امام حسین علیہ السلام کی شہادت
سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے جب فقط تین یا چار ساتھی رہ گئے تو آپ نے اپنا یمنی لباس منگوایا جو مضبوط بناوٹ کا صاف و شفاف کپڑا تھا اسے آپ نے جا بجا سے پھاڑ دیا اور الٹ دیا تاکہ اسے کوئی غارت نہ کرے ۔[1] اور[2]اس بھری دوپہر میں آپ کافی دیر تک اپنی جگہ پر ٹھہرے رہے۔
دشمنوں کی فوج کا جو شخص بھی آپ تک آتا تھا وہ پلٹ جاتا تھا کیونکہ کوئی بھی آپ کے قتل کی ذمہ داری اور یہ عظیم گناہ اپنے سر پر لینا پسند نہیں کر رہا تھا۔ آخر کار مالک بن نسیربدّی کندی [3] آنحضرت کے قریب آیا اور تلوار سے آپ کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ برنس (ایک قسم کی ٹوپی جو آغاز اسلام میں پہنی جاتی تھی ) جو آپ کے سر پر تھی شگافتہ ہوگئی اور ضرب کا اثر آپ کے سر تک پہنچا اور آپ کے سر سے خون جاری ہوگیا ، برنس خون آلود ہوگئی، تو حسین علیہ السلام نے اس سے کہا :
’’لا أکلت بھا ولا شربت وحشرک اللّٰہ مع الظالمین‘‘ تجھے کھانا، پینا نصیب نہ ہو، اور اللہ تجھے ظالموں کے ساتھ محشور کرے ۔ پھر آپ نے اس برنس کوالگ کیا اور ایک دوسری ٹوپی منگوا کر اسے پہنا اور اس پر عمامہ باندھا[4]۔
اسی طرح سیاہ ریشمی ٹوپی پر آپ نے عمامہ باندھا۔ آپ کے جسم پر ایک قمیص[5] یا ایک ریشمی جبہ تھا ،آپ کی ڈاڑھی خضاب سے رنگین تھی، اس حال میں آپ میدان جنگ میں آئے اورشیربیشۂ شجاعت جیسا قتال شروع کیا، دشمنوں کے ہر تیر سے خود کو ماہرانہ انداز میں بچا رہے تھے، دشمن کی ہر کمی اور ضعف سے فائدہ اٹھارہے تھے اور اسے غنیمت و فرصت شمار کرتے ہوئے اور دشمن پر بڑا زبردست حملہ کر رہے تھے[6]۔
اسی دوران شمراہل کوفہ کے دس پیدلوں کے ساتھ حسین علیہ السلام کے خیموں کی طرف بڑھنے لگا جن میں آپ کے اثاثہ اور گھر والے تھے۔ آپ ان لوگوں کی طرف بڑھے تو ان لوگوں نے آپ اور آپ کے گھر والوں کے درمیان فاصلہ پیدا کردیا۔ یہ وہ موقع تھا جب آپ نے فرمایا:
’’ ویلکم !ان لم یکن لکم دین ،وکنتم لاتخافون یوم المعاد فکونوا في أمردنیاکم أحراراً ذوی أحساب ! امنعوارحلی وأھلي من طغامکم وجھالکم !‘‘وائے ہو تم پر! اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور تمہیں قیامت کا خوف نہیں ہے توکم ازکم دنیاوی امور میں تو اپنی شرافت اور خاندانی آبرو کا لحاظ رکھو ؛ ان اراذل و اوباشوں کو ہمارے خیموں اور گھر والوں سے دور کرو۔
یہ سن کرشمر بن ذی الجوشن بولا : اے فرزند فاطمہ یہ تمہاراحق ہے! یہ کہہ کر اس نے آپ پر حملہ کردیا، حسین (علیہ السلام) نے بھی ان لوگوں پر زبر دست حملہ کیا تووہ لوگ ذلیل ورسوا ہوکر وہاں سے پیچھے ہٹ گئے[7]۔
عبداللہ بن عمار بارقی[8] کابیان ہے: پھر پیدلوں کی فوج پر چپ و راست سے آپ نے زبردست حملہ کیا ؛پہلے آپ ان پر حملہ آور ہوئے جو داہنی طرف سے یلغار کررہے تھے اور ایسی تلوار چلائی کہ وہ خوف زدہ ہوکر بھاگ گھڑے ہوئے پھر بائیں جانب حملہ کیا یہاں تک وہ بھی خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے۔خداکی قسم میں نے کبھی ایسا ٹوٹا ہوا انسان نہیں دیکھا جس کے سارے اہل بیت، انصار اور ساتھی قتل کئے جا چکے ہوں اس کا دل اتنا مستحکم، اس کا قلب اتنا مطمئن اور اپنے دشمن کے مقابلہ میں اس قدر شجاع ہو جتنے کہ حسین علیہ السلام تھے۔ خداکی قسم میں نے ان سے پہلے اور ان کے بعد کسی کو ان کےجیسا نہیں دیکھا۔ اگرپیدل کی فوج ہوتی تھی تو چپ و راست سے ایسا ذلیل ورسوا ہو کے بھاگتی تھی جیسے شیر کو دیکھ کر ہرن بھاگتے ہیں[9]۔
اسی دوران عمر بن سعد، امام حسین علیہ السلام کے قریب آیا، اسی اثناء میں امام ؑ کی بہن زینب بنت فاطمہ علیھاالسلام خیمہ سے باہرنکلیں اورآواز دی : ’’یاعمر بن سعد ! أیقتل أبو عبداللّٰہ وأنت تنظر الیہ ‘‘ اے عمر بن سعد! کیاابو عبداللہ الحسین قتل کئے جارہے ہیں اور توکھڑا دیکھ رہا ہے۔ تو اس نے اپنا چہرہ ان کی طرف سے پھیرلیا[10] گویا میں عمر کے آنسوؤں کو دیکھ رہا تھا جو اس کے رخسار اور ڈاڑھی پر بہہ رہے تھے [11]۔ادھر آپ دشمنوں کی فوج پر بڑھ بڑھ کر حملہ کرتے ہوئے فرمارہے تھے :
’’ أعلی قتلي تحاثون؟ اما واللہ لا تقتلون بعدي عبدا من عباداللّٰہ أسخط علیکم لقتلہ مني !و أیم اللہ اني لأرجو أن یکرمنی اللّٰہ بھوا نکم ثم ینتقم لي منکم من حیث لا تشعرون [12]أماواللّٰہ لو قد قتلتموني لقد ألقی اللّٰہ بأسکم بینکم وسفک دمائکم ثم لا یرضی لکم حتی یضاعف لکم العذاب الألیم [13]!‘‘ کیا تم لوگ میرے قتل پر( لوگوں کو) بر انگیختہ کر رہے ہو ؟خدا کی قسم میرے بعد خدا تمہارے ہاتھوں کسی کے قتل پر اس حد تک غضبناک نہیں ہوگا جتنا میرے قتل پروہ تم سے غضبناک ہوگا ،خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ تمہارے ذلیل قرار دینے کی وجہ سے خدا مجھے صاحب عزت و کرامت قرار دے گا پھر تم سے ایسا انتقام لے گا کہ تم لوگ سمجھ بھی نہ پاؤ گے خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے مجھے قتل کردیا تو خدا تمہاری شرارتوں کو تمہارے ہی درمیان ڈال دے گا ، تمہارے خون تمہارے ہی ہاتھوں سے زمین پر بہا کریں گے اس پر بھی وہ تم سے راضی نہ ہوگا یہاں تک کہ درد ناک عذاب میں تمہارے لئے چند گُنا اضافہ کردے گا ۔
پھر پیدلوں کی فوج کے ہمراہ جس میں سنان بن انس نخعی ، خولی بن یزید اصبحی [14]صالح بن وہب یزنی ، خشم بن عمرو جعفی اور عبدالرحمن جعفی [15] موجود تھے شمر ملعون امام حسین علیہ السلام کی طرف آگے بڑھا اور لوگوں کوامام حسین علیہ السلام کے قتل پر اُکسانے لگا تو ان لوگوں نے حسین علیہ السلام کو پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا ۔ اسی اثنا ء میں امام حسین علیہ السلام کی طرف سے آپ کے خاندان کاایک بچہ [16]میدان میں آنکلا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن زینب بنت علی (علیہماالسلام ) سے کہا:
’’احبسیہ‘‘ بہن اسے روکو، تو آپ کی بہن زینب بنت علی( علیہما السلام) نے روکنے کے لئے اس بچے کو پکڑا لیکن اس بچہ نے خود کو چھڑا لیا اور دوڑتے ہوئے جاکر خود کو حسین علیہ السلام پر گرادیا ۔اسی وقت بحر بن کعب نے ام حسین علیہ السلام پر تلوارچلائی تو اس بچہ نے کہا : ’’یابن الخبیثہ ! أ تقتل عمي‘‘ اے پلید عورت کے لڑکے ! کیا تومیرے چچا کوقتل کر رہا ہے [17]؟ تو اس نے تلوار سے اس بچہ پر وار کردیا۔ اس بچے نے اپنے ہاتھ کو سپر قرار دیا اور بچہ کا ہاتھ کٹ کر لٹکنے لگا تو اس بچے نے آواز دی:’’ یا أمتاہ‘‘ اے مادر گرامی مدد کیجیے۔ حسین علیہ السلام نے فوراً اسے سینے سے لگالیا اور فرمایا:
’’ یابن أخي [18] اصبر علی مانزل بک واحتسب فی ذالک الخیر ، فان اللّٰہ یلحقک بآبائک الصالحین برسول اللّٰہ وعلی بن أبی طالب و حمزۃ والحسن بن علی صلی اللّٰہ علیھم أجمعین‘‘[19]و[20] ’’اللھم امسک عنھم قطر السماء وامنعھم برکات الارض اللّٰھم فان متعتھم الی حین ففرقھم فرقاواجعلھم طرائق قدداً ولاترضی عنھم الولاۃ أبداً فانھم دعونا لینصرونا فعدوا علینا فقتلونا[21]‘‘ جان برادر! اس مصیبت پر صبر کرو جو تم پر نازل ہوئی اوراس کو راہ خدا میں خیر شمار کرو، کیونکہ خدا تم کو تمہارے صالح اور نیکو کار آباء و اجداد رسول خدا، علی بن ابیطالب ،حمزہ اور حسن بن علی، ان سب پر خدا کا درود و سلام ہو،کے ساتھ ملحق کرے گا ۔خدایا !آسمان سے بارش کو ان کے لئے روک دے اور زمین کی برکتوں سے انھیں محروم کردے! خدایا! اگر اپنی حکمت کی بنیاد پر تونے اب تک انھیں بہرہ مند کیاہے تواب ان کے درمیان جدائی اورپراکندگی قرار دے اور ان کے راستوں کو جدا جدا کردے اور ان کے حکمرانوں کو کبھی بھی ان سے راضی نہ رکھنا کیونکہ انھوں نے ہمیں بلایا تاکہ ہماری مدد کریں لیکن ہم پر حملہ کردیااور ہمیں قتل کر دیا۔
پھر اس بھری دوپہر میں کافی دیر تک حسین علیہ السلام آستانۂ شہادت پر پڑے رہے کہ اگر دشمنوں میں سے کوئی بھی آپ کو قتل کرنا چاہتا تو قتل کردیتا لیکن ان میں سے ہر ایک اس عظیم گناہ سے کنارہ کشی اختیار کر رہا تھا اور اسے دوسرے پر ڈال رہا تھا ۔ہر گروہ چاہ رہا تھا کہ دوسرا گروہ یہ کام انجام دے کہ اسی اثناء میں شمر چلّایا :وائے ہو تم لوگوں پر! اس مرد کے سلسلے میں کیا انتظار کررہے ہو، اسے قتل کرڈالو، تمہاری مائیں تمہارے غم میں بیٹھیں! اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ چاروں طرف سے دشمن آپ پر حملے کرنے لگے ۔
آخری لمحات
اب آپ پر چاروں طرف سے حملے ہونے لگے۔زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ کی بائیں ہتھیلی پر ایک ضرب لگائی [۲۲] اور ایک ضرب آپ کے شانے پر لگائی۔ یہ وہ موقع تھاجب آپ کے بیٹھنے کی تاب ختم ہوچکی تھی۔ آپ منہ کے بل زمین پرآئے اسی حال میں سنان بن انس نخعی آگے بڑھا اور آپ پر ایک نیزہ مارا جو آپ کے جسم میں پیوست ہوگیا لیکن اب کوئی بھی امام حسین علیہ السلام کے نزدیک نہیں ہورہاتھا مگر یہ کہ شمر بن ذی الجوشن ہی آگے بڑھا اور اس خوف میں کہ کہیں کوئی دوسرا شخص حسین علیہ السلام کے سر کو امیر کے پاس نہ لے جائے؛ لہٰذا وہ آپ کی شہادت گاہ کے پاس آیا اورآپ کو ذبح کردیا اورآپ کے سر کو کاٹ ڈالا [۲۳]اور اسے خولی بن یزید اصبحی کی طرف پھینک دیا ۔
اب لباس اور اسباب لوٹنے کی نوبت آئی تو آپ کے جسم پر جو کچھ بھی تھا کوئی نہ کوئی لوٹ کر لے گیا۔ آپ کی اس یمانی چادر کو جسے قطیفہ[۲۴] کہاجاتا ہے قیس بن اشعث نے لے لیا[۲۵]۔ اسحاق بن حیوۃ بن حضرمی نے امام حسین علیہ السلام کی قمیص کو لوٹ لیا [۲۶]قبیلۂ بنی نہشل کے ایک شخص نے آپ کی تلوار لے لی، آپ کی نعلین کو ’’اسود اودی‘‘ نے اٹھا لیا۔آپ کے پاجامہ کو’’ بحر بن کعب ‘‘لے گیا[۲۷] اور آپ کو برہنہ چھوڑ دیا [۲۸]۔
.....................................................
[1] آپ کے اصحاب نے آپ سے کہا : اگر آپ اس کے نیچے ایک چھوٹا سا کپڑاپہن لیتے تو بہتر ہوتا۔ آپ نے جواب دیا:’’ ثوب مذلہ ولا ینبغی لی أن البسہ ‘‘ یہ ذلت ورسوائی کا لباس ہے اور میرے لئے مناسب نہیں ہے کہ میں اسے پہنوں۔ جب آپ شہید ہوگئے تو بحر بن کعب وہ یمنی لباس لوٹ کے لے گیا ۔(طبری ،ج۵،ص۴۵۱) ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمروبن شعیب نے محمد بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ بحر بن کعب کے دونوں ہاتھوں سے سردی میں پانی ٹپکتا تھا اور گرمی وہ بالکل سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوجاتا تھا۔ (طبری ،ج۵،ص ۴۵۱)
[2] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم سے یہ روایت کی ہے۔(طبری ،ج۵ ،ص ۴۵۱وارشاد، ص ۲۴۱)
[3] یہ وہی شخص ہے جو راستے میں حر کے پاس ابن زیاد کا خط لے کر آیا تھا جس میں یہ لکھاتھا کہ حسین( علیہ السلام) کو بے آب وگیاہ صحرا میں اتارلو ؛امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے اس صحرا میں وارد ہونے کے ذیل میں اس کے احوال گزرچکے ہیں ۔
[4] وہ برنس ریشمی تھا ۔ مالک بن نسیر کندی آیا اور اسے اٹھا لے گیا، پھر جب اس کے بعد وہ اپنے گھر آیا تو اس برنس سے خون کو دھونا شروع کیا۔ اس کی بیوی نے اسے دیکھ لیا اور وہ سمجھ گئی تو بولی : نواسۂ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامان لوٹ کر لا تا ہے اور میرے گھر میں داخل ہوتا ہے ! میرے پاس سے اسے فوراً نکال لے جا! اس کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ فقیر رہا یہاں تک کہ مر گیا۔ ( طبری، ج۵،ص ۴۴۸، ارشاد ،ص ۲۴۱) ارشاد میں شیخ مفید ؒ نے مالک بن یسر لکھا ہے۔ ہشام اپنے باپ محمد بن سائب سے اور وہ قاسم بن اصبغ بن نباتہ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جو اپنے لشکر میں حسین علیہ السلام کی جنگ کا گواہ ہے وہ کہتا ہے : جب حسین ؑ کے سارے سپاہی شہید کردئے گئے تو آپ نے گھوڑے پر سوار ہو کر فرات کا رخ کیا اور اپنے گھوڑے کو ایک ضرب لگائی ۔یہ دیکھ کر قبیلہ بنی آبان بن دارم کے ایک شخص نے کہا : وائے ہو تم پر ان کے اور پانی کے درمیان حائل ہو جاؤ توان لوگوں نے اس کے حکم کی پیروی کی اور ان کے اور فرات کے درمیان حائل ہوگئے . اور’’ اباتی‘‘ نے ایک تیر چلا یا جو آپ کی ٹھڈی میں پیوست ہوگیا ۔امام حسین علیہ السلام نے اس تیر کو کھینچا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلا دیں تو وہ خون سے بھر گئیں پھر آپ نے فرمایا :’’ اللّٰھم اني أشکو الیک ما یفعل بابن بنت نبیک،اللّٰھم اظمہ‘‘خدا یا! میں تیری بارگاہ میں اس چیز کی شکایت کرتا ہوں جو تیرے نبی کے نواسہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ خدایا! اسے ہمیشہ پیاسا رکھ۔ قاسم بن اصبغ کا بیان ہے : میں نے اسے اس حال میں دیکھا کہ اس کے پاس دودھ سے بھرے بڑے بڑے برتن اور کوزوں میں ٹھنڈے ٹھنڈے شربت رکھے ہوئے تھے لیکن وہ کہہ رہا تھا : وائے ہو تم لوگوں پر مجھے پانی پلا ؤ ،پیاس مجھے مارے ڈال رہی ہے پھر بڑا برتن اور کوزہ لا یا جاتا اور وہ سب پی جاتا اور جب سب پی جاتا تو پھر تھوڑی ہی دیر میں فریاد کرنے لگتا اور پھر کہنے لگتا : وائے ہو تم لوگوں پر ! مجھے پانی پلا ؤ پیاس مجھے مارے ڈال رہی ہے، خدا کی قسم تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کا پیٹ اونٹ کے پیٹ کی طرح پھٹ گیا۔ ابو الفرج نے اسے ابو مخنف کے حوالہ سے لکھا ہے۔(ص ۷۸، طبع نجف)
ہشام کا بیان ہے : مجھ سے عمروبن شمر نے جابر جعفی کے حوالے سے روایت کی ہے کہ ان کا بیان ہے : حسین ؑ کی پیاس شدید سے شدید تر ہو رہی تھی لہٰذاآپ فرات کے نزدیک پانی کی غرض سے آئے لیکن ادھر سے حصین بن تمیم نے ایک تیر چلا یا جو آپ کے دہن مبارک پر لگا ، آپ نے اپنے دہن سے اس خون کو ہاتھ میں لیا اور آسمان کی طرف پھینک دیا اور فرمایا :’’ اللّٰھم أحصھم عدداً واقتلھم بدداً ولا تذرعلی الارض منھم أحداً‘‘(طبری ،ج ۵،ص۴۴۹و۰ ۴۵) خدا یا!ان کی تعدادکو کم کردے ،انھیں نابود کردے اور ان میں سے کسی ایک کوروئے زمین پرباقی نہ رکھ ۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج۵،ص۴۴۷و ۴۴۸ )
[5] ابو مخنف نے کہا:مجھ سے صقعب بن زہیرنے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج۵،ص۴۵۲)
[6] ابومخنف نے حجاج سے اور اس نے عبداللہ بن عمار بارقی سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج۵،ص۴۵۲)
[7] یہ ابو مخنف کی روایت میں ہے۔( طبری ،ج۵،ص۴۵۰ ) ابوالفرج نے بھی اس کی روایت کی ہے۔( ص۷۹)
[8] یہی شخص امیرالمومنین علیہ السلا م کی اس خبر کا بھی راوی ہے جس میں آپ ۲۶ھ میں صفین کی طرف جارہے تھے تو فرات پر پل بنانے کی بات ہوئی تھی۔( طبری ،ج۵،ص ۵۶۵)
[9] روایت میں معزیٰ اور ذئب استعمال ہوا ہے جس کے معنی گلہء گوسفند اور بھیڑئیے کے ہیں عرب تہذیب اور کلچر میں کسی کی شجاعت ثابت کرنے کی یہ بہترین مثال ہے لیکن ہماری ثقافت میں بزرگ شخصیتوں کو بھیڑئیے سے تعبیر کرنا ان کی توہین ہے اور قاری پر بھی گراں ہے لہٰذا محققین کرام نے مترجمین کو اس بات کی پوری اجازت دی ہے کہ وہ تشبیہات کے ترجمہ میں اپنی تہذیب اور کلچر (culture)کا پورا پورا لحاظ رکھیں ، اسی بنیاد پر ترجمہ میں شیر اور ہرن استعمال کیا گیا ہے جو شجاعت اور خوف کی تشبیہات ہیں۔ (مترجم )
[10] شیخ مفید ؒ نے ارشاد میں یہ روایت بیان کی ہے۔( الارشاد ،ص۲۴۲، طبع نجف )
[11] یہ روایت’’ حجاج ‘‘سے ہے۔ اس نے اسے عبداللہ بن عمار بارقی سے نقل کیا ہے۔( طبری ،ج۵،ص ۴۵۱) شیخ مفید ؒ نے ارشاد میں حمید بن مسلم سے روایت کی ہے۔( ص ۲۴۱ )
[12] امام علیہ السلام کی دعا مستجاب ہوئی اور کچھ زمانے کے بعد مختار نے قیام کیا اور اپنی سپاہ کی ایک فرد ابا عمرہ کو عمربن سعد کی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ اسے لے کرآ۔ وہ گیا یہاں تک کہ اس کے پاس وارد ہوا اور کہا : امیر نے تم کو طلب کیا ہے۔ عمر بن سعد اٹھا لیکن اپنے جبہ ہی میں پھنس گیا تو ابو عمرہ نے اپنی تلوار سے اس پر وار کرکے اسے قتل کر دیا اور اس کے سر کو اپنی قبا کے نچلے حصے میں رکھا اور اس کو مختار کے سامنے لاکر پیش کردیا ۔
حفص بن عمر بن سعد، مختار کے پاس ہی بیٹھا تھا ۔مختار نے اس سے کہا : کیا تم اس سر کو پہچانتے ہو ؟ تو اس نے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہاکہ اس کے بعد زندگی میں کوئی اچھا ئی نہیں ہے ! تو مختار نے کہا : تم اس کے بعد زندہ نہیں رہوگے ! اور حکم دیا کہ اسے بھی قتل کردیا جائے۔ اسے قتل کردیا گیا اور اس کا سر اس کے باپ کے ہمراہ رکھ دیا گیا۔ (. طبری ،ج ۶، ص ۶۱ )
[13] مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔( طبری ،ج ۵، ص ۴۵۲)
[14] مختار نے اس کی طرف معاذ بن ہانی بن عدی کندی جناب حجر کے بھتیجے کو روانہ کیا،نیز اس کے ہمراہ ابو عمرہ ، اپنے نگہبانوں کے سردار کو بھی اس کی طرف بھیجا تو خولی اپنے گھر کی دہلیز میں جا کر چھپ گیا۔ ’’ معاذ‘‘ نے ابو عمرہ کو حکم دیا کہ اس کے گھر کی تلاشی لے۔ وہ سب کے سب گھر میں داخل ہوئے، اس کی بیوی باہر نکلی، ان لوگوں نے اس سے پوچھا : تیرا شوہر کہاں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : میں نہیں جانتی اور اپنے ہاتھ سے دہلیز کی طرف اشارہ کردیا تو وہ لوگ اس میں داخل ہوگئے۔ اسے وہاں اس حال میں پایا کہ وہ اپنے سر کو کھجور کی ٹوکری میں ڈالے ہوئے ہے۔ ان لوگوں نے اسے وہاں سے نکالا اور جلادیا۔( طبری، ج۶، ص ۵۹ )
[15] یہ حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والوں میں سے ہے ۔(طبری ،ج۵،ص ۲۷۰) روز عاشوراعمربن سعد کے لشکر میں یہ قبیلہ مذحج و اسدکا سالار تھا جیسا کہ اس سے قبل یہ بات گزر چکی ہے۔ ( طبری، ج ۵، ص ۴۴۲ )
[16] شیخ مفیدؒ نے ارشاد کے ص ۲۴۱ پر لکھا ہے کہ وہ بچہ عبداللہ بن حسن تھا اورارشاد میں مختلف جگہوں پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ابو مخنف کے حوالے سے یہ بات گزر چکی ہے کہ حرملہ بن کاہل اسدی نے تیر چلاکر اس بچہ کو شہید کردیا ۔ یہاں یہ روایت ابوالفرج نے ابو مخنف سے نقل کی ہے اور انھوں نے سلیمان بن ابی راشد سے اور اس نے حمید بن مسلم سے روایت کی ہے ۔(ص ۷۷ ،طبع نجف)
[17] گزشتہ صفحہ کا حاشیہ نمبر ۵ ملاحظہ ہو ۔
[18] گزشتہ صفحہ کا حاشیہ نمبر ۵ ملاحظہ ہو ۔
[19] گزشتہ صفحہ کا حاشیہ نمبر ۵ ملاحظہ ہو ۔
[20] ابو مخنف نے اپنی روایت میں بیان کیا ہے۔ ( طبری، ج۵،ص ۴۵۰ ) ابوالفرج نے ابومخنف سے سلیمان بن ابی راشد کے حوالے سے اوراس نے حمید بن مسلم سے روایت نقل کی ہے۔ (ص۷۷،طبع نجف )
[21] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشدنے حمید بن مسلم سے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری، ج۵،ص ۴۵۱وارشاد ،ص ۲۴۱ )
[22] ارشاد میں بایاں بازو ہے۔( ص ۲۴۲) تذکرۃ الخواص میں بھی یہی ہے۔( ص ۲۵۳ ) مقرم نے اسے الا تحاف بحب الاشراف سے نقل کیا ہے۔( ص ۱۶ )
[23] امام حسین کے قاتل کے سلسلے میں سبط بن جوزی نے پانچ اقوال ذکر کئے ہیں۔ آخر میں ترجیح دی ہے کہ سنان بن انس ہی آپ کا قاتل تھا پھرروایت کی ہے کہ یہ حجاج کے پاس گیا تواس نے پوچھا کہ تو ہی قاتل حسین ؑ ہے؟ اس نے کہا ہاں ! تو حجاج نے کہا : بشارت ہو کہ تواور وہ کبھی ایک گھر میں یکجا نہیں ہوں گے ۔ لوگوں کا کہنا ہے حجاج سے اس سے اچھا جملہ کبھی بھی اس کے علاوہ نہیں سناگیا۔ ا س کا بیان ہے کہ شہادت کے بعد حسین ؑ کے جسم کے زخم شمار کئے گئے تو ۳۳؍ نیزہ کے زخم اور ۳۴؍ تلوار کے زخم تھے اور ان لوگوں نے آپ کے کپڑے میں ایک سو بیس ( ۱۲۰) تیر کے نشان پائے ۔
[24] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید کے مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے( طبری ،ج۵، ص ۴۵۳)
[25] شب عاشور کی بحث میں اس کے احوال گزر چکے ہیں ۔
[26] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے۔ ( طبری، ج۵،ص ۴۵۵ )
[27] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے۔(طبری، ج۵، ص ۴۵۲ )
[28] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے ر وایت کی ہے۔( طبری، ج۵،ص ۴۵۱ ) اسی طرح سبط بن جوزی نے بھی صرا حت کی ہے کہ وہ لوگ وہ سب کچھ لوٹ لے گئے جوآپ کے جسم پر تھا حتی یہ کہ’’ بحر بن کعب تمیمی‘‘ آپ کاپاجامہ بھی لے گیا۔ (طبری، ج۵،ص ۲۵۳) ارشاد میں شیخ مفیدؒ نے اضافہ کیا ہے کہ بحربن کعب لعنۃ اللہ علیہ کے دونوں ہاتھ اس واقعہ کے بعد گرمی میں سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوجاتے تھے اورسردی میں مرطوب ہوجاتے تھے اور اس سے بد بو دار خون ٹپکتا تھا یہاں تک کہ خدا نے اسے ہلا ک کردیا ۔(ص ۲۴۱ ، ۲۴۲ )