چھوٹے بچوں نے جن کے سرپر یتیمی کی سیاہ گھٹائیں چھا رہی تھیں باپ کی قبا کا دامن پکڑ کر کہا بابا ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہو بیوی زیادہ حوصلہ مند تھی مگر شوہر کو موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر وہ نہ رہ سکی روتے ہوئے بولی میرے سرتاج میں کیاکروں گی؟ بہن نے کہا زینب (ع) تم پر قربان مگر یہ تو کہو کہ بھیا نے تمہیں تیروں کی بارش میں جانے کی اجازت کیسے دے دی کیا دوسرے عزیزوں کی شہادت کے صدمے کچھ کم تھے کہ انہوں نے کمر توڑ ناگوارا کرلیا۔
جواں سال بھتیجے نے کہا چچا جان جب تک میرے دم میں دم ہے آپ کو یزیدی بھیڑیوں کے سامنے نہ جانے دوں گا اگر فرات پرجانا ضروری ہے تو یہ خدمت میرے سپرد کیجئے۔ بڑے بھائی نے کہا عباس (ع) میرا سینہ غم و اندوہ کے مارے پھٹا جاتا ہے۔ اور خیام حسین(ع) ٹھنڈی سانسوں‘ دلدوز چیخوں اور آسمان شگاف نالوں کے شور سے گونج اٹھے آج حسین (ع) کا چاہنے والا‘ علی (ع) کا شیر معصوم سکینہ (ع) کا سقہ مظلوم کربلا کا دست راست اور لشکر حسینی کا علمدار معراج شہادت حاصل کرنے جا رہا ہے آج بھائی بھائی پر جان قربان کرکے چچا بھتیجی کی پیاس بجھانے کے لیے لہو کی بوندوں کو پانی کے قطروں کی طرح بہانے جا رہا ہے فرشتے اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں اور حوریں جنت میں اس کی منتظر آسمانی مخلوق زبان حال سے پکار رہی ہے زندہ باد عباس (ع)
جب آہ وزاری کا شور کچھ کم ہوا تو عباس (ع) نے بی بی سکینہ (ع) سے مخاطب ہوکر کہا اٹھو بی بی اپنے چچا کو رخصت کرو میں جانتا ہوں کہ پیاس کی وجہ سے تمہارا دم لبوں پر ہے لیکن پانی کی فکر مجھے یہاں کھینچ لائی ہے ساقی کوثر کی پوتی سے اس کی سوکھی ہوئی مشک طلب کروں ا ور فرات کے لبالب کناروں تک پہنچنے کے لیے خون اشقیاء کی ندی بہادوں۔
آنسوؤں سے لبریز رخسار زرد پڑگئے ہونٹوں پر آئی ہوئی رونے کی آواز رک گئی سینہ پھاڑ کر نکلنے والی چیخیں گلے میں پھنس گئیں پر دیسیوں کا قافلہ عباس نامدار (ع) کا منہ تکنے لگا سکینہ خشک مشکیزہ اپنے چچا کے پاس لے آئی چچا نے فرط محبت میں اسے گود میں اٹھا لیاا ور بولے بی بی تمہارا سقہ جاتا ہے بارگاہ الہی میں دعا کرنا کہ تمہارے بابا کے خادم کی عزت رہ جائے اور وہ تین دن کے پیاسوں کو پانی سے سیراب کرسکے۔
حضرت عباس (ع) سبز پھریرا اڑاتے ہوئے خیمہ سے باہر نکلے تو دیکھا کہ دشمن خیموں کی طرف بڑھے چلے آتے ہیں اور شہزادہ کونین امام حسین (ع) اور حضرت علی اکبر(ع) انہیں پسپا کرنے میں مصروف ہیں حضرت عباس (ع) نے ملاعنہ کی طرف گھوڑا بڑھایا اور فرمانے لگے اے بدبختو ! شان امامت میں یہ گستاخی! بھاگنامت میں ابھی تمہیں اس حرکت کا مزا چکھاتا ہوں خبردار موت سر پر آپہنچی اب مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ یا بھاگنے کے لیے۔
علی (ع) کے شیر کی آواز میں رعد کی سی گرج تھی گھوڑے بدلتے گئے پیادہ سپاہ کے پاؤں اکھڑ گئے شیاطین کے ہاتھوں سے تلواریں چھوٹ گئیں شامی فوج سرا سیمہ ہو کر بہادر غازی کا منہ تکنے لگی علمدار رسول کے بیٹے نے کہا ہاشمی تلواریں نیام سے نکل آئیں۔ غیرت آل رسول جوش میں آگئی کفر ستان عرب میں نعرہ توحید بلند کرنے والے مولا کے فرزند سر ہتھیلی پر لے کرآپہنچے ہم وہ ہیں جنہوں نے غاضر یہ کی سی زمین پر اپنی جانیں قربان کردیں اور درجنت پر دق الباب کرکے دم لیا اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اور گناہ سے توبہ کرو ورنہ تیغ عباس (ع)تمہاری امیدوں اور آرزوؤں کا خون کیے بغیر نیام میں واپس نہ جائے گی اس رجز کو سن کر مارو آگے بڑھا لیکن اس حال میں کہ چہرے پر ہوائیاں آرہی تھیں اور گھبراہٹ میں تلوار کی بجائے نیزہ ہاتھ میں تھا۔
مارو کا دل خوف کی وجہ سے تیزی کے ساتھ دھڑک رہا تھا لیکن بظاہر ہنس کر بولا اے نوجواں مجھے تیری جوانی اور تیرے بانکپن پر رحم آتا ہے۔ جا اپنی ماں کی گود خالی نہ کر اپنی دلہن کے سہاگ میں آگ نہ لگا خدا کی قسم مجھے کسی پر رحم نہیں آتا۔ لیکن تیری جوانی کو دیکھ کر تجھ پر وار کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ جا۔۔۔ بہادران شام کے غضب کے شعلوں کو ہوا نہ دے کہ ان کی ایک چنگاری بھی تیرے خرمن حیات کو پھونک دینے کی طاقت رکھتی ہے۔
عباس علمدار(ع) کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہوگئیں تڑپ کر بولے او مردود تو واپس جانے کے لیے کسے کہتا ہے اسے جس کے پدربزرگوار نے بدروحنین کے معرکوں میں اشقیاء کے دانت کھٹے کردیئے اسے جسے شجاعت گھٹی میں ملی؟
اسے جس نے دشمن کو مارنا سیکھا لیکن اپنی جاں کے خوف سے راہ فرار اختیار کرنا نہ سیکھا سن لے اور کان کھول کر سن لے کہ میں فاتح خیبر کا فرزند ہوں آفتاب اپنی جگہ چھوڑ سکتا ہے چاند اپنے مقام سے ہٹ سکتا ہے ستارے شب کی سیاہی میں ڈوب سکتے ہیں مگر عباس پیٹھ دکھائے یہ ناممکن! اگر تیرے دست و بازو میں طاقت ہے تو وار کر اگر جان عزیز ہے تو جا۔ اس دوزخی کتے عمرو سعد کو بھیج دے۔
مارو بولا صاحبزادے اتنی چرب زبانی اچھی نہیں اگر زندگی سے بیزار ہے تو تلوار میان میں رکھ دے اور نیزہ سنبھال کیونکہ میں جلدی میں نیزہ ہی اٹھا لایا ہوں پھر میں تجھے اس بڑے بول کا مزہ چکھا دوں گا۔ عباس (ع) نے ہنس کر کہا ہم دشمن کی عاجزی و مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھاتے میں تلوار نیام میں رکھ لیتا ہوں تو وار کر اگر عباس (ع) تجھے تیرے ہتھیار سے خاک و خون میں نہ ملا دے تو کہنا یہ کہہ کر علمدار غازی (ع) نے اپنی تلوار نیام میں رکھ لی عباس کو نہتہ پاکر مارو نے نیزے سے وار کیا۔ جونہی نیزے کی نوک ان کے قریب پہنچی علی (ع) کے شیر نے اسے ہاتھ سے پکڑ لیا۔ اور اس زور سے کھینچی کہ اگر مارو نیزے کو ہاتھ سے چھوڑ نہ دیتا تو گھوڑے پر سے زمین پر آرہتا عباس (ع) نامدار نے اسی کے نیزے سے ایک بھرپور ہاتھ رسید کیا تیر گھوڑے کی پیٹھ کو چیرتا ہوا زمین کو چھونے لگا راسوار زمین پرگر پڑا اور اس کے ساتھ مارو بھی خاک نشین ہوگیا۔
مارو گھبرااٹھا اب اسے موت اپنی آنکھوں کے سامنے رقصاں نظر آنے لگی اس نے چلا کرکہا میری موت سے پہلے گھوڑا میرے پاس پہنچا دو اسی وقت ایک حبشی غلام ایک باد رفتار رہوار لے کر حاضر ہوا لیکن حضرت عباس (ع) ایک ہی جست میں اس کے پاس پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے نیزے سے غلام کو دوزخ میں پہنچا دیا اور خود اپنے گھوڑے سے کود کر طاریہ پہ سوار ہوگئے یہ وہ گھوڑا تھا۔ جو شیر خدا نے امام حسین (ع) کو عطا فرمایا تھا بعد ازاں ایک شامی قبیلہ اسے چرا لے گیا تھا۔
طاریہ پر سوار ہو کر عباس (ع) نے کہا او ملعون اب وار بچا دیکھ تیرا ہی گھوڑا ہے اور تیرا ہی نیزہ یہ کہہ کر انہوں نے ایک ہاتھ ایسا مارا کہ مارو کی لاش پھڑکتی نظر آنے لگی اشقیاء اپنے سردار کی یہ حالت دیکھ کر عباس نامدار (ع) پر پل پڑے اور سینکڑوں تلواریں ایک۔ صرف ایک غازی کا قلع قمع کرنے کے لیے میانوں سے نکل آئیں بلا کا معرکہ ہوا لیکن انجام کار تیغ عباس ظفر مند ہوئی یزیدی کتے ان کے بے پناہ حملوں کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور جان بچانے کے لیے بھاگنے لگے عباس (ع) گھوڑے کو ایڑ لگا کر نہر کی جانب جانا چاہتے تھے کہ زیارت امام (ع) کی خواہش نے بے قرارکردیا گھوڑا دوڑا کر بھائی کے پاس پہنچے اور بولے آقا دیکھئے یہ رہوار مارو کی مدد نہ کر سکا لیکن میرے اشارہ پر کنوتیاں بدلتا ہے۔
امام (ع) نے فرمایا بھیا کیوں نہ ہو حسن بھائی کاگھوڑا ہے مخالف اسے چرالے گئے اب تمہاری شجاعت کے انعام میں تمہیں مل گیا بھائی سے رخصت ہو کر عباس (ع) خیمہ کی طرف گئے بیبیاں انہیں دیکھ کر رونے لگیں ان کی شریک حیات تو رو رو کر بے ہوش ہوئی جاتی تھیں۔ شاید علی (ع) کا شیرانکی تسلی و تشفی کے لیے کچھ دیر اور وہاں ٹھہرتا لیکن باہر سے صدا آئی عباس (ع) پہنچو دشمن نے ہمیں گھیرلیاہے سکینہ کے ماشکی اللہ نگہبان اس خاتون نے جس کی مانگ عنقریب اجڑنے والی تھی حسرت بھرے لہجہ میں یہ الفاظ کہے لیکن عباس (ع) جواب دیئے بغیر دوڑے آقا و مولا کی جان خطرے میں تھی پھر وہ بیوی کے زخم دل پر مرہم رکھنے کے لیے خیمہ میں کیسے بیٹھ رہتے۔
لڑتے بھڑتے فصیل کو توڑتے تلواروں کی صفوں کو درہم برہم کرتے اور اشقیاء شام کے خون کی ندی بہاتے ہوئے عباس (ع) دریا کے کنارے پہنچ گئے نظر اٹھا کر دیکھا دور دور تک دشمنوں کا نام تک نہ تھا ایک جمعیت بدحواس ہو کر بھاگ رہی تھی کچھ افراتفری میں د ریا کے پار ہوگئے تھے اور کچھ میدان وفامیں بہادروں کی سی موت مرنے کی بجائے فرات کے گہرے پانیوں میں ڈوب رہے تھے سقائے سکینہ نے بھتیجی کی خشک مشک دریا میں ڈال دی اور لجام طاریہ ڈھیلی چھوڑ دی کہ یہ گرمی اور پیاس سے ہانپنے والا جانور پانی پی سکے لیکن طاریہ ۔۔۔ امام حسن (ع) کا رہوار منہ اوپر اٹھا کر جوں کا توں کھڑا رہا گویا زبان حال سے کہہ رہا تھا آقا آل ِ رسول پیاسی ہو اور میں اپنی پیاس بجھالوں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ رہوار اور سوار دونوں دریا سے پیاسے لوٹے مگر سقائے سکینہ کے ایک بازو پر بھتیجی کا پانی سے بھرا ہوا مشکیزہ لٹک رہا تھا۔
یکایک شور اٹھا اور بھاگنے والے سپاہی عباس علمدار (ع) کی طرف آتے دکھائی دیئے شمر کہہ رہا تھا کہ یہ مشک خیام حسین(ع) میں پہنچ گئی تو قیامت ہو جائے گی۔ سقائے سکینہ(ع) کو جان سے زیادہ مشک عزیز تھی گھوڑے کی رفتار تیز کردی کہ کسی نہ کسی طرح سکینہ (ع) کی امانت اسکے حوالے کردیں لیکن صف بند دشمنوں نے راستہ روک لیا عباس (ع) کے ایک بازو پر مشک لٹک رہی تھی اور دوسرے سے تلوار چلا رہے تھے کسی شقی قلب نے برادر امام کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ایک بازو پروار کیا اور وہ جسم پاک سے علیحدہ ہو کر زمین پر جاپڑا اس کڑیل جوان نے مشک دوسرے بازو پرلٹکادی اور اسی ہاتھ سے تلوار چلانے لگے ایک طرف یہ زخمی شیر تھا ایک بازو سے محروم‘ خون میں لت پت اور کمزوری سے نڈھال دوسری طرف ہزاروں گیدڑ عباس (ع) کا دوسرا بازو بھی کٹ کر گرا تو انہوں نے مشک کا تسمہ دانتوں سے پکڑ لیا اور گھوڑے کو ایڑ لگائی لیکن کہاں تک ایک ملعون نے تیر تاک کر مشک میں مارا اور فرات کا وہ قیمتی پانی جسے شہزادہ علی (ع) نے اپنا خون دے کر حاصل کیا تھا خون عباس (ع) کے ساتھ ساتھ زمین پر بہ گیا اسی وقت حکم بن طفیل نے عباس (ع) مجبور کے فرق مبارک کو گرز سے پاش پاش کردیا۔
عباس (ع) لڑکھڑا کر گھوڑے سے گرے اور بس ۔۔۔ سب ختم ہوگیا امام حسین (ع) کا دل خون ہو کر بہ گیا۔ نظارہ نہایت خوفناک تھا آہ کیا انسانیت اس قدر ذلیل ہوسکتی ہے؟ بنی ہاشم کا بانکا خاک و خون میں پڑا تھا اور وہ بزدل جنہیں زندگی میں اس کے قریب آنے کی جرات نہ ہوتی تھی اس کی لاش پر تلواروں اور بھالوں کی ضربات لگا لگا کر اپنے انتقام کی شیطانی آگ بجھا رہے تھے۔
امام عالی مقام رو دیئے کیوں نہ روتے ان کا بازو کٹ گیا تھا کمر ٹوٹ گئی تھی علی (ع) کا بیٹا امام وقت کا بھائی سکینہ کا ماشکی انہیں داغ مفارقت دے گیا تھا جن و ملائک حیوان و انسان چرند پرند سب جس کی یاد میں آنسو بہا رہے تھے اسے حسین (ع) کیوں نہ روتے لاش کے قریب پہنچ کر یزیدی کتوں کی حیوانیت کا منظر دیکھ کر امام (ع) کو غش آگیا جب ہوش آیا تو پیارے عباس (ع) سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے نقاہت کے باعث بھائی کو قبر میں اتارنے کی ہمت نہ ہوئی اسے سپرد خدا کرکے چلے اور کہتے گئے علی (ع) کے شیر تم میری امانت ہو میرے بعد اب سید سجاد (ع) ہی تم کو ہاتھ لگائیں گے فرشتوں کی صفیں تمہارا پہرہ دیں گی۔ یہاں تک کہ اسیر مظلوم کے ہاتھ تمہیں قبر میں اتاردیں۔
خیمہ عصمت میں جب بیبیوں اور بچوں نے عباس (ع) کی بجائے ان کے سبز پھریرے میں لپٹی ہوئی خشک مشک دیکھی تو روتے روتے بے حال ہوگئے آج خیمہ عصمت کی بیبیوں نے پہلی مرتبہ یہ کہاکہ اب ہم بے ردا ہوگئی ہیں۔
مدینہ میں جب ام البنین نے بیٹے کی شہادت کی خبر سنی تو یاس و حسرت سے بت بدیوار بن گئیں انہیں یقین نہ آتا تھا کہ عباس (ع) بھی قتل ہوسکتا ہے لیکن موت کی خبریں بہت کم غلط ثابت ہوتی ہیں جب شہادت عباس (ع) کی خبر کی تصدیق ہوگئی تو وہ دیوانوں کی طرح اٹھیں اور بقیع میں جاکر بین کرنے لگیں جب تک زندہ رہیں بقیع سے یہ صدا گیروں کے دل چیرتی رہی آہ عباس (ع) آہ بیٹا۔
خاندان رسالت کے دشمن بھی وہاں سے گزرتے تو رو دیتے تھے عورتیں بچے بوڑھے اور جوان ام البنین (ع) کی رونے کی آواز سن کر قبرستان کی دیوار سے سر پھوڑ لیتے اور کہتے اماں صرف تم نے ہی اپنا بیٹا نہیں کھویا بنی ہاشم نے اپنا محبوب کھودیا ہے مدینہ کا چاند غروب ہوگیا ہے اور اسے صرف تم ہی نہیں روتیں سارا شہر اس کی یاد میں آنسو بہاتا ہے۔
تاریخ کا فیصلہ
آل رسول کو محرومی ناکامی اور پسپائی کا شکار تصور کرنے والے اس حقیقت کوبھولتے ہیں کہ سرکار دو عالم کے بعد دنیائے اسلام میں جس شخص کو سب سے زیادہ مرجعیت حاصل ہے وہ امیر المومنین (ع) اور صرف امیر المومنین (ع) کی ذات گرامی ہے۔ ماننے کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں انداز مختلف ہوسکتے ہیں لیکن جہاں تک مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا تعلق ہے امیر المومنین (ع) سے زیادہ دنیائے اسلام میں مقبول و محبوب کوئی دوسری شخصیت ہے؟
شیعہ آپ (ع)کو پہلا امام اور خلیفہ بلافصل مانتے ہیں۔
اہل سنت آپ کو وصی رسول اور چوتھا خلیفہ تسلیم کرتے ہیں۔
صوفیاء آپ کو امام الاولیاء قرار دیتے ہیں۔
نصیری آپ کو خدا کہہ کر یاد کرتے ہیں جو ہمارے نزدیک کفر ہے۔
غرض یہ کہ خوارج و نواصب کے علاوہ جو بہ اتفاق امت دائرہ اسلام سے خارج ہیں دنیا کا ہر مسلمان آپ پر ایمان رکھتا ہے اور آپ کی یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو قطعاً ناقابل انکار ہے آپ کی محبت کو سارے مسلمان بلا اختلاف عقائد شرط ایمان تسلیم کرتے ہیں شیعہ‘ تفضیلیہ‘ صوفیاء اور خود اہل سنت کا تعلیم یافتہ طبقہ آپ کو تمام صحابہ سے افضل مانتا ہے اور مسلمانوں میں بحیثیت مجموعی بڑی اکثریت بعد رسول ساری امت پر آپ کی فضیلت کی قائل ہے آپ کو سرکار دو عالم کا روحانی جانشین اور وصی ماننے پر ساری امت کا اجماع ہے اور یہ سب اس حالت میں کہ بنی امیہ نے آپ کا نام مٹا دینے کی ہر امکانی کوشش کی قریش کے خلافت ساز طبقہ نے ہمیشہ آپ کو نظر انداز کیا اور متعصب و تنگ نظر علماء نے جو سلاطین کے وظیفہ خوار تھے تحریر کی ساری صلاحیتیں آپ کے فضائل پر پردہ ڈالنے اور اغیار کے ”فضائل“ کو ابھارنے میں صرف کردی تھیں یہ ضرور ہے کہ عہد بنی امیہ میں آپ پر سب و شتم ہوا اور بظاہر اس عہد میں آپ کی شخصیت ناکام نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس عہد میں بھی آپ کو ایک عظیم اصولی فتح نصیب ہوئی اس لئے کہ جمہور مسلمین کے نزدیک آپ کی خلافت خلافت راشدہ کا جزو ہے اور اس پر ایمان رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے ایسی حالت میں جن لوگوں نے بنی امیہ کے ساتھ مل کر آپ پر سب و شتم کیا وہ خود اہل سنت کے نقطہ نظر سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے اس لئے کہ انہوں نے اسلام کے چوتھے خلیفہ کی خلافت سے انکار کیا اور اس طرح ایک ایسے بنیادی عقیدہ کے منکر ہوئے جن پر عامتہ المسلمین کا اجماع ہے۔
یہاں ایک اور دلچسپ سوال ذہن میں پیدا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ دور بنی امیہ میں جن لوگوں نے امیر المومنین (ع) پر سب و شتم میں حصہ لیا اور اس طرح خلافت راشدہ کے ایک رکن کی خلافت سے انکار کیا ان کو مسلمان اور مسلمانوں کا خلیفہ قرار دینا کس اصول سے جائز ہوسکتا ہے؟
ظاہر ہے کہ ان حضرات کومسلمان قرار دینے کے لیے یہ اصول وضع کرنا پڑے گا کہ خلافت راشدہ کے ارکان کی خلافت سے انکار کرنے اور ان پر لعن طعن کرنے سے کوئی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا‘ یہی نہیں بلکہ اس حرکت کا ارتکاب کرنے والا خلیفتہ المسلمین بھی قرار دیا جاسکتا ہے جیسا کہ سلاطین بنی امیہ کے سلسلہ میں کیاگیا۔ تو پھر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی ایک جماعت خلافت راشدہ کے تین ارکان سے اظہار بیزاری کرتی ہے اور ان کی خلافت کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے تو اس پر اعتراض کیوں؟
اگر امیر معاویہ دوسرے خلفائے بنی امیہ اور اس عہد کے دوسرے حضرات کو جو تمام تر تابعین اور تبع تابعین پر مشتمل ہیں (اور جن میں عہد یزید و معاویہ کے صحابہ بھی شامل ہیں) مسلمانوں کی چوتھی خلافت سے انکار نیز اس پر سب و شتم کرنے کے باوجود مسلمان قرار دیا جاتا ہے تو تین خلافتوں سے انکار کرنے والوں کو بھی مسلمان قرار دینا پڑے گا بلکہ عدالت صحابہ کے عقیدہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا اور ان تمام مسلمانوں کے اسلام سے بھی انکار کرنا پڑے گا جو بنی امیہ کے خلفاء کی بیعت کرتے رہے‘ ان پر ایمان کا اظہار کرتے رہے یا ان کو مسلمان تسلیم کرکے انکا احترام واجب قرار دیتے رہے۔ ان میں چاہے تابعین ہوں چاہے تبع تابعین ہوں چاہے علماء و محدثین ہوں چاہے مفسرین و متکلمین ہوں اور چاہے جمہور مسلمین ہوں‘ سب کا ایمان مشتبہ ہو جانا ضروری ہے۔
اگر ان حضرات کا اسلام ثابت کرنے کے لیے یہ بہانا تراشا گیا کہ لوگوں نے بنی امیہ کی بیعت صرف تلوار کے خوف سے کی تھی تو ساری دنیائے اسلام پر جس میں صحابہ اور تابعین بھی شامل تھے ”تقیہ کا الزام“ عائد ہو جائے گا اور اس کا جواب دینا مشکل ہوگا!
عہد بنی امیہ میں بھی امیر المومنین (ع) کی حقانیت کا اعلان و اعتراف بار بار ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ امیر معاویہ کے انتقال کے صرف ساڑھے تین سال بعد بنی امیہ کے تیسرے خلیفہ ابولیلی معاویہ بن یزید نے بھرے دربار میں یہ اعتراف کیا کہ امیر المومنین (ع)حق پہ تھے اور معاویہ نے مسئلہ خلافت میں آپ سے جو تنازعہ کیا وہ سراسر سینہ زوری دھاندلی اور غلط کاری پر مشتمل تھا‘ امیر المومنین (ع) کی اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہوسکتی ہے کہ خود امیر معاویہ کے وارث نہ صرف یہ کہ اپنے دادا کو ناحق کوشش قرار دیا بلکہ اس سلطنت پر ٹھوکر مار دی جس کے لئے امیر معاویہ نے امیر المومنین (ع) سے تنازعہ کیا تھا۔
معاویہ بن یزید کا یہ اعلان حق اس امر کا ثبوت ہے کہ ابوسفیان اور معاویہ کی نسل نے بالاخر اسی اسلام کے سامنے سرنیاز خم کر دیا جسے یہ دونوں تلوار‘ سازش اور مکر کے سہارے مٹا دینا چاہتے تھے اور یہ سیاست علویہ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ امیر المومنین (ع) سے پیشتر والے خلفاء نے بے بس اور ناطاقت بنی امیہ کو شام کی گورنری کی رشوت دی لیکن وہ ان کو نہ صرف یہ کہ مسلمان نہیں بناسکے بلکہ ان کو اسلام دشمنی کی ایک بڑی قوت عطا کرگئے۔ آل رسول نے اس کے برعکس بنی امیہ کے کفر باطنی کا مقابلہ کیا اور اپنی قربانیوں کے سہارے یہ عظیم فتح حاصل کی کہ۔
۱۔ آل ابوسفیان کے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لیے حکومت نکل گئی یعنی مادی اعتبار سے اس کا خاتمہ ہوگیا اور
۲۔ اسے اسلام قبول کر لینا پڑا یعنی اس کی ظاہری حیثیت و اقتدار کے ساتھ اس کی کفر نواز تحریک کا بھی خاتمہ ہوگیا۔
یہ صحیح ہے کہ حکومت بنی امیہ کے ہاتھوں میں رہی لیکن خالد بن یزید کے بعد آل ابوسفیان حکمران نہیں رہی بلکہ بنی امیہ کی مروانی شاخ حکمران ہوئی۔ ابو سفیان کی نسل میں معاویہ کے صرف ساڑھے تین سال بعد تک حکومت رہی اور اس کے بعد اس کا خاتمہ ہوگیا۔
مروانی خلفاء میں عمر بن عبد العزیز نے امیر المومنین (ع) پر سب و شتم بند کرا دیا اور اس طرح عملاً یہ تسلیم کرلیا کہ امیر معاویہ سے لے کر بنی امیہ کے دس خلفاء تک سب ایک مستقل گناہ کا ارتکاب کرتے رہے اور جو لوگ ان خلفاء کی بیعت کرتے رہے یا آج بھی ان سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں وہ ایک بڑی غلط کاری کے مرتکب ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
اس سلسلہ میں یہ بھی ایک دلچسپ چیز ہے کہ علمائے اسلام عمر بن عبد العزیز کو خلفائے راشدہ میں شامل کرتے ہیں اور اسے بنی امیہ کے ملک مخصوض سے علیحدہ ایک دیندار خلیفہ تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ دنیا کے سارے مسلمان امیر معاویہ اور ان کے جانشینوں کے اس فعل کی مذمت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی (ع) پر سب و شتم کراتے رہے اور چاہے زبان سے اس کا اقرار نہ کیا جائے لیکن عمر بن عبد العزیز سے جو بیعت اور اظہار عقیدت کرنے والے اس منطقی نتیجہ کی زد سے باہر نہیں جاسکتے کہ وہ امیر معاویہ اور بنی امیہ کے دوسرے حکمرانوں کو عملاً غلط کار تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اگر اس منطقی نتیجہ کو نہ مانا گیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ عمر بن عبد العزیز سے جو بیعت کی گئی وہ بھی جھوٹی تھی اور جو اظہار عقیدت کیاجاتا ہے وہ بھی نمائشی ہے۔
خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے آل رسول کو فدک بھی واپس کردیا جو آل رسول کی ایک عظیم اخلاقی اور اصولی فتح تھی۔ عمر بن عبد العزیز نے اپنے اس عمل سے ثابت کردیا کہ جن لوگوں نے فدک کو ضبط کیا تھا یا اس کی ضبطی کے لیے ایک حدیث کا سہارا لیا تھا وہ غلطی پر تھے اور جس حدیث کو انہوں نے اپنے فعل کی دلیل قرار دیا تھا وہ سرے سے مجہول اور وضعی تھی اس لیے کہ اگر اس منطقی نتیجہ کو تسلیم نہ کیا جائے تو عمر بن عبد العزیز کے اس اقدام کی مذمت کرنا واجب ہو جائے گا اور یہ کہنا پڑے گا کہ اس نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی مخالفت اور توہین کی اس لیے وہ خلافت کا اہل نہیں تھا لیکن کوئی مسلمان عمر بن عبد العزیز پر یہ الزام عائد نہیں کرتا بلکہ سب اسے ایک خلیفہ راشد تسلیم کرتے ہیں جو اس کا ثبوت ہے کہ سارے مسلمان زبان سے نہ سہی لیکن اپنے عمل سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فدک کی ضبطی بھی غلط تھی اور وہ حدیث بھی وضعی تھی جسے اس ضبطی کی دلیل قرار دیا گیا تھا۔ عمر بن عبد العزیز کی بیعت کرنے والے مسلمان عملاً یہ ثابت کرتے ہیں کہ فدک کی ضبطی غیر عادلانہ اور غیر منصفانہ تھی اور جو حکومت غیر عادلانہ حرکتوں کی مرتکب ہو اسے کم از کم خلافت کے محترم لقب سے نوازنا قطعاً غلط ہے۔
فدک کے سلسلہ میں یہ چیز بڑی دلچسپ ہے کہ اسے بار بار ضبط کیا اور واپس کیا جاتا رہا جو خلیفہ چاہتا تھا اسے ضبط کرلیتا تھا اور جو چاہتا تھا واپس کر دیتا تھا اور سواد اعظم اسلام ان میں سے ہر خلیفہ کو خلیفہ برحق واجب الاطاعت امیر اور اپنا پیشوا تسلیم کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ سواد اعظم کے نزدیک فدک کی ضبطی اور واپسی دونوں درست ہیں۔ کسی وقت یہ فعل جائز ہو جاتا ہے اور کسی وقت ناجائز‘ جوبے اصولی کا ایک ایسا عجیب و غریب شاہکار ہے جس پر ہر سچا مسلمان شرم سے سرجھکالینے پر مجبور ہے۔
فدک کی ضبطی اور واپسی کی یہ عجیب و غریب داستان اور مسلمانوں کی یہ بے اصولی کی وہ ان متضاد نظریات رکھنے والے خلفاء میں سے ہر ایک کو امیر مطاع اور پیشوا تسلیم کرتے رہے۔ امیر المومنین (ع) کی ایک عظیم اخلاقی اور اصولی فتح ہے اس لیے کہ فدک کی ہر واپسی کے موقع پردنیائے اسلام کو عملاً یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ فدک کو ضبط کرنا ایک غیر عادلانہ فعل تھا اور جو لوگ ایک غیر عادلانہ فعل کے مرتکب ہوئے وہ خلافت کے سے عظیم منصب کے اہل نہیں قرار دیئے جاسکتے تھے۔ مسلمانوں کا یہ بار بار کا اقرار ان تمام خلافتوں کو باطل قرار دے دیتا ہے۔ جو قریش نے امیر المومنین (ع) کو نظر انداز کرکے قائم کی تھیں اور کم از کم دنیا پر یہ ضرور ظاہر کر دیتا ہے کہ بار بار امت کا ”اجماع“ اس امرپر ہوچکا ہے کہ ابتدائی تین خلافتوں نے فدک کو غصب کرکے ایک بڑا ظلم کیا تھا‘ ان خلافتوں کے غیر عادلانہ فعل پر بار بار ”اجماع امت“ کے سامنے اس ایک بار کے ”اجماع“ کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے جو وفات رسول کے بعد وجود میں آیاتھا؟
بنی امیہ کے بعد بنی عباس کی حکومت قائم ہوئی اور ساری دنیائے اسلام نے ان کی بیعت کی۔ آل عباس کے پہلے خلیفہ ابوالعباس السفاح نے حصول خلافت کے بعد ہی جو پہلا خطبہ پڑھا اس میں اس نے نہ صرف یہ کہ بنی امیہ کے تمام خلفاء کی تکذیب کی بلکہ ابتدائی تین ”خلفا راشدین“ کی خلافت کو بھی ناجائز قراردیا۔ السفاح نے کھلم کھلا الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ رسول اللہ کے سچے جانشین وارث اور خلیفہ بلافصل امیر المومنین حضرت علی (ع) تھے اور جن لوگوں نے امر خلافت میں آپ سے تنازعہ کیا یا خود مسند آرائے خلافت بن بیٹھے وہ ہرگز اس فعل کے مجاز نہیں تھے۔
السفاح کا یہ خطبہ اس کے عقائد کا ایک واضح اعلان تھا اور اس حقیقت سے انکار محال ہے کہ اس اعلان عقائد کے بعد ساری دنیائے اسلام نے اس کی بیعت کی یہ چیز تین حالتوں سے خالی نہیں۔
۱۔ یاتو ساری دنیائے اسلام نے السفاح کے ان عقائد کو تسلیم کرلیا۔
۲۔ یا دنیا بھر کے مسلمانوں نے ”تقیہ“ کے طور پر عباسیوں کی بیعت کی۔
۳۔ اور یا پھر سوداعظم اسلام کا کوئی اصول نہیں اس لیے کہ وہ جب چاہئے اسلام کے تین خلفاء اور بنی امیہ کے سلاطین کی بیعت کرسکتا ہے۔اور جب چاہے ان کو غاصب قرار دے سکتا ہے اور دونوں حالتوں میں اس کا مذہب قائم رہتا ہے۔
ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت قبول کی جائے گی وہ امیر المومنین (ع) کی فتح کہلائے گی اور مذہب اہل بیت (ع) کی کھلی ہوئی کامیابی تصور کی جائے گی۔
السفاح کے بعد منصور دوانقی نے اپنے پیشرو کے عقائد میں ترمیم کی اور یہ دعویٰ کیا کہ خلافت دراصل حضرت عباس کا حق تھی یہ ایک عجیب و غریب دعوی تھا اور آج دنیا کا کوئی مسلمان اسے تسلیم نہیں کرتا لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے اس دعویٰ کے باوجود منصور کی بیعت کی اور اسے خلیفہ تسلیم کیا۔
بہر حال حضرت عباس (ع) کے دعوے خلافت کے نتیجہ میں منصور نے پوری ”خلافت راشدہ“ کو مسترد کردیا اور ان تمام صحابہ تابعین اور تبع تابعین کی تکذیب کردی جو اس نظام خلافت کے علمبردار تھے اورساری دنیائے اسلام نے منصور کی بیعت کرکے اس کے اس فیصلہ پر