گناھوں سے آلودہ معاشرہ
یہ ایك مسلم حقیقت ھے كہ ھمارا آج كا معاشرہ مختلف قسم كی روحانی بیماریوں میں مبتلاء ھو كر مفاسد كے بے پایاں سمندرمیں غوطہ زن ھے ۔ مادی زندگی كے اسباب و وسائل میں جتنی ترقی ھے، اسی اعتبار سے معاشرہ اخلاقی فضائل میں پیچھے ھٹ چكا ھے بلكہ امتداد زمانہ كے ساتھ ساتھ زندگی مزید مسموم اور درد ناك ھوتی جا رھی ھے ۔ جن لوگوں نے تكالیف سے بچنے كے لئے مسلسل كو ششیں كی ھیں وہ كثافت و پلیدگی كی آغوش میں جا پڑے ۔ اور اندرونی اضطرابات و باطنی رنج و غم كو بھلانے كے لئے برائیوں كے دلدل میں جا گرے ۔ اس قسم كے معاشرہ كی زندگی میں آفتاب سعادت كی ضو فشانی محال ھے ۔
معلوم یہ ھوتا ھے كہ جیسے معاشرے كے افراد نے اپنے كو ھر قید وبند اور ھر شرط سے آزاد كر كے انحطاط كے میدان میں آگے بڑھنے كی بازی لگا ركھی ھو ۔ اگر آپ غور سے دیكھیں تو معلوم ھو گا كہ ترقی كے روز افزوں وسائل سے بر عكس استفادہ كیا جا رھا ھے ۔ مختصر یہ كہ مادی لبھانے والی چیزیں امید و آرزو كا محور بن گئی ھیں ۔ پلیدی و نا پاكی كا اھرمن معاشرہ كے اوپر اپنا منحوس سایہ ڈال كر وحشتناك طریقہ سے نمایاں ھو گیا ھے ۔ كا ش یہ بے پناہ دولت و سر سام آورثروت گمراھی و تباھی میں صرف ھونے كے بجائے اس كا ایك ھی حصہ مكارم اخلاق كی توسیع و بلندی میں خرچ ھوتا ۔ عجیب بات تو یہ ھے كہ اخلاقی قوانین ھمیشہ سے ثابت اور نا قابل تغیر رھے ھیں لیكن نہ جانے كیوں ھمارے معاشرہ میں ھمیشہ تغیر و تحول پذیر رھے ھیں، اور مختلف صورتوں اور گونا گوں رنگوں میں نمایاں ھوتے رھتے ھیں ۔ یہ بات محتاج دلیل نھیں ھے كہ جن لوگوں كی نظروں میں فضیلت اورافراد كی شخصیت كا معیار نھیں ھے وہ لوگ قھری طور سے اس كی طرف توجہ بھی نھیں كرتے اور وہ اپنے ماحول سے متاثر ھو كر جو بھی صورت زندگی میں در پیش ھو اسی پر راضی برضا رھتے ھیں ۔ ان كو اس كی كبھی فكر نھیں ھوتی كہ اس كا انجام كتنا وحشتناك ھے؟ یھیں سے یہ بات طے ھو جاتی ھے كہ تمدن نہ كبھی اچھے اخلاق كا موجد ھوا ھے اور نہ ھی كبھی معاشرے كی سعادت و اصلاح كی ضمانت لے سكتا ھے ۔
مشھور فرانسیسی ڈاكٹر كارل كھتا ھے: ھم كو ایك ایسی دنیا كی شدید ضرورت ھے جس میں ھر شخص اپنے لئے اپنی زندگی میں ایك مناسب مكان تلاش كر سكے جس میں مادیت و معنویت كا چولی دامن كا ساتھ ھوتا كہ ھم یہ معلوم كر سكیں كہ زندگی كس طرح بسر كریں ۔ كیونكہ یہ بات تو ھم سب ھی جان چكے ھیں كہ زندگی كی گلیوں میں قطب نما اور راھبر كے بغیر چلنا بھت ھی خطرناك ھے اور اسی بات پر سب سے زیادہ تعجب ھے كہ اس كے باجود یہ خطرات ھم كو معقول زندگی كے وسائل و اسباب تلاش كرنے پر كیوں نھیں آمادہ كرتے؟ اور صحیح بات تو یھی ھے كہ جو لوگ اس حقیقت كی طرف متوجہ ھیں ان كی تعداد آٹے میں نمك كے برابر ھے ۔ زیادہ تر لوگ اپنی من مانی زندگی بسر كرتے ھیں اور یہ لوگ آج كی مادی ٹیكنالوجی سے حاصل شدہ سھولتوں كے سمندر میں غرق رھتے ھیں اور وہ كسی بھی قیمت پر تمدن جدید سے ترك استفادہ پر تیار نھیں ھیں اور نہ اس كی طرف سے چشم پوشی كے لئے آمادہ ھیں ۔ آج كی زندگی اس بڑی نھر كی طرح ھو گئی ھے جس كا پانی زمین كے نشیبی علاقہ كی طرف رواں دواں ھو ۔ اسی طرح ھماری زندگی بھی تمناؤں كے دلفریب نشیب كی طرف تیزی سے بھاگ رھی ھے اور ھر قسم كی پستی و فساد میں الجھتی جارھی ھے اور یہ صرف اس لئے كہ تمناؤں كو حاصل كر سكے اور اپنی شخصی نفع اندوزی كر سكے لوگوں نے اپنے نفوس كے لئے نئی ضرورتوں كا میدان تلاش كر لیا ھے اور بڑی شدت كے ساتھ اس میدان میں اپنی ضرورتوں كی تكمیل كے لئے دوڑ لگا رھے ھیں ۔
لیكن اسی كے ساتھ كچھ ایسی بھی خواھشات ھیں جن كی تكمیل بھت آسان ھے، جیسے غیبت، بكواس، سفسطہ وغیرہ حالانكہ یہ چیزیں شراب سے زیادہ نقصان دہ ھیں!
معاشرہ كی سب سے بڑی برائی جس كے بارے میں ھم بحث كرنا چاھتے ھیں ” عیب جوئی و غیبت ھے جس كے معنی كی وضاحت كی كوئی خاص ضرورت نھیں ھے كیونكہ ھر عام و خاص اس كے مفھوم كو سمجھتا ھے ۔
غیبت كے نقصانات
غیبت كا سب سے بڑا نقصان تو یھی ھے كہ غیبت كرنے والے كی معنوی وجودی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ھے ۔ جو لوگ غیبت كے عادی ھو گئے ھیں انھوں نے اپنی فكری موز ونیت و نظم اخلاقی كو كھو دیا ھے، یہ لوگ عیوب كو اور رازوں كو ظاھر كر كے لوگوں كے دلوں كو زخمی كرتے ھیں ۔
غیبت بزرگترین محل فضیلت كو ویران كر دیتی ھے اور انسان كے پاك وصاف خصائل و ملكات كو بھت جلد كمزور كر دیتی ھے بلكہ یہ غیبت خود غیبت كرنے والے كے دل میں فضیلتوں كی رگوں كو جلا دیتی ھے اور نا پید كر دیتی ھے ۔ مختصر یہ كہ یہ بری عادت روشن افكار كو بدل كر اس كے ذھن كے سامنے فھم و تعقل كے دریچوں كو بند كر دیتی ھے ۔
اگر آپ معاشرے كو گھری نظر سے دیكھیں تو اس غیبت نے پیكر اجتماع پر ضرب كاری لگا كر اس كو مجروح كر دیا ھے اور معاشرے كے اندر كینہ و دشمنی كو بڑھاوا دیا ھے ۔ جس قوم كے اندر یہ صفت راسخ ھو گئی ھے اس نے قوم كی عظمت كو خاك میں ملا دیا ھے اس كی شھرت كو داغدار بنا دیا ھے ۔ اور اس ملت كے اندر ایسا شگاف ڈال دیا ھے جو بھرنے والا نھیں ھے ۔
بڑے افسوس كے ساتھ ھم كو اس تلخ حقیقت كا اعتراف كر لینا چاھئے كہ آج غیبت كا بازار ھر جگہ گرم ھے ۔ اور اس نے ھر طبقہ كے اندر رخنہ پیدا كر دیا ھے جس طرح گیتی كے حادثات باھم مرتبط ھوتے ھیں ۔ اسی طرح اگر لوگوں میں روحانی انحراف پیدا ھو جائے تو وہ ھر طبقہ میں سرایت كر جاتا ھے ۔ غیبت كی وسعت دامانی كی وجہ سے لوگوں كے افق افكار پر مایوسی و بد بینی كی روح سایہ فگن ھو چكی ھے ۔ آپسی اعتماد ختم ھو گیا ھے اس لئے جب تك اچھے صفات و روح یگانگت كا سایہ معاشرے پر نہ پڑے خلوص كا تحقق نا ممكن ھے ۔ جس معاشرے میں اخلاق پسندیدہ كا وجود نہ ھو وہ حیات كی نعمتوں سے محروم رھتا ھے ۔
اس روحانی بیماری كے اسباب اور اس كا علاج
ویسے تو غیبت ایك عملی بیماری ھے مگر اس كا ڈائریكٹ تعلق انسان كی روح سے ھے اور یہ ایك خطرناك روحانی بحران كی علامت و نشانی ھے جس كے سوتوں كو دل و جان كے گوشوں میں تلاش كرنا چاھئے ۔علمائے اخلاق نے اس كی پیدائش كے متعد اسباب ذكر فرمائے ھیں جن میں اھم ترین اسباب حسد، غصھ، خود خواھی، بد گمانی ھیں ۔ انسان سے جتنے بھی كام سر زد ھوتے ھیں وہ ان مختلف حالات كی پیدا وار ھوتے ھیں جن كا وجود انسان كے باطن میں ھوتا ھے اور انھیں اوصاف مذكورہ كے كسی ایك صفت كے نفس انسانی میں جڑ پكڑ لینے كی وجہ سے ۔ نفس كے اندر یہ صفت اس طرح چھپی ھوتی ھے جیسے راكہ میں چنگاری ۔ انسان كی زبان غیبت سے آشنا ھوتی ھے كیونكہ زبان ترجمان انسان ھے ۔ اور جب كوئی صفت انسان كے دل میں راسخ ھو جاتی ھے تو وہ انسان كی آنكھوں كو اندھی كر دیتی ھے اور اس كے افكار پر تسلط حاصل كر لیتی ھے ۔لوگوں میں شدت كے ساتھ غیبت كا رواج تكرار عمل اور اس كے عقوبت كی طرف سے غفلت كرنے كی وجہ سے ھوتا ھے كیونكہ ھم نے بھت سے لوگوں كو دیكھا ھے كہ وہ بھت سے گناھوں سے بچتے ھیں مگر غیبت جیسے عظیم گناہ كی طرف متوجہ نھیں ھوتے كیونكہ اس كی عقوبت سے غافل ھوتے ھیں ۔
یہ بات یاد ركھئے كہ تكرار عمل اور ضعف تعقل كی وجہ سے انسان كا كام اس منزل تك پھونچ جاتا ھے كہ اس كے نقصانات كی طرف متوجہ ھو جانے كے بعد بھی اپنی نفسانی خواھش سے صرف نظر نھیں كر سكتا ۔ كیونكہ بشر اگر چہ ایك حد تك حقائق كی طرف متوجہ ھوتا ھے اور اپنی فطرت كے مطابق جو یائے كمال رھتا ھے لیكن عمل سے مسلسل گریز اں رھتا ھے اور حصول سعادت كے لئے معمولی سا رنج و غم برداشت كرنے پر تیار نھیں ھوتاا سی لئے اپنی پست فطرتی كا محكوم ھوتا ھے ۔
جو لوگ اپنی اور دوسروں كی شرافت كی حفاظت كے پابند نھیں ھوتے وہ كسی بھی اخلاقی آئین كے پابند بھی نھیں ھوتے بلكہ ان كا اخلاقی آئین كی پابندی قبول كر لینا امر محال ھے اور جن لوگوں نے حیات كو اپنی شھوتوں كا میدان قرار دے لیا ھے اور دوسروں كے حقوق كو پامال كرتے رھتے ھیں بد بختی و بد نصیبی ان كا مقدر بن جاتی ھے ۔
ضعف اخلاق ضعف ایمان ھی سے پیدا ھوتا ھے كیونكہ ضعف اخلاق مكمل طریقہ سے ضعف عقیدہ سے تعلق ركھتا ھے كیونكہ اگر انسان قوت ایمان نہ ركھتا ھو گا تو پھر كوئی بھی چیز نہ اس كو كسب فضیلت پر آمادہ كر سكتی ھے اور نہ وہ اخلاقی پابندیوں میں اپنے كو جكڑ سكتا ھے ۔
لوگوں كو ضلالت و اخلاقی مفاسد سے نكالنے كے لئے اپنے اپنے سلیقہ و استعداد كے مطابق الگ الگ رائے ھوتی ھے لیكن (میری نظر میں) موٴ ثر ترین طریقہ یہ ھے كہ موجبات اصلاح خود لوگوں كے اندر پیدا ھو جائیں ۔ اور اسكے لئے نیك جذبات كو بیدار كرنا، فطرت كی آواز پر لبیك كھنا اور فكری ذخیرہ وں كو راہ حصول سعادت میں صرف كرنا ھے ۔ اس لئے كہ صفات ذمیمہ كے برے انجام كو سوچ كر اور ارادہ كو مضبوط بنا كر ھم اخلاقی رذائل پر كنٹرول حاصل كر سكتے ھیں اور اپنے نفسوں پر سے تاریكی كے پردوں كو ھٹا كر ان كی جگہ بلند صفات كو دے سكتے ھیں ۔
ڈاكٹر ژاگو اپنی كتاب ”قدرت و ارادہ“ میں كھتا ھے: ھم نا پسندیدہ صفات كے برے انجام كو سوچ كر اور اس عادت كے ترك كرنے كے بعد جو مصالح و منافع ھم كو حاصل ھوں گے ان میں غور كرنے پر اور پھر زندگی كے ان مختلف مواقع كو سامنے لا كرجن میں ھم اس عادت كی قربانگاہ پر بھینٹ چڑھ چكے ھیں برے صفات كا مقابلہ كر سكتے ھیں اور پھر جب چند بار اپنے اندر ان نتائج كا مشاھدہ كریں گے اور اس كے ترك كر دینے كی لذت كو محسوس كریں گے تو وسوے ھم سے دور ھو جائیں گے!!
چونكہ وجود بشر میں استعداد كمالات كی بذر افشانی كی جا چكی ھے اورمملكت جسم كو تمام دفاعی وسائل سے مجھز كیا جا چكا ھے اس لئے پھلے اس گمراھی وضلال كے منشاء كو تلاش كیا جائے اس كے بعد ناقابل تزلزل ارادہ سے اس كو لوح دل سے محو و معدوم كر دیا جائے اور اپنی غیر متناھی خواھشات كے سامنے مضبوط باندہ بنادیا جائے ۔
چونكہ انسان كے اعمال اس كی واقعیت و شرف كے مظاھر ھوا كرتے ھیں ۔ اس لئے كہ انھیں افعال سے ھر انسان كی واقعی شخصیت ظاھر ھوتی ھے اس لئے اگر انسان حصول سعادت كرنا چاھتا ھے تو اس كا فریضہ ھے كہ اپنے اعمال كا تزكیہ كرے اور خدا كو اپنے اعمال كا نگراں تسلیم كرے اور آخرت كے جزا سے خائف ھو، كتاب الٰھی پر عقیدہ ركھے كہ وہ ھر چھوٹے بڑے گناہ كا احصار كرنے والی ھے ۔
ایك فلسفی كھتا ھے: كائنات كو بے عقل، مردہ اور بے شعور نہ كھو كیونكہ ایسا كھنے پر بے عقلی كی نسبت تم نے خود اپنی طرف دی ھے ۔ كیونكہ تم بھی اسی كائنات سے ظاھر ھوئے ھو ۔ پس اگر كائنات میں عقل و حس نھیں ھے تو خود تمھارے اندر بھی نھیں ھو گی ۔
جس قدر معاشرہ بقائے حیات كے لئے زندگی كے لوازم اولیہ كا محتاج ھے اسی قدر معاشرہ روحانی روابط كے بر قراررھنے كا محتاج ھے ۔ اگر لوگ اپنے سنگین اجتمای وظیفہ پر عمل پیرا ھو جائیں تو اپنے تكامل كے لئے معنویات سے بھت بڑا فائدہ اٹھا سكتے ھیں۔ ھمارا فریضہ ھے كہ نقصان دہ افكار كی جگہ اچھے افكار كو اپنے اندر تقویت بخشیں تاكہ ھماری روح تاریكیوں كی قید و بند سے آزاد ھو سكے اور ھم اپنی زبان كو غیبت سے محفوظ ركہ كر جاوداں مقصد سعادت كی طرف پھلا قدم اٹھا سكیں اسی طرح ھمارا فریضہ ھے كہ معاشرے میں بڑھتے ھوئے اخلاقی مفاسد كا مقابلہ كرنے كے لئے لوگوں میں ایك روحانی انقلاب پیدا كریں اور اپنے ھم نوع افراد كے حقوق كے احترام كی روح كو زندہ كر كے اصول انسانیت و معنوی بنیادوں كو استوار كریںاور حتی المقدور كوشش كریں كہ جن اخلاقی بنیادوں پر معاشرے كی بقاء موقوف ھوتی ھے ان كے استحكام كے لئے اساسی قدم اٹھائیں ۔ اگر لوگوں كے اندر ایك روحانی انقلاب پیدا ھو جائے تو یقینی طور سے حقائق كے قبول كرنے كی صلاحیت بھی لوگوں میں قوی ھو جائے گی اور پھر اس كا نتیجہ یہ ھو گا كہ اجتماعی و اخلاقی اصولوں كی مكمل طور سے رعایت ھو سكے گی ۔
دین كی فاسد اخلاق سے جنگ
قرآن مجید ایك مختصر اور رسا ترین جملہ میں بھت ھی دلچسپ انداز سے غیبت كی حقیقت كو بیان كرتا ھے ” ایحب احدكم ان یاكل لحم اخیه میتا “ 1
”كیا تم میں سے كوئی اس بات كو پسند كرے گا كہ اپنے مرے ھوئے بھائی كا گوشت كھائے“
مذھبی رھنماؤں نے جس طرح شرك و بیدینی كا مقابلہ كیا ھے اسی طرح اندرونی صفات كی اصلاح كی طرف بھت زیادہ توجہ دی ھے ۔حضور سروركائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں: مجھے اس لئے نبی بنا كر بھیجا گیا ھے تاكہ مكارم اخلاق كو منزل كمال تك پھونچا دوں، اسی لئے آپ نے بڑی متین منطق اور سعادت بخش پروگرام كے ذریعہ لوگوں كی رھبری فرمائی ھے اور حدود فضیلت سے باھر جانے كو جرم قرار دیا ھے اور بڑی سختی كے ساتھ اس سے روكا ھے ۔ نہ صرف غیبت كا سننا اور غیبت كرنا گناہ ھے بلكہ شارع اسلام نے شخص غائب كی حیثیت كا دفاع كرنا بھی ھر مسلما ن كا فریضہ قرار دیا ھے ۔ چنانچہ ارشاد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھے: اگر كسی مجمع میں كسی شخص كی غیبت كی جائے تو تمھارا فریضہ ھے كہ جس كی غیبت كی جا رھی ھے اس كا دفاع كرو اور لوگوں كو اس كی غیبت سے روكو اور وھاں سے اٹھ كر چلے جا وٴ ۔ 2
دوسری جگہ ارشاد فرماتے ھیں: جو شخص اپنے برادر مومن كی غیبت كا دفاع كرے اللہ پر اس كا حق ھے كہ اس كے جسم كو جھنم سے بچائے ۔ 3
جو شخص بھی اپنے برادر مومن كی عدم موجودگی میں اس كی آبرو كا دفاع كرتا ھے خدا اس كو عذاب جھنم سے بچا لیتا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں: جو شخص كسی مسلمان كی غیبت كرتا ھے خدا چالیس دن تك اس كی نماز اور اس كے روزے كو قبول نھیں كرتا ۔ ھاں جس كی غیبت كی گئی ھے اگر وہ معاف كر دے تب قبول كر لیتا ھے، ایك اور جگہ ارشاد فرماتے ھیں: جو شخص كسی مسلمان كی ماہ رمضان میں غیبت كرتا ھے خدا اس كے روزے كے اجر كو ختم كر دیتا ھے ۔ 4
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم واقعی مسلمان كی پھچان بتاتے ھوئے فرماتے ھیں: وھی شخص مسلمان ھے جس كی زبان اور جس كے ھاتہ سے تمام مسلمان محفوظ رھیں ۔بھت ھی واضح سی بات ھے كہ غیبت كرنے والا حصار فضیلت سے باھر ھو جاتا ھے ۔ اور اپنے كو انسانیت كی نگاہ میں ذلیل كر لیتا ھے مسلمانوں كا اجماع ھے كہ غیبت گناہ كبیرہ ھے كیونكہ غیبت كرنے والا علاوہ اس كے كہ دستور الٰھی كی مخالفت كرتا ھے وہ حق خدا كی بھی رعایت نھیں كرتا ھے اور حقوق مردم پر تعدی كرتا ھے ۔
جس طرح مردہ جسم اپنا دفاع نھیں كر سكتا اور نہ اپنے بدن پر ھونے والے ظلم كو روك سكتا ھے بالكل اسی طرح شخص غائب اپنی آبرو كی حفاظت نھیں كر سكتا اور نہ اس كا دفاع كر سكتا ھے جس طرح مسلمان جان كی حفاظت ضروری ھے اسی طرح اس كے آبرو كی بھی حفاظت ضروری ھے ۔
غیبت و بد گوئی كی علت روحانی دباؤ اور رنج و غم ھوتا ھے ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: كمزور و ناتوان شخص كی انتھائی كوشش غیبت كرنا ھے ۔ 5
ڈاكٹر ھیلن شاختر كھتا ھے: انسان كی جو بھی حاجت پوری نھیں ھوتی وہ رنج و الم كا سبب بن جاتی ھے ۔ اور ھر رنج و غم ھم كو اس كے دفاع و تدبیر پر آمادہ كرتا ھے ۔ لیكن الم و تكلیف كے دور كرنے كا طریقہ ھر شخص كا ایك جیسا نھیں ھوتا ۔ جب انسان دوسروں كو دیكھتا ھے كہ وہ اس كی طرف اس طرح متوجہ نھیں ھوتے جس طرح وہ چاھتا ھے تو وہ گوشہ نشین ھو جاتا ھے ۔ اور اس خوف سے كہ كھیں لوگوں كے درمیان اس كی ذلت و رسوائی نہ ھو جائے وہ ملنے جلنے پر تنھائی اور گوشہ نشینی كو ترجیح دیتا ھے ۔ اور اگر لوگوں كے درمیان بیٹھتا بھی ھے تو مضطرب، پریشان خوفزدہ ھو كر ایك كنارے میں بیٹھتا ھے اور ایك كلمہ بھی نھیں كھتا اورخاموش و ساكت بیٹھا رھتا ھے اور پھر اپنے احساس كمتری كو دور كرنے كے لئے دوسروں سے مسخرہ پن كرتا ھے اور بے جا قھقھے لگاتا ھے ۔ اور یا غیر موجود لوگوں كی بدگوئی كرتا ھے ۔ یا موجود ہ لوگوں سے جھگڑنے لگتا ھے ۔ اور یا دوسروں پر اعتراض كرنے لگتا ھے ۔ ان تمام طریقوں میں سے كسی ایك طریقے كو اپنا كر لوگوں كو اپنی طرف متوجہ كرنے كی كوشش كرتا ھے ۔ 6
ڈاكٹر مان اپنی كتاب ”اصول علم نفس“ میں كھتا ھے: اپنی شكست كا جبران كرنے كے لئے اور اپنے عیوب كی پردہ پوشی كے لئے انسان كبھی اپنے گنا ہ كو دوسروں كے سر منڈہ دیتا ھے اور اس طرح اپنی ذات كے احترام كو اپنی نظر میں محفوظ كر لیتا ھے ۔ اور اگر امتحان میں فیل ھو گیا تو كبھی معلم كو اور كبھی امتحانی سوالات كی ملامت كرتا ھے ۔ اور اگر وہ اپنے حسب منشاء مقام و عھدہ نھیں پاتا تو كبھی اس عھدے كی برائی كرتا ھے ۔ اور كبھی اس شخص كی جو اس عھدے پر فائز ھے ۔ اس كی ملامت كرتا ھے ۔ اور كبھی اپنی شكست كی پوری ذمہ داری ایسے دوسرے لوگوں كے سر ڈال دیتا ھے، جن كا اس سے كوئی واسطہ بھی نھیں ھوتا ۔
ان چیزوں سے یہ نتیجہ نكلتا ھے كہ خود ھمارا فریضہ ھے كہ ایك روحانی جھاد كر كے خلوص نیت كے ساتھ اپنے بلند جذبات كو تقویت پھونچائیں اور سب سے پھلے اپنے نفس كی اصلاح و تھذیب كی كوشش كریں تاكہ نیك بختی كی سر زمین پر قدم جما سكیں اور اپنے معاشرے كی ھر پھلو سے اصلاح كر سكیں ۔
-------------------------------
1. حجرات/ ۱۲
2. نھج الفصاحة/ ص ۴۸
3. نھج الفصاحة/ ص ۶۱۳
4. بحار الانوار ج ۱۶/ ص ۱۷۹
5. غرر الحكم/ ص ۳۶
6. رشد شخصیت / ص