بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن کریم امام صادق علیہ السلام کی نگاہ میں
مقالہ نگار: جواد ذوالجلالی
مترجم: بدر الدین سماوی
پیشکش امام حسین فاونڈیشن
حضرت رسول خدا(ص) نے اپنی امت اور سب انسانوں کے لئے قرآن اور عترت کو دو وزنی چیزیں اور قیمتی میراث کے طور متعارف کروایا اور گمراہی سے نجات کے لئے ثقلین سے تمسک کرنے کی نصیحت فرمائی۔ اپنے اہل بیت کو خبیر اور قرآن کو جاننے والے کے عنوان سے متعارف کروایا تاکہ پیغمبر(ص) کے بعد، امت، ائمہ اطہار سے رہنمائی لتیی رہے اور ان کی شاگردی کو افتخار کے ساتھ قبول کرے۔
صادق آل محمد(ع) سے حبل المتین قرآن اور اس سے براہ مند ہونے اور کلام الاہی کے مقام و منزلت کے بارے میں متعدد اقوال موجود ہیں جن میں سے مختصر طور پر بعض کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ تاکہ ہمارا قرآنی اور ولائی معاشرہ، حضرت امام صادق(ع) کی سیرت کو نمونہ عمل قرار دے اور قرآنی ہدایت کے سرچشمہ سے پیاس بجھاکر خود کو سیراب کریں۔
۱۔ قرآن، تجلی خدا کا مظہر
کلام الاہی خداوند متعال کی قدرت، علم اور حکمت کا مظہر ہے۔ اس کی ہر آیت عظمت الاہی کی روشن دلیل ہے۔ حضرت امام صادق(ع) ، قرآن مجید،مظہر تجلی خدا ہونے کے بارے میں، ان افراد کے لئے جن کے قلوب زندہ اور بیدار ہیں ، فرماتے ہیں:
(لقد تجلى الله لخلقه فى كلامه ولكنهم لايبصرون)۔ (1)
اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے، اپنے کلام قرآن مجید میں تجلی فرمائی ہے لیکن وہ بصیرت نہیں رکھتے۔
۲۔ کامل گنج
معارف قرآنی لامتناہی ہیں،خود قرآن مجید کی یہ تعبیر(تبيانا لكل شیٔ) بتاتی ہے کہ ہر چیز، ہر نصیحت و حکمت، ہر حکم و قانون، ہر علم و دانش کی جڑ اور بنیاد قرآن مجید میں موجود ہے۔
پہلے انسانوں پرکیا گذرا ، آئندہ آنے والوں کا کیا ہوگا اور اس طرح زمین اور آسمان کی معلومات حاصل کرنے کے لئے، اہل بیت(ع) کی مدد سے،قرآن مجید میں دیکھنا چاہئے، امام صادق(ع) فرماتے ہیں:
خداوندقادر متعال لاشریک لہ نے آپ پر اپنی کتاب کو جوسچائی اور نیکی کا حکم دینے والی ہے، نازل فرمایا جس میں آپ اور آپ سے پہلے(ماقبل) اور مابعد کا اور اسی طرح زمین اور آسمان کا علم موجود ہے۔(۲)
دوسرے قول میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن، بیان کرنے والا ہے،لہذا فرماتے ہیں:
(ان الله انزل في القرآن تبيان كل شىء، حتى و الله ما ترك شيئايحتاج العباد اليه الا بينه للناس...) (3)
اللہ نے قرآن مجید میں ہر چیز کا بیان نازل کیا ہے، خدا کی قسم! کوئی چیز نہیں چھوڑی جس کی طرف لوگ محتاج ہیں مگر یہ کہ اس کو بیان کیا ہے۔
۳۔ الاہی عہدنامہ
قرآن، اللہ کے بندوں کے درمیاں ایک مستحکم اور مضبوط عہد ہے۔ اس کی آیات، اس کا متن ہیں، اسی میں غور و فکر کرنا اور اس کے پیغام اور احکام پر پابند رہنا چاہئے۔ امام صادق(ع) ہر روز اس کی تلاوت کرنے کے لئے فرماتے ہیں:
"القرآن عهد الله الى خلقه فقد ينبغى للمرء المسلم ان ينظر في عهده و ان يقرء منه في كل يوم خمسين آية" (4)
قرآن، مخلوق کی طرف خدا کا عہد ہے، پس ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس میں نظر کرے اور ہر روز(۵۰) آیتیں تلاوت کرے۔
واضح رہے کہ اس عہد نامہ کی تلاوت ، یاد آوری اور عمل میں رعایت کرنے کےلئے ہے۔ احکام الاہی کو پہچاننے، اس کی حکایتوں اور قصوں سےعبرت، اس کے اوامر پر عمل اور آیات میں تدبر کرنے کے لئے خدا کی طرف سےایک عہد اور میثاق ہے۔
امام صادق(ع) جس وقت قرآن کی تلاوت کرنا چاہتے تھے تو قرآن کو دائیں ہاتھ میں لیتے اور ایک دعا پڑہتے تھے جو قرآن کے عہد ہونے اور اس کے متعلق انسان کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس کا مضمون اس طرح ہے:
" اے خدا! میں نے تیرے عہد اور کتاب کو کھولا ہے۔ خدايا! اس کتاب میں میرے دیکھنےکو عبادت ، میری قرائت کو تفکر، اور میرے تفکر کو درس عبرت قرار دے۔ خدايا! مجھے ان میں سے قرار دے جو تیری نصیحت کو قبول اور تیری نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنی کتاب کی تلاوت کے دوران میری دل اور کان پر مہر نہ لگانا اور آنکھوں پر پردے نہ ڈالنااور میری قرائت کو تدبر سے خالی قرار نہ دینا بلكه مجھے ایسا بنا کہ اس کی آیات و احکام میں غور و فکر اور تیرے دین کے قوانین پر عمل کروں اور اس کتاب میں میری نگاہ کو غافل اور میری قرائت کو بیہودہ اور بے فائدہ قرار نہ دے." (5)
4- آئينه عبرت
آیات کے درمیان، سابق قوموں کا سرانجام اور عاقبت کا تذکرہ ہے۔ صالح اور نیک افراد، ایمان وعمل اور حق کی پیروی کرتے ہوئے کس طرح کامیاب اور سعادتمند ہوئے۔ اور ظالم، سخت دشمن اور ناماننے والے ہٹ دھرم افراد ، انبیاء کی تکذیب، خدا کا انکار اور ظلم و فساد اور بربریت کے مرتکب افراد، کس طرح عذاب الاہی میں مبتلا اور غرق ہوئے۔ قرآن من گھڑت کہانیوں کی کتاب نہیں، لیکن سابق قوموں اور امتوں پر گذرے ہوئے واقعات اور تاریخی حقیقتوں سے سرشار ہے کہ جو سب کچھ پندو نصیحت کی بنا ء پر عبرت کا درس لینے کے لئے ہے۔
امام صادق(ع)فرماتے ہیں:"عليكم بالقرآن! فما وجدتم آيه نجا بها من كان قبلكم فاعملوا به و ما وجدتموه هلك من كان قبلكم فاجتنبوه"۔ (6)
تم لوگوں کو چاہئے کہ قرآن کو تھام لو! اگر کوئی ایسی آیت دیکھو جس کے ذریعہ تم سے پہلے والوں نے نجات پائی ہو تو اس پر عمل کرو اور اگر ایسی چیز دیکھو جس کی وجہ سے تم سے پہلے والے افراد ہلاک ہوئے ہوں تو اس سے اجتناب اور پرہیز کرو۔
یہ ہے قرآن پر عمل اور سلوک کا طریقہ، بہترین اور سود مند طریقہ ہے جو مسلمانوں کے لئے فردی اور اجتماعی اعمال میں مؤثّر اور پڑہنے والوں کے لئے باعث ہدایت ہے۔
5- قرآن کے احكام جاودانه اور ہمیشگی ہیں
دین خدا اور آیات قرآن، احکام الاہی کے ایک سلسلے کو شامل ہیں جو قیامت تک مستمر اور جاری ہے، حلال اور حرام الاہی خاص زمانے کے لئے نہیں کہ زمانہ گذرنے سے حلال یا حرام کا حکم بھی گذر جائے بلکہ حکم خدا، دائمی ہے، (ماحول) یا (حالات اور شرائط) یا (کسی کے ذاتی تمایلات ) کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوتاہے۔
امام صادق(ع) سلسلہ بعثت انبیاء تا دورہ بعثت رسول اکرمﷺ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہاں تک کہ محمّدمصطفی (ﷺ) آئے، قرآن اور شریعت، روش اورقانون قرآن کو لائے، پس ان کا حلال تا روز قیامت حلال اور اس کا حرام تا روز قیامت حرام ہے۔
امام صادق (ع) ایک اور مقام پر، قرآن مجید کے استمرار کو ، شب و روز کی طرح ہمیشہ جاری و ساری جانتے ہوئے فرماتے ہیں:
جو اشخاص، احکام الاہی کو ایک خاص زمانہ کے لئے، دور حاضر اور زمانہ جدید میں احکام الاہی کو جاری اور ان پر عمل کرنے کو بے عقلی اور قوانین وحی کو براء نظام امور بشر اور آج کل کے معاشرے کے لئے نا کافی سمجھتے ہیں،ان پر سوچ کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔
6- ہميشه زنده اور شاداب
نہ فقط احکام قرآن مجید ابدی ہیں، بلکہ اصل قرآن جو کہ نہایت دقیق اور گہرا، فصیح، متین اور ابدی ہے، وقت گذرنے سے پرانا نہیں ہوتا بلکہ قرآن مجید کے معارف اور تعلیمات دائمی ، ہر زمانہ میں تازہ اور ہر طبقے کے لے نصیحت اور سبق ہیں۔
امام صادق(ع) فرماتے ہیں:
"لأن الله تبارك و تعالى لم يجعله لزمان دون زمان و لا لناس دونناس فهو في كل زمان جديد و عند كل قوم غض الى يوم القيامه." (8)
کیونکہ اللھ تبارک و تعالی نے اس کو کسی خاص زمانہ یاخاص افراد کے لئے قرار نہیں دیا ہے، وہ ہر زمان میں تازہ اور ہر قوم کے لئے شاداب اور ثمر بخش ہے۔
قرآن مجید کی طراوت اور تازگی، سب کے لئے ابدی اس وجہ سے ہے کہ وہ رسول اکرمﷺ کی حقانیت کا ہمیشہ زندہ معجزہ اور کلام الاہی ہے وہ ہر زمانہ میں انسان کی تمام ضروریات فکری، ہدایتی، اجتماعی اور معاشرتی کا بہترین، جواب اور حل ہے۔
7- یاد کرنا، سیکھنا اور سمجھنا،عمل کے ساتھ ہونا چاہئے
گرچہ قرآن مجید کی تلاوت اور حفظ کرنا اہمیت خاص کا حامل اور ثواب ہے لیکن مسلمانانوں کی جو ذمہ داری ہے اس کو نبھانے کے لئے فقط یہ کافی نہیں، بلکہ تلاوت اور حفظ، اسی طرح اس کا سیکھناسمجھنا قوانین کی پابندی اور ان پر عمل کرنے کے ساتھ ہونا چاہئے۔
حضرت امام صادق(ع) فرماتے ہیں:
"الحافظ للقرآن، العامل به، مع السفرة الكرام البررة" (9)
قرآن کو حفظ اور اس پر عمل کرنے والا، بلند مقام، نیکوکار سفیران الاہی(مقرّب فرشتوں) کے ساتھ ہوگا۔
قرآن سیکھنے کے متعلق فرماتے ہیں:
"ينبغى للمؤمن ان لايموت حتى يتعلم القرآن او يكون فى تعلمه" (10)
مومن کو چاہئے کے قرآن سیکھے بغیر نہ مرے یا یہ کہ سیکھنے کی حالت میں ہو۔
قرآن مجید کی پای بندی اور اس پر عمل کرنے کے متعلق امام صادق(ع) فرماتے ہیں: "واحذر ان تقع من اقامتك حروفه فىاضاعه حدوده" (11) خود کو بچاؤ کہ قرآن کے حروف کے متعلق آپ کا بندوبست اور قیام، اس کے قوانین اور حدود کی پائمالی کے ساتھ ہو۔
بہت سارے افراد ہیں جو ظاہری طور پر قرآن کے متعلق بہت اہتمام کرتے ہیں لیکن اس ظاہر کے علاوہ کوئی عمل نظر نہیں آتا۔
قرآن مجید کے ساتھ، اس طرح کا رویہ اختیار کرنا جو محض دکھائے پر مبتنی ہو، قرآن کی شان کے مطابق جو کہ کلام الاہی اور منشور آسمانی ہے، نہیں ہے۔
8- آداب تلاوت
قرآن مجید کو پڑہنے کے کچھ آداب ہیں۔ ظاہری آداب جیسے کہ مسواک، وضوء، ترتیل، اچھی آواز، رو بقبلہ اور کلام الاہی کا احترام کرنا اور اسی طرح باطنی اور معنوی آداب جیساکہ تلاوت کے دوران توجّہ ، خشوع، خضوع، تذکّر، تاثیر لینا اور سبق حاصل کرنا ۔
اس طرح کے بہت سارے آداب امام صادق(ع) کے کلام میں ذکر ہوئے ہیں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں، امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
"اذا قرء عندك القرآن وجب عليك الانصات و الاستماع" (12)
جب بھی آپ کے پاس قرآن پڑہا جائے تو سکوت اختیار کرنا اور غور سے سننا واجب ہے۔
اور یہ وہی نکتہ ہے جو سورہ اعراف، آیت ۲۰۴ میں ذکر ہوا ہے: (و اذا قرء القرآن فاستمعوا له و انصتوا).
حضرت رسولخداﷺ سے منقول ہے کہ: قرآن کے راستے کو پاک صاف بناؤ، پوچھا گیا: قرآن کا راستہ کیا ہے؟ فرمایا: آپ کا منہ آپ کا منہ، پوچھا: کس طرح؟ فرمایا: مسواک کے ذریعہ۔ (13)
ایک دوسری حديث میں، امام صادق(ع) فرماتے ہیں:
اگر کوئی قرآن پڑہے، لیکن اس کے قلب میں نرمی پیدا نہ ہو اور خداوند متعال کے سامنے، انکساری اور خضوع اختیار نہ کرے اور اپنے اندر خوف، اور حزن والی کیفیت نہ پائے تو اس نے خداوند متعال کی عظمت اور بزرگی کو کم سمجھا ہے۔
یہ دیکھو کہ اپنے پروردگار کی کتاب کو کس طرح پڑھ رہے ہو اور منشور ولایت کے ساتھ کیا سلوک و اپنا رہے ہو، اس کے اوامر اور نواہی کا کیا جواب دے رہے ہو اور اس کے حدود اورتکالیف و احکام کے متعلق کس طرح اطاعت اور فرمانبرداری کر رہے ہو؟ وعد اور وعید کی آیتوں پر کچھ دیر کے لئے رک جاؤ، قرآن مجید کے مثالوں اور موعظوں میں غور و فکر کرو، ایسا نہ ہو کہ قرآن کے حروف پر اہتمام اور ظاہر قرائت آپ کو حدود کی پائمالی میں ڈال دے!۔۔۔(14)
حزن و ملال کی خاص کیفیت کے ساتھ تلاوت کرنا، پڑہنے والے (قاری قرآن) کےقلبی اور روحی توجّہ و تاثیر کی علامت اور تلاوت کے آداب میں سے ایک اور ادب ہے۔
امام صادق (ع)فرماتے ہیں:
"ان القرآن نزل بالحزن فاقرؤه بالحزن"(15)۔
قرآن حزن کے ساتھ نازل کیا گیا ہےبس آپ بھی حزن کے ساتھ قرائت کریں۔
9- جوانان اور قرآن
جوانوں کے درمیان قرآن مجید کے متعلق جو جذبہ اور شوق پایا جاتا ہے اسی طرح تلاوت و ترتیل اور حفظ و فہم معانی و مفاہیم قرآن کے پروگرامز ، مورد توجّہ اور قابل ستائش ہیں۔ انس قرآن جوانوں کے قلوب کو منوّر اور ان کی زندگی کو پاک صاف بناتا ہے اور اللھ کے راستے میں پاکائی اور پرہیزگاری اختیار کرنے کا موجب بنتا ہے۔
امام صادق (ع)فرماتے ہیں:
"من قرء القرآن و هو شاب مؤمن، اختلط القرآن بلحمه و دمه، وجعله الله مع السفرة الكرام البررة و كان القرآن حجيزا عنه يومالقيامه."(16)
جوشخص باایمان جوانی کی حالت میں قرآن پڑہے تو قرآن اس کے گوشت اور خون کے ساتھ مخلوط ہو جاتا ہے اور اللھ اس کو بامقام نیک سفیروں(فرشتہ و انبیاء)کے ساتھ قرار دے گا اور قیامت کے دن قرآن اس کا محافظ ہو گا۔
خصوصا وہ نیک جوان اور نورانی گھر انے جو قرآن سے مانوس ہیں اور جہاں سے صبح و شام تلاوت قرآن کی دلنشین آواز آئی رہتی ہے اور اپنی زندگی کو قرآن کے ساتھ بسر کرتے ہیں، تو رحمت اور ہدایت الاہی انکے شامل حال رہتی ہے۔
امام صادق(ع)فرماتے ہیں:
جس گھر میں ایک مسلمان قرآن کی تلاوت کرتا ہے وہ گھر آسمان والوں کے لئے اسی طرح نورانی اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے جس طرح اہل زمین کے لئے ستارے نورانی نظر آتے ہیں۔(17)
10- کچھ مختصر نکات
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قرآن مجید کے متعلق امام صادق(ع) کے نورانی کلام میں بہت گہرے، دقیق اور عمیق نکتے موجود ہیں، سب کو نقل کرنا طول کا سبب ہے لہذا ہم ان روایات کا خلاصہ اور خاص نکات کو اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
حضرت امام صادق(ع) کے اقوال و بیانات کے مطابق قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ پایا جاتا ہے اس وجہ سے قرآن مجید سے فائدہ اٹھانا اور استفادہ کرنا ان افراد کے لئے جائز اور ممکن ہے جو ان نکات پر توجّہ رکھتے ہوں ورنہ گمراہ ہوجائینگے اور دوسروں کو بھی گمراہ بنائیں گے ۔قرآن مجید کے ہر حرف سیکھنے کےلئے ، دس نیکیوں کا ثواب بتاتے ہوئے، امام صادق(ع) فرماتے ہیں:
o جس قرآن کو پڑہا نہیں جاتا اور اس پر غباربیٹھ جاتا ہے وہ قیامت کے دن اللھ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا۔
o درست اور حقیقی تلاوت وہ ہے جس کے دوران آیات بشتے اور جنمھ پر وقفہ کرتے ہوئے غور و فکر کیا جائے۔
o اہل بیت (ع) کو کتاب خدا کا وارث اور سب مخلوق سے افضل سمجھے، یہ خاندان، وجہ اللھ، آیات، بیّنات اور حدود اللھ ہیں۔
o ولایت اہل بیت (ع) قطب اور قرآن اور سب آسمانی کتابوں کا محور اور مرکز ہے۔
o قرآن ثقل اکبر ، چراغ ہدایت، تاریکی سے نجات، زندہ دلوں کی حیاتی، دل و آنکولں کو کوالنے والا ہے۔
o حدیث کی حقّانیت اور درستی کا ملاک اور معیار قرآن ہے ۔ امام صادق(ع) فرماتے ہیں: آپ کے لئے ہم سے جو کچھ نقل کیا جائے اگر وہ مخالف قرآن ہو تو وہ ہم نے نہیں کہا اور اسے آپ قبول نہ کریں۔
o اہل بیت پیامبرﷺ علم الاہی کے خزانے دار اور وحی کو کھول کر بیان کرنے والے ہیں۔
آخر میں حضرت امام صادق(ع) سے سورہ فجر کی فضیلت اور اس کو فرائض اور نوافل نمازوں میں پڑہنے کے بارے میں تقدیم کرتا ہوں کہ فرماتے ہیں:
"اقرؤا سورة الفجر فى فرائضكم و نوافلكم، فانها سورةالحسين بنعلى من قرأها كان مع الحسين فى درجته من الجنّة"(18)
سورہ فجر کو واجب اور مستحب نمازوں میں پڑہیں کیونکہ یہ سورت حسین بن علی (ع) سے منسوب ہے، جو بھی اس کو پڑہے گا تو اس کا رتبہ اور درجہ بہشت میں یہ ہوگا کہ وہ حسین کے ساتھ ہوگا۔
شعر:
’’والفجر‘‘ کی قسم ،خدا ازلی ہے
حق کا معیار، آل علی سے ہے۔
ای سورہ کہ بہ فرمان امام صادق بہشت ہے۔
وہ سورہ ، حسین بن علی سے منسوب ہے۔ (19)
امید ہے کہ حضرت امام صادق (ع) کے بتائے ہوئے اصول اور رہنمائی کے مطابق چشمہ وحی الاہی سے سیراب اور معرفت حاصل کریں ، فکر اور زندگی کو کلام الاہی قرآن مجید کے مطابق بنائیں۔
حوالہ جات:
1- بحارالانوار، ج89، (بيروت)، ص107.
2- كافى، ج 2، ص599.
3- بحارالانوار، ج89، ص 81.
4- وسايل الشيعه، ج 4، ص849.
5- بحارالانوار، ج 95، ص 5.
6- الحياه، ج 2، ص116.
7- كافى، ج 2، ص 18.
8- بحارالانوار، ج89، ص 15.
9- الحياه، ج 2، ص ص 152.
10- همان، ص 155.
11- بحارالانوار، ج 82، ص43.
12- وسائل الشيعه، ج 4، ص 861.
13- الحياه، ج 2، ص 158.
14- بحارالانوار، ج89، ص207.
15- وسائل الشيعه، ج 4، ص857.
16- الحياه، ج 2، ص 164.
17- كافى، ج 2، ص 610.
18- تفسير برهان، ج 4، ص457; مجمع البيان، ج، 5، ص 481.
19- از جواد محدثى.