بعد ميں مجھے اطلاع دي گئي کہ امريکي ٹي وي چينلوں نے ہماري (يعني مسلمانوں خصوصاً ايرانيوں کي) گفتگو کو سنسر اور انہيں مسخ کرنے ميں اپني تمام تر سنجيدگي کے باوجود ميري گفتگو کو معتبر اور مستند قرار ديتے ہوئے کئي بار اسے نشر کيا اور ساتھ تجزيہ اور تحليل بھي پيش کيا اور وہ بھي خانداني نظام زندگي کے بارے ميں صرف ايک جملے کي وجہ سے۔ کيونکہ خانداني مسائل اور گھر و گھرانے سے متعلق گفتگو اہل مغرب کے لئے آج ايک پيغام ہے بالکل ايک ٹھنڈے اور گوارا پاني کي مانند کہ جس کي کمي کا وہ خود بھي احساس کر رہے ہيں۔
مغرب ميں کتني ہي ايسي خواتين ہيں کہ جو آخر عمر تک تنہا زندگي گزارتي ہيں اور کتنے ہي ايسے مرد ہيں کہ جو زندگي کي آخري سانسوں تک گھرانے کي چھاوں سے محروم رہتے ہيں اور اپني شريکہ حيات کے عدم وجود کي تاريکي ميں ہي زندگي کو خدا حافظ کہہ ديتے ہيں۔ ان کي زندگي غريب، اجنبي اور انس و الفت کي ٹھنڈي چھاوں سے محروم ہے۔ کتنے ہي ايسے نوجوان ہيں کہ جو ’’گھرانے‘‘ کي پُر محبت فضا سے محروم ہونے کي وجہ سے آوارہ ہيں يا ان کے معاشرے ميں خانداني نظام زندگي کا کوئي وجود نہيں ہے يا اگر ہے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔