ان دو انوار کے عقد ازدواج کا سب سے بڑا ثمرہ ’’امامت کا شجرہ مبارکہ‘‘ ہے اور اس کے بعد علماء، دانشوروں، مجاہدوں، صالحوں اور شہیدوں پر مشتمل نسل سادات ہے جنہوں نے آج تک اسلام کو ہر گزند سے محفوظ رکھا ہے۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجسنی۔ابنا۔ ثقافتی اوراق//
پہلی ذی الحجۃ کو حضرت علی اور فاطمہ زہرا علیہما السلام کی شادی کی سالگرہ کی مناسبت سے یوم ازدواج کہا جاتا ہے۔
اس شادی کا سب سے بڑا ثمرہ ’’شجرہ امامت‘‘ ہے، اور اس کے بعد علماء، دانشمندوں، صالحوں اور شہیدوں پر مشتمل ایسی بابرکت نسل ہے جس نے آج تک اسلام کو تحفظ بخشا ہے۔
درج ذیل تحریر اسی عنوان سے ابنا کے قارئین کے لیے پیش کی گئی ہے:
قرآن کریم کا اعجاز اور علی(ع) و فاطمہ(س) کی شادی کا ثمرہ
بقلم: حسینی عارف(چیف ایڈیٹر اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی)
ترجمہ: افتخار علی جعفری
تمام انبیاء نے اپنی نبوت کے دعوے کی سچائی پیش کرنے کے لیے معجزے پیش کئے۔ آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان معجزوں کے علاوہ جو آپ نے اپنے عصر حیات میں پیش کئے ایک ایسا جاودانی معجزہ بھی پیش کیا جو آج تک موجود ہے اور کوئی اس کو چیلنج نہیں کر پایا ہے اور وہ ہے ’’قرآن کریم‘‘۔
قرآن کریم کے معجزہ ہونے پر بہت ساری دلیلیں موجود ہیں ان میں سے ایک دلیل قرآن کی غیبی خبریں ہیں جو اس کے الہی ہونے اور اس کے لانے والے کے نبی ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔
غیبی خبریں کیا ہیں؟
لفظ ’’ غیب‘‘ سے مراد ہر وہ چیز ہے جو انسان کے سامنے نہ ہو یا اس کے حواس کے ادراک سے باہر ہو۔ یہ لفظ قرآن کریم کی بہت ساری آیتوں میں اسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
لہذا غیبی خبریں ان واقعات کی عکاسی کرتی ہیں جو عصر وحی سے بہت پہلے یا بعد رونما ہوئے اور اس وقت ان کے بارے میں جاننا متعارف ذرائع سے ناممکن تھا۔
ماضی کی غیبی خبریں
قرآن کریم نے گزرے زمانے کی خبریں بیان کرنے بعد ان کے غیبی ہونے پر تاکید کی۔ مثال کے طور پر حضرت یوسف کی زندگی کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا: "ذلِكَ مِن اَنباءِ الغَيبِ نوحيهِ اِلَيك؛ یہ ان غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم نے آپ کو وحی کی ہے۔ ( سورہ یوسف، آیت ۱۰۲)
اس طرح کی داستانیں جو قرآن کریم نے گزشتہ زمانے کی بیان کی ہیں ان کے بارے میں حتی پوری زندگی تحقیق اور ریسرچ کرنے سے بھی آگاہی حاصل نہیں ہو سکتی چونکہ کسی بشر نے ان واقعات کو نقل کیا ہی نہیں۔ نیز اسی طرح انسان کی خلقت کی کیفیت کو بیان کرنے والی آیتیں کہ انسان کو کس طرح سے مٹی سے اللہ نے پیدا کیا، یہ سب ماضی کی غیبی خبریں ہیں۔
مستقبل کی غیبی خبریں
قرآن کریم نے اسی طرح مستقبل اور آنے والے زمانے کے بارے میں بھی غیبی خبریں بیان کی ہیں کہ جن میں سے بعض خبریں رونما ہو چکی ہیں اور بعض واقعات جیسے دنیا کے خاتمہ اور قیامت کے برپا ہونے کے حوالے سے دی گئی غیبی خبریں ابھی محقق نہیں ہوئیں۔
قرآن کریم کے نازل ہونے کے بعد جو غیبی خبریں محقق ہوئیں ان میں سے بعض جیسے روم کا ایران پر فتح حاصل کرنا، (سورہ روم، آیت ۳) جنگ بدر میں کفار کی شکست( سورہ قمر، آیت ۴۴،۴۵) اور فتح مکہ اور مشرکین کے مسلمان ہونے کی خبر( سورہ فتح، آیت ۲۷) کی مثال دی جا سکتی ہے ان خبروں کا محقق ہونا اسلام اور رسول اسلام کی حقانیت پر منہ بولتا ثبوت ہے۔
پیغمبر اور ابتر ہونے کی تہمت
تاریخ کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کے تین بیٹے تھے قاسم، عبد اللہ اور ابراہیم۔ یہ تینوں بیٹے بچپنے میں ہی دنیا سے گزر گئے اور اس سن تک نہیں پہنچ پائے کہ ان سے کوئی اولاد باقی رہ پاتی۔ یہ چیز جاہل عربوں کے نزدیک جو بیٹی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے آپ پر مقطوع النسل کی تہمت لگانے کا باعث بنی۔ لہذا انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کی شان و منزلت کو گھٹانے کے لیے آپ کے خلاف اس کو اہک بہترین حربہ کے طور استعمال کیا۔
جناب عبد اللہ کی موت کے بعد اور مدینہ ہجرت سے پہلے ایک دن ’’عاص بن وائل‘‘ کہ جو مشرکین کے سرداروں میں سے ایک تھا نے پیغمبر اکرم (ص) کو مسجد الحرام میں دیکھا اور آپ سے گفتگو کی۔ قریش کا ایک گروہ جو مسجد میں بیٹھا ہوا تھا نے اس سے کہا: تم کس سے بات کر رہے تھے؟ کہا: اس ابتر مرد سے( ابتر یعنی مقطوع النسل، جس کی کوئی اولاد نہ ہو)
قدرت کو اپنے حبیب کی شان میں مشرکین کی یہ گستاخی پسند نہ آئی اور اسی مقام پر سورہ کوثر نازل کیا جس میں مستقبل کے بارے میں ایک اور غیبی خبر دی۔ اس سورے نے پیغمبر اکرم(ص) کو کوثر اور کثیر نعمتوں کی بشارت دی۔ اور آپ کے دشمنوں کو ابتر کہا: بِسمِ اللَّـهِ الرَّحمـٰنِ الرَّحِيم. إِنَّا أَعطَيْنَاكَ الكَوْثَر. فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانحَر. إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأَبْتَر.
کوثر کا مطلب
کوثر کے معنی اور حقیقت کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا، خیر کثیر، حوض کوثر، جنت میں ایک نہر، بے شمار اولاد وغیرہ علماء نے لفظ کوثر کے معنیٰ بیان کئے ہیں۔
لیکن چونکہ خداوند عالم نے خود اس سورہ کی آخری آیت إِنَّ شانِئَک هُوَ الأَبْتر میں پیغمبر اکرم کے دشمن کو مقطوع النسل اور ابتر کہا ہے اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس سورے میں کوثر سے مراد نسل کثیر ہے جو خداوند عالم نے آپ کی بیٹی کے ذریعے سے قرار دی ہے۔
نسل سادات کی غیبی خبر
سورہ کوثر کا یہ مفہوم کہ رسول اسلام(ص) کی نسل ’’نسل کثیر‘‘ ہو گی اور آپ کا دشمن مقطوع النسل ہو گا قرآن کریم کی ان غیبی خبروں میں سے ایک ہے جو اس وقت ہم سب کے سامنے محقق اور ثابت ہو چکی ہے اور یہ خبر قرآن کریم کے معجزہ ہونے پر ایک اور واضح دلیل ہے۔
عصر حاضر میں حضرت زہرا(س) سے نسل رسول(ص) دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے اور پوری دنیا میں نسل سادات کے برابر کوئی دوسری نسل نظر نہیں آتی۔ سادات کو مختلف القاب جیسے، ’’سید‘‘، ’’شریف‘‘، ’’شاہ‘‘، ’’شاہزادہ‘‘، ’’امیر‘‘، ’’میر‘‘، اور ’’ میرزا‘‘ سے تمام ملکوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ اور بہت سارے علاقوں میں شیعہ سنی ہندو عیسائی سب کے نزدیک ان کا خاص احترام ہے۔
اگر یہ جان لیا جائے کہ طول تاریخ خاص طور پر بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں اس نسل پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے گروہ گروہ کی صورت میں ان کا قتل کیا گیا، ملک بدر کیا گیا، انہیں دیواروں میں چنا گیا، تو اس وقت قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی اہمیت اور زیادہ سمجھ میں آتی ہے۔
ایران اور جہان میں سادات کے اعداد و شمار
گزشتہ دور میں نقابت(نسل پرکھنے) کے ادارے موجود تھے جو سادات کی نسل کا اندارج اور ان کے امور کی سرپرستی کی ذمہ داری کو سنبھالے ہوئے تھے۔ یہ ادارے سید ہونے کے جھوٹے دعویداروں کی راہ میں بھی رکاوٹ ہوتے تھے اور لوگوں کو شرعی احکام سے غلط فائدہ بھی نہیں اٹھانے دیتے تھے۔
ابھی بھی مصر اور یمن جیسے ملکوں میں دار النقابہ موجود ہیں لیکن بہت سارے ممالک میں یہ چیز نہیں پائی جاتی لہذا ان ممالک میں سادات کی تعداد کے بارے میں دقیق اطلاع حاصل کرنا مشکل ہے۔
لیکن کلی اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت کم سے کم ساٹھ میلین(چھے کروڑ) سید پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ یہ تعداد صرف ان سادات کی ہے جن کے باپ سید ہیں اور باپ کی طرف سے ان کا رشتہ رسول خدا (ص) سے ملتا ہے جبکہ فقہاء کی نظر میں سید ماں کے بطن سے بھی پیدا ہونے والی اولاد سادات کہلاتی ہے۔ جنہیں اصطلاح میں میرزا کہا جاتا ہے اگر ماں کی طرف سے بھی پیدا ہونے والی سادات کو اضافہ کیا جائے تو مذکورہ تعداد میں قابل توجہ اضافہ ہو جائے گا۔
اس وقت 65 لاکھ سے زیادہ سادات(باپ کی طرف سے) ایران میں قید حیات ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایرانی سال ۱۳۹۴ میں ایران میں آبادی کے اوسط میں 1.4 فیصد سادات تھے جبکہ اس سال یعنی ۱۳۹۶ میں سادات کی تعداد 2.5 فیصد ہو چکی ہے۔
پہلی یا چھٹی ذی الحجۃ، کوثر کا نقطہ آغاز
جب حضرت فاطمہ زہرا(س) کی عمر مبارک حد بلوغ کو پہنچی تو بڑے بڑے صحابہ، قبیلوں کے سردار، مال و ثروت کے مالک آپ کے رشتے کے لیے پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ لیکن رسول خدا(ص) فرماتے تھے: ’’فاطمہ کا رشتہ پروردگار عالم خود متعین فرمائے گا‘‘۔
کئی رشتوں کو ٹھکرانے کے بعد، اصحاب سمجھ گئے کہ علی بن ابی طالب کے علاوہ فاطمہ سے شادی کی قابلیت کوئی نہیں رکھتا۔ اس وجہ سے علی علیہ السلام کے پاس گئے اور کہا: قریش کے بزرگوں نے رسول کی بیٹی کا رشتہ مانگا لیکن پیغمبر اکرم نے ان کے جواب میں فرمایا ہے کہ فاطمہ کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اگر آپ ان سے رشتہ مانگیں گے تو آپ کو مثبت جواب ملے گا۔
حضرت علی(ع) جناب فاطمہ زہرا(س) کی منگنی کے لیے گئے اور اپنی خواہش پیش کی، پیغمبر اکرم نے فرمایا: اے علی! آپ سے پہلے بھی اس خواہش کو لے کر بہت سارے لوگ آ چکے ہیں لیکن جب بھی میں فاطمہ سے پوچھتا تھا تو فاطمہ بے رغبتی کا اظہار کرتی تھیں۔ صبر کرو تاکہ میں فاطمہ سے معلوم کر لوں‘‘۔ اس کے بعد رسول خدا جناب فاطمہ زہرا کے پاس گئے اور فرمایا: علی بن ابی طالب وہ شخص ہے جس کی رشتہ داری، فضائل اور اس کے اسلام کے بارے میں آپ جانتی ہیں۔ میں نے خدا سے دعا کی ہے کہ آپ کا اس سے رشتہ جوڑے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور بہترین ہو۔ اب علی نے آپ کا رشتہ مانگا ہے اس بارے میں آپ کی کیا نظر ہے؟ جناب زہرا خاموش ہو گئیں، اور اپنے رخ انور کو نہیں موڑا۔ اللہ کے رسول نے جب ان کے چہرے پر ناراضگی کے آثار نمایاں نہیں دیکھے تو اٹھے اور فرمایا: اللہ اکبر! سکوتھا اقرارھا‘‘ ان کی خاموشی رضامندی کی علامت ہے، اتنے میں جناب جبرئیل نازل ہوئے اور کہا: اے محمد! فاطمہ کو علی ابن ابی طالب کے عقد میں دے دو کہ خداوند عالم نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے لیے پسند کیا ہے‘‘۔
تاریخ نے ان دو انوار کی شادی کی مختلف تاریخیں بیان کی ہیں لیکن ان تاریخوں میں سن دو ہجری پہلی اور چھٹی ذی الحجہ زیادہ معروف ہیں۔
ان دو انوار کے عقد ازدواج کا سب سے بڑا ثمرہ ’’امامت کا شجرہ مبارکہ‘‘ ہے اور اس کے بعد علماء، دانشوروں، مجاہدوں، صالحوں اور شہیدوں پر مشتمل نسل سادات ہے جنہوں نے آج تک اسلام کو ہر گزند سے محفوظ رکھا ہے۔