حضرت علی (ع) کا مشهور لقب ”امیر المومنین“ ھے آپ کو اس لقب سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سرفراز فرمایا تھا۔
آپ کی ولادت باسعادت مکہ معظمہ اورخانہ کعبہ میں ۱۳ رجب المرجب 30 عام الفیل کو هوئی۔
آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بچپن ھی سے اپنے پاس رکھا تاکہ آپ کے چچا ابوطالب پر کچھ بوجھ کم هوجائے، چنانچہ خداوند عالم نے یہ چاھا کہ آپ کی تربیت اس کا محبوب رسول کرے اور ھر طرح کی مشکلات و مصائب سے محفوظ رکھے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مبعوث بہ رسالت هوئے تو سب سے پھلے حضرت علی علیہ السلام نے اظھار اسلام کیا۔
اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنے قبیلہ والوں کو اسلام کی دعوت دی تو اسی موقع پر آپ کی وزارت ، وصایت اور خلافت کے بارے میں واضح بیان دیا.
اور جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شبیہ بن کر آپ کے بستر پر سو رھے تاکہ قریش یہ سمجھیں کہ ”محمد“(ص) ابھی بستر پر سو رھے ھیں۔
اور مدینہ منورہ ہجرت کے بعد آپ نے تمام اسلامی جنگوں میں شرکت کی اور ھر جنگ میں پرچم اسلام آپ (ع) ھی کے ھاتھوں میں رھا، اور آپ (ع) ھر جنگ میں (سوائے جنگ تبوک کے) نبی کے ساتھ ساتھ رھے، چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو اسلام کی دار السلطنت میں احتمالی خطرے کی بنا پر مدینہ میں چھوڑ دیا تھا .
خداوند عالم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کی تکریم کی خاطر رسول اللہ کی اکلوتی بیٹی جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سے شادی کی۔
اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی آخری عمر میں آپ کو امامت کے لئے منصوب کیا جیسا کہ حدیث غدیر میں گذر چکا ھے۔
اور چونکہ وفات نبی کے بعد آپ کی زندگی میں بہت سے حادثات رونما هوئے لیکن آپ (ع) نے اپنی کوشش اور وعظ و نصیحت کو جاری رکھا تاکہ ہدف اسلام آگے بڑھتا رھے اور اس مقدس راہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے رھے، اور مشکل حالات کو برداشت کرتے رھے۔اور جب لوگوں نے قتل عثمان کے بعد آپ کو خلافت قبول کرانا چاھا تو چنانچہ آپ نے کراہةً قبول کرلی لیکن اسی مناسبت سے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
”اگر حاضرین کی بھیڑ جمع هوکر میرے پاس نہ آتی اور یہ ثابت هوجاتا کہ ھمارے ناصر ومددگار موجود ھیں اور اگر علماء سے خدا کا عہد وپیمان نہ هوتا کہ ظالم سے دشمنی اور مظلوم سے ھمدردی کریں تو پھر میں اس خلافت کی مھار کو اس کے سوار پر ڈال دیتا اور اس کے دوسرے کو پھلے والے کے کاسہ سے سیراب کردیتا، کیونکہ میں نے اس دنیاکو بکری کے ناک سے بہتے گندے پانی سے بھی پست پایا“۔(خطبہ شقشقیہ)
آپ کی خلافت کے دوران ناکثین (اھل جمل) قاسطین (تابع معاویہ) اورمارقین (خوارج) سے جنگ هوئی ۔
آپ کی شھادت، مظلومانہ طریقہ سے شب ۲۱ / رمضان المبارک ۴۰ھ کو کوفہ میں هوئی اور آپ کو کوفہ سے باھر ”نجف“ میں دفن کردیا گیا۔