اس دنیا میں انسان کے آنے کا مقصد اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی ہے۔
جو لوگ اس جہاں میں اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں، وہی حقیقت میں کامیاب ہیں۔
تخلیق آدم علیہ السلام سے آج تک، جتنے بھی توحید پرست اس دنیا میں آئے وہ آخرت کی زندگی کی کامیابی کی امید لئے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے مگر مولائے کائینات امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام تاریخ انسانی کی واحد شخصیت ہیں جو اپنی زندگی میں ہی خدا بزرگ و برتر کی قسم کھا کر اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مشکل کشا مولا علی علیہ السلام کی ایک اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان کی ولادت خانہ کعبہ جبکہ شہادت خانہ خدا یعنی مسجد میں ہوئی تھی۔
اسی حوالے سے ایک شاعر نے آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:
میسر نہیں کسی کو یہ سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
19 رمضان کی وہ خونی سحر آج بھی مومنین و مومنات کو افسردہ کیئے ہوئے ہے جب دشمن خدا، عبدالرحمن ابن ملجم ملعون نے محراب مسجد کو مولائے کائینات علیہ السلام کے مقدس لہو سے رنگ ڈالا تھا۔
تمام شب اللہ تعالی کی عبادت کرنے کے بعد نماز پڑھانے کی غرض سے امام علیہ السلام مسجد کی طرف روانہ ہوئے، مسجد میں داخل ہوئے تو چراغوں کی روشنی کم ہوگئی تھی۔
مسجد کے اندر نماز پڑھی اور اذان کہنے کی جگہ پر تشریف لے گئے اذان دی۔
اس کے بعد محراب میں تشریف لائے اور نماز شروع فرمائی ۔
رکعت اول سجدہ اول سے سر کو اٹھایا اسی وقت ابن ملجم مرادی لعنۃ اللہ علیہ نے ضربہ شمشیر کو آپ کے سر مبارک پر لگایا۔
جیسے ہی امام علیہ السلام کو زہر میں بجھی ہوئی ضرب لگی، آپ نے فرمایا: بسم اللّہ وبااللّہ وعلی ملۃ رسول اللّہ ۔ اور فرمایا: فزت برب الکعبہ۔
اس کے ساتھ ہی حضرت جبرائیل علیہ السلام کی درد میں ڈوبی ہوئی صدا بلند ہوئی کہ خدا کی قسم آج ہدایت کے ارکان گر گئے ۔ آسمان کے ستاروں میں سیاہی چھاگئی ، تقوی کی نشانیاں ختم ہوگئی اور ہدایت کی مضبوط رسی آج ٹوٹ گئی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چچا زاد بھائی مارا گیا، مجتبی علیہ السلام کا وصی آج شہید کردیاگیا، علی مرتضی علیہ السلام آج مارے گئے ،اوصیاء کے سید اور امیرمارے گئے۔
ان کو اشقیاء میں بھی سب سے زیادہ شقی نے ماردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔