اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

واقعہ کربلا کے پس پردہ عوامل

واقعہ کربلا کے پس پردہ عوامل

 کیا حالات پیش آئے تھے کہ کربلا کا واقعہ رونما ہوا؟ میں نے ایک مرتبہ عبرت ہائے کربلا کے عنوان پر کئی تقاریر کیں تھیں کہ جن میں مَیں نے کہا تھا کہ ہم اِس تاریخی حادثے سے سیکھے جا نے والے درسوں کے علاوہ عبرتیں بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ ’’درس‘‘ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے جبکہ ’’عبرتیں‘‘ ہم سے یہ کہتی ہیں کہ کیا حادثہ پیش آیا ہے اور کون سے واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کا امکان ہے۔
کربلاسے حاصل کی جانے والی عبرتیں یہ ہیں کہ انسان غور وفکر کرے کہ وہ اسلامی معاشرہ کہ جس کی سربراہی پیغمبر خدا (ص) جیسی ایک غیر معمولی ہستی کے پاس تھی اور آپ(ص) نے دس سال تک انسانی توان و طاقت سے مافوق اپنی قدرت اور وحی الٰہی کے بحر بیکراں سے متصل ہوتے ہوئے اور بے مثل و نظیر اور بے انتہا حکمت کے ساتھ دس سال تک اُس معاشرے کی راہنمائی فرمائی۔ آپ(ص) کے کچھ عرصے (پچیس سال) بعد ہی امیر المومنین حضرت علی نے اُسی معاشرے پر حکومت کی اور مدینہ اور کوفہ کو بالترتیب اپنی حکومت کا مرکز قرار دیا۔ اُس وقت وہ کیا حادثہ وقوع پذیر ہوا تھا اور بیماری کاکون سا جرثومہ اُس معاشرے کے بدن میں سرایت کر گیا تھا کہ حضرت ختمی مرتبت (ص) کے وصال کے نصف صدی اور امیر المومنین کی شہادت کے بیس سال بعد ہی اِسی معاشرے اور اِنہی لوگوں کے درمیان حسین ابن علی جیسی عظیم المرتبت ہستی کو اُس دردناک طریقے سے شہید کردیا جاتا ہے؟!
آخر وہ کون سے علل و اسباب تھے کہ جس کے با عث اتنا بڑا حادثہ رونما ہوا؟ یہ کوئی بے نام و نشان اور گمنام ہستی نہیں تھی بلکہ یہ اپنے بچپنے میں ایسا بچہ تھا کہ جسے پیغمبر اکرم (ص) اپنی آغوش میں لیتے تھے اوراُس کے ساتھ منبر پر تشریف لے کر اصحاب۱ سے گفتگو فرماتے تھے۔
وہ ایک ایسا فرزند تھا کہ جس کے بارے میں خدا کے رسول (ص) نے یہ فرمایا کہ ’’حُسَینُ مِنِّی وَاَنَا مِنَ الحُسِینِ‘‘،’’حسین مجھے سے ہے اور میں حسین سے ہوں‘‘ اور اِن پسر وپدر کے درمیان ایک مضبوط رشتہ اور رابطہ قائم تھا۔ یہ ایک ایسافرزند تھا کہ جس کا شمار امیر المومنین کے دورِحکومت کی جنگ و صلح کے زمانوں میں حکومت کے بنیادی ارکان میں ہوتا تھا اورجو میدان سیاست میں وہ ایک روشن و تابناک خورشید کی مانند جگمگاتا تھا ۔ اِس کے باوجود اُس اسلامی معاشرے کا حال یہ ہوجائے کہ پیغمبر اکرم (ص) کا یہی معروف نواسہ اپنے عمل، تقويٰ، باعظمت شخصیت، عزت و آبرو، شہرِ مدینہ میں اپنے حلقہ درس کہ جس میں آپ کے چاہنے والے، اصحاب اور دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے شیعہ شرکت کرتے تھے، کے باوجودایسے حالات میں گرفتار ہوجائے کہ جس کا نہایت بدترین طریقے سے محاصرہ کر کے اُسے پیاسا قتل کردیا جائے۔نہ صرف یہ کہ اُسے قتل کرتے ہیں بلکہ اُس کے ساتھ تمام مردوں حتی اُس کے شش ماہ شیر خوار بچے کو بھی قتل کردیتے ہیںاور صرف اِسی قتل و غارت پر اکتفائ نہیں کرتے بلکہ اُس کے بیوی بچوں اور دیگر خواتین کو جنگی قیدیوں کی مانند اسیر بنا کر شہر شہر گھماتے ہیں؛آخر قصّہ کیا تھا اور کیا حالات رونما ہوئے تھے؟ یہ ہے مقام عبرت!
آپ ایسے معاشرے کا اُس نبوی معاشرے سے موازنہ کریں تاکہ آپ کو دونوں کا فرق معلوم ہوسکے۔ ہمارے معاشرے کے سربراہ اور حاکم ، امام خمینی۲ تھے جو بلاشک و شبہ ہمارے زمانے کی عظیم ترین شخصیت میں شمار ہوتے تھے لیکن امام خمینی ۲ کجا اور پیغمبر اکرم (ص) کجا؟ حضرت ختمی مرتبت (ص) نے اُس وقت معاشرے میں ایک ایسی روح پھونکی تھی کہ اُن بزرگوار کی رحلت کے بعد بھی کئی دہائیوں تک پیغمبر (ص) کا چلایا ہوا کارواں اپنے راستے پر گامزن رہا۔ آپ یہ خیال نہ کریں کہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد ہونے والی فتوحات میں خود پیغمبر(ص) کی ذات اقدس کے روحانی وجود کا اثر باقی نہیں تھا؛ یہ رسول اکرم (ص) کے وجود ہی کی برکت تھی کہ جو آپ(ص) کی رحلت کے بعد بھی اسلامی معاشرے کو آگے بڑھارہی تھی۔ گویا پیغمبر اکرم (ص) اُس معاشرے کی فتوحات اور ہمارے معاشرے (اور انقلاب) میں تاثیر رکھتے تھے کہ جس کا نتیجہ اِس صورت میں نکلا ہے۔
میں ہمیشہ نوجوانوں ،یونیورسٹی اور دینی مدارس کے طالب علموں اور دیگر افراد سے یہی کہتا ہوں کہ نہایت سنجیدگی سے تاریخ کا مطالعہ کریں، بہت توجہ سے اِس میں غور وفکر کریں اور دیکھیں کہ کیا حادثہ رونما ہوا ہے!
’’ تِلکَ اُمَّۃ? قَد خَلَت‘‘،’’وہ ایک اُمّت تھی جو گزر گئی‘‘، گذشتہ امتوں سے عبرت آموزی، قرآن ہی کی تعلیم اور درس کا حصہ ہے۔اِس حادثے کے بنیادی اسباب ، چند امور ہیں،مَیں اُن کا تجزیہ و تحلیل نہیں کرنا چاہتا بلکہ صرف اجمالی طور پر بیان کروںگا اور یہ محقق افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایک ایک جملے پرغور وفکر کریں۔
اصلی عامل:

دنیا پرستی اور برائی و بے حسی کا رواج پانا اِس تاریخی حادثے کا ایک اصلی سبب یہ ہے تھا کہ ’’دنیا پرستی اور برائی و بے حسی نے دینی غیرت اور ایمان کے احساسِ ذمہ داری کو چھین لیا تھا۔ یہ جو ہم اخلاقی ، اجتماعی ، اقتصادی ، سیاسی اور ثقافتی برائیوں سے مقابلے کیلئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے اتنی تاکید کرتے ہیںتو اِس کی ایک اصل وجہ یہ ہے کہ یہ تمام برائیاں معاشرے کو بے حس بنادیتی ہیں۔ وہ شہر مدینہ جو پہلی اسلامی حکومت کا پہلا مرکز تھا، کچھ مدت بعد بہترین موسیقاروں، گانا گانے والوں اور معروف ترین رقاصاوں کے مرکز میں تبدیل ہوگیا تھااور جب دربار شام میں بہترین مغنّیوں اور گویّوں کو جمع کیا جاتا تو شہر مدینہ سے بہترین موسیقاروں اور خوبصورت آواز رکھنے والے مغنّیوںکو بلایا جاتا تھا!
یہ جسارت و گناہ، رسول اکرم (ص) کی رحلت کے سو یا دوسو سال بعد انجام نہیں دیئے گئے بلکہ جگر گوشہ حضرت زہرا ٭ اور نور چشم پیغمبر اکرم (ص) کی شہادت کے زمانے کے قریب حتی شہادت سے بھی قبل معاویہ کے زمانے میں انجام پائے۔ یہی وجہ ہے کہ مدینۃ الرسول (ص) برائیوں اور گناہان کبیرہ کا مرکز بن گیا اور بڑی بڑی شخصیات ، اصحاب اور تابعین کی اولاد حتی خاندان بنی ہاشم کے بعض نوجوان اِن برائیوں میں گرفتار ہوگئے! اِس فاسد حکومت کے سرکردہ افراد یہ جانتے تھے کہ اُنہیں کیا کام کرنا ہے ،اُنہیں مسلمانوں کے کن حساس اورکمزور نکات پر انگلی رکھنی ہے اور لوگوں کو حکومت اور اُس کی سیاست سے غافل رکھنے کیلئے کن چیزوں کی ترویج کرنی ہے۔یہ بلا اور کیفیت صرف شہر مدینہ سے ہی مخصوص نہیں تھی بلکہ دوسرے شہر بھی اِسی قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے۔
برائیوں کی گندگی سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیں

دین کی پیروی ، تقويٰ سے تمسک، پاکدامنی کی اہمیت اور معنویت کی قدر وقیمت کا اندازہ یہاں ہوتا ہے۔ یہ جو ہم بارہا موجودہ زمانے کے بہترین نوجوانوں کو تاکید کرتے ہیں کہ آپ برائیوں کی گندگی سے اپنا دامن بچائے رکھیںتو اِس کی وجہ یہی ہے۔ آج اِن نوجوانوں کی طرح کون ہے جوانقلابِ اسلامی کے اُصولوں اور اہداف کا دفاع کرنے والے ہیں؟ یہ بسیجی (رضا کار) واقعاً بہترین نوجوان ہیں کہ جو علم، دین اور جہاد میں سب سے آگے آگے ہیں، دنیا میں ایسے نوجوان آپ کو کہاں نظر آئیں گے؟ یہ کم نظیر ہیں اور دنیا میں اتنی کثیر تعداد میں آپ کو کہیںنہیں ملیں گے؛بنابریں ، برائیوں کے سیلاب اور اُس کی اونچی اونچی موجوں سے ہوشیار رہیں۔
آج الحمد للہ خداوند عالم نے اِس انقلاب کی قداست و پاکیزگی ا ور معنویت کو محفوظ بنایا ہوا ہے، ہمارے نوجوان پاک و طاہر ہیں لیکن وہ اِس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ زن، زر اور زمین، عیش پرستی اور دنیا کی لذتیں بہت خطرناک چیزیں ہیں کہ جو مضبوط دلوں اور مستحکم ارادے والے انسانوںکے پائے ثبات میں لرزش پیدا کرنے کیلئے کافی ہیں لہٰذا اِن امور اور اِن کے وسوسوں کا مقابلہ کرنے کیلئے قیام کرنا چاہیے۔ وہ جہادِ اکبر کہ جس کی اتنی تاکید کی گئی ہے،یہی ہے؛ آپ نے جہادِ اصغر کو بطریق احسن انجام دیا ہے اور اب آپ اِس منزل پرآ پہنچے ہیں کہ جہادِ اکبر کو اچھی طرح انجام دے سکیں۔
الحمد للہ آج ہمارے نوجوان، مومن، حزب اللّٰہی اور بہترین نوجوان ہیں لہٰذا اِس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ دشمن چاہتا ہے کہ تمام مسلمان اقوام سے یہ نعمت چھین لے اور اُس کی خواہش ہے کہ مسلمان قومیں؛ عیاشی، ذلت و رسوائی اور غفلت کا شکار ہوجائیں، برائیوں اور گناہوں کا دریا اُنہیں اپنے اندر غرق کر دے اور بیرونی طاقتیں اُن پر اپنا تسلط جما لیں جیسا کہ انقلاب سے قبل ہمارے یہی حالات تھے اور آج بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں یہی کچھ ہورہا ہے۔
دوسرا عامل:

عالم اسلام کے مستقبل سے اہل حق کی بے اعتنائی دوسرا عامل و سبب کہ جس کی وجہ سے یہ حالات پیش آئے اور جسے انسان آئمہ طاہرین کی زندگی میں بھی مشاہدہ کرتا ہے،وہ یہ تھا کہ اہل حق نے جو ولایت و تشیع کی بنیاد تصور کیے جاتے تھے ، دنیائے اسلام کی سرنوشت و مستقبل سے بے اعتنائی برتی، اِس سے غافل ہوئے اور اِس مسئلے کی اہمیت کو دل و دماغ سے نکال دیا۔ بعض افراد نے کچھ ایام کیلئے تھوڑی بہت بہادری اور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا کہ جس پر حکام وقت نے سخت گیری سے کام لیا۔ مثلاً یزید کے دور حکومت میں مدینۃ النبی پر حملہ ہوا، جس پر اہلِ مدینہ نے یزید کے خلاف آواز اٹھائی تویزید نے اِن لوگوں کو سرکوب کرنے کیلئے ایک ظالم شخص کو بھیجاکہ جس نے مدینہ میں قتل عام کیا،نتیجے میں اِن تمام افراد نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا اور ہر قسم کی مزاحمتی تحریک کو روک کربگڑتے ہو ئے اجتماعی مسائل سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ البتہ اِن افراد میں سب اہل مدینہ شامل نہیں ہیں بلکہ تھوڑے بہت ایسے افرادبھی تھے کہ جن کے درمیان خود اختلاف تھا۔ یزید کے خلاف مدینے میں اٹھنے والی تحریک میں اسلامی تعلیمات کے برخلاف عمل کیا گیا، یعنی نہ اُن میں اتحاد تھا، نہ اُن کے کام منظم تھے اور نہ ہی یہ گروہ اور طاقتیں آپس میں مکمل طورپرایک دوسرے سے مربوط و متصل تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن نے بے رحمی اورنہایت سختی کے ساتھ ِاس تحریک کا سرکچل دیا اور پہلے ہی حملے میں اِن کی ہمتیں جواب دے گئیں اور اُنہوں نے عقب نشینی کرلی؛ یہ بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔
آپس میں مقابلہ کرنے اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے والی حق و باطل کی طاقتوں کی جد و جہد بہت واضح سی بات ہے، جس طرح حق ،باطل کو ختم کرنا چاہتا ہے اُسی طرح باطل بھی حق کی نابودی کیلئے کوشاںرہتا ہے۔ یہ حملے ہوتے رہتے ہیں اور قسمت کا فیصلہ اُس وقت ہوتا ہے کہ جب اِن طاقتوں میں سے کوئی ایک تھک جائے اور جو بھی پہلے کمزور پڑے گا تو شکست اُس کا مقدر بنے گی۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مکروفریب
قرآنِ کریم: جاوداں الٰہی معجزہ
انتظار احادیث کی روشنی میں
اسلام میل جول اور تعلقات کا دین ہے
شعب ابی طالب سے غزہ تک
آخري سفير حق و حقيقت
نماز کی فضیلت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ...
غیب پر ایمان
اھل بيت (ع) کي شان ميں کتب
انٹرنیٹ کا استعمال کرتے وقت محتاط رہیں

 
user comment