ہوتویہ تقیہ جائزنہیں ہوگا۔دوسرے الفاظ میں ہراس کام میں تقیہ کرناحرام ہے کہ جس پرعمل کرناجان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت سے زیادہ اہمیت کاحامل ہو۔یعنی ایسے امور کہ جن کی حفاظت کے لیے جنگ وجہاداورجاں نثاری کرناواجب ہے۔البتہ ان مواردکی تشخیص عام آدمی کاکام نہیں بلکہ مجتہدوفقیہ ہی ان کی تشخیص دے سکتاہے کیونکہ اس کے لیے ادلہ شرعیہ پرتسلط ،ذوق شریعت اورتقویٰ وپرہیزگاری ضروری ہے۔
انہی امورمیں سے ایک یہ ہے کہ اگرمتقی(تقیہ کنندہ)کوئی بڑی،دینی واجتماعی شخصیت ہواوراس کے تقیہ کرنے سے مذہب کی توہین ہوتی ہو یادوسروں کی گمراہی کااندیشہ ہوتوایسی شخصیت کے لیے تقیہ کرناجائزنہیں مثلاًوہ تقیہ کے طورپربعض محرکات کاارتکاب کرے (شراب پیئے یازناکرے)یا بعض واجبات کوترک کرنے پرمجبورہو(نماز،روزہ اورحج بجانہ لائے)تویہاں دلیل رفع یاادلہ تقیہ سے تمسک کرتے ہوئے تقیہ کاجوازمشکل ہے۔۲۸ اسی ضمن میں امام خمینی(رہ) لکھتے ہیں:
ہروہ چیزکہ جواصول اسلام یااصول مذہب میں سے کوئی اصل یاضروریات دین میں سے کوئی ضرورت ہواوروہ زوال وتباہی اورتغیر کے خطرے سے دوچارہومثلاًبعض منحرفین اورطاغی افرادارث ،طلاق ،نمازاورحج جیسے ’’اصول احکام‘‘کوتبدیل کرنے کاارادہ رکھتے ہوں چہ جائیکہ اصول دین یااصول مذہب کوتبدیل کرناچاہیے توایسے موقع پرتقیہ جائزنہیں۔۲۹مستثنیات تقیہ کے اس موردپرقاعدہ اہم ومہم کے علاوہ کچھ روایات بھی دلالت کرتی ہیں جن میں سے چندایک یہ ہیں:
۱۔(عن مسعدۃبن صدقة ،عن أبی عبداﷲ علیه السلام فی حدیث۔أن المؤمن إذاأظهرالإیمان ثم ظهر منه مایدل علی نقضه خرج مماوصف وأظهروکان له ناقضاًإلا أن یدعي أنه إنما عمل ذلک تقیة،ومع ذلک ینظرفیه،فإن کان لیس ممایمکن أن تکون التیقة في مثله لم یقبل منه ذلک،لأن للتقیة مواضع من أزالها عن مواضعها لم تستقم له وتفسیرمایتقیٰ مثل أن یکون قوم سوء ظاهرحکمهم وفعلهم علی غیرحکم الحق وفعله،فکل شيء المؤمن بینهم لمکان التقیة ممالایؤدي إلی الفسادفيالدین فإنه جائز) ۳۰
’’مسعدۃ بن صدقہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اگراظہارایمان کے بعدکوئی ایساکام کرے جس سے ایمان کی نفی ہوتی ہوتووہ مومنوں کی صف سے نکل جاتاہے لیکن اگروہادعاکرے کہ اس نے یہ کام تقیہ کے طور پرکیاہے تویہ دیکھنا ہوگاکہ آیااس کام میں تقیہ جائزتھایانہیں؟اگراس کام میں تقیہ جائزنہیں تھاتواس کاعذر قبول نہیں ہوگا کیونکہ تقیہ کی حدود معین ہیں جن کی خلاف ورزی کرنے والا قابل عفو نہیں اور’’مایتقیٰ‘‘کامطلب یہ ہے کہ وہ شخص ایسی بڑی قوم میں پھنساہوجوظالم بھی ہوں اوراس پرغلبہ بھی رکھتے ہوں تواس صورت میں مؤمن کاہروہ فعل جوتقیہ کی بناء پرہواورجس سے دین میں فتنہ وفسادپیدانہ ہوجائز ہوگا‘‘۔
۲۔’’عن درست بن اَبی منصور قال:کُنتُ عندأبی الحسن موسیٰ علیه السلام وعندہ الکمیت بن زید،فقال للکمیت:أنت الذيتقول:
فالآن صرت إلی أُمیة
والأمورلها مصائر
قال :قلت ذاک واﷲ مارجعت عن إیماني،وإنيلکم لموالٍ،ولعدوکم لقالٍ،ولکنی قلته علی التقیۃ،قال:أمالئن قُلت ذلک إنی التقیة تجوز فی شرب الخمر‘‘۳۱
’’درست بن ابی منصور کہتے ہیں :میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا اورکمیت ابن زید(معروف شاعر ومداح اہل بیت) بھی وہاں موجودتھے،امام (ع) نے کمیت(کوسرزنش کرتے ہوئے) فرمایا:کیا(یہ شعر) تم نے کہاہے؟’’اب میں بنی امیہ کے ساتھ ہوں اوران کے امور کی برگشت میری جانب ہے‘‘۔
کمیت نے عرض کی :ہاں!میں نے ہی کہاہے لیکن میں اپنے ایمان سے منحرف نہیں ہوں،میں اب بھی آپ (ع) کاموالی ہوں اورآپ(ع) کے دشمنوں کادشمن ہوں، لیکن میں نے یہ شعر ’’تقیہ‘‘ کے طورپرکہاہے۔تب امام(ع) نے اس سے فرمایا:اگر تقیہ ایسے ہی ہونے لگے توپھر شراب بھی تقیہ کے طور پرجائزہوجائے‘‘۔
ان دونوں روایات سے جونکتہ اخذہوتاہے وہ یہی ہے کہ تقیہ کی کچھ حدود معین ہیں جن کی مراعات ضروری ہے ورنہ تقیہ پرعمل اطاعت کے بجائے نافرمانی شمارہوگا۔اس لیے قاعدہ تقیہ کے مجاری کی پہچان اورتشخیص ضروری ہے ورنہ ’کمیت‘جیسے برجستہ شاعر اورمحب اہل بیت (ع) کوبھی ان حدود کی شناخت نہ رکھنے کی وجہ سے امام (ع) وقت کی طرف سے سرزنش کاسامنا کرناپڑتاہے۔امام کاظم علیہ السلام کی اس حدیث سے ظاہرہوتاہے بنی امیہ جیسے ظالموں کی مدح کرنے میں تقیہ جائزنہیں چونکہ ان جیسے لوگوں کی طرفداری کفرکی بنیادوں کومضبوط کرنے اورگمراہی وجہالت کوفروغ دینے کاموجب بنتی ہے۔پس کفروضلال کوتقویت پہنچانے والی ہر بات میں تقیہ حرام ہے خواہ وہ ایک شعر کی حدتک ہی کیوں نہ ہو۔
۲۔شراب خوری ،موزوں پرمسح اورمتعہ حج میں تقیہ کی حرمت
بعض روایات میں شراب خوری ،موزوں پرمسح کرنے اورمتعہ حج میں تقیہ حرام قراردیاگیاہے ۔چندروایات ملاحظہ فرمائیں:
(۱)(عن زرارۃ قال:قلت له:فی مسح الخفین تقیۃ؟فقال:ثلاثة لاأتقی فیهن أحداً:شرب المسکر ،ومسح الخفین،ومتعة الحج،قال زرارۃ:ولم یقل الواجب علیکم أن لاتتقوافیهن أحداً)۳۲
زرارۃسے منقول ہے کہ میں نے امام (ع)کی خدمت میں عرض کیا:کیا موزوں پرمسح کرنے میں تقیہ ہے؟آپ(ع) نے فرمایا:تین چیزیں ایسی ہیں جن میں سے کسی میں بھی ،میں تقیہ نہیں کرتا۔نشہ آور چیز(یعنی شراب)میں،موزوں پرمسح کرنے میں اورمتعہ حج میں ۔زرارۃ کہتے ہیں امام(ع) نے یہ نہیں فرمایا:کہ تم پرواجب ہے کہ ان میں سے کسی چیزمیں تقیہ نہ کرو‘‘۔
(۲)ایک دوسری جگہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:(والتقیة في کل شئی إلا في النبیذوالمسح علی الخفین)۳۳’’نبیذ(شراب)اورموزوں پرمسح کے علاوہ ہرچیزمیں تقیہ جائزہے‘‘۔
ان روایات کے مطالعے کے بعدیہ سوال پیداہوتاہے کہ ان امور میں تقیہ کی حرمت کافلسفہ کیاہے اوریہ چیزیں دوسری چیزوں کے ساتھ تقیہ کرنے میں کیوں مختلف حکم رکھتی ہیں؟بعض محققین نے اس سوال کے جواب میں کچھ توجیہات پیش کی ہیں ۳۴جویہ ہیں:
(۱)روایت میں نفی تقیہ سے مرادوہ امورہیں کہ جن میں زیادہ مشقت نہیں ہوتی یعنی ایسی مشقت کہ جوجان ومال کے خوف کاسبب نہیں بنے۔
(۲)شاید امام (ع) کی مرادیہ ہوکہ میں ان امور میں فتویٰ دینے میں کسی سے تقیہ نہیں کرتاکیونکہ ان امور کی حرمت مخالفین کی مذہب میں بھی واضح وروشن ہے۔
(۳)مذکورہ تینوں امور کے بارے میں اکثر اہل سنت انکار نہیں کرتے کیونکہ وہ متعہ حج ،حرمت مسکر اوروضو کے بعد پاؤں دھونے کے لیے جوتے اتارنے کے منکر نہیں ہیں لہذا ان امور میں تقیہ بلاوجہ ہے ۔
(۴)کیونکہ ان مواردمیں کسی قسم کے ضرر ونقصان کااندیشہ نہیں ہوتالہذا تقیہ ضروری نہیں ہے۔
(۵)ان موارد میں ترک تقیہ کی بہترین دلیل قرآن وسنت ہے کیونکہ متعہ حج کے بارے میں قرآن میں حکم موجودہے ۳۵ اورموزوں پرمسح نہ کرکے صرف پاؤں پرمسح کرنے کے بارے میں بھی قرآن میں صراحت موجودہے۔۳۶ چونکہ پاؤں پرمسح تب ہی ہوگاجب ٹوپی یاموزے اتارکرفقط سریا پاؤں پرمسح کیاجائے گا۔۳۷
(۶)پہلی روایت میں امام (ع) نے ’’ثلاثةلا اتقی فیهن احداً‘‘فرماکرفقط اپنا شخصی حکم بیان کیاہے۔چونکہ روایت کے ذیل میں زرارۃ کایہ جملہ بھی نقل ہواہے کہ ’’ولم یقل الواجب علیکم أن لاتتقوا فیھن احداً‘‘۳۸
لیکن ان تمام توجیہات کے باوجود اگرضرورت پڑ جائے تومذکورہ تینوں مواردمیں تقیہ کیاجاسکتاہے۔مثلاً اگرجان خطرے میں ہوتوجان کی حفاظت شراب نہ پینے یاموزوں پرمسح نہ کرنے سے زیادہ اہم ہے لہذا یہاں جان کے خوف کی وجہ سے تقیہ جائز ہوجاتاہے۔اس بات کی تائید درج ذیل روایت سے بھی ہوتی ہے:
(عن أبی الورد قال:قُلتُ لأبی جعفر:’’إِن أباظبیان حدثنی أَنه رأیٰ علیاً أراق الماء،ثم مسح علی الخفین،فقال:کذب أبوظبیان،أمابلغک قول علی علیه السلام فیکم:سبق الکتاب الخفین؟فقُلتُ:هل فیهمارخصة ؟فقال:لا،إلا من عدوتقیة ،أوثلج تخاف علیٰ رجلیک)۳۹
’’ابی الوردسے منقول ہے کہ میں نے امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیاکہ ابوظبیان نے مجھ سے کہاکہ:میں(ابوظبیان )نے علی علیہ السلام کودیکھاہے کہ انھوں نے پانی بہادیااورموزوں پرمسح کیا،امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:ابوظبیان نے جھوٹ بولاہے۔کیاتم نے علی علیہ السلام کایہ قول نہیں سناکہ قرآن میں تمہارے لیے خفین کاحکم بیان ہوچکاہے؟میں نے عرض کی کیااس میں رخصت ہے؟توآپ(ع) نے فرمایا:نہیں،مگریہ کہ دشمن سے تقیہ کے طورپریاپاؤں کوبرف سے بچانے کے لیے موزوں پرمسح کرنے کی اجازت ہے‘‘۔
صاحب جواہر بھی مذکورہ بالااحتمالات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:(لم نعثرعلی عامل بهذا الروایة أومَن استثنیٰ ذلک من عمومات التقیة)۴۰
’’میں نے کسی کو اس روایت پر عمل کرتے نہیں پایا اور نہ اس مورد کو عموماتِ تقیہ سے استثناء کرتے دیکھا ہے۔‘‘
پس خلاصہ یہی ہے کہ مذکورہ تینوں امور میں زیادہ خوف وخطرہ نہیں ہوتااس لیے ان میں تقیہ کرنا بے جا ہے چونکہ تقیہ خوف وخطرے کی صورت میں جان کی حفاظت کے لیے ہے۔بالفرض ان امور میں بھی جان وغیرہ کا خطرہ ہو توتقیہ جائز ہوجائے گا اوریہ(تینوں) موارد تقیہ کے مستثنیات میں سے نکل جائیں گے۔
۳۔قتل میں تقیہ جائز نہیں
یعنی جب بھی انسان کی جا ن ومال یا عزت وآبروکسی بے گناہ شخص کے قتل پر موقوف ہو جائے تو یہاں انسان اپنی جان ومال یا عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے تقیہ نہیں کر سکتا اورکسی بے گناہ کوقتل نہیں کر سکتا۔ متعدد روایات اس قسم کے تقیہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں منجملہ ایک روایت میں محمد بن مسلم امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:
(اِنَّماجعلت التقیة لیحقن بھاالدم،فإذابلغ الدم فلیس تقیة)۴۱
’’تقیہ(کاحکم) جان کی حفاظت کے لیے وضع کیاگیاہے جب یہ خودجان لینے کاسبب بن جائے تویہاں تقیہ جائزنہیں ہے‘‘۔
نص کے علاوہ فتاویٰ میں بھی اس قسم کے تقیہ کوحرام قراردیاگیاہے۔۴۲
۴۔آئمہ طاہرین (ع) سے اظہارِبرائت میں تقیہ
آئمہ طاہرین بالخصوص امیر المؤمنین علی علیہم السلام سے اظہار برائت کرنے میں تقیہ کے جواز وعدم جواز کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں جن میں سے بعض عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں ،بعض رخصت پر دلالت کرتی ہیں اوربعض میں وجوبِ برائت پر دلالت ملتی ہے۔اظہار برائت کے عد م جواز پر دلالت کرنے والی ایک روایت یہ ہے:
(عن محمد بن میمون ،عن جعفر بن محمد،عن ابیه،عن جدہ قال:قال اَمیرُالمؤ منین (علیه السلام):ستدعون اِلی سبّی فسبّونی ،وتد عون اِلی البراءۃ مِنی فمدوالرقاب،فاِنی علی الفطرۃ)۴۳
’’محمد بن میمون سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق (ع) نے اپنے والدما جد سے نقل کیا ہے کہ:امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا :عنقریب تم کو مجھے بُرا کہنے کے لیے کہا جائے گا،تم مجھے (العیاذباﷲ)بُرا کہہ دینا (پھر ) تمہیں مجھ سے اظہارِ برائت کرنے کو کہا جائے گا،تم اپنی گردن کٹا دینا (مگر مجھ سے اظہارِ برائت نہ کرنا) چونکہ میں فطرت اسلام پر ہوں ‘‘۔
اس روایت سے ظاہر ہوتاہے کہ ’’سب‘‘کرنے میں تقیہ جائز ہے لیکن اظہار برائت میں جائز نہیں ۔اسی مضمون کی ایک روایت علی بن الخزاعی نے امام رضا علیہ السلام سے بھی نقل کی ہے ۔۴۴ اسی طرح بعض دوسرے منابع میں بھی اس قسم کی روایات ملتی ہیں ۔رخصت پر دلالت کرنے والی ایک روایت یہ ہے:
(محمد بن مسعود العیاشی فی (تفسیرہ )عن اَبی بکر الحضرمی ،عن اَبی عبداﷲ(علیه السلام )۔فی حدیث ۔اَنه قیل له : مدالرقاب اَحبّ الیک اَمالبراءۃ مِن علی(علیہ السلام) ؛فقال:الرخصة اَحبّ اِلّیَ،اَمّاسمعتَ قول اﷲِعّزوجل فی عمار:’’اِلّاَ مَن اُکرِه وَ قَلبُه مُطمَءِنّ بِالاِیمَانِ)۴۵
’’محمد بن مسعود عیاشی اپنی تفسیر میں ابوبکر حضرمی کے حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ امام (ع) کی خدمت میں عرض کیا گیا :آپ کو گردن کٹا دینا پسند ہے یا علی علیہ السلام سے اظہارِ برائت کرنا ؟آپ نے فرمایا :مجھے رخصت پسند ہے ۔کیا تم نے عمارؓ کے بارے میں خداوند عزوجل کا یہ قول نہیں سنُا:’’مگر وہ شخص جس کو مجبور کیا جائے حالانکہ اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو‘‘۔
وجوب برائت ۴۶ پر دلالت کرنے والی ایک روایت یہ ہے:
(عن مسعدۃ بن صدقه قال :قلتُ لاَبی عبداﷲ(علیه السلام ):إنَّ النَّاس یَرَونَ أنَّ عَلیًّا(علیه السلام)قال علی منبرالکوفة:أَیُّهاالنَّاس اِنَّکُم سِتِدعونَ إِلی سبّيفَسبّونی،ثم تدعون إِلیٰ البراء ۃمِنّی فلا تَبرَؤوامنّی،فقال:ماأکثرمایکذب الناس علیٰ علی(علیه السلام)ثم قال:إِنّماقال:إِنَّکُم سَتَدعونَ إلیٰ سبّيفسبّونی،ثم تَدعونَ إِلیٰ البراء ۃمِنی وَإنّیِ لعلیٰ دین محمد (صلی اﷲعلیہ وآلہ)ولم یقل:وَلاتبرؤوامِنّی،فقال لہ السائل:أرأیت أن أختارالقتل دون البراء ۃ،فقال:واﷲماذلک علیه وماله إلَّامامضٰی علیه عماربن یاسرحیث أکره أھل مکّةوقلبه مطمئن بالإیمان،فأنزل اﷲعزوجل فیه’’إِلَّامَن أُکرِہَ وَقَلبُه مُطمَءِنٌّ بِالإِیمٰانَ‘‘فقال له النبّی(ص)عندها:یاعمارإِن عادوافعد،فقدأنزل اﷲعزرک وأَمرکَ أن تعددإِن عادوا)۴۷
’’مسعدۃ بن صدقہ سے منقول ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کی:لوگکہتے ہیں کہ:علی علیہ السلام نے منبر کوفہ سے اپنے خطاب میں فرمایا:اے لوگو!عنقریب تم کومجھ پرسب وشتم کرنے پرمجبورکیاجائے گا تواس وقت تم مجھ پرسب وشتم کرسکتے ہو۔پھرتمہیں مجھ سے اظہاربرائت کے لیے کہاجائے گا،تم مجھ سے اظہاربرائت نہ کرنا۔۔۔اس پرامام صادق علیہ السلام نے فرمایا:لوگ علی علیہ السلام کے بارے میں کس قدر جھوٹ بولتے ہیں ۔حالانکہ علی علیہ السلام نے یوں فرمایاتھا:’’تمہیں مجھ پرسب وشتم کرنے کے لیے کہاجائے گا توکردینا۔پھراظہاربرائت کے لیے کہاجائے گاتویادرکھو میں دین محمد( صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم ) پرہوں۔آپ(ع) نے یہ نہیں فرمایا:’’مجھ سے اظہاربرائت نہ کرنا‘‘۔اس پرسائل نے (امام صادق علیہ السلام سے)عرض کی:کیاآپ (ع) فرماتے ہیں کہ میں اظہاربرائت کے بجائے قتل ہوجاؤں ؟تو آپ(ع) نے فرمایا:’’حضرت علی علیہ السلام کی مرادیہ نہیں،اس سے مرادعماربن یاسرکاطریقہ ہے جوانھوں نے کفارمکہ کے مجبورکرنے پراختیارکیاتھا،جبکہ ان کادل ایمان سے مطمئن تھا۔جس پرخداوندمتعال یہ آیت نازل فرمائی’’مگروہ شخص جس کومجبورکیاجائے حالانکہ اس کادل ایمان سے مطمئن ہو‘‘،تورسول خدا (ص) نے عمارؓسے فرمایا:اے عمارؓ!اگروہ لوگ دوبارہ مجبورکریں توتم پھروہی کرو،خداوندنے تیرے عذرسے مجھے آگاہ کردیاہے اورحکم دیاہے کہ اگروہ تمہیں پھرمجبورکریں تووہی طریقہ اختیارکرو‘‘۔
اس حدیث میں امام صادق علیہ السلام نے حضرت عمارؓ کے قصہ سے استشہادکرکے وجوب تقیہ کی نفی کرتے ہوئے بتایاہے کہ یہاں تقیہ کرناحرام نہیں بلکہ تقیہ کے طورپر برائت کی جاسکتی ہے۔آئمہ طاہرین (ع) سے تقیہ کے طورپراظہاربرائت کے جوازوعدم جواز کے متعلق منقول روایات میں بظاہرتضادوتناقض نظرآتاہے اوریہ جاننامشکل ہوجاتاہے کہ اظہاربرائت کامسئلہ مستثنیات تقیہ میں سے ہے یانہیں؟لیکن اگران روایات کوسندومتن کے لحاظ سے زمان ومکان کے]پتقاضوں اورمتقی (تقیہ کنندہ)افرادکی شخصیت واجتماعی حیثیت کے اعتبارسے عقل ودرایت کی کسوٹی پرپرکھاجائے توان کاتضادوتناقض ختم ہوجاتاہے اوران روایات میں ایک قسم کاارتباط ونظم برقرارہوجاتاہے۔لہذااس قسم کی روایات کودقیق طورپرسمجھنے کے لیے چندنکات کی طرف توجہ ضروری ہے۔
آئمہ طاہرین (ع) کے فرمودات کاسب سے بڑاامتیازیہ ہے کہ یہ حضرات (ع) زمان ومکان کے تقاضوں اورمخاطبین کے ایمانی درجات فہم وشعوراورصبرواستقامت کومدنظررکھ کرکوئی حکم صادرفرماتے تھے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض روایات میں ایک موضوع کے بارے میں مختلف حکم ملتے ہیں۔اس کافلسفہ یہی تھاکہ آئمہ اطہار (ع) مخاطب کی شخصیت ،فہم،شعوراورزمان ومکان کے تقاضوں کے مطابق حکم اولی وحکم ثانوی بیان فرماتے تھے چونکہ امام معصوم سے زیادہ کون حکم اولی وحکم ثانوی کے موقع ومحل کی تشخیص کرسکتاہے۔اسی لیے آئمہ اطہار(ع) بالخصوص امیرالمؤمنین علی علیہم السلام سے اظہاربرائت کے بارے میں تقیہ کرنے کے جوازوعدم جوازکاحکم بھی مختلف ملتاہے چونکہ آئمہ طاہرین (ع) کے مخاطبین نہ صرف اپنے زمانے کے لوگ تھے بلکہ اپنے علم لدنی کی وجہ سے وہ آئندہ زمانے کے حالات کوبھی حکم بیان کرتے وقت مدنظررکھتے تھے۔چونکہ اظہاربرائت کومسئلہ ہرزمانے میں اورہرقسم کے اشخاص کوپیش آسکتاہے۔لہذاروایات میں ان سب چیزوں کومدنظررکھ کے حکم دیاگیاہے چونکہ تقیہ کافلسفہ نہ فقط مسلمانوں کی جان ومال اورعزت وآبرو کی حفاظت ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اساس دین ومذہب کی حفاظت بھی ہے ۔ہوسکتاہے ایک وقت اظہاربرائت کرنے سے پورے دین ومذہب کی اساس ہی خراب ہوجائے اورایک وقت اظہاربرائت نہ کرنے سے دین پرتوکوئی حرف نہ آئے لیکن کئی قیمتی جانیں بغیرکسی اہم فائدے کے ضائع ہوجائیں اس مسئلہ کواگرتاریخ کے تناظرمیں دیکھاجائے تواس مسئلہ کافہم آسان ہوجاتاہے۔ایک زمانہ وہ تھاکہ جب بنی امیہ وبنی عباس جیسے دشمنان اسلام اپنے دینوی اقتدارکی خاطر رسول اسلام (ص)کے حقیقی جانشینوں یعنی آئمہ طاہرین (ع) کے نام ونشان کوصفحہ ھستی سے مٹادیناچاہتے تھے اورمختلف حیلوں بہانوں سے امت اسلام کوان ذوات مقدسہ سے دوررکھنے کے لیے اہل بیت (ع) سے اظہار برائت پرمجبورکرتے تھے ایسے حالات میں ان ذوات قدسیہ سے اظہار برائت کے سلسلے میں تقیہ کرنااورآئمہ اہل بیت (ع) کے مذہب ومشن سے اظہار برائت کرنا،دشمنوں کے اہداف کی تکمیل کے مترادف تھا۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ آئمہ معصومین علیہ السلام کے باوفااصحاب اورساتھیوں میں سے کوئی بھی شخص ایسانظرنہیں آتاجس نے آئمہ سے برائت کااظہارکیاہو یااس سلسلے میں تقیہ جیسی رخصت سے استفادہ کیاہو،سوائے یہ کہ خودآئمہ (ع) نے اسے اس کام پرمأمور کیاہوچنانچہ حجر بن عدی،میثم تمار،عمروابن الحمق،عبداﷲبن عفیف،سعیدبن جبیر رضوان اﷲعلیھم نے فقط آئمہ اہل بیت (ع) سے اپناقوی ارتباط برقراررکھنے کے جرم میں اپنی جانیں قربان کرڈالیں اورکسی بھی مقام پرتقیہ کوسپربناتے ہوئے آئمہ (ع) سے اظہاربرائت نہیں کیا چونکہ یہ لوگ مکتب اہل بیت (ع) کے پرورش یافتہ تھے اورتعلیمات اہل بیت (ع) سے مکمل طورپرآگاہ ہونے کی وجہ سے حکم اولی وحکم ثانوی کی بہترتشخیص دے سکتے تھے لہذا ان مقدس ومتشرع افراد کی سیرت ایسے نازک وحساس موقعوں پرترک تقیہ کے رجحان پر بہترین دلیل ہے اورآئمہ معصومین (ع) کی ان روایات کی تائید کرتی ہے کہ جن میں اظہار برائت میں ترک تقیہ کاحکم ملتاہے۔
اس کے مقابلے میں ایک ایسازمانہ ہے کہ جس میں آئمہ طاہرین علیہ السلام سے اظہار برائت کرنے یانہ کرنے سے کسی دینی ومذہبی اساس پرخدشہ واردہونے کااندیشہ نہیں ہوتایااظہاربرائتپرمجبور ہونے والے افرادبھی کسی قسم کی دینی ومذہبی شخصیت کے حامل نہیں ہیں یعنی عام لوگ ہیں اوران کے کسی قول وفعل سے اساس دین ومذہب کے بگڑنے کااندیشہ نہیں ہے اس صورت میں ان عام مؤمنین کی جانیں اگرآئمہ معصومین (ع) سے ظاہری ارتباط کٹ جانے یااظہار عقیدہ نہ کرنے کی وجہ سے محفوظ رہ جاتی ہیں تواس کے لیے تقیہ کرنایقیناعقل وشرع کے مطابق ہوگا۔بالفرض اگروہ اپنے جذبات واحساسات کے تحت تاثیر آئمہ اطہار (ع) سے اظہار عقیدت کرنے کی وجہ سے اپنی اوردوسرے مؤمنین کی جانوں کوخطرے میں ڈالتے ہیں اوران کے اس عمل سے بلاوجہ جانوں کے تلف ہوجانے کے سوااورکوئی عقلی فائدہ حاصل نہیں ہوتاتویہاں آیہ مجیدہ’’لاَتُلقُوابِأیدِ یٰکُم إلیٰ التَّهلُکة‘‘۴۸ کی مخالفت کے سبب ان کااپنے آپ کوہلاکت میں ڈالنا خلاف عقل وشرع محسوب ہوگا۔لہذا تقیہ کے وجوب وعدم وجوب میں موقع ومحل کی تشخیص اورتقیہ کرنے والے افرادکی موقعیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔اسی لیے فقہاء نے تقیہ کواحکام خمسہ(واجب،مستحب،مکروہ،حرام اورمباح)میں تقسیم کیاہے۔ہمارے اس بیان کی تائید روایات سے بھی ہوتی ہے چنانچہ ایک روایت ہے کہ:
(عن محمد بن مروان قال:قال لی أبوعبداﷲعلیه السلام:مامنع میثم رحمه اﷲمن التقیة؟فواﷲلقد علم إنَّ هذہ الآية فی عماروأصحابه:’’إلَّامَن اَکرِه وقَلبُه مُطمَءنٌّ بِالإِیمٰانِ)۴۹
’’محمد بن مروان سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:میثم پرخدارحمت کرے اس کوکس چیزنے تقیہ سے روکاہے؟خدا کی قسم!وہ جانتاتھاکہ یہ آیت’’إِلَّامن اکرہ وقلبہ۔۔۔۔۔۔الخ‘‘ عمار اوراس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے‘‘۔
اس روایت سے پتہ چلتاہے کہ امام (ع) ،میثم ؓ کی موقعیت اورعمارؓ کی موقعیت میں فرق بتاناچاہتے ہیں یعنی حضرت میثم ؓ ،حضرت عمارؓ کے بارے میں نازل ہونے والی آیت سے آگاہ تھے اورجانتے تھے کہ اکراہ کی صورت میں تقیہ کاحکم بھی موجودہے لیکن وہ آئمہ اطہار (ع) سے اپنی غیرمعمولی وابستگی اوراپنے زمانے کے تقاضوں کاادراک رکھتے تھے اورجانتے تھے کہ عمارؓکے زمانے میں اورمیرے زمانے میں فرق ہے عمارؓ کے زمانے میں مؤمنین کی تعدادانتہائی کم تھی ایک مؤمن کافقدان بھی اسلام کے لیے غیرمعمولی نقصان تھالہذاکفارومشرکین کے مقابلے میں تقیہ کرناہی ان کافریضہ تھا جبکہ بنی امیہ کے مقابلے میں آئمہ اطہار (ع) سے اظہار عقیدت میرے جیسے شخص کافریضہ ہے۔پس انھوں نے اپنے بلندمقام ومرتبہ کے ساتھ قتل ہوجانے کوترجیح دی اورآئمہ (ع) سے برائت کرنے میں تقیہ نہیں کیا۔اس روایت سے مواردتقیہ میں فرق بھی واضح ہوجاتاہے کہ بعض اوقات ترک تقیہ رجحان رکھتاہے۔
مذکورہ بالا وضاحت سے پتہ چلتاہے کہ تقیہ کے دوسرے مواردکی طرح اظہار برائت کے سلسلے میں بھی تقیہ کرنے یانہ کرنے میں زمان ومکان اورمتقی(تقیہ کنندہ)افرادکی موقعیت کوگہرا دخل حاصل ہے۔پس یہ مسئلہ فقط بنی امیہ وبنی عباس کے دورسے ہی مختص نہیں بلکہ آج کے زمانے میں بھی اظہاربرائت کے سلسلے میں تقیہ کے مواردکی تشخیص ضروری ہے بالخصوص ہمارے ملک میں انقلاب اسلامی کے بعدجوحالات پیداہوچکے ہیں اوردشمنان اسلام اہل بیت اطہار(ع) سے اظہار عقیدت ومودّت کے جو اثرات دیکھ چکے ہیں جن کے بعد وہ ان ذوات مقدسہ کی عقیدت اورمودّت کومسلمانوں کے دلوں سے نکالنے کے لیے ایڑی چوٹی کازورلگارہے ہیں اوراہل بیت (ع) سے اظہار برائت کروانے کے لیے قلم وبیان جیسے سردہتھیاروں سے لیکر کلاشنکوفوں جیسے گرمہتھیاروں تک استعما ل کررہے ہیں ایسے موقع پراگرکوئی بلندپایہ مذہبی ودینی شخصیت اہل بیت اطہار (ع) سے اظہار برائت کرنے یااس سے ملتاجلتاکوئی فعل انجام دینے پرمجبورکی جاتی ہے تویہاں اس کاوہی فریضہ ہے جس پرحجر بن عدی ومیثم تمارجیسے بزرگوں نے عمل کیاتھا اورتقیہ ترک کرتے ہوئے اپنی جانوں کے بدلے عقیدت ومودّت اہل بیت (ع) کے نوخیزپودے کوپروان چڑھایاتھااگراس سلسلے میں یہ مذہبی ودینی شخصیت تقیہ کوبہانہ بناکرکسی قسم کی کوتاہی کامظاہرہ کرتی ہے تویہ اس کااپنے فرائض سے فراراورآئمہ اہل بیت (ع) کے مشن سے جنایت کے سوااور کچھ نہیں ہوگاجبکہ اس کے مقابلے میں عام لوگوں کوفریضہ یہی ہے کہ وہ بغیرکسی عقلی فائدے کے اپنی اوردوسرے مؤمن کی جانوں کوتلف ہونے سے بچائیں اورایساکوئی جذباتی قدم نہ اٹھائیں جس کانتیجہ قیمتی جانوں کے تلف ہونے کے سوا اورکچھ نہ ہو۔پس اظہار برائت کے سلسلے میں منقول روایات سے پتہ چلتاہے کہ بعض مواردمیں یہ روایات اظہاربرائت کومستثنیات تقیہ میں سے قراردیتی ہیں اوربعض دوسرے مواردمیں اظہار برائت مستثنیات تقیہ میں سے نہیں ہوگا بلکہ وہاں تقیہ کرناہی فریضہ قرارپائے گا۔
امام حسین علیہ السلام کا تقیہ نہ کرنا
اس تمہید کے بعد اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں وہ یہ کہ میدان کر بلا میں امام حسین علیہ السلام نے تقیہ کیوں نہیں کیا اگر امام عالی مقام (ع) تقیہ کر لیتے تو شاید عالم اسلام کو یہ واقعہ پیش نہ آتا ؛یہ وہ شبہہ یا سوال ہے کہ جو مخالفین کے علاوہ خود پیروان اہل بیت کے اذہان میں بھی پیداہوسکتا ہے۔چونکہ ائمہ اطہار (ع) نے تقیہ کی بہت زیادہ تاکید کی ہے ۔ تقیہ کے بارے میں گذشتہ صفحات میں تمہید کے طور پر جو مفصل وضاحت پیش کی گئی ہے اس کی روشنی میں امام حسین (ع) کے تقیہ نہ کر نے کے بارے میں چند نکات پیش کیئے جاتے ہیں:
۱۔قانون تقیہ کافلسفہ جہاں مؤمنین کی جان ومال اورعزت وآبرو کوبلاوجہ تلف ہونے سے بچاناہے وہاں دین اسلام کی حفاظت کرنابھی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتاکہ دین اسلام کی حفاظت اہم ترین واجبات میں سے ہے اورکبھی ایسی صورت حال پیداہوجاتی ہے کہ جس میں دین ومذہب پرجان ومال اورعزت وآبرو تک قربان کرناواجب ہوجاتاہے اور دین کامحفوظ رہنا،جان کی بازی لگادینے پر موقوف ہوجاتا ہے ۔ایسے حالات میں ایک خالص اور سچا مؤمن کسی قسم کی مصلحت اندیشی نہیں کرتا چہ جائیکہ امام معصوم(ع) کہ جس کا فریضہ ہی دین ومذہب کی حفاظت کرناہے ۔اسی لیے تقیہ کواحکام پنجگانہ میں تقسیم کیاجاتاہے یعنی کبھی تقیہ واجب ہوجاتاہے اورکبھی حرام،کبھی مستحب اورکبھی مکروہ اورکبھی مباح۔مستثنیات تقیہ میں بھی واضح کیاجاچکاہے کہ تقیہ اگرانہدام دین کاباعث بن رہا ہوتووہ وہاں حرام ہوجاتاہے۔پس تعلیمات دین اورارکان اسلام کی حفاظت کے لیے کبھی تقیہ کرنا واجب ہوتاہے اورکبھی تقیہ نہ کرنا ضروری ہوجاتاہے۔مقصد ،دین کی حفاظت ہے خواہ تقیہ کرنے سے انجام پائے خواہ ترک تقیہ سے۔اسی طرح تقیہ مؤمنین کی جان ومال کومحفوظ رکھنےکے لیے کیاجاتاہے لیکن اگرتقیہ کرنے سے مؤمنین کی جان وغیرہ توبچ جائے مگرمذہب ودین پرحرف آئے تویہاں ترک تقیہ ضروری ہوجاتاہے۔
۲۔مسئلہ تقیہ میں مجاری تقیہ کی شناخت ضروری ہے یعنی تقیہ کرنے والے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسے کہاں تقیہ کرناہے اورکہاں تقیہ نہیں کرنا۔تقیہ کے موارد ومجاری سے آگاہی ایک ضروری امرہے ۔ہوسکتاہے عام لوگ تقیہ کے مواردکی درست پہچان نہ رکھتے ہوں اوراپنی کم علمی کی بناء پرجہاں تقیہ کرناچاہیے وہاں تقیہ ترک کردیں اور جہاں ترک تقیہ ضروری ہے وہاں تقیہ کرنے لگیں اوراکثر ایساہی ہوتاہے۔زمان ومکان کے تقاضوں کے مطابق اور زندگی کے نشیب وفراز میں صحیح راہ اپنانا اکثر لوگوں کے لیے مشکل ہوتاہے۔اسی لیے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: عَلَی العٰاقِلِ اَنِ َ یَکُونِ عٰارِفاً بِزٰمانِه مُقبِلاً عَلٰی شٰانِه‘‘۵۰
’’عاقل انسان کوچاہیے کہ وہ اپنے زمانے کوپہچانے اوراپنے فریضہ پرعمل کرے‘‘۔
حقیقی مؤمن کی پہچان یہی ہے کہ وہ اپنے زمانے سے آگاہ ہوتاہے وہ زندگی کے نشیب وفرازکوطے کرناجانتا ہے اسے دنیادہوکہ نہیں دے سکتی وہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق،دین اسلام کے احکام کوجاری کرتاہے چونکہ دین اسلام ہرزمانے کے لیے ہے پس مؤمن کوبھی چاہیے کہ وہ ہردورمیں دین اسلام پرعمل کرے مگریہ کام وہی کرسکتاہے جواحکام دین سے آگاہ ہو اور’’تفقہ فی الدین‘‘کی صفت سے متصف ہو۔اگرایک مؤمن کے لیے یہ سب باتیں ضروری ہیں توکیاامام معصوم(ع) کوان صفات کاحامل نہیں ہوناچاہیے؟اوراپنے زما نے کے تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوناچاہیے؟یقیناًامام معصوم(ع) وہ بھی حضرت سید الشھداء امام حسین علیہ السلام جیسی ہستی ،اپنے زمانے کے تقاضوں سے بھی پوری طرح آگاہ تھی اوراحکام اسلام سے بھی مکمل طورپرمطلع تھی۔امام عالی مقام(ع) جانتے تھے کہ کہاں تقیہ کرناچاہیے اورکہاں تقیہ کے بجائے جان قربان کرنی چاہیے اوریہ بات ہروہ مسلمان جانتاہے کہ جوامام حسین علیہ السلام کے مقام و مرتبے سے آگاہ ہے۔یہی صفات عالیہ تھیں کہ جن کی وجہ سے اپنے دونوں نواسوں کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: ’’اَلحسنُ والحُسَینُ سَیداشَبٰابِ اهلِ الجَنَّة وَ همٰا اِمٰامٰانِ قٰامٰا أوقَعِدٰا‘‘۵۱
یعنی ’’حسن ا ورحسین(ع) جوانان اہل جنت کے سردارہیں اوروہ ہردو امام(ورہبر)ہیں خواہ حالت قیام میں ہوں یاحالت قعود میں‘‘۔
رسول خد(ص)کابرسوں پہلے،ان دواماموں کے بارے میں اس طرح کی وصیت کرنااسلام میں ان کی عظمت اورقابل اقتداء ہونے کی دلیل ہے۔یعنی رسولخد(ص) اُمت کووصیت فرمارہے ہیں کہ حسن وحسین علیھما السلام جس حالت میں بھی ہوں،قابل اقتداء ہیں اوران کی پیروی کرنی ضروری ہے،خواہ وہ کسی کے ساتھ صلح کی حالت میں ہو یاجنگ کی حالت میں۔کیونکہ وہ احکام دین سے بھی آگاہ ہیں اورزمان ومکان کے تقاضوں کوبھی دوسروں کی نسبت بہترجانتے ہیں۔پس اگرامام حسن علیہ السلام ،زمانہ معاویہ میں تقیہ کواپناتے ہوئے اس سے صلح کرلیتے ہیں تواس میں بھی دین اسلام کی حفاظت امام (ع) کے مدنظرتھی اوراگرامام حسین علیہ السلام یزید کے مقابلے میں تقیہ ترک کرکے اعلان جنگ فرماتے تویہ بھی دین کی حفاظت کے لیے تھاورنہ یہی امام حسین (ع) زمانہ معاویہ میں کئی برس،تقیہ کی حالت میں گزارتے ہیں اورمعاویہ کے خلاف قیام نہیں فرماتے کیونکہ امام (ع) کی نظرمیں معاویہ اوریزید کا زمانہ مختلف تھااورہرزمانے کے تقاضوں کے مطابق احکام اسلام پرعمل کیاجاتاہے۔
تاریخ مسلمین کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یزید کادورمسلمانوں کی تاریخ میں ایک استثنائی دورتھا۔ایسادورکہ جس میں دین اسلام کی بنیادیں ہلنے لگی تھیں۔یزید تمام احکام اسلام کوپائمال کررہاتھا۔شراب نوشی،عیاشی اورکتوں اوربندروں سے کھیلنا،مکہ معظمہ ومدینہ منورہ پرحملہ کرنا،مدینہ منورہ میں قتل وغارت یہ سب یزید کے کارنامے تھے کہ جن سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ایسی حالت میں کوئی بھی حقیقی مؤمن خاموشی اختیارنہیں کرسکتاتھا ،چہ جائیکہ امام حسین علیہ السلام جیسی ہستی کہ جوخودمحافظ دین تھے وہ کیسے احکام دین کواس طرح پائمال ہوتا دیکھتے۔گوکہ یزید کے لیے یہ سب مقدمات اس کے باپ معاویہ نے فراہم کیئے تھے لیکن وہ خودزیرک تھا،کھلے عام احکام اسلام کی خلاف ورزی نہیں کرتاتھا اورمحافظین دین کواپنے خلاف قیام کرنے کاموقع نہیں دیتاتھا۔اس نے یزیدکوبھی یہی وصیت کی تھی کہ کھلے عام احکام دین کی توہین نہ کرنا،فلاں فلاں بزرگان دین سے نہ ٹکرانا،سیاست سے کام لینا لیکن یزید اس قدرعیاش،بے دین اورلاابالی تھاکہ اس نے اقتدارکی کرسی پرقدم رکھتے ہی دین اسلام کی جڑیں اکھاڑنی شروع کردیں ۔اگریزید کواس طرح کھلی چھٹی دے دی جاتی توآج نہ توروئے زمین پراحکام اسلام باقی رہتے اورنہ ہی کوئی سچامسلمان باقی رہتا۔
اس کے علاوہ یزید،امام حسین علیہ السلام کواپنی بیعت کرنے پرمجبورکررہاتھا۔یعنی وہ چاہتاتھاکہ امام عالی مقام(ع) اس کی بیعت کرکے اس کے تمام غیرشرعی کاموں پرمہر تصدیق ثبت کردیں۔کیاایسے حالات میں،امام علیہ السلام خاموش رہتے اورتقیہ کے بہانے دین کی ہرپائمالی کودیکھتے رہتے،جبکہ یہ سب حسین (ع) بن علی (ع) جیسی ہستی سے بعیدتھااورپھریزید نے امام حسین علیہ السلام کی موت وحیات کواپنی بیعت میں منحصر کردیاتھالیکن امام (ع) نے اس کے جواب میں فرمایا:
’’وَمِثلِی لاٰ یُبٰایِعُ مِثلَه‘‘۵۲ یعنی’’مجھ جیسا،اس جیسے کی بیعت نہیں کرتا‘‘۔
پس امام علیہ السلام کا ایک ہی فیصلہ تھاکہ میں نے یزید کی بیعت نہیں کرنی چونکہ اس بیعت کامطلب،تمام احکام دین کی پائمالی کوقبول کرناہے اورامام معصوم (ع) مفترض الطاعۃ کایزید جیسے خلیفہ کی بیعت کرنے سے اسلام کامٹ جانایقینی تھا۔اورجہاں یقین ہوجائے کہ ترک تقیہ سے اسلام مٹ جائے گا تووہاں تقیہ کرناکیا معنی رکھتاہے!وہ بھی امام معصوم (ع) کے لیے۔
۴۔ان سب باتوں کے علاوہ حضرت امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ اس معرکہ حق وباطل میں میری قربانی،مطلوب خداوندہے اوریہ تقدیرالٰہی ہے کہ حق وحقیقت کے لیے ایک مقدس ترین ہستی اپنی جان کانذرانہ پیش کرے اورپھر بہت سی احادیث نبوی(ص) میں بھی امام حسین علیہ السلام کی شہادت اوربنی امیہ کی طغیانی کی پیش گوئی کی گئی تھی اوریہ ایک ایسی واقعیت تھی کہ جس کوخود امام حسین علیہ السلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایاہے:
’’إِنَّ اﷲَ شٰاءَ اَن یَرٰانِی قَتِیلاً وَاَن یَرٰاهنَّ سَبٰایاً‘‘۵۳یعنی’’بتحقیق خداوند مجھے مقتول دیکھنا چاہتاہے اورانھیں (مخدرات عصمت کو)اسیر‘‘۔
پس امام حسین علیہ السلام دین اسلام کی سربلندی اورحفاظت کے لیے تقدیر الٰہی کے اس فیصلے سے آگاہ تھے اورجانتے تھے کہ فقط میری قربانی سے ہی اسلام بچ سکتاہے جب ایک شجاع شخص ایسے حالات سے دوچار ہوجائے تواس کے لیے موت کوئی معنی نہیں رکھتی اوروہاں تقیہ جیسے مفاہیم اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں ۔لہذا علم امام (ع) اورواقعہ کربلا کے بارے میں پیغمبر اسلام(ص) کے فرمودات کے بعد ترک تقیہ ہی بہترین راستہ تھا۔
۵۔بالفرض،یہاں ہم تقیہ کورخصت شرعی کے معنی میں بھی لیں توبھی امام حسین علیہ السلام جیسی ہستی کہ جوایثاروقربانی اورشجاعت ودلیری کانمونہ ہے،رخصت کے بجائے شہادت ہی کوترجیح دیتی کیونکہ امام عالی مقام (ع) نے وہی راستہ اپنانا تھاجو خداوند کے نزدیک زیادہ محبوب تھااورآپ(ع) نے اسی فریضہ پرعمل کرناتھا جوخدا کے نزدیک زیادہ فضیلت کاحامل تھا چونکہ رسول خد(ص) کافرمان ہے :’’اَفضَلُ الأعمٰالِ اَحمَضُها‘‘یعنی خداوند کے نزدیک افضل ترین کام وہ ہے جوزیادہ سخت ہے اورپھرامام (ع) خداوند کے فرمان:(فَضَّلَ اﷲ المُجٰاهدِینَ عَلٰی القٰاعِدینَ اَجرًاعَظِیماً)۵۴سے بھی آگاہ تھے اورفضیلت جہاد کوجانتے تھے لہذا ایسے حالات میں کہ جن میں اس وقت دنیائے اسلام گرفتارہوچکی تھی،جہاد کرنااورخداکی راہ میں شہید ہوجانا ہی امام حسین علیہ السلام کے لیے زیادہ پسندیدہ تھانہ کہ تقیہ جیسی رخصت شرعی پرعمل کرنا اورپھرامام عالی مقام (ع) نے ایساہی کیا اورقیام وشہادت کوتقیہ پرترجیح دے کر ہمیشہ کے لیے اسلام کے سچے پیروکاروں کاراستہ معین کردیاکہ جب بھی احکام دین پرحرف آئے توشرعی رخصت کے بجائے شہادت وفداکاری کاراستہ اپنانا زیادہ فضیلت رکھتا ہے کیونکہ رسول اکرم(ص) کافرمان ہے:(اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ أن یُؤخَذَ بِرُخَصِة کَمٰایُحِبُّ أن یُؤخَذَ بِعَزاءِمِه)۵۵یعنی’’بتحقیق خداوند جس طرح اپنی رخصتوں پرعمل کوپسندفرماتاہے اسی طرح اپنے قطعی احکام پرعمل کوبھی پسندکرتاہے‘‘۔
حوالہ جات :
(۱) الصحاح،(اسماعیل بن حماد جوھری )،مادہ وقی۔
(۲) کتاب المکاسب ،ج۳،ص۱۲۷(رسالۃفی التقیۃ)
(۳)مؤمن (غافر)،آیت۴۵۔
(۴) آل عمران،آیت۲۸۔
(۵) مجمع البیان،سورہ آل عمران ذیل آیہ۲۸۔
(۶) تصحیح الاعتقاد الامامیہ،ص۱۳۷۔
(۷) کتاب المکاسب ،ج۳،ص ۱۲۷(رسالۃ فی التقیۃ)۔
(۸) مجمع البیان،ج۲،ص۷۲۹۔
(۹) التبیان،ج۲،ص۴۳۴۔
(۱۰) القاعدۃالفقہیۃالامامیہ،ص۱۔
(۱۱) التفسیرالکبیر،ج۸،ص۱۲۔
(۱۲) فرھنگ اصطلاحات فقھی ،ص۱۴۔
(۱۳)اصطلاحات الاصول،ص۱۲۱۔
(۱۴)حکم ثانوی در تشریع اسلامی،ص۲۰۶۔
(۱۵)وسائل الشیعہ،ج۱۶،ص۲۱۴،باب امر بالمعروف ونہی عن المنکر،باب ۲۵،ح۲۔
(۱۶)کتاب المکاسب ،ج۳(رسالۃ فی التقیہ)،ص۱۲۹۔
(۱۷)القواعدوالفواعد،ج۲،ص
(۱۸)ایض
(۱۹)تفسیر الکبیر،ج۸،ص۱۲۔
(۲۰) وسائل الشیعہ،ج۱۶،ص۲۲۲،کتاب امرونہی،باب۲۸،ح۳۔
(۲۱)الرسائل العشرہ (التقیہ)،ص۳۴۔
(۲۲)اصول کافی،ج۲،ص۱۲۳،کتاب ایمان و کفر،باب المدارا،ح۴۔
(۲۳)ایضاً،ح۴۔
(۲۴)وسائل الشیعہ،ج۱۶،ص۲۰۷،کتاب امرونہی،باب ۲۴،ح۱۴۔
(۲۵)سورہ آل عمران،آیت۱۰۳۔
(۲۶)الرسائل العشرہ (التقیہ)،ص۸۔
(۲۷)الرسائل العشرہ،ص۹۔
(۲۸)الرسائل العشرہ،ص۱۳۔
(۲۹)ایضاً،ص۱۴۔
(۳۰)وسائل الشیعہ،ج۱۶،ص۲۱۶،کتاب امرونہی،باب۲۵،ح۶۔
(۳۱)ایضاً،ح۷۔
(۳۲)ایضاً،ح۵۔
(۳۳)ایضاً،ح۳۔
(۳۴)جواہرالکلام،ج۲،ص۲۳۷۔
(۳۵)دیکھئے سورہ بقرہ،آیت۱۹۶۔
(۳۶)دیکھئے سورہ بقرہ ،آیت۶۔
(۳۷)تقیہ سپری برای مبارزۂ عمیق تر،
(۳۸)جواہر الکلام،ج۲،ص۲۳۷،مرآۃ العقول،ج۹،ص۱۶۷۔
(۳۹)وسائل الشیعہ،ج۱،کتاب الطھارۃ،ابواب وضو،باب ۳۸،ح۵۔
(۴۰)جواہر الکلام ،ج۲،ص۲۳۷۔
(۴۱) وسائل الشیعہ ،ج ۱۶،ص ۲۳۴،کتاب امرونہی،باب ۳۱،ح ۱۔
(۴۲)السرائر،ج۲،ص۲۵۔جواہرالکلام ،ج۲۲،ص۱۶۹۔
(۴۳)وسائل الشیعہ،ج۱۶،ص۲۲۸،کتاب امرونہی،باب۲۹،ح۸۔
(۴۴)ایضاً،ح۹۔
(۴۵)ایضاً،ح۱۲۔
(۴۶)الرسائل العشرہ(رسالۃفی التقیہ)،ص۲۸۔
(۴۷)وسائل الشیعہ،ج۱۶،ص۲۲۹،کتاب امرونہی،باب۲۹،ح۲۔
(۴۸)سورۂ بقرہ،آیت۱۹۵۔
(۴۹)وسائل الشیعہ،ج۱۶،ص۲۲۶،کتاب امرونہی،باب۲۹،ح۳۔
(۵۰) بحارالانوار،ج ۵،ص ۲۴۲(طبع قدیم)۔
(۵۱) بحارالانوار،ج۴۳،ص۲۶۵۔
(۵۲) سخنان حسین بن علی(ع) از مدینہ تاکربلا،ص۱۴۴۔
(۵۳) ایضاً، ص ۸۹۔
(۵۴) سورہ نساء،آیت ۹۵۔
(۵۵) وسائل الشیعہ،ج۱۱،ص۲۸۱۔
source : alhassanain