یہ متعدد روایات ہمیں اس روایت سے مستغنیٰ و بے نیاز کر دیتی ہیں چنانچہ اس کتاب میں مذکورہ روایت ذکر کرنے سے پہلے ہمارا مقصد صرف امام کے کلام کو ذکر کرنا تھا جو آپ نے حضرت ام سلمیٰ کے جواب میں ارشاد فرمایا۔ تعجب ہے کہ بعض موٴرخین نے امام کی اس آگاہی و علم کو غلط ثابت کرنے پر بے جا زور لگایا اور حضرت ام سلمیٰ سے امام کی گفتگو کی اس روایت کو سند وغیرہ کے اعتبار سے مخدوش (ضعیف) بتانے کی بھرپور کوشش کی۔ معلوم نہیں کہ واقعہٴ کربلا سے متعلق کتب تاریخ و تفسیر کی باقی بے شمار روایات کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے۔
رہی یہ بات کہ امام نے اس علم و آگاہی کے باوجود (کہ وہ اس راہ میں شہید کر دیئے جائیں گے) مسلح جدوجہد کا ارادہ کیوں کیا یا امام کے اس جملے کا مطلب کیا ہے کہ ”خدا نے چاہا ہے کہ مجھے شہید دیکھے“۔
امام حسین کی مسلح جدوجہد کے اسباب
امام حسین نے ولید اور مروان کے جواب میں جو ارشادات فرمائے ان میں یزید بن معاویہ کی مخالفت اور اس کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کا پہلا سبب بیان فرمایا تھا، اور اب مدینہ سے روانگی کے وقت اپنے وصیت نامے میں مسلح جدوجہد کا ایک اور بنیادی سبب (علت العلل) بیان فرما رہے ہیں جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور یزیدی حکومت کے غیر اسلامی اور غیر انسانی اقدامات کے خلاف اعلان جہاد پر مشتمل ہے کہ یہ لوگ مجھ سے اگر بیعت کا تقاضا نہ بھی کریں پھر بھی خاموش نہیں بیٹھوں گا اس لئے کہ یزید سے میرا اختلاف صرف یہیں تک محدود نہیں کہ اگر وہ بیعت کا مطالبہ چھوڑ دے تو میں بھی خاموش ہو جاوٴ گا بلکہ یزید اور اس کے خاندان کا وجود چونکہ ہر قسم کے ظلم و ستم اور برائی کے رواج اور اسلامی احکام کو مسخ کرنے کا سر چشمہ بن چکا ہے لہٰذا میں اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ ان خرابیوں کی اصلاح (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے) اپنے جد امجد کے قوانین اور اپنے پدر بزرگوار علی ابن ابی طالبں کے دستور اور ان کی عدالت کو برقرار رکھوں اور خاندان بنی امیہ کی لائی ہوئی بد بختیوں کو دور کروں۔ تمام لوگوں کو یہ جان لینا چاہیئے کہ حسین جاہ طلب نہیں، برائیوں اور مفاسد کا آرزو مند نہیں بلکہ حق پرستی پر مشتمل حسین کا یہ مشن، حسین کے یہ مقاصد، حسین کی یہ آرزوئیں روز ِازل سے لے کر زندگی کی آخری گھڑیوں تک روح حسین میں مچلتی رہیں گی۔ یہاں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا امر و نہی کا فریضہ انجام دینا جانی و مالی نقصان نہ پہنچنے سے مشروط نہیں ہے؟ جبکہ امام نے اس شرط کی پرواہ ہی نہیں کی بلکہ اس مرحلے میں ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ آپ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا، اپنے خاندان، اپنے فرزندوں، اپنے اصحاب و جان نثاران کو اسلام پر فدا کرنا اور اپنے اہل بیت ، اپنی بہنوں، اپنی بیٹیوں کی قید و بند قبول کرنا بھی گوارہ کر لیا۔ ہم کتاب کے دوسرے حصے میں اس سوال پر سیر حاصل بحث کریں گے۔
source : tebyan