غدیر کاعمیق مطالعہ کرنے کے لئے اس عظیم واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے وقت معاشرہ کے سماجی،اعتقادی اور اخلاقی حالات سے آگاہ ہونا ضروری ھے ،تا کہ معلوم ہو کہ غدیر خم میں رسول(ص) کے ساتھ کون لوگ تھے؟ اور وہ کیسے مسلمان تھے؟ان کا عقیدہ کیسا تھا ؟اور وہ کتنے گروہوں میں تقسیم ہو سکتے ھیں؟
یہ فکری آمادگی واقعہٴ غدیر کے جزئیات اور اس کی خاص کیفیت کا تجزیہ و تحلیل کرنے میں مدد گار اور نتیجہ خیز ثابت ہو گی ۔
۱.ھجرت کے پہلے عشرہ میں اسلامی معا شرے کی تشکیل دین اسلام کی تبلیغ میں پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت [1]
دین اسلام آخری دین ھے جو گزشتہ تمام ادیان کو منسوخ کر دینے والا اور معارف الٰھی کے سب سے بلند وبالا مطالب کا حا مل ھے جو کسی زمان و مکان میں محدود نھیں ھیں ۔لہٰذا ان معارف کو پوری دنیا میں ھمیشہ کےلئے لوگوں کی فکر و روح کی تعمیر کرنے والی اور انسانیت ساز قانونی دستاویز کے طور پر ہونی چا ہئے ۔
اس عظیم رسالت کی ذمہ داری خاتم الانبیاء حضرت محمد بن عبد اللہ(ص) کے کاندھوں پرڈالی گئی ھے۔ آنحضرت (ص)اسلامی احکام و معارف لوگوں کےلئے آھستہ آھستہ بیان فرماتے تھے اور ھر اقدام سے پھلے اس کےلئے ماحول کوسازگار بناتے تھے۔ جیسے جیسے اسلام کی قدرت و طاقت اورترقی میں اضافہ ہوتا جاتا تھا پیغمبر اسلام (ص)بھی سنگین تر اسلامی مطالب کو لوگوں کے سامنے بیان فرماتے تھے،اور یہ طریقہ آپ کی حیات طیبہ کے آخری وقت تک جاری و ساری رھا ۔
ھجر ت سے پھلے مسلمان[2]
پیغمبر اکرم(ص) کی تیرہ سال کی تبلیغ کے دوران مکہٴ معظمہ میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور اس کی وجہ ظاھری طور پر اسلام کا کمزور ہونا تھا ،لہٰذا دنیوی خواھشات کے خواھاں اسلام کی طرف بہت کم ما ئل ہوتے تھے ۔
اگرچہ اس دور میں بھی کچھ منافقین اپنا مستقبل بنانے کی غرض سے آنحضرت (ص) کی خدمت میں حاضر رہتے تھے ، اپنے جاھلیت والے مقاصد کوحاصل کرنے اور آنحضرت (ص) کے اقدامات کو نابود کرنے کے لئے دل ھی دل میں منصوبہ بنایا کرتے تھے ،لیکن دوسرے افراد کی نیک نیتی ان کے تمام ارادوں پر پانی پھیر دیتی تھی ۔
ھجرت کے بعد مسلمان [3]
پیغمبر اکرم (ص)کی مدینہ تشریف آوری ،آپ کے استقبال اور مسلمانوں کےلئے امن و امان کی جگہ فراھم ہو جا نے کے بعد روز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔اسلام اس قدر ترقی کی راہ پر گامزن تھا کہ گروہ گروہ اور کبھی تو سارا قبیلہ مسلمان ہو جاتا تھا ۔ مدینہ کے گرد و نواح سے بھی افراد آنحضرت(ع) کی خدمت با برکت میں حاضر ہوتے تھے اور اسلام قبول کرتے تھے ۔اس بنا پر مسلمانوں کی آبادی میں ایک بنیادی تبدیلی ہو رھی تھی ،مشرکین ،یہودی اور عیسائی ایمان لا کرمسلمان معاشرہ میں داخل ہو چکے تھے اور یہ معاشرہ مختلف قبائل اورمختلف گروہوں کو اپنے اندر جگہ دے رھا تھا۔ان لوگوں میں سے بعض لوگ اپنے قبیلہ کے سرداروں کی اتباع میں ، کچھ جنگو ں میں شرکت کر کے مال غنیمت حا صل کرنے کے قصد و ارادہ سے مسلمان ہوئے اور بعض دوسرے افرادعھدہ ومنصب وغیرہ حاصل کرنے کی غرض سے اسلام لا ئے ۔
جب پیغمبر اسلام(ص) کی جنگیں اوج پر پہنچیں اورمسلمانوں کی معاشرتی اور فوجی طاقت بڑھی اور مسلمان جنگوں کو فتح کر نے لگے ،تو کثرت سے لوگ اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے اسلام قبول کرنے لگے اور کچھ لوگو ں نے رسوا و ذلیل نہ ہونے کی خاطرخود کو اکثریت کے ساتھ ملحق کر لیا ۔
اگرچہ مخلص اور فدا کار مسلمانوں کی تعدادبھی کم نھیں تھی اور یھی وہ افراد تھے جو منافقین کے منصوبوں اور دنیا پرستوں کی خواھشات میں رکاوٹ ڈالتے تھے ۔
فتح مکہ کے بعد مسلمان [4]
پیغمبر اسلام (ص)کے ذریعہ مکہ فتح ہو نے کے بعدیہ صورت حال نے مزید پیچیدہ ہوگئی۔ یہ بڑی فتح جس میں پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت علی علیہ السلام نے بت پرستی اور شرک کی کمر توڑ دی تھی ، پیغمبر اکرم(ص) کی طرف سے عام طور پر در گزرکر نے کے اعلان کے بعد بہت سے وہ افراد جو کل تک جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف تلوار چلاتے تھے ،مسلمانوں کے گروہ میں داخل ہو گئے اس طرح مسلمان معاشرہ نے نئی شکل اختیارکرلی ۔
حجةالوداع کے سال اسلامی معاشرہ [5]
پیغمبر اکرم(ص) کی حیات طیبہ کے آخری سال میں جھاں آپ کے ساتھ ایک طرف سلمان ابوذر اور مقداد جیسے مخلص مسلمان تھے تو دو سری طرف وہ نئے مسلمان بھی تھے جو کل تک اسلام کے خلا ف تلواراٹھایا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ خواھشات نفسانی کے پابند ہویٰ و ہوس کے غلام اور دنیا کے خواھاں افراد بھی تھے جن کا مقصد دنیا حاصل کرنا تھا۔
کچھ افراد کی افکار پر دور جاھلیت کے تعصبات کا غلبہ ،بدر و احد وحنین اور خیبر کے کچھ باقیماندہ عُقدے اور دنیاوی لالچ نے کچھ لوگوں کے دلوں سے ایمان راسخ کو ختم کر دیا تھا اس کے علاوہ مخفی حسد جو روز بروز آشکار ہوتا جا رھا تھا حجة الوداع کے وقت سب چیزیں مسلمانوں کے معا شرہ پرحکم فرما تھیں اور اس وقت کی فضا انھیں اسباب کی دین تھی۔
مسلم معا شرے میں منا فقین[6]
مسلم معاشرے کی سب سے بڑی مشکل، نفاق تھا جوان افراد کی مختل کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ان کے اندر سے روح ایمان کو سلب کرکے انھیں اپنی طرف مائل کر لیتا تھا ۔ منافقین وہ لوگ تھے جو ظاھری طور پر تو مسلمان تھے لیکن قانونی طور پران سے پیش آنا مشکل تھا ۔
یہ گروہ بعثت کی ابتدا ھی سے مسلمانوں کے درمیان مو جود تھا اور بعض تو ابتدا ھی سے منا فقانہ نیت سے مسلمان ہوئے تھے ،لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی ۔جیسے جیسے اسلام کی قوت بڑھتی جا رھی تھی ویسے ویسے منا فقین بھی اپنے کو منظم کرتے جا رھے تھے اور اسلام کی ظاھری عبا زیب تن کئے ہوئے اسلام کے نئے پودے پر کفار و مشرکین سے بھی زیادہ مھلک وار کرتے تھے ۔
پیغمبر اسلام(ص) کی حیات طیبہ کے آخری سالوں میں منافقین عملی طور پر میدان میں آ گئے تھے ،وہ مٹینگیں کیا کرتے تھے ،اسلام اور پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف سازش کر تے اور ماحول خراب کیا کرتے تھے جس کی بہترین گواہ قرآن کریم کی آیات ھیں ۔ اگر ھم قرآن کریم کی آیات کے نا زل ہونے کی ترتیب کا جا ئزہ لیں تو منافقین سے متعلق اکثرآیات پیغمبر اکرم(ص) کی حیات طیبہ کے آخری سالوں میں نا زل ہو ئی ھیں ۔[7]
منافقین ظاھری طور پر تو مسلمان تھے لیکن باطنی طور پر کفر والحاد اور شرک کی طرف ما ئل تھے ان کے دل میں یہ آرزو تھی کہ دین اسلام کو ھر اعتبار سے نقصان پہنچا یا جائے اورکسی طرح اپنی پرانی حالت پرپلٹ جا ئیں لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ ھم اس ھدف کو آسانی سے نھیں حا صل کر سکتے اور کم سے کم پیغمبر اکرم(ص) کی حیات طیبہ میں تو ایسا ہونا ناممکن ھے ۔لہٰذا انھوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ بنایا ۔
انھو ں نے حجةالوداع کے سال میں اپنے درمیان کئی عھد ناموں پر دستخط کئے تھے اور ان میں اسلام کے خلاف کئی دقیق اور پیچیدہ سازشیں تیارکی تھیں۔ [8]
غدیر ،سازشوں کی ناکامی کی بنیاد
جو چیزاس ماحول میں منافقوں کی سازشوں کو بالکل نیست و نابود ،اسلام کواس کی اصلیت اور حقیقت کے ساتھ محفوظ رکھ سکتی تھی وہ پیغمبر اسلام (ص)کے بعد آپ کے جانشین کا اعلان تھا۔ آنحضرت (ص) نے اپنی بعثت کے آغاز سے ھی ھر مناسب موقع پراس کا اعلان فرمایا تھا یھاں تک کہ متعدد مرتبہ سند کے طور پرمعاشرہ کی پشت پناھی کے ساتھ بیان فرمایا ،یھاں تک کہ ایک روز امیر المو منین (ع) کو بلایا اسکے بعد اپنے خادم کو حکم فرما یا کہ قریش کے سو افراد ،دیگرعربوں سے اسّی افراد عجم سے ساٹھ افراد اور حبشہ کے چالیس افراد جمع کریں جب یہ افراد جمع ہو گئے تو آپ نے ایک کاغذ لا نے کا حکم دیا ۔
اس کے بعد سب کو ایک دو سرے کے پھلو میں نماز کی طرح صف میں کھڑے ہونے کا حکم دیا اور فرمایا: ”ایھا الناس ، کیا تم اس بات کو تسلیم کرتے ہو کہ خداوند عالم میرا ما لک ھے اور مجھ کو امر اور نھی کرتا ھے اور میں خداوند عالم کے قول کے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نھیں رکھتا“؟
انھو ں نے کھا :ھاں ، یارسول اللہ ۔ آپ نے فر مایا :کیا میں تمھارے نفوس پر تم سے زیادہ حاکم نھیں ہوں ، تم کو امر و نھی کرتا ہوں اور تم کو میرے مقابلہ میں امر و نھی کرنے کا حق نھیں ھے ؟انھوں نے کھا : ھاں ،یا رسول اللہ ۔
فرمایا :جس شخص کا خداوند عالم اور میں صاحب اختیار ہوں یہ علی بھی اس کے صاحب اختیار ھیں یہ تم کو امر و نھی کرنے کا حق رکھتے ھیں اور تمھیں ان کو امر و نھی کرنے کا حق نھیں ھے ۔ خدایا علی (ع) کے دوست کو دوست رکھ اور علی (ع) کے دشمن کو دشمن قرار دے ،جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر،جو اس کو ذلیل و رسوا کرے تو اُس کو ذلیل و رسوا کر۔ خدایا تو اس بات کا شاھد ھے کہ میں نے تبلیغ کی اور ان تک پیغام پہونچا دیا اور ان کے سلسلہ میں پریشان رھا۔
اس کے بعد اس کاغذ(جس میں یہ مطالب تحریر تھے )کو ان افراد کے سا منے تین مرتبہ پڑھنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد تین مر تبہ فرمایا :تم میں کون شخص اس عھد سے پھرجائے گا؟انھوں نے تین مرتبہ کھا : ھم خدا اور اس کے رسول کی پناہ چا ہتے ھیں اگر ھم اپنے عھد سے پھریں۔
اس کے بعد آنحضرت (ص) نے اس کاغذ کو لپیٹا اور اس پر مجمع میں موجود سب افراد کے دستخط کرائے اور فرمایا: اے علی (ع) اس نوشتہ (تحریر ) کو اپنے پاس رکھو،اور اگر ان میں سے کسی نے عھد شکنی کی تو یہ تحریر اس کو پڑھ کر سنانا تاکہ میں قیامت میں اس کے خلاف مبغوض رہوں ۔[9]
ان تمام اقدامات کے با وجود پیغمبر اکرم(ص) حضرت علی (ع) کو قانونی طور پر اپنا جانشین و خلیفہ معین فرمانے کےلئے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں زمان ،مکان اور تا ریخ کے اس عظیم جم غفیر کے منتظر تھے منافقین کو بھی اس چیز کا خطرہ تھا اور متعدد طریقو ں سے اس اعلان میں رو ڑے اٹکا رھے تھے ۔
قانونی طور پر زمان و مکان کے اعتبار سے اعلان کرنے کا سب سے بہترین مو قع ’غدیر خم“تھا جس نے منافقین کو مبہوت کرکے رکھ دیا تھا، ان کی کئی سالو ں سے چلی آرھی سازشوں کوچکنا چور کر دیا اور ان کے شیطانی منصوبوں پرپانی پھیر دیا ۔[10]
حضرت فا طمہ زھراء (ص) اس سلسلہ میں فرماتی ھیں :
”وَ اللہِ لَقَدْ عَقَدَ لَه یَوْ مَئِذٍ الْوِلَا ءَ لِیَقْطَعَ مِنْکُمْ بِذلِکَ الرَّجَا ءَ “[11]
”پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر کے دن عقد ولایت کو حضرت علی (ع) کےلئے محکم و استوار فرمایا تاکہ اس طرح تمھاری آرزوئیں اس سے منقطع ہو جائیں “
غدیر عرصہ دراز کےلئے اتمام حجت
پیغمبر اکرم(ص) نے اس دین اسلام کے قیامت تک باقی رہنے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کے پھیل جانے کے بعد قیا مت تک باقی رہنے والے اپنے جانشینوں (یعنی بارہ ائمہ معصومین علیھم السلام)کا اپنے ایک خطبہ میں تعارف کرایا ۔
اس لئے اگر اس دن اکثر مسلمانوں نے اپنے ھمدرد پیغمبرکے کلام کوتسلیم نہ کیا اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت کو قبول نھیں کیا لیکن مسلمانوں کی بعد میں آنے والی نسلوں کے اکثر افراد نے پیغمبر اکرم(ص) کے حقیقی وصی کی معرفت حا صل کرلی ۔ یھی غدیر کا سب سے اھم اور بنیادی ھدف تھا ۔
اگرچہ منا فقین نے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنایا لیکن یہ غدیر کا ھی نور ھے کہ جس نے چودہ صدیا ں گذر جانے کے باوجود دنیا کی اس وسیع و عریض زمین پر تاریخ کے ھر دورمیں کروڑوں شیعوں اور اھل بیت علیھم السلام سے محبت رکھنے والوں کوباقی رکھا اور اسی طرح نور ولایت کو دنیا کے مختلف مقامات پر روشن اورتابناک محفوظ رکھا ھے۔
اسی طرح اگر عر صہٴ دراز تک مسلمانو ں کے گروہ نے پیغمبر اسلام (ص) کے حقیقی جا نشینوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا اور نھیں کرتے ھیں لیکن شیعوں کی یہ بہت بڑی تعداد فقط علی بن ابی طالب (ع) اور ان کی نسل سے گیارہ فرزندوں کو پیغمبر اکرم(ص) کے جانشین سمجھتی ھے ۔
اس مقدمہ سے یہ بات ظاھر ہو تی ھے کہ خطبہٴ غدیر کچھ محدود گروہ اور خاص زمانہ کےلئے نھیں بیان کیا گیا تھا ،بلکہ پیغمبر اکرم(ص) نے خود یہ ارشاد فرمایا کہ حا ضرین غائبین کو ،شھر میں رہنے والے گاؤں میں رہنے والوں کو اور باپ اپنی اولاد کو قیامت تک یہ خبر پہنچا تے رھیں اور سب اس پیغام کو پہنچانے میں اپنی ذمہ داری پر عمل کریں ۔[12]
جب پیغمبر اکرم(ص) نے لوگوں پر اپنی حجت تمام کر دی ،تو اب یہ صرف لوگوں کے اوپر ھے کہ وہ چاھے جنت کو اختیار کریں یا جہنم کو ،اور ان کا ولایت علی (ع) کو قبول کرنا یا قبول نہ کرنا ایک الٰھی امتحان ھے ۔
اس سلسلہ میں امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ھیں :
(مَثَلُ الْمُوٴمِنِیْنَ فِیْ قَبُوْلِهمْ وِلَاءَ اَمِیْرِالْمُوٴْ مِنِیْنَ عَلَیْه السَّلّا مُ فِیْ یَوْمِ غَدِیْرِخُمٍّ کَمَثَلِ الْمَلَا ئِکَةِ فِیْ سُجُوْدِهمْ لِآدَمَ،وَمَثَلُ مَنْ اَبیٰ وِلَایَةَ اَمِیْرِالْمُوٴْ مِنِیْنَ یَوْمَ الْغَدِیْرِ مَثَلُ اِبْلِیْسَ )
”غدیر خم کے دن حضرت علی (ع) کی ولایت کو قبول کر نیوالے مومنین کی مثال حضرت آدم کو سجدہ کرنےوالے ملا ئکہ جیسی ھے ،اور ولایت امیر المو منین (ع) کا انکار کرنے والوں کی مثال ابلیس جیسی ھے‘ [13]
اس مختصر سی بحث سے اسلامی معا شرے پر حکم فرما فضا اور وہ حالات جن میں واقعہٴ غدیررونما ہوا اور وہ اھداف و مقاصد جوغدیرکے مد نظر تھے واضح ہو جاتے ھیں۔
۲.خطبہ ٴ غدیر کی اھمیت کے پھلو
پیغمبر اسلا م(ص) کی پوری تا ریخ بعثت میں صرف ایک حکم ایسا ھے جو اتنے تفصیلی مقدمات، ایک خاص مقام اور مسلمانوں کے جم غفیر میں ایک طولانی خطبہ کے ذیل میں بیان ہوا ھے دیگر تمام احکام الٰھی مسجد النبی یا آپ کے بیت الشرف میں بیان ہوتے تھے اور اس کے بعد ان کی اطلاع سب کو دیدی جاتی تھی ، اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ اسلا م کا یہ الٰھی حکم دوسرے تمام الٰھی احکام سے ممتاز اور اھم ھے ۔حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام فرماتے ھیں :
”غدیر کے دن ولایت کے مانند کسی حکم کا اعلان نھیں ہوا “
ھم ذیل میں فھر ست وار خطبہٴ غدیر کی اھمیت کے اسباب بیان کر رھے ھیں:
جغرافیائی اعتبار سے غدیرکی جگہ جحفہ میں اس مقام سے پھلے ھے جھاں سے تمام راستے الگ الگ ہوتے تھے اورتمام قبائل اپنے اپنے راستہ کی طرف جانے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے۔اسی طرح اس گرم و ریگستانی علاقہ میں تین دن قیام کرنا اور وقت کے لحاظ سے حجة الوداع کے بعد کا زمانہ اور یہ اس دن تک مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔
خطیب کی جگہ،مخاطبین یعنی حاجیوں کی خاص کیفیت وہ بھی اتمام حج کے بعد اور واپسی کے وقت نیزمخاطبین کے سامنے پیغمبر اسلام (ص)کی وفات کے نزدیک ہونے کا اعلان اس لئے کہ آنحضرت (ص)اس خطبہ کے ستّر دن بعد اس دنیا سے رحلت فرما گئے ۔
خدا وند عالم کا یہ فرمان ”اے پیغمبر اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ پر خدا وند عالم کی طرف سے نازل ہوا ھے اگر آپ نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا رسالت کا کوئی کام ھی انجام نھیں دیا “یعنی فرامین الٰھی میں سے کسی ایک فرمان کے لئے بھی ایسا حکم نھیں ہوا۔
پیغمبر اکرم (ص)کو خوف اورمسلمانوں کے مستقبل کی خاطر ولایت اور امامت کے حکم کو جاری کر نے کےلئے خدا کا قطعی فیصلہ ، اس حکم الٰھی کو پہنچانے کی خصوصیات میں سے ھے کہ پیغمبر کسی بھی حکم کو پہنچا نے کےلئے اس طرح فکرمند نہ ہو ئے ۔
خدا وند عالم کا دشمنوں کے شر سے پیغمبر اکرم(ص) کی حفاظت کی ذمہ داری لینا اس پیغام اور اس اعلان کی خصوصیت ھے اور احکام الٰھی میں سے کسی کے لئے بھی ایسی ضما نت نھیں دی گئی ۔
آنحضرت (ص)کا غدیر خم میں لوگوں سے اقرار لینا ۔
اس دستور الٰھی کو بیان کر نے کےلئے خاص اسباب کا اہتمام، اتنا بڑا مجمع ،بیان کر نے کا خاص انداز اور منبر صرف اسی حکم الٰھی کےلئے تھا ۔خاص طور سے پیغمبر اکرم (ص)کا لوگوں کو الوداع کہنا جبکہ بیرونی دشمنوں کی طرف سے اب اسلام کونقصان پہنچانا ناممکن ہو گیا تھا۔
مسئلہٴ امامت صرف ایک پیغام اور ایک ھی خطبہ کی صورت میں نھیں پہنچایا گیا بلکہ خدا وند عالم کے حکم وفرمان اور عام مسلمانوں کی بیعت اور ان سے عھد کے ذریعہ سے عمل میں آیا ۔
وہ عظیم ا ور حساس مطالب جو ولایت کو بیان کر تے وقت خطبہ میں ذکرکئے گئے ھیں۔
خطبہ سے پھلے اور بعد واقع ہو نے والے خاص رسم و رسومات مانند بیعت ،عمامہٴ سحاب اور مبارکباد جو اس واقعہ کی خاص اھمیت پر دلالت کرتے ھیں ۔
خداوند عالم کا یہ خطاب ”آج میں نے تمھارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں“جو اس دن تک کسی بھی مو قع پر نھیں فرمایا گیا ۔
ائمہ علیھم السلام کا پیغمبر کے خطبہ غدیر کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دینا ،خاص طور پر حضرت امیرالمومنین اور حضرت زھرا علیھما السلام کا یہ فر مان ”پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر میں کسی کے لئے کو ئی عذر باقی نھیں چھوڑا “[14] نیز علماء کا ائمہ ٴ ھدیٰ علیھم السلام کی اتباع میں غدیر سے متعلق موضوعات کا تفصیل سے بیان کرنا کہ یھی ولایت و امامت کی بنیاد ھے ۔
تاریخی ،حدیثی ،کلا می اور ادبی اعتبار سے اس حدیث کی سند اور نقل کرنے کا اندازاسی طرح اس کلام کا لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جانا جو روایات ولایت میں ممتاز اور بے مثال ھے محققین اس روایت کے تواتر کو ثابت کرچکے ھیں اور تمام مسلمان چاھے وہ کسی بھی فرقہ اور مسلک کے ہوں اس حدیث کے صحیح ہو نے کا اعتراف کرتے ھیں
خطبہٴ غدیر میں آنحضرت (ص)کے بلند و بالا مقاصد
۱۔ اپنی تیئس سال کی زحمتوں کا نتیجہ اخذ کرنے کے لئے اپنا جانشین معین کرنا جس کے ذریعہ اس راہ کو برقرار رکھے گا۔
۲۔اسلام کو کفار و منافقین سے ھمیشہ کے لئے محفوظ کرنے کی خاطر ایسے جانشینوں کا معین فرمانا جو اس ذمہ داری کو نبھا سکیں ۔
۳۔ خلیفہ معین کرنے کےلئے قانونی طور پر اقدام کرنا جوھرقوم کے قوانین کے اعتبار سے ھمیشہ رائج رھا ھے اور تاریخ میں بطورسند ثابت ھے
۴۔اپنے تیئس سالہ پروگرام میں گذشتہ اور مسلمانوں کے ماضی اورحال کا بیان کرنا۔
۵۔دنیا کے اختتام تک مسلمانوں کے مستقبل کا راستہ ھموار کر نا ۔
۶۔لوگوں پر حجت تمام کرنا جو انبیاء علیھم السلام کی بعثت کاایک اصلی مقصد ھے۔
پیغمبر اکرم(ص) کے اس عملی اقدام کا نتیجہ جو اھل بیت علیھم السلام کے حق کو پہچاننے والوں اور اس کا اعتراف کر نے والوں کی کثرت، اور تاریخ میں اربوں شیعوں کا وجود خاص طور سے اس دور میں اس کی اھمیت کا بہترین گواہ ھے۔
حوالہ جات :
[1] بحا ر الانوار جلد :۱۸،۱۹،۲۰۔
[2] بحا ر الانوار جلد :۱۸ صفحہ ۱۴۸۔ ۲۴۳ ، جلد ۱۹ صفحہ ۱۔۲۷۔
[3] بحا ر الانوار جلد ۱۹ صفحہ ۱۰۴ ۔۱۳۳ ، جلد ۲۰ ،جلد ۲۱ صفحہ ۱ ۔۹۰۔
[4] بحا ر الانوار :جلد۲۱ صفحہ ۹۱۔۱۸۵۔
[5] بحا ر الانوار :جلد ۲۱ صفحہ ۱۸۵۔۳۷۸۔
[6] بحا رالانوار :جلد ۲۲۔اسی طرح منا فقین سے متعلق آیات ،قرآن کریم میں ملا حظہ فر ما ئیں ۔
[7] اس سلسلہ میں سورہ آل عمران ،نساء ،ما ئدہ، انفال ، تو بہ، عنکبوت ، احزاب ،محمد ، فتح ، مجا دلہ، حدید ، منافقین و حشر میں رجوع کریں۔
[8] منافقوں کی سازشوں کی تفصیل اس کتاب کے تیسرے حصہ میں بیان کی جا ئے گی ۔
[9] فیض الغدیر :صفحہ ۳۹۴۔
[10] اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے حصہ میں رجوع فر ما ئیں ۔
[11] عوالم : جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۸۔
[12] اس سلسلہ میں خطبہٴ غدیر کے گیا رہویں حصہ میں رجوع کیجئے ۔
[13] عوالم : جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۴ ۔
[14] بحا ر الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۱۸۶۔عوالم جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث