شافعی (رہبر مذہب ِشافعی)
”اگر مولیٰ علی مرتضیٰ اپنے ظاہر وباطن کو لوگوں پر ظاہر کردیں تو لوگ کافر ہوجائیں گے کیونکہ وہ انہیں اپناخدا سمجھ کر سجدہ میں گرجائیں گے ۔ اُن کے فضائل و عظمت کیلئے بس یہی کافی ہے کہ بہت سے لوگ یہ نہ سمجھ سکے کہ علی خدا ہیں یا خدا علی ہے یاپھر علی علیہ السلام مخلوقِ خدا ہیں“۔
حوالہ : سید یحییٰ برقعی، کتاب ”چکیدہ اندیشہ ہا“،صفحہ297۔
حافظ ابو نعیم (اہلِ سنت کے مشہور عالم)
”علی ابن ابی طالب علیہ السلام سردارِ قوم، محب ِ ذاتِ مشہود،محبوبِ ذاتِ کبریا،بابِ شہر علم، مخاطب ِآیاتِ ایمانی، عالمِ رمزِ قرآنی، تلاشِ راہِ حق کیلئے بڑی نشانی، ماننے والوں کیلئے شمعِ جاودانی، مولائے اہلِ تقویٰ و ایمان، رہبر عدالت و قاضیان، ایمان لانے والوں میں سب سے اوّل، یقین میں سب سے بڑھ کر، بردباری میں سب سے آگے، علم و دانش کا منبع، اہلِ عرفان کی زینت، حقائقِ توحید سے باخبر، خداپرستی کا عالم، حکمت و دانائی کا سرچشمہ، حق سننے اور حق بولنے والا، وفائے عہد کا بادشاہ، اہلِ فتنہ کی آنکھ پھوڑنے والا، امتحاناتِ الٰہی میں سرفراز و سربلند، ناکثین کو دورکرنے والا، قاسطین و مارقین کو ذلیل و رسوا کرنے والا، خدا کے دین میں سخت کاربند، ذاتِ الٰہی میں فانی حضرتِ علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ۔
حوالہ: حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء،جلد1،صفحہ61،بابِ ذکر ِعلی علیہ السلام۔
احمد بن حنبل (رہبر مذہب ِحنبلی)
محمد ابن منصور کہتے ہیں کہ ہم احمد بن حنبل کے پاس تھے کہ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے اباعبداللہ! مجھے اس حدیث کے بارے میں بتائیں جو حضرتِ علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے:
”اَنَا قَسِیْمُ النّٰارِوَالْجَنَّۃ“
”میں جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنے والا ہوں“
احمد بن حنبل نے جواب دیا:
”وَمٰا تُنْکِرُوْنَ مَنْ ذٰا؟“
”تم اُس سے انکار کیوں کررہے ہو؟“کیا تمہارے پاس یہ روایت نہیں پہنچی جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:
”یٰا عَلِیُ: لا یُحِبُّکَ اِلَّا مُوٴْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنَافِقٌ“
”یا علی ! تم سے محبت نہیں رکھے گا مگر موٴمن اور تم سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق“۔
ہم نے کہا:ہاں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ہی علی علیہ السلام سے فرمایا تھا۔ احمد بن حنبل نے کہا کہ اب بتاؤ کہ مرنے کے بعد موٴمن کی کونسی جگہ ہونی چاہئے؟ ہم نے کہا:بہشت۔ احمد بن حنبل نے پھر پوچھا کہ بتاؤ کہ مرنے کے بعد منافق کی کونسی جگہ ہونی چاہئے؟ ہم نے کہا:آتش جہنم۔ اس پر احمد بن حنبل نے کہا کہ بے شک
”فَعَلِیٌّ قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّۃ“
حوالہ: آثار الصادقین،جلد14،صفحہ440،نقل از امام الصادق،جلد4،صفحہ503۔
عبداللہ بن احمد حنبل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے علی علیہ السلام اور امیر معاویہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ علی علیہ السلام کے بہت زیادہ دشمن تھے۔ انہوں نے علی علیہ السلام کے عیب ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن ایک بھی نہ ڈھونڈ سکے۔لہٰذا علی علیہ السلام کی شخصیت کو ختم کرنے کیلئے دشمنانِ علی علیہ السلام کی مدح سرائی کی۔
حوالہ جات: 1۔ کتاب”شیعہ“ مذاکراتِ علامہ طباطبائی مرحوم اور پروفیسر ہنری کرین کے درمیان ،صفحہ429،بابِ توضیحات،نقل از صواعق،صفحہ76۔
2۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے کتاب ینابیع المودة،باب سوم،صفحہ344پر نقل کیا ہے۔
”جتنے فضائل حضرت علی علیہ السلام کی شان میں آئے ہیں، اتنے فضائل کسی اور صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی شان میں نہیں آئے“۔
حوالہ جات: 1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،کتاب ینابیع المودة،باب59،صفحہ335۔
2۔ حاکم، المستدرک میں،جلد3،صفحہ107۔
3۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، بابِ شرح حالِ علی ،ج3ص63حدیث1108شرح محموی
”علی ہمیشہ حق کے ساتھ تھے اور حق بھی ہمیشہ علی کے ساتھ تھا، جہاں کہیں بھی علی ہوں“۔
حوالہ: بوستانِ معرفت،مصنف:سید ہاشم حسینی تہرانی، صفحہ680،نقل از ا بن عساکر، تاریخ حضرت علی علیہ السلام،جلد3،صفحہ84،روایت1117۔
”عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا کہ کچھ لوگ وہاں آئے اور حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافتوں کے بارے میں تبادلہٴ خیال کرنے لگے، یہاں تک کہ خلافت ِ علی کا بھی ذکر آگیا تو میرے والد نے خلافت ِعلی کے بارے میں کہا:
”اِنَّ الْخِلَافَۃَ لَمْ تَزَیَّنْ عَلیّاً بَلْ عَلِیٌّ زَیَّنَھَا“
”خلافت از خود علی علیہ السلام کیلئے باعث ِ زینت نہیں تھی بلکہ علی علیہ السلام کا خلیفہ بننا خلافت کیلئے زینت تھا“۔
حوالہ جات:
1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،باب شرح حالِ امام علی ،جلد3،صفحہ114،حدیث1154
2۔ خطیب،تاریخ بغدار میں،جلد1،صفحہ135،بابِ شرح حالِ علی علیہ السلام، شمارہ1۔
احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے صحابیوں کی افضلیت کے بارے میں سوال کیا تو میرے والد نے جواب دیا کہ ا بوبکر، عمر،عثمان(یعنی حضرت ابوبکرحضرت عمر سے افضل اور حضرت عمرحضرتِ عثمان سے افضل)۔ میں نے پھر سوال کیا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس مرتبہ پر فائز ہیں تو میرے والد نے جواب دیا:
”ھُوَمِنْ اَھْلِ الْبَیْتِ لَایُقَاسُ بِہ ھَوٴُلَاءِ“
”وہ(یعنی حضرت علی علیہ السلام) اہلِ بیت سے ہیں، اُن کا ان سے کوئی مقابلہ ہی نہیں“۔
ابن صباغ (مذہب ِ مالکی کے مشہور مفکر)
ابن صباغ علی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
”حکمت و دانائی اُن کے کلام سے جھلکتی تھی۔عقل و دانش ظاہری اور باطنی اُن کے دل میں بستی تھی۔ اُن کے سینے سے ہمیشہ علوم کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا اُبلتے تھے اور رسولِ خدا نے اُن کے بارے میں فرمایا:
”اَنَامَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا“
”میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے“۔
حوالہ بوستانِ معرفت،صفحہ698، نقل از فصول المہمة،تالیف ابن صباغ ،فصل اوّل،ص