آغاز اسلام سے آج تک تا ریخ اسلام میں واقعہ کربلا سے زیادہ درد ناک واقعہ پیش نہیں آیا چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک مومنین کے دلوں میں اس کی تاثیر موجودہے اس زمانے سے اہل بیت(ع) کے چاہنے والوں نے اپنی توا نائی کے مطابق اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں۔
حادثہئ کربلا کے بارے میں بہت زیادہ اشعار پہلی صدی ہجری کے اختتام بعد اور بنی امیہ کا زوال کے دور مےں کہے گئے ہیں جیساکہ ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے کہ بہت سے متاخرین شعراء نے امام حسین(علیہ السلام) کے لئے مرثیہ کہے ہےں ، بحث کے طویل ہونے کی وجہ سے ہم ان اشعارکوذکر نہیں کرسکتے، لیکن بنی امیہ کے دور میں بنی امیہ کی طرف سے سختی کی بنا پراس وقت کے شعراء نے امام حسین(علیہ السلام) کے بارے میںبہت کم مرثیے کہے ہیں ۔ (۱)
جیسے عبیداللہ بن حربہ امام حسین(علیہ السلام) کا مرثیہ کہنے کی وجہ سے ابن زیاد کی زیادتی کا نشانہ بنے اور فرار کرنے پر مجبور ہوئے۔ (۲)
اگر چہ پہلی صدی ہجری ہی میں امام حسین(علیہ السلام) کے بارے میں کافی اشعار کہے گئے ہےںلیکن ان کا حجم دوسری صدی ہجری مےں کہے گئے اشعار کی بہ نسبت بہت کم ہے ، سب سے پہلے بنی ہاشم کی داغ دیدہ خواتین نے اپنے عزیزوں کے بارے میں مرثیہ کہے ہےں،جس وقت امام حسین علیہ السلام کی خبر شہادت مدینہ پہنچی بنی ہاشم زینب بنت عقیل سے نالہ و شیون کرتی ہوئی باہرنکل آئیں ان کی زبان پر یہ اشعار تھے :
ماذا تقو لون اذ قال النبی لکم
ماذا فعلتم وانتم آخر الامم
پیغمبر کو کیا جواب دوگے جب تم سے پوچھیں گے کہ اے آخری امت! تم نے کیا کیا؟
بعترتی وباهلی بعد مفتقدی
نصف اساری و نصف ضرٍّوجوابدم
میرے مرنے کے بعد میرے اہل بیت(ع) کے ساتھ تم نے کیاسلوک کیا؟ ان میں سے نصف کو اسیر کیا اور نصف کو خون میںنہلا یا۔
ما کان هذا جزائی اذ نصحت لکم
ان تخلفونی بشر فی ذوی رحمی (۳)
کیا میری یہی جزا تھی؟! کہ میں تمھاری ہدایت کروں اور تم میرے اہل بیت(ع) کے ساتھ بد رفتاری کرو۔
من جملہ دل خراش مراثی میں سے شہدائے کربلا کے بارے میں سب سے زیادہ دل خراش مرثیہ جناب ابو الفضل العباسؑ کی والدہ ئگراص۹۰می جناب ام البنینؑ کا مرثیہ ہے ابوالفرج اصفہانی نقل کرتے ہیں : حضرت عباسؑ کے فرزند عبید اللہ کا ہاتھ پکڑ کر جناب ام البنینؑ بقیع جاتی تھیں،مدینہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے تھے اور ان کے مرثیہ پڑھنے سے رو تے تھے ،مروان بن حکم جیسا شخص بھی اس بانو کے مرثیہ پر رو پڑا۔ (۴)
جناب ام البنین (ع)کے مرثیہ کے اشعار یہ تھے:
یامن رای العباس کر
علی جماهیر النقد
اے وہ لوگو! کہ جس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرا عباس (ع)کس طرح پست صفت لوگوں پر حملہ کرتا تھا۔
وورائة من ابناء حیدر
کل لیث ذی لبد
اس کے پیچھے فرزندان حیدر شیر کے مثل کھڑے رہتے تھے ۔
انبئت ان ابنی اصیب
براسه مقطوع ید
مجھے خبر دی گئی ہے کہ جب اس کے ہاتھ قلم ہوگئے تب سر پر گرز لگا ۔
ویل علیٰ شبلی اما لبراسه ضر ب العمد
افسوس میرے بیٹے کے سر پر گرزگراںپڑا۔
لوکان سیفکئ فی ید
یکئ لمادنا منکئ احد (۵)
(اے عباس! )اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو تیرے پاس کوئی نہیں آتا۔
جس وقت کربلا کے اسیروں کا کارواں مدینہ کی جانب چلا اور مدینہ کے نزدیک پہنچا تو امام زین الع بدین (ع)نے پہلے بشیر بن جذلم کو مدینہ بھیجا اور بشیر نے ان اشعار کے ساتھ اسیران اہل بیت علیہم السلام کے مدینہ میں داخلہ کی خبردی :
یا اهل یثرب لا مقام لکم بها
قتل الحسین فاد معی مدرار
اے اہل مدینہ! اب یہ جگہ تمھارے رہنے کے قابل نہیں رہی حسین(علیہ السلام) قتل کردئیے گئے ان پر آنسو بہاؤ ۔
ا لجسم منه بکربلامضرّج
والراس منه علیٰ ا لقناة یدار (۶)
ان کا جسم کربلا کی زمین پر خون میں غلطاں اور ان کا سر نیزہ کے اوپر بلند تھا۔
شاعروں کے درمیان خالدبن معدان،عقبہ بن عمرو،ابو الرمیح خزاعی،سلیمان بن قتہ عدوی ،عوف بن عبد اللہ احمر ازدی اور عبید اللہ بن حرّ پہلی صدی ہجری کے شعرا ء ہیں جنہوںنے مرثیہ گوئی کی ہے اور امام حسین(علیہ السلام) کی مصیبت میں اشعار کہے ہیں جس وقت خالد بن معدان نے شام میں حضرت کاسر نیزہ پر دیکھا تو یہ اشعارپڑھے:
جاؤ ا براسک یا ابن بنت محمّد
مترملاً بد ما ئه تر میلا
اے نواسہ رسول (ع) ! آپ کے سر کو خون میں ڈوبا ہوا لائے۔
و کانّمابک یا ابن بنت محمّد
قتلوا جهاراًعامدین رسولا
اے محمد(ص)کے نواسے! تمھیں علی الاعلان قتل کرکے چاہتے ہیں کہ پیغمبرص)سے انتقام لیں۔
قتلوک عطشاناًو لم یترقبوا
فی قتلک التنزیل والتاویلا
آپ کو پیاسا قتل کیا اور آپ کے قتل میں قرآن کی تاویل و تنزیل کی رعایت نہیں کی ۔
ویکبرون بان قتلت وانّما
قتلو بک التکبیر و التهلیلا (۷)
جب آپ قتل ہوئے تو تکبیریں بلند کیں حالانکہ آپ کے قتل ساتھ تکبیرو تہلیل کو بھی قتل کر دیا۔
گزشتہ شعرا ء میں عبید اللہ بن حر ہیں کہ جنہوں نے امام حسین(علیہ السلام) کی مصیبت میں مرثیہ کہا ان کے مرثیہ کا پہلا شعر یہ ہے :
یقو ل امیر غادر ای غادر
الا کنت قاتلت الشهید بن فاطمة
خائن کاامیر ،خائن کا بیٹا مجھ سے کہتا ہے کہ تم نے کیوں فاطمہ (ع)کے شہید فرزند کے ساتھ جنگ نہیں کی؟
ابن زیاد نے جس وقت ان اشعار کو سنا عبید اللہ کے پیچھے بھاگااس نے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی جان بچائی۔ (۸)
سلیمان بن قتۃ من جملہ اہم ترین مرثیہ کہنے والوں میں سے تھے ان کے اشعار یہ ہیں :
مررت علیٰ ابیات آل محمّد
فلم ارها کعهدها یوم حلّت
میں آل محمد (ع) کے گھروں کی جانب سے گزرا اور ان کو پہلے کی طرح بھرا ہوا نہیں پایا۔
و کانوا رجائً ثمّ صاروا رزیّة
و قد عظمت تلکئ الرّزایا وجلّت
آل محمد (ع) امید کا گھر تھے اور بعد میں مصیبت کا محل بن گئے اور وہ بھی بزرگ اورعظیم مصیبتیں۔
الم ترانّ الشمس اضحت مریضه
لفقد حسین والبلاد اقشعرّت
کیا تم نہیں دیکھتے سورج شہادت حسین(علیہ السلام)سے مریض ہو گیا ہے اور شہرافسر دہ ہوگئے ہیں۔
و قد اعولت تبکی السماء لفقده
وانجمها ناحت علیه و صلّت (۹)
کیا تم نہیں دیکھتے آسمان نے امام حسین(علیہ السلام)پر گریہ ونالہ کیا اور ستاروں نے نوحہ پڑھااور درود بھیجا ۔
پہلی صدی ہجری کے بعد اموی حُکّام کادباؤ عبّاسیوں کے ساتھ اختلاف و ٹکراؤ کی وجہ سے کم ہوا اور آخر کارامیوںکا عباسیوں کے ہاتھوں خاتمہ ہوا ائمّہ اطہار ؑنے امام حسین(علیہ السلام) کی مرثیہ گوئی کو زندہ کیا اور بزرگ شعرا جیسے کمیت اسدی،سید حمیری،سفیان بن مصعب عبدی،منصور نمری اوردعبل خزاعی ائمہ ؑکے حضور میں امام حسین(علیہ السلام)کی مصیبت میں اشعار پڑھتے تھے ۔
جیسا کہ سفیان بن مصعب عبدی نے نقل کیا ہے کہ میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہو اامام نے خادموں سے فرمایا: امّ فروہ سے کہو وہ آئیں اور سنیں ان کے جدامجد پر کیاگزری، امّ فروہ آئیں اور پشت پردہ بیٹھ گئیں، اس وقت امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا:پڑھو میںنے قصیدہ پڑھنا شروع کیاقصیدہ اس بیت سے شروع ہوتا ہے:
فرو جودی بدمعکئ المسکوب
اے فروہ اپنی آنکھوں سے آنسو بہاؤاس موقع پر ام فروہ اور تمام عورتوں کی آواز گریہ بلند ہو گئی ۔ (۱۰)
اسی طرح ابوالفرج اصفہانی،اسماعیل تمیمی سے نقل کرتے ہیں کہ میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ سید حمیری امام سے اجازت لے کر داخل ہو ئے امام نے اہل خانہ سے فرمایا: پشت پردہ بیٹھ جائیں، اس کے بعد سید حمیری سے امام حسین(علیہ السلام) کی مصیبت میں مرثیہ پڑھنے کو کہا، سید نے ان اشعار کو پڑھا :
امرر علیٰ جدث الحسین
فقل لا عظمه الزکیة
امام حسین(علیہ السلام) کی قبر کی طرف سے گزروتوان کی پاک ہڈیوں سے کہو ۔
یا اعظماًلازلت من
وظفاًوساکبه رویّه
اے ہڈےو سلامت رہو اور مسلسل سیراب ہوتی رہو۔
فاذا مررت بقبره
فاطل به وقف المطیّة
جس وقت ان کی قبرکے پاس سے گزرنا اونٹوں کے مانند دیر تک ٹھہرنا ۔
وابکئ المطهرللمطهر
والمطهرة النقیة
امام مطہّر کو حسین(علیہ السلام) مطہّرپر گریہ کراؤ ۔
کبکاء معوله اتت
یوماًلواحدها المنیة
اور تمھاراگریہ ایسا ہو جیسے ماںاپنے فرزند کی لاش پر روتی ہے۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ امام کی آنکھ سے آنسو جاری ہیں اور گھر سے بھی رونے کی آوازےں بلند ہےں۔ (۱۱)
کبھی کبھی دوسرے لوگ بھی جیسے فضیل رسان،ابو ہارون مکنوف وغیرہ سیدحمیری کے اشعار امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں پڑھتے تھے اور حضرت کو رلاتے تھے،ابن قولویہ کے مطابق امام صادق (ع) نے اپنے صحابی ابو عمار سے کہا: عبدی کے مرثیہ کے اشعار جو امام حسین(علیہ السلام) کے بارے میں ہیںمیرے سامنے پڑھو۔ (۱۲)
دعبل خزاعی نے امام حسین(علیہ السلام)کے لئے بہت سے مرثیہ کے اشعار کہے ہےں امام رضا علیہ السلام اپنے جد کا مرثیہ پڑھنے کے لئے ان کو بلاتے تھے۔ (۱۳)
---------------------
۱۔مقاتل الطالبین،منشورات الشریف الرضی،طبع دوم،۱۴۱۶ ھ،۱۳۷۴ ھ ش،ص۱۲۱
۲۔ابی مخنف ،مقتل الحسین(علیہ السلام) ،تحقیق حسن غفاری ،قم،طبع دوم ،۱۳۶۴ ھ،ش،ص۲۴۵
۳۔ مقتل الحسین،ص۲۲۷۔۲۲۸
۴۔ ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین،منشورات شریف الرضی ، قم ، طبع دوم ، ۱۴۱۶ ھ ۱۳۷۴ ھ ش، یی
۵۔ غفاری،حسن ،ذیل کتاب مقتل الحسین ابی مخنف،قم،۱۳۶۴ ،ص۱۸۱
۶۔ ابن طاؤس ،لھوف،ترجمہ محمد دز فولی،موسسہ فرہنگی وانتشاراتی انصاری،قم،طبع اول ۱۳۷۸ ،ص۲۸۴
۷۔ الامین،سیدمحسن،اعیان الشیعہ،دارالتعار ف للمطبوعات،بیروت ( بی تا) ج۱ ص ۶۰۲۳
۸۔ ابی مخنف،مقتل الحسین ،ص۲۴۵
۹۔ ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین، ص ۱۲۱
۱۰۔ علامہ امینی ، عبد الحسین ، الغدیر، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، ج۲ ص ۲۹۴۔۲۹۵
۱۱۔ علامہ امینی ، عبد الحسین ، الغدیر، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، ج۲ ص۲۳۵
۱۲۔ علامہ امینی ، عبد الحسین ، الغدیر، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، ج۲ ص۲۹۵
۱۳۔ مسعودی ، علی ابن الحسین ،مروج الذہب،منشورات لاعلمی للمطبوعات ، طبع اول ۱۴۱۱ ھ، ج۳ ص ۳۲۷، رجال ابن داؤد ، منشورات رضی ، قم ، ص