دنيا ميں کوئي ايسي قوم نہيں جو يہ دعوي کر سکے کہ وہ دستور حيات اورآئين زندگي جو ايک مذہبي ، قومي يا وطني نوشتہ کي صورت ميں ہمارے پاس ہے يہ وہي منشور حيات ہے جسکو اس کائنات کے پيدا کرنے والے خالق اکبر نے ہمارے لئے بھيجا تاکہ ہم اس تيرہ وتا ر دنيا ميں اسکے نور سے اچھي اور بري راہوں ميں تميز کرسکيں، يہ وہ دستور ہے جس ميں نہ کسي چيز کا اضافہ ہوا ہے اور نہ ہي کسي چيز کو اس سے کم کيا گيا ہے يہ ہر طرح کے نقص و عيب سے مبرہ ہے -
يہ وہ منشور زندگي ہے جسکي روشني ميں اقوام عالم ترقي کي منزلوں کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتي ہيں ،يہ وہ دستور حيات ہے جسکي پاپندي بني نوع بشر کو اس ڈگر پر گامزن کر سکتي ہے جو کاميابي و فلاح پر منتہي ہوتي ہے -
يہ حق صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ وہ يہ دعوي کر سکتے ہيں کہ وہ کتاب جس پر انکا يقين اور ايمان ہے وہي کتاب ہے جسے خدا وند متعال نے اپنے آخري رسول حضرت محمدصلي اللہ عليہ و آلہ وسلم پر نازل کيا تھا اسکے زمانہ نزول سے ليکر اب تک چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھي نہ اسميں کوئي ايک حرف کم ہوا ہے نہ ايک حرف زيادہ، يہ آج بھي اسي طرح باقي ہے جس طرح اس وقت تھي جب قلب پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئي تھي ، يہ ايک ايسي حقيقت ہے جسکا اظہارديگر مذاہب کے منصف مزاج دانشور خود ہي کرتے آئے ہيں چنانچہ معروف مستشرق سنڈ بارلي - M.r .balrle اس حقيقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہيں''قرآن ہي ايک ايسي کتاب ہے جس ميں چودہ سو برس سے کوئي تبديلي نہيں ہوئي ، يہودي اور عيسائي مذہب ميں کوئي ايسي چيز نہيں ہے جو معمولي طور سے بھي قرآن کے مقابلہ ميں پيش کي جا سکے'' ( 1)
حوالہ:
١: قرآن اور مستشرقين ص