دس رمضان المبارک ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے زمانے کو خاتون جنت حضرت فاطمہ (س) کی شکل میں تحفہ دیا اور اسلام و بانی اسلام کا تحفظ جان و مال لٹا کر کیا ۔
خاتم الانبیاء رحمت للعالمین سیدعالم نور مجسم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ترسٹھ سالہ حیات طیبہ میں اگرچہ اپنوں اور اغیار کی طرف سے کئی مصیبتیں، مشکلات، پریشانیاں، مصائب، رکاوٹیں اور سنگینیاں دیکھیں اور برداشت کیں لیکن ان میں غالب اکثریت پر حزن و ملال اور دکھ و اضطراب نہیں فرمایا بلکہ ہنسی خوشی اور اسلام کی ترویج و وسعت کا ہدف سامنے رکھتے ہوئے قبول فرماتے رہے۔ لیکن پیغمبر اسلام ؐ کی زندگی میں دو پریشانیاں ایسی آئیں جو آپ ؐ کو ناقابل تلافی صدمے سے دوچار کرگئیں اور ان مصیبتوں کے اثرات تادم آخر موجود رہے اور وہ مصیبتیں اپنے سرپرست و مربی چچا حضرت ابوطالب ؑ اور اپنی رفیقہ حیات اور مشکل ترین اوقات کی ساتھی حضرت خدیجتہ الکبری ؑ کی وفات ہے۔
اگر اپنے پیارے چچا حضرت ابو طالب ؑ اور اپنی پیاری رفیقہ حیات حضرت خدیجتہ الکبری کی وفات کو نہ صرف اپنی ذات کی حد تک منایا بلکہ اس پورے سال کو ’’عام الحزن ‘‘ یعنی غم کا سال قرار دے کر جہاں اپنے دور میں موجود اصحاب کرام و اہل بیت عظام کو ان پاک ہستیوں کا غم منانے کا حکم دیا وہیں رہتی دنیا تک آنے والے ہر انسان اور ہر مسلمان کو ان دو ہستیوں کی اہمیت و حیثیت کا علم ہوگیا اور پتہ چل گیا کہ آقا علیہ السلام کے نزدیک ان دو ہستیوں کی قدرومنزلت روز روشن کی طرح آشکار و واضح ہے۔
سیدہ خدیجۃ کے بارے میں یہ تاریخی حقیقت بالکل سچ اور برحق ہے کہ آپ مالی حوالے سے عرب میں اس قدر مضبوط و مستحکم تھیں کہ زمانہ اسلام سے قبل ہی آپ کو اہل عرب ’’ملیکتہ العرب ‘‘ یعنی عرب کی ملکہ اور مالکہ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ عرب کی ملکہ نے کائنات کے سردار پر اپنی دولت وارفتگی سے لٹائی اور آپ ؑ فرمایا کرتی تھیں کہ کاش میرے پاس اور دولت ہوتی تو میں اسلام اور بانی اسلام پر لٹاتی رہتی تاکہ اسلام زیادہ سے زیادہ پھیلے۔ جناب خدیجہ نے جب حضور اکرم ؐ کو اپنا شریک حیات چن لیا تو اہل عرب اور حاسدین اس گھرانے کے خلاف ہو گئے یہاں تک کہ حضورؐ کا اس شدت سے اقتصادی بائیکاٹ کیا کہ حضرت ابو طالب ؑ اور ان کا گھرانہ یعنی سرور کائنات اور سیدہ خدیجۃ بھی کئی ماہ تک شعب ابی طالب میں محصور رہے۔ اور اس محصوری کے دوران اپنے چچا اور اپنی رفیقہ حیات کی قربانی اور ساتھ دینے کو حضور اکرم ؐ اکثر اوقات یاد فرماتے تھے۔
یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ نزول وحی کے سب سے پہلے مرحلے سے لے کر آخری سانس تک سیدہ خدیجۃ الکبری ؑ نے رسالت و نبوت کی نہ صرف دل و جان سے تصدیق کی بلکہ اس کی نشر و اشاعت اور توسیع کے لیے ہر مرحلے پر ساتھ دیا۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے جب نماز کا حکم ہوا تو قبلہ اول یعنی بیت المقدس کی طرف منہ کرکے حضور اکرم ؐ اپنے گھر میں ہی نماز پڑھاتے تھے جبکہ میں (علی ؑ ) اور سیدہ خدیجۃ پہلے مقتدی ہوا کرتے تھے۔ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام اور خدیجۃ کا ساتھ اور رفاقت کس قدر گہرا اور قدیم ہے۔ حضرت خدیجہ نے زمانے کو خاتون جنت کی شکل میں تحفہ دیا اور اسلام و بانی اسلام کا تحفظ جان و مال لٹا کر کیا ۔ سیدہ خدیجۃ الکبری ہردور کی عورت کے لیے رہنما، مثال اور نمونہ ہیں۔ گھر کے اندر رہنے والی خاتون ہو یا گھر سے باہر امور انجام دینے والی خاتون ہو ہر کسی کو بی بی ؑ کی سیرت سے رہنمائی ملے گی۔