جب نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو حضیرة القدس ”جنت “میں منتقل ھونے کا یقین ھو گیا توآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بیت اللہ الحرام کا حج اور امت کے لئے ایک سیدھے راستہ کا معین کرنا لازم سمجھا،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ۱۰ سن ھ میں آخری حج کر نے کی غرض سے نکلے اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے امت کے لئے اپنے اس دنیا سے آخرت کی طرف عنقریب کو چ کرنے کے سلسلہ میں یوں اعلان فرمایا :”اِنِّی لَا اَدْرِي لَعَلِّي لَااَلْقَاکُمْ بَعْدَ عَامِیْ ھٰذَا بِھٰذا الْمَوْقِفِ اَبَداً۔۔“”مجھے نھیں معلوم کہ میں اس سال کے بعداس جگہ تمھیں دیکھ سکوں گا “۔
حجاج خوف و گھبراہٹ کے ساتھ چل پڑے وہ بڑے ھی رنجیدہ تھے اور یہ کہتے جا رھے تھے : نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنی موت کی خبر دے رھے ھیں ،نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان کے لئے ھدایت کا ایسا راستہ معین فرمادیا تھا جس سے وہ فتنوں سے دور رھیںاور یہ فرماکر ان کی اچھی زندگی گذرنے کی ضمانت لے رھے تھے : ”ایھا النَّاسُ، اِنِّیْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ،کِتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِيْ اَھْلَ بَیْتِي ۔۔۔“ ۔
”اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رھا ھوں ،کتاب خدا اور میری عترت میرے اھل بیت(ع) ھیں ۔۔۔“۔
کتاب اللہ سے متمسک رھنا ،اس میں بیان شدہ احکام پر عمل کرنااور اھل بیت نبوت سے محبت دوستی کرناکہ اسی میں امت کی گمرا ھی سے نجات ھے حج کے اعمال تمام کرنے کے بعد نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میںآپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اسلامی تعلیمات اوراس کے احکام بیان فرمائے اورآخرمیں فرمایا :”لاترجعوا بعدی کفّاراً مُضَلِّلِیْنَ یَمْلِکُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ اِنِّي خَلَّفْتُ فِیْکُم ْ مَااِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِہِ لَنْ تَضِلُّوْا:کِتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتيْ اَھْلَ بَیْتِي،اَ لَاھَلْ بَلَّغْتُ؟“۔
”میرے بعد کا فر نہ ھو جانا ،لوگوں کو گمراہ نہ کرنا ،ایک دوسرے سے جنگ نہ کرنا ،میں تمھارے درمیان وہ چیزیں چھوڑ کر جا رھا ھوں اگر تم اُن سے متمسک رھوگے تو ھر گز گمراہ نہ ھو گے :اللہ کی کتاب اور میری عترت ،میرے اھل بیت(ع) ھیں ،آگاہ ھو جاؤ کیا میں نے(احکام الٰھی ) پھنچا دیا؟“
سب نے ایک ساتھ مل کر بلند آواز میں کھا : ھاں ۔
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا :”اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ۔۔اِنَّکُمْ مَسْؤُلُوْنَ فَلْیَبْلُغِ الشَّاھِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ“۔[1]
”خدایا ! گواہ رھنا ۔۔تم حاضرین کی ذمہ داری یھے کہ اس پیغام کو غائبین تک پھنچادیں “۔ھم اس خطبہ کا کچھ حصہحیاة الامام امیر المومنین(ع) میں ذکر چکے ھیں ۔
غدیر خم
حج کے ارکان بجالانے کے بعد نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ حج کے قافلے مدینہ کی طرف واپس آرھے تھے ،جب غدیر خم کے مقام پر پھنچے تو جبرئیل اللہ کے حکم سے نازل ھوئے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے قافلہ کو اسی مقام پر روک کر حضرت علی(ع) کو اپنے بعد اس امت کا خلیفہ اور امام بنا دیجئے اور اس کے انجام دینے میں بالکل تاخیر نہ فرما ئیںچنانچہ اس وقت یہ آیت نازل ھو ئی :< یَااٴَیُّہَاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس۔۔>۔[2]
”اے پیغمبر آپ اس حکم کو پھنچا دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے، اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا “
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس امر کوبہت اھمیت دی اور پختہ ارادہ کے ساتھ اُس پر عمل کا فیصلہ کیا آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے قافلہ کو اسی گرمی کی شدت سے مرجھائے ھوئے درختوں کے نیچے روک دیا اور دوسرے قافلوں کو بھی وھاں ٹھھر کر اپنے خطبہ سننے کی تلقین فرما ئی ،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے نماز ادا کرنے کے بعد اونٹوں کی کجاووں سے منبر بنانے کا حکم دیاجب منبر بن کر تیار ھو گیا تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے منبر پر جا کر ایک خطبہ ارشاد فرمایاجس میں اعلان فرمایا کہ جس نے اسلام کی راہ میں مشکلیں برداشت کیں اور اس راستہ میں ان کے گمراہ ھونے کا خطرہ تھا میں نے ان کو اس خطرے سے نجات دلا ئی ،پھر اُن سے یہ فرمایا:میں دیکھوںگاکہ تم میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیسا برتاؤ کر و گے ؟“۔
قوم میں سے ایک شخص نے پوچھا :یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ثقلین کیا ھے ؟
”ثقل اکبر :اللہ کی کتاب ھے جس کا ایک سرا اللہ عز و جل کے قبضہ قدرت میں ھے اور دوسرا سرا تمھارے ھاتھوں میں ھے تم اس سے متمسک رھنا توگمراہ نھیں ھوگے ،اور دوسری چیز ثقل اصغر :میری عترت ھے ،اور لطیف و خبیر خدا نے مجھے خبر دی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ھوں ،میں نے اپنے پروردگار سے اس سلسلہ میں دعا کی ھے اور ان دونوں سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ھلاک ھو جاؤ گے اور نہ ھی اُن کے بارے میں کو تا ھی کر نا کہ اس کا نتیجہ بھی ھلا کت ھے ۔
اس کے بعد آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے وصی اور اپنے شھر علم کے دروازے امام امیر المو منین(ع) کی مسلمانوں پر ولایت واجب قرار دی ،اُن کو اس امت کی ھدایت کے لئے معین کرتے ھوئے فرمایا : اے لوگو! مومنین کے نفسوں پرتصرف کے سلسلہ میںخود اُن سے اولیٰ کون ھے ؟
سب نے ایک ساتھ کھا :اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ھیں ۔
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:بیشک اللہ میرا مو لاھے ،میں مو منین کا مو لا ھوں ،میں اُن کے نفسوں سے زیادہ اولیٰ و بہتر ھوں پس جس جس کا میں مو لا ھوںیہ علی(ع)بھی اس کے مو لا ھیں ۔
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس جملہ کی تین مرتبہ تکرارکی ،پھرمزید فرمایا:
”اللّٰھُم وَال من والاہ،وعادمن عاداہ،واحبَّ مَنْ احبَّہُ،وَابغض من ابغضہ،وَانصرمن نصرہ، واخذُلْ مَنْ خذلہ وادْرِالحقّ مَعَہُ حیثُ دارَ،اَلا فلیبلغ الشاھدُ الغَائِبَ۔۔۔“۔
”اے خدا!جو اسے دوست رکھے تو اسے دوست رکھ ،جو اس سے دشمنی رکھے تواسے دشمن رکھ ،جو اس سے محبت کرے تواس سے محبت کر ،جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ ،جو اس کی مدد کرے تواس کی مدد کر ، جو اس کو رسوا کرے تو اس کو رسوا و ذلیل کر ،پالنے والے !حق کو اس طرف موڑدے جدھر یہ جا ئیں آگاہ ھوجاؤ حاضرین غائبین تک یہ پیغام پھنچا دیں “۔
خطبہ کا اختتام اس امت کے لئے عام مرجعیت اور اپنے بعد مسلمانوں کے امور انجام دینے کے لئے رھبر و رھنما معین فرمانے پر ھوا ۔
تمام مسلمانوں نے قبول کیا ،امام(ع) کی بیعت کی اورتمام مسلمانوں نے مبارکباد پیش کی ،نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے امھات المو منین کو بھی بیعت کرنے کا حکم دیا ۔[3]عمر بن خطاب نے آگے بڑھ کر امام(ع) کو مبارکباد دی، مصافحہ کیا اور اپنا یہ مشھور مقولہ کھا :مبار ک ھو اے علی بن ابی طالب(ع) آج آپ میرے اور ھر مو من و مومنہ کے مو لا ھوگئے ھیں ۔[4]
حسان بن ثابت نے یہ اشعار پڑھے :
”یُنادِیْھِمُ یَوْمَ الغَدِیْرِ نَبِیُّھُمْ
بِخُمٍّ وَاَسْمِعْ بِالرَّسُوْلِ مُنادِیاً
فقال فمَنْ مَولاکُم و نبِیُّکُمْ
فقالُوا وَلَمْ یُبْدُوا ھُنَاک التِعَامِیَا
اِلٰھُکَ مَوْ لانا وَاَنْتَ نَبِیُّنَا
وَلَمْ تَلْقَ مِنَّا فِی الْوِلَایَةِ عاصِیا
فقال لہ قُم یا عليّ فاِنَّنِي
رَضِیْتُکَ مِنْ بَعْدِيْ اِمَاماً وھادیا
فمنْ کُنْتُ مَولاہُ فھٰذا ولیُّہُ
فکونوا لہُ اَتْبَاعَ صِدْقٍ مَوَالِیا
ھُناکَ دعا اللّھمَّ وال ولِیَّہُ
وکُنْ للذي عادَي علیّاً مُعا دِیا[5]
”غدیر کے دن اُن کو اُن کا نبی میدان خم میں پُکار رھاتھا۔
نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا اے لوگو!تمھارا مو لا و نبی کون ھے ؟لوگوں نے بیساختہ کھا۔
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا خدا ھمارا مو لا ھے اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ھمارے نبی ھیں ،اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ھم سے کسی مخالفت کا مشاھدہ نھیں کریں گے۔
اس وقت حضور نے مو لائے کا ئنات سے فرمایا:اے علی(ع) کھڑے ھوجاؤ کیونکہ میں نے تم کو اپنے بعد کے لئے امام اور ھادی منتخب کر لیا ھے۔
جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی(ع) بھی مو لا ھیں تو اُس کے سچے پیروکار اوردوست دارھوجاؤ۔
اُس وقت آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے دعا فرما ئی: خدا یا علی(ع) کے دوستدار کو دوست رکھ اور علی(ع) کے دشمن کو دشمن رکھ“
علامہ علا ئلی کے بقول بیشک غدیر خم میں امام کی بیعت کرنا رسالتِ اسلام کا جزء ھے جس نے اس کا انکار کیااس نے اسلام کا انکار کیا ۔
ابدی غم
جب نبی اپنے پروردگار کی رسالت اور امیر المو منین(ع) کو اس امت کا رھبر و مرجع معین فرماچکے تو روز بروز آپ کمزور ھوتے گئے ،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو شدید بخار ھوگیا،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) چادر اوڑھے ھوئے تھے جب آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ازواج نے اپنے ھاتھ سے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ھاتھ کو دیکھااسوقت بخار کی حرارت کااحساس ھوا،[6]جب مسلمانوں نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی عیادت کی توآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان کو اپنی موت کی خبر دی، اور ان کو یوں دائمی وصیت فرما ئی : ”ایھا الناس،یوشک اَنْ اقبض قبضاً سریعاً فینطلق بي وقدمت الیکم القول مَعْذِرَةً اِلَیْکُمْ،اَلَااِنِّيْ مُخَلِّفُ فیکم کِتاب اللّٰہ عزَّوَجلَّ وَعِتْرَتِيْ اَھْلَ بَیْتِيْ ۔۔۔‘ ‘۔
”اے لوگو ! عنقریب میں داعی اجل کو لبیک کھنے والا ھوں ۔۔۔آگاہ ھوجاؤ میں تمھارے درمیان اللہ عز و جلّ کی کتاب اور اپنی عترت اپنے اھل بیت کو چھوڑے جا رھا ھوں “۔
موت آپ سے قریب ھو تی جا رھی تھی ،آپ کو واضح طور پر یہ معلوم تھا کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اصحاب کا ایک گروہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل بیت(ع) سے خلافت چھیننے کے سلسلہ میں جد و جھد کر رھا ھے، آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان سے شھر مدینہ کو خالی کرانے میں بہتری سمجھی ،ان کو غزوئہ روم کےلئے بھیجنا چا ھا ،لشکر تیار کیا گیا ،جس کی ذمہ داری نوجوان اسامہ بن زید کو سونپی گئی ،بڑے اصحاب اس میں شامل ھونے سے کترانے لگے ،انھوں نے اپنے مشورہ کے تحت لشکر تیار کیاکیونکہ ان کا اُس لشکر سے ملحق ھونا دشوار تھا ،اس وقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) منبر پر تشریف لے گئے اور ان سے یوں خطاب فرمایا :”نَفِّذُ وْا جَیْشَ اُسَامَةَ ۔۔“،”لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْ جَیْشِ اُسَامَةَ ۔۔“۔ ”اسامہ کے لشکر سے جا کر ملحق ھو جاو “، ” جس نے اسامہ کے لشکر سے تخلف کیا اس پر خدا کی لعنت ھے “۔
نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اس طرح سخت انداز میں کی گئی ان نصیحتوں کا اُن پر کوئی اثر نھیں ھوا ،اور انھوں نے نبی کے فرمان پر کان نھیں دھرے ، اس سلسلہ میں اھم بحثوں کو ھم نے اپنی کتاب ”حیاةالامام الحسن “ میں بیان کر دیا ھے ۔
جمعرات ،مصیبت کا دن
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے وصی اور باب مدینة العلم کے لئے غدیر کے دن کی بیعت اور شوریٰ کے دروازوں کو بند کرنے کے لئے یہ بہتر سمجھا اورآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا :”اِئتُوْنِیْ بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاةِ لَاَکْتُبَ لَکُمْ کِتَاباً لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ اَبَداً ۔۔۔“۔
”مجھے کاغذ اور قلم لا کر دو تاکہ میں تمھارے لئے ایسا نوشتہ تحریر کردوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ھو ‘ ‘۔
مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑی نعمت تھی ،سرور کا ئنات اس طرح اپنی امت کو گمراھی سے بچنے کی ضمانت دے رھے تھے تاکہ امت ایک ھی راستہ پر چلے جس میں کسی طرح کا کو ئی بھی موڑ نہ ھو، امت اسلامیہ کی ھدایت اور اصلاح کے لئے اس نوشتہ سے بہتر کو نسا نوشتہ ھو سکتا ھے ؟یہ نوشتہ علی(ع) کے بارے میں آپ کی وصیت اور اپنے بعد امت کے لئے ان کے امام ھونے کے سلسلہ میں تھا ۔
بعض اصحاب ،نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے مقصد سے با خبر تھے کہ نبی اس نوشتہ کے ذریعہ اپنے بعد علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنا نا چا ہتے ھیں ،لہٰذا اس بات کی یہ کہکر تردید کر دی:”حسبناکتاب اللّٰہ ۔۔۔”ھمارے لئے کتاب خدا کافی ھے ۔۔۔“
اس قول کے سلسلہ میں غور و فکر کرنے والے اس کے کھنے والے کی انتھا تک پھنچ جا ئیں گے کیونکہ اس کو مکمل یقین ھو گیا کہ نبی اس نوشتہ کے ذریعہ اپنے بعد علی(ع) کو خلیفہ بنانا چا ہتے ھیں اور اگر اس کو یہ احتمال بھی ھوتا کہ نبی سرحدوں یا کسی دینی شعائرکی حفاظت کے بارے میںوصیت کر نا چا ہتے ھیں تو اس میں یہ کھنے کی ھمت نہ ھو تی ۔
بھر حال حاضرین میں بحث و جدال ھونے لگا ایک گروہ کہہ رھا تھا کہ نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم کی تعمیل کی جا ئے اور دوسرا گروہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)او رنوشتہ کے درمیان حائل ھوناچاہتا تھا ،کچھ امھات مو منین اور بعض عو رتیں نبی کے آخری وقت میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم کے سامنے اس طرح کی جرات سے منع کر تے ھوئے کہہ رھی تھیں : کیا تم رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان نھیں سن رھے ھو ؟ کیا تم رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم کو عملی جامہ نھیں پھناؤگے ؟
اس جنگ و جدل کے بانی عمر نے عورتوں پر چیختے ھوئے کھا :اِنَّکُنَّ صویحبات یوسف اذامرض عصرتن اعینکنَّ،واذاصحّ رکبتن عنقہ ۔”تم یوسف کی سھیلیاں ھوجب وہ بیمار ھوجاتے ھیں تو تم رونے لگتی ھو اور جب وہ صحت مند ھوجاتے ھیں تو ان کی گردن پر سوار ھو جا تی ھو “
رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا:”ان کو چھوڑ دو یہ تم سے بہتر ھیں ۔۔۔“۔
حاضرین کے درمیان جھگڑا شروع ھو گیا عنقریب تھا کہ نبی اپنے مقصد میں کا میاب ھوجائیں تو بعض حاضرین نبی کے اس فعل میںحا ئل ھو تے ھوئے کھنے لگے :”نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو ہذیان ھو گیا ھے“۔[7]
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سامنے اس سے بڑی اور کیا جرات ھو سکتی ھے ،مر کز نبوت پر اس سے زیادہ اور کیا ظلم و ستم اور زیاد تی ھو سکتی ھے کہ نبی پر” ہذیان ھو نے کی تھمت لگا ئی جائے ،جن کے بارے میں خدا فرماتا ھے : < مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَی ۔وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی ۔إِنْ ہُوَ إِلاَّ وَحْيٌ یُوحَی۔ عَلَّمَہُ شَدِیدُ الْقُوَی>۔[8]
”تمھارا ساتھی نہ گمراہ ھوا ھے اور نہ بہکا،اور وہ اپنی خواھش سے کلام بھی نھیں کر تا ھے ،اس کا کلام وھی وحی ھے جو مسلسل نازل ھو تی رہتی ھے ،اسے نھایت طاقت والے نے تعلیم دی ھے “۔
(معاذاللہ )نبی کو ہذیان ھوگیا ھے جن کے متعلق خداوند عالم فرماتا ھے :< إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیمٍ ۔ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَکِینٍ >۔[9]
”بیشک یہ ایک معزز فرشتے کا بیان ھے ،وہ صاحب قوت ھے اور صاحب عرش کی بارگاہ کا مکین ھے “۔
قارئین کرام! ھمیں اس واقعہ کو غور کے ساتھ دیکھنا چا ہئے جذبات سے نھیں ،کیونکہ اس کا تعلق ھمارے دینی امور سے ھے ،اس سے ھمارے لئے حقیقت کا انکشاف ھو تا ھے اور اسلام کا مقابلہ کرنے والوں کے مکر پر دلیل قائم ھو تی ھے ۔
بھر حال ابن عباس امت کے نیکو کار افراد میں سے ھیںجب ان کے سامنے اس واقعہ کا تذکرہ ھواتو ان کا دل حزن و غم اور حسرت و یاس سے پگھل کر رہ گیا وہ رونے لگے یھاں تک کہ ان کے رخساروں پر
مو تیوں کی طرح آنسو کے قطرے بھنے لگے اور وہ یہ کہتے جارھے تھے :جمعرات کا دن، جمعرات کے دن کیاھو گیا ،رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے :”اِئتُوْنِيْ بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاةِ لَاَکْتُبَ لَکُمْ کِتَاباً لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ اَبَداً ۔۔۔“۔
”مجھے کاغذ اور قلم لا کر دو تاکہ میں تمھارے لئے ایسا نوشتہ تحریر کردوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ھو“ مجمع نے جواب دیا : رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو ہذیان ھو گیا ھے ۔(العیاذ باللہ )[10]
سب سے زیادہ یہ گمان کیا جا رھا تھا کہ اگر نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) امام(ع) کے حق میں کو ئی نو شتہ تحریر فرمادیتے تو لکھنے سے کو ئی فائدہ نہ ھوتا،اس لئے انھوں نے نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی کو ئی پروا نہ کر تے ھوئے ان پرہذیان کی تھمت لگا دی اور واضح طور پر نبی کی قداست کومجروح کر دیا۔
جنت کا سفر
اب رسول ، لطف الٰھی سے آسمان کی طرف رحلت کر نے والے تھے ،جس نور سے دنیا منور تھی وہ جنت کی طرف منتقل ھونے جا رھا تھا ،ملک الموت آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی روح کو لینے کےلئے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے قریب ھو رھے تھے، لہٰذا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے وصی اور اپنے شھر علم کے دروازے سے مخاطب ھو کر فر مایا :
”ضَعْ رَاسِیْ فِيْ حِجْرِکَ، فَقَدْ جَاءَ اَمْرُاللّٰہِ،فَاِذَافَاضَتْ نَفْسِيْ فَتَنَاوَلْھَا،وَامْسَحْ بِھَا وَ جْھَکَ،ثُمَّ وَجِّھْنِيْ الیٰ الْقِبْلَةِ،وَتَوَلَّ اَمْرِيْ،وَصَلِّ عَلَیَّ اَوَّلَ النَّاسِ،وَلَاتُفَارِقْنِيْ حتّی تَوَارِیْنِي فِيْ رَمْسِيْ وَاسْتَعْنِ بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ “۔
”میرا سر اپنی آغوش میں رکھ لو ،اللہ کا امر آچکا ھے جب میری روح پرواز کرجائے تو مجھے رکھ دینا،اس سے اپنا چھرہ مس کرنا،پھر مجھے رو بقبلہ کر دینا،تم میرے ولی امر ھو ،تم مجھ پر سب سے پھلے صلوات بھیجنے والے ھو ،اور مجھے دفن کرنے تک مجھے نہ چھوڑنااور اللہ سے مدد مانگو“۔
امام(ع) نے نبی کا سر مبارک اپنی گود میں رکھا ،آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا داھنا ھاتھ تحت الحنک سے ہٹا کر سیدھا کیا ، ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ آپ کی عظیم روح پرواز کر گئی اور اما م(ع) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے چھرئہ اقدس پر اپنا ھاتھ پھیرا ۔[11]
زمین کانپ گئی ،نو رعدالت خاموش ھو گیا ۔۔۔غم و اندوہ کی دنیا میں یہ کیسا یاد گار دن تھا ایسا دن کبھی نہ آیا تھا ۔
مسلمانوں کی عقلیں زائل ھوگئیں ،مدینہ کی بزرگ عورتوں نے اپنے چھروں پر طمانچے مار مار کر رونا شروع کیا وہ چیخ چیخ کر رو رھی تھیں،امھات المومنین نے اپنے سروں سے چا دریں اُتار دیں،وہ اپنا سینہ پیٹ رھی تھیں اور انصار کی عورتیں چیخ چیخ کر اپنے حلق پھاڑے ڈال رھی تھیں ۔ [12]
سب سے زیادہ رنجیدہ و غمگین اھل بیت(ع) اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی جگر گو شہ فاطمة الزھرا سلام اللہ علیھا تھیں، آپ(ع) اپنے پدر بزرگوار کے لاشہ پر رو رو کر یوں بین کر رھی تھیں :
”واابتاہ “ !”اے پدر بزرگوار“۔
”وانبيّ رحمتاہ “۔”اے نبی رحمت “۔
”الآن لایاتي الوحي “۔
”اب جبرئیل وحی لے کر نھیں آئیں گے “۔
الآن ینقطع عنَّاجبرئیلُ “۔
”اب ھم سے جبرئیل کا رابطہ ختم ھو جا ئیگا“۔
”اَللّٰھُمَّ اَلْحِقْ روحي بروحہ،وَاشفعني بالنظرالیٰ وجھہ،ولَاتَحرِمْنِيْ اَجْرَہُ وَ شفاعتَہُ
یَوْمَ القِیَامَةِ “[13]۔
”پروردگار میری روح کو میرے پدر بزرگوار سے ملحق کر دے ،اور میری میرے پدر بزرگوار کے چھرے پر نظر ڈالنے سے شفاعت کرنا ،اور مجھے قیامت کے دن اس کے اجر اور ان کی شفاعت سے محروم نہ کرنا “۔
آپ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جنازہ کے گرد گھوم رھی تھیں اور یوں خطاب کر رھی تھیں:
”وَاَبَتَاہُ ! الیٰ جِبْرِئِیْلَ اَنْعَاہُ “۔اے پدر بزرگوار !جبرئیل نے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی موت کی خبر دی ۔
”وَاَبَتَاہُ ! جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَاوَاہُ “۔اے پدر بزرگوار آپ کا ملجاء و ماوای جنت الفردوس ھے ۔
”وَاَبَتَاہُ! اَجَابَ رَبّاًدَعَاہُ “۔[14]اے پدر بزرگوارآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے پرورگار کی آواز پر لبیک کھی۔
اورحیرانی اور اس عالم میںکہ آپ مصیبت کی بنا پرحواس باختہ ھو گئی تھیں آپ کی ایسی حالت ھو گئی تھی لگتا تھا کہ آ پ کے جسم سے روح مفارقت کرگئی ھو ۔
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جنازہ کی تجھیز
امام(ع)اپنے چچا زاد بھا ئی کے جنازے کی تجھیز کر رھے تھے، حالانکہ آپ(ع) کی انکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری تھا ، آپ(ع) آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جسم اقدس کو غسل دیتے وقت کہتے جا رھے تھے: ”بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ،لَقَدْ اِنْقَطَعَ بِمَوْتِکَ مَالَمْ یَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَیْرِکَ مِنَ النَّبُوَّةِ وَالاَنْبَاءِ وَاَخْبَارِالسَّمَاءِ خَصَّصَتْ حَتَّیٰ صِرْتَ مُسَلِّیاًعَمَّنْ سِوَاکَ وَعَمَّمْتَ حَتَّیٰ صَارَالنَّاسُ فِیْکَ سِوَاءٌ۔وَلَوْلَا اَنَّکَ اَمَرْتَ بِالصَّبْرِ،وَنَھَیْت عنِ الْجَزَ عِ لَا َنْفَدْنَا عَلَیْکَ مَاءَ الشَّؤُنِ وَلَکَانَ الدَّاء مُمَاطِلاً، وَالْکَمَدُ مُخَالِفاً“ ۔[15]
”میرے ماں باپ آپ پر فدا ھو جا ئیں یا رسول اللہ آپ کی موت سے وہ تمام چیزیں منقطع ھوگئیں جو آپ کے علاوہ کسی نبی کی موت سے منقطع نہ ھو ئیں، جیسے آسمانی خبریں ،آپ اس طرح سمٹے کہ تمام لوگوں سے گو شہ نشین ھو گئے اور اس طرح پھیلے کہ لوگ آپ کی نظر میں یکساں ھو گئے، اگر آپ نے صبر کا حکم نہ دیا ھوتا اور نالہ و فریاد کر نے سے نہ روکا ھوتاتو روتے روتے ھماری آنکھوں سے آنسو ختم ھو گئے ھوتے اور ھم بیمارھوجاتے“
غسل دینے کے بعد آپ(ع) نے نحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جسم اطھر کو کفن پھنایا اور تابوت میں رکھا ۔
جسم اطھر پر نماز جنازہ
سب سے پھلے اللہ نے عرش پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی نماز جنازہ پڑھی ،اس کے بعد جبرئیل ،پھر اسرافیل اور اس کے بعد ملائکہ نے گروہ گروہ [16]کر کے نماز جنازہ ادا کی ،جب مسلمان نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جنازہ پر نماز جنازہ پڑھنے کےلئے بڑھے تو امام(ع) نے اُن سے فرمایا :”لایَقُوْمُ عَلَیْہِ اِمامُ مِنْکُمْ،ھُوَ اِمامُکُمْ حَیّاًوَمَیِّتاً“،”تم میں سے کو ئی امامت کے لئے آگے نہ بڑھے اس لئے کہ آپ حیات اور ممات دونوں میں امام ھیں “لہٰذا وہ لوگ ایک ایک گروہ کر کے نماز ادا کر رھے تھے ،اور ان کا کو ئی پیش امام نھیں تھا ، مخصوص طور پر مولائے کائنات حضرت علی(ع) نے نماز جنازہ پڑھا ئی اور وہ لوگ صف بہ صف نماز پڑھ رھے تھے اور امام کے قول کو دُھراتے جا رھے تھے جس کی نص یہ ھے:”السَّلَامُ عَلَیکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ۔۔اَللَّھُمَّ اِنّاَ نَشْھَدُ اَنَّہُ قَدْ بَلَّغَ مَااُنْزِلَ اِلَیْہِ،وَنَصَحَ لاُمَّتِہِ،وَجَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ حَتّیٰ اَعَزَّاللّٰہَ دِیْنَہُ وَتَمَّتْ کَلِمَتُہُ۔اَللَّھُمَّ فَاجْعَلْنَامِمَّنْ یَتَّبِعَ مَااَنْزَلَ اِلَیْہِ،وَثَبِّتْنَا بَعْدَہُ، وَاجْمَعْ بَیْنَنَابیْنََہُ“
”سلام ھو آپ پر اے اللہ کے نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اس کی رحمت اور برکت ھو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر،۔۔۔بیشک ھم گو ا ھی دیتے ھیں کہ جو کچھ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر نازل ھوا وہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے پھنچا دیا،امت کی خیر خوا ھی کی ،اللہ کی راہ میں جھاد کیا یھاں تک کہ اللہ نے آپ(ع) کے دین کو قوی اور مضبوط بنا دیا،اور اس کی بات مکمل ھو گئی ،اے خدا ھم کوان لوگوں میں سے قرار دیا جن پر تو نے نازل کیا اور انھوں نے اس کی اتباع کی ،ھم کو بعد میں اس پر ثابت قدم رکھ ،اور ھم کو ان کو آخرت میں ایک جگہ جمع کرنا “نماز گذار کہہ رھے تھے :آمین۔[17]
مسلمان نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے جنازے کے پاس سے گذرتے ھوئے ان کو وداع کرتے جارھے تھے ، جو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے قریب تھے اُن پر حزن و ملال کے آثار نمایاں تھے کیونکہ ان کو نجات دلانے والا اور ان کامعلم دنیا سے اٹھ چکا تھا ،جس نے ان کےلئے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ منظم شھری نظام کی بنیاد رکھی،اب وہ داعی اجل کو لبیک کہہ چکا تھا ۔
جسم مطھر کی آخری پناہ گاہ
جب مسلمان اپنے نبی کے جسم اقدس پر نماز پڑھ چکے تو امام(ع) نے نبی اکر م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کےلئے قبر کھودی ، اور قبر کھودنے کے بعدجسم اطھر کو قبر میں رکھاتواُ ن کی طاقت جواب دے گئی ،آپ(ع) قبر کے اندر کھڑے ھوئے قبر کی مٹی کو اپنے آنسووں سے تر کرتے ھوئے فرمایا :”اِنَّ الصَّبْرَلجَمِیْلٌ اِلَّاعَنْکَ،وَاِن الْجَزَعَ لقَبِیْحُ اِلَّاعَلَیْکَ،وَاِنَّ الْمُصَابَ بِکَ لَجَلِیْلُ،وَاِنَّہُ قَبْلَکَ وَبَعْدَکَ لَجَلَلُ “۔[18]
”آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے علاوہ سب پر صبر کرنا جمیل ھے ،آپ(ع) کے علاوہ پر آہ و نالہ کرنا درست نھیں ھے ، آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر مصاب ھونا جلالت و بزرگی ھے اور بیشک اس میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے پھلے اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد بزرگی ھے “۔
اس یادگار دن میں عدالت کے پرچم لپیٹ دئے گئے ،ارکان حق کا نپ گئے ،اور کا ئنات کو نورانی کرنے والا نور ختم ھو گیا ،وہ نور ختم ھوگیا جس نے انسانی حیات کی روش کواس تاریک واقعیت سے جس میں نور کی کو ئی کرن نھیں تھی ایسی با امن حیات میں بدل دیاجو تمدن اور انصاف سے لھلھا رھی تھی اس میں مظلوموں کی آھیں اور محروموں کی کراھیں مٹ رھی تھیں ،خدا کی نیکیاں بندوں پر تقسیم ھو رھی تھیںجن نیکیوں کا کو ئی شخص اپنے لئے ذخیرہ نھیں کر سکتا ۔
سقیفہ کا اجلاس
دنیائے اسلام میں مسلمانوں کا کبھی اتنا سخت امتحان نھیں لیاگیاجتنا سخت امتحان سقیفہ کے ذریعہ لیا گیا ،وہ سقیفہ جس سے مسلمانوں کے درمیان فتنوں کی آگ بھڑک اٹھی ،اور ان کے درمیان قتل و غارت کا دروازہ کھل گیا ۔
انصار نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی وفات کے دن سقیفہ بنی ساعدہ میں میٹنگ کی جس میں انھوں نے اوس اور خزرج کے قبیلوں کو شریک کرکے یہ طے کیاکہ خلافت ان کے درمیان سے نھیں جا نی چا ہئے ، مدینہ والوں کو مھا جرین کا اتباع کرتے ھوئے علی(ع) کی بیعت نھیں کر نا چاہئے جن کو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خلیفہ بنایا تھا اور غدیر خم کے میدان میں علی الاعلان ان کو خلیفہ معین فرمایا تھا ،انھوں نے ایک ھی گھر میں نبوت و خلافت کے جمع ھونے کا انکار کیا ،جیساکہ بعض بزرگان نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے علی(ع)کے حق میں نوشتہ لکھنے کے درمیان حا ئل ھوئے،اور انھوںنے نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے فرمان کو نافذ کرنے کے بجائے اس کو ترک کردیا ۔
بھر حال رسو ل(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے لشکر میں انصار طاقت و قوت کے اعتبار سے اصل ستون سمجھے جاتے تھے لیکن رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی رحلت کی وجہ سے قریش کے گھر وں میں رنج و غم اورماتمی لباس عام ھوچکا تھالہٰذاجو افراد انصار سے بیحد بغض و کینہ رکھتے تھے ، انھوں نے انصار کے ڈر کی وجہ سے اجلاس منعقد کرنے میں بہت ھی عجلت سے کام لیا ۔
حباب بن منذر کا کھنا ھے : ھمیں اس بات کا ڈر تھا کہ تمھارے بعد وہ لوگ ھم سے ملحق ھوجائیں جن کی اولاد آباء و اجداد اور اُن کے بھا ئیوں کو ھم نے قتل کیا ھے “۔[19]
حباب کی دی ھو ئی خبر محقق ھو ئی چونکہ کم مدت والے خلفاء کی حکومت ختم نھیں ھو ئی تھی کہ امویوں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ،امویوں نے اُن کو بہت زیادہ ذلیل و رسوا کیا ،معاویہ نے تو ظلم و ستم کرنے میں انتھاء کر دی ،جب اس کا بیٹا یزید تخت حکومت پر بیٹھا تو اُ س نے اُن پر ظلم و ستم کئے اُن کی آبرو ریزی کی ،ان کو سخت ایذا و تکلیف پھنچا ئی ،اُ س نے واقعہ حَرّہ میں جس کی تاریخ میں کو ئی مثال نھیں ملتی اُن کے اموال ،خون اور آبروریزی کو مباح کر دیا تھا ۔
بھر حال کچھ انصار نے سعد کوخلافت کا حقدارقرار دیااور کچھ نے قبیلہ اوس کے سردار خُضَیر بن اُسید کو خلافت کے لئے بہتر سمجھا ،اُنھوں نے اور قبیلہ سعد یعنی خزرج سے سخت بغض و کینہ کی وجہ سے اُ س کےلئے بیعت سے انکار کیا،ان دونوں کے ما بین بہت گھرے اور پرانے تعلقات تھے ، عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی انصار کے ھم پیمان کو بہت جلد سقیفہ میں رو نما ھونے والے واقعہ سے اور ابو بکر و عمرکوآگاہ کیا تو یہ دونوں جزع و فزع کرتے ھوئے جلدی سے سقیفہ پھنچے ، وہ دونوں انصار پراس طرح دھاڑے کہ جو کچھ ان کے ھاتھوں میں تھا وہ زمیں بوس ھو گیا ، سعد کا رنگ اڑ گیا ،ابو بکر و انصار کے ما بین گفتگو ھونے کے بعد ابو بکر کے گروہ نے اٹھ کر ان (ابوبکر ) کی بیعت کرلی ،اس بیعت کے اصل ھیرو عمر تھے ،انھوںنے یہ کھیل کھیلا، لوگوں کو اپنے ھم نشین کی بیعت کے لئے اُبھارا،ابو بکر اپنے گروہ کے ساتھ سقیفہ سے نکل کر مسجدِ رسول تک تکبیر و تھلیل کے سایہ میں پھنچے ،اس بیعت میں خاندانِ رسالت ،اسی طرح بڑے بڑے صحابہ جیسے عمار بن یاسر،ابوذر اور مقداد کے ووٹ باطل قرار دئے گئے۔
ابو بکر کی بیعت کے متعلق امام کا ردّ عمل
تمام مو رخین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ھے کہ امام(ع)،ابو بکر کی بیعت سے سخت ناراض تھے ، کیونکہ آپ(ع) اس کے اس سے زیادہ سزاوار اور حقدار تھے ،آپ(ع) کی رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے وھی نسبت تھی جو مو سیٰ(ع) کی ھارون سے تھی ،آپ(ع) کی جد وجھد اور جھاد سے اسلام مستحکم ھوا ،آپ اسلام کے سلسلہ میںبڑے بڑے امتحانات سے گذرے ،نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آپ(ع) کو اپنا بھا ئی کہہ کر پکارا اورمسلمانوں سے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “لیکن انھوں نے بیعت کر نے سے منع کیا ، ابو بکر اور عمر نے آپ(ع) سے زبر دستی بیعت لی ، عمر بن خطاب نے اپنے دوستوں کے ساتھ آپ(ع) کے گھر کا گھیرا ڈال دیا ، وہ آپ(ع) کو دھمکیاں دے رھے تھے اپنے ھاتھ میں آگ لئے ھوئے تھے ،بیت وحی کو جلانا چا ہتے تھے ، جگر گو شہ رسول سیدة نسا ء العالمین نے بیت الشرف سے نکل کر فرمایا :اے عمر بن خطاب تم کس لئے آئے ھو ؟“انھوں نے لا پرواھی سے جواب میں کھا : میں جو کچھ لیکر آیا ھوں وہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے والد بزرگوار کی لا ئی ھوئی چیز سے بہتر ھے “۔[20]
بڑے افسوس کی بات ھے کہ امت مسلمہ جناب فاطمہ زھرا(ع)کے سامنے ایسا سلوک کرے ، وہ زھراء مرضیہ جن کے راضی ھونے سے خدا راضی ھوتا ھے اور جن کے غضبناک ھونے سے خدا غضبناک ھوتا ھے اور ھمارے پاس ان حالات کو دیکھتے ھوئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن کھنے کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے ۔
بھر حال امام(ع)کو زبر دستی گھر سے نکال کر ان کے گلے میں لٹکی ھو ئی تلوار کے ساتھ ابو بکر کے پاس لایاگیا ،اس کے گروہ نے چیخ کر کھا :ابو بکر کی بیعت کرو ۔۔۔ابو بکر کی بیعت کرو ۔
امام(ع)نے اپنی مضبوط و محکم حجت اور ان کی سر کشی کی پروا نہ کرتے ھوئے یوں فرمایا :میں اس امر میں تم سے زیادہ حق دار ھوں ،میں تمھاری بیعت نھیں کروں گا بلکہ تمیں میری بیعت کرناچاہئے ، تم نے یہ بات انصار سے لی ھے ،اور تم نے اُن پر نبی سے قرابت کے ذریعہ احتجاج پیش کیا ،اور تم نے بیعت کو ھم اھل بیت(ع)سے غصب کر لیا ،کیاتمھارا یہ گمان نھیں ھے کہ تم پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی قرابت کی وجہ سے اس امیر کے سلسلہ
میں انصار سے اولیٰ ھو،لہٰذا وہ تمھاری قیادت قبول کریں اور تمھیں اپنا امیر تسلیم کریں لہٰذا میں بھی اس چیز کےصفحہ ۱۰۵۔مروج الذھب، جلد۱،صفحہ ۴۱۴۔الامامت و السیاسة، جلد ۱،صفحہ ۱۲۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ۱، صفحہ۳۴۔الاموال لابی عبیدہ صفحہ ۱۳۱۔اعلام النساء، جلد ۳،صفحہ ۲۰۵۔امام علی لعبد الفتاح مقصود، جلد ۱،صفحہ ۲۱۳۔حافظ ابراھیم نے اس مطلب کو اشعار میں یوں نظم کیا ھے :
وَقولَةٍ لِعَلِيٍ قَالھا عمرُ
اَکرِمْ بِسامِعِھَااَعْظِمْ بِمُلقِیْھَا
حرَّقْتُ دَارَکَ لَااَبْقِيْ عَلَیْک بِھا
اِنْ لَمْ تُبَایِعْ وَبِنْتُ المُصْطَفیٰ فِیْھا
مَا کَانَ غَیْرُ اَ بِيْ حَفْصٍ بِقَائِلِھَا
اَمَامَ فَارِسِ عَدْنَانٍ وَ حَامِیْھاَ
”عمر نے مو لائے کا ئنات سے کھا اے علی(ع) میں تمھارے گھر میں آگ لگا دوں گا چا ھے گھر میں دختر نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ھی کیوں نہ ھو مگر یہ کہ بیعت کرو “عمر کے علاوہ شھسوار عرب کے سامنے کسی میں ایسی بات کھنے کی جرات نھیں تھی “
ذریعہ سے تم پر احتجاج کر تا ھوں جس سے تم نے انصار پر احتجاج کیا کہ ھم پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حیات اور ان کی وفات کے بعد ان سے زیادہ نزدیک ھیں لہٰذا اگر تم صاحب ایمان ھو تو انصاف کرو ،ورنہ ظلم و ستم کے ذریعہ بیعت لے لو جبکہ تم حقیقت سے واقف ھو ۔
اے حجت و دلیل والو!اس دلیل کے ذریعہ قریش کے مھا جرین ،انصار پر غالب آگئے ، کیونکہ وہ نبی سے زیادہ قریب تھے ،اس لئے کہ کلمہ قریش کے متعدد معنی ھیں وہ نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بزم میں جمع ھوا کر تے تھے ، حالانکہ وہ ان کے نہ چچا زاد بھا ئی تھے اور نہ ماموں ،لیکن نبی اور علی کے ما بین متعدد طریقوں سے متعدد رشتے تھے ،آپ(ع) نبی کے چچا زاد بھا ئی ،ابو سبطین اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیٹی کے شوھر تھے جس کے علاوہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی کسی اور سے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نسل نھیں چلی ۔
بھر حال عمر امام(ع) کی طرف یہ کہتے ھوئے بڑھا :بیعت کرو ۔۔۔
امام(ع) نے فرمایا:”اگر میں بیعت نہ کروں تو ؟“۔
اس خدائے وحدہ لا شریک کی قسم جس کے علاوہ اور کو ئی خدا نھیں ھے آپ(ع) کوقتل کردیا جائے گا ۔
امام(ع) نے کچھ دیر خامو ش رھنے کے بعد اس قوم کی طرف دیکھا جس کو خواھش نفسانی نے گمراہ کر دیا تھا ،ملک و بادشاہت کی چا ہت نے اندھا کر دیا تھا ،آپ(ع) کو ان میں اُن کے شر سے بچانے والا کو ئی نظر نھیں آرھا تھا ،آپ(ع) نے بڑی ھی غمگین آواز میں فرمایا :اب تم اللہ کے بندے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ کے بھا ئی کو قتل کر دوگے ؟
ابن خطاب نے کھا :اللہ کے بندے تو صحیح ھے لیکن رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بھا ئی نھیں ۔۔۔
عمر نے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ان فرامین کو بھلا دیا جن میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا ھے کہ علی(ع) آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بھا ئی ھیں ،اُن کے شھر علم کا دروازہ ھیں ،نبی سے ھارون اور مو سیٰ کی منزل میں ھیں اور اسلام کے پھلے مجا ھد ھیں ،عمر نے اُن سب کو بھلا کر ابو بکر سے مخاطب ھو کر کھا :”اَلاتامرفیہ امرک ؟”کیا تم علی(ع) کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر نہ کروگے ؟
ابو بکر نے فتنہ و فساد ھونے سے ڈرتے ھوئے کھا :میں آپ(ع) پر کو ئی زبر دستی نھیں کر تا حالانکہ فاطمہ(ع) آپ کے پاس کھڑی ھو ئی تھیں ۔
قوم نے امام(ع) کو چھوڑ دیا ،آپ(ع) ھرولہ کرتے ھوئے اپنے بھا ئی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے روضہ پر پھنچے اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے تمام ظلم و ستم کی شکایت کی ،آپ گریہ کر رھے تھے اور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے یہ کہتے جا رھے تھے :”یابن اُمّ،اِنَّ القَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِيْ وَکَادُوْایَقْتُلُوْنَنِيْ ۔۔۔“۔[21]
اے بھائی ،قوم نے مجھے کمزور سمجھ لیا ھے اور وہ مجھے قتل کرنا چا ہتی ھے ۔۔۔“
قوم نے آپ(ع) کو کمزور سمجھ لیا اور آپ(ع) کے سلسلہ میں نبی کی وصیتوں کا انکار کردیا ،امام بڑے ھی رنج و الم کے ساتھ اپنے بیت الشرف پر پھنچے اور آپ(ع) پر وہ تمام چیزیں واضح و روشن ھو گئیں جن کے سلسلہ میں ا للہ نے نبی کے بعد آپ کو امت کی طرف سے پھنچنے والے عذاب اور انقلاب کی خبر دی تھی ۔خداوندعالم فرماتا ھے :<وَمَامُحَمَّدٌ إِلاَّرَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اٴَفَإِیْن مَاتَ اٴَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی اٴَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَنْقَلِبْ عَلَی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَضُرَّاللهَ شَیْئًا۔۔۔>۔[22]
”اور محمد تو صرف ایک رسول ھیں جن سے پھلے بہت سے رسول گذر چکے ھیںکیا اگر وہ مرجائیں یا قتل ھو جا ئیں تو تم الٹے پیروں پلٹ جا ؤگے تو جو بھی ایسا کریگا خدا کا نقصان نھیں کرے گا“۔
یہ تباہ کن تبدیلی اور شدید زلزلہ ھے جس نے قوم کے ایمان اور خوابوں کو جھنجھوڑدیا ھے بیشک ھم اللہ کے لئے ھیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ھیں ۔
بھر حال ھم ان افسوسناک واقعات سے قطع نظر کر تے ھیں کہ ابو بکر کی حکو مت نے اھل بیت(ع) سے سخت دشمنی کی وجہ سے سخت قوانین نافذ کرتے ھوئے فدک چھین لیا ،خمس کولغو قرار دیا اور اس کے علاوہ متعدد واقعات رو نما ھوئے جن کو ھم نے تفصیل کے ساتھ حیات الامام امیر المو منین(ع) میں تحریر کر دیاھے۔
زھرا (س) راہ آخرت میں
امام امیر المو منین(ع) اس المناک مصیبت میں مبتلا ھوئے کہ حضرت زھرا سلام اللہ نے شھادت پائی ،
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مریض ھو گئیں اور سخت مصیبتوں میں گھر گئیں ،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) عین عالم شباب میں تھیں کہ موت نے آپ(ع) کا پیچھا کیاجگر گوشہ رسول نے اپنے پدر بزرگوارکی وفات کے بعدطرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کیا کیونکہ امت نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نگاہ میں آپ کی منزلت کو فراموش کر چکی تھی ،اُس نے آپ کے ترکہ کو غصب کرلیا،گھر پر قبضہ کر لیا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ابن عم کو وصیت کی منجملہ یہ کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حق کو چھیننے والے آپ کے جنازہ میں نہ آئیں ،اُن کو رات کی تاریکی میں دفن کیا جائے ،قبر کا نشان مٹا دیا جائے تاکہ معلوم ھو جائے کہ آپ امت پر کس قدر غضبناک تھیں ۔
بھر حال امام(ع)نے صدیقہ طاھرہ کی آخری رسومات میں آپ(ع) کی وصیت کونافذ فرمایا،آپ آنکھوں سے جاری ھونے کی حالت میں قبر میں اُترے ،رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو سلام کیا ،اُن کو تعزیت پیش کی ، اور یوں شکوہ شکایت کیا:
”السَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ عَنِّيْ،وَعَنْ ابْنَتِکَ النَّازِلَةِ فيْ جَوَارِکَ،السَّرِیْعَة اللَّحَاقِ بِکَ ! قَلَّ یَارَسُوْلَ اللّٰہ عَنْ صَفِیَِّتِکَ صَبْرِيْ وَرَقَّ عَنْھَا تَجَلُّدِيْ،اِلَّااَنَّ فِي التَّاَسِّیْ،بِعَظِیْمِ فُرْقَتِکَ،وَفَادِحِ مُصِیْبَتِکَ،مَوْضِعَ تَعَزٍّ،فَلَقَدْ وَسَّدْتُکَ فِیْ مَلْحُوْدَتِ قَبْرِکَ وَفَاضَتْ بَیْنَ نَحْرِيْ وَصَدْرِيْ نَفْسُکَ < اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن>۔
فَلَقَدْ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِیْعَةُ،وَاُخَذَتِ الرَّھِیْنَةُ ! اَمَّاحُزْنِيْ فَسَرْمَدُ،وَاَمَّا لَیْلِيْ فَمُسَھَّدُ،اِلیٰ اَنْ یَخْتَارَاللّٰہُ لِيْ دَارَکَ اللَّتِیْ اَنْتَ بِھَامُقِیْمُ ۔وَسَتُنَبِئُکَ ابْنَتُکَ بِتَضَافُر ِاُمَّتِکَ عَلیٰ ھَضْمِھَا، فَاَحْفِھَا السَّوَالَ،وَاسْتَخْبِرْھَاالْحَالَ،ھَذَاوَلَمْ یَطُلْ الْعَھْدُ،وَلَمْ یَخْلُ مِنْکَ الذِّکْرُ۔
وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ،لَاقَالٍ وَلَاسَئْمٍ،فَاِنْ اَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلَالَةٍ ، وَاِنْ اُقِمْ فَلَا عَنْ سُوْءِ ظَنٍّ بِمَاوَعْدَ اللّٰہُ الصَّا بِرِیْنَ “[23]
”یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپ کو میری جانب سے اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جوارمیں آنے والی اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے جلد ملحق ھونے والی آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیٹی کی طرف سے سلام ھو ۔یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت ) سے میرا صبرو شکیب جاتا رھا ۔میری ھمت و توانا ئی نے ساتھ چھوڑ دیا۔لیکن آپ کی مفارقت کے حادثہ عظمیٰ
اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی رحلت کے صدمہ جا نکاہ پرصبر کر لینے کے بعدمجھے اس مصیبت پر بھی صبر و شکیبا ئی ھی سے کام لینا پڑے گا جبکہ میں نے اپنے ھاتھوں سے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو لحد میں اُتارااور اس عالم میں آپ(ع) کی روح نے پرواز کی کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا سر میری گردن اور سینہ کے درمیان رکھا تھا۔اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
اب یہ امانت پلٹا لی گئی ،گروی رکھی ھو ئی چیز چھڑا لی گئی لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رھیں گی ۔ یھاں تک کہ خداوند عالم میرے لئے بھی اسی گھر کو منتخب کرے جس میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) رونق افروز ھیں وہ وقت آگیا کہ آپ کی بیٹی آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو بتا ئیں کہ کس طرح آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی امت نے اُن پر ظلم ڈھانے کے لئے اتحاد کر لیا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اُن سے پورے حالات دریافت کرلیں یہ ساری مصیبتیں اُن پربیت گئیں ۔حالانکہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو گذرے ھوئے کچھ زیادہ عرصہ نھیں ھوا تھا اور نہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے تذکروں سے زبانیں بند ھو ئی تھیں ۔
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) دونوں پر میراالوداعی سلام ھو نہ ایسا سلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف سے ھوتا ھے اب اگر میں (اِس جگہ سے) پلٹ جاؤں تو اس لئے نھیں کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے میرا دل بھر گیا ھے اور اگر ٹھھرا رھوں تو اس لئے نھیں کہ میں اس وعدے سے بد ظن ھوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ھے “۔[24]
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی امانت کے مفقود ھونے پرامام کے یہ حزن و غم سے بھرے کلمات تھے جیسا کہ آپ کے کلمات دنیا کی طرف سے پھنچنے والے درد و الم کی حکایت کر تے ھیں ،اور امام(ع) نے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مطالبہ کیا کہ اپنے پارئہ تن سے امت کی طرف سے پھنچنے والے دردو الم کے متعلق ضرور سوال کریں تاکہ وہ بتا سکیں کہ امت نے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو کس طرح ستایا ھے ۔
بھر حال امام(ع) جگر گوشہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو دفن کرکے آئے جبکہ آپ(ع) بہت زیادہ رنجیدہ تھا ، اس لئے کہ قوم نے اُن کو معزول کر دیا ،آپ(ع)نے اُمت سے منھ موڑ لیا اورآپ(ع) تمام سیاسی امورسے الگ تھلگ ھوگئے۔
عمر کی حکومت
ابو بکر کی حکومت کو کچھ ھی دن گذرے تھے اور وہ اپنی حکومت کے دو سال گذرنے کے بعد بیمار پڑگئے اور جب ان کو اپنی موت کا یقین ھو گیا تو انھوں نے حکومت اپنے ساتھی عمر کے حوالہ کر دی ، بزرگ صحابہ کے مابین عمر کو ولی بنائے جانے پر بہت زیادہ لڑا ئی جھگڑا ھوامگر یہ کہ ابو بکر نے ان کی ایک نہ ما نی اور اپنی اسی رائے پر مصر رھے [25]اس نے عمر کے لئے ایک عھد نامہ لکھاجس کو عثمان کے حوالہ کیا گیا اس نے اس کو لوگوں کے درمیان شائع کیا اور انھیں عمر کی بیعت کر نے کی دعوت دی ۔
بھر حال عمر کو بہت ھی آسانی اور کسی مشکل کے بغیر حکومت مل گئی ،وہ لوھے سے زیادہ سختی کے ساتھحکومت پر قابض ھوگئے ،سختی کا نام دی جانے والی سیاست کے قائد بن گئے ،یھاں تک کہ بڑے بڑے اصحاب کے ساتھ بھی سختی سے پیش آنے لگے ،مو رخین کے بقول وہ حجاج کی تلوار سے بھی زیادہ سخت تھے ، عمرکی سخت گیری تمام افراد سے زیادہ تھی ،وہ شھروں پر مکمل طور پر مسلط ھوگئے حکومتی امور کو چلانے میں وہ اپنی مخصوص سیاست میں منفرد تھے ،ھم اپنی کتاب حیاة الامام امیر المو منین کے دوسرے حصہ میں اُن کی داخلی ،خارجی اور اقتصادی سیاست کومفصل طور پر بیان کر چکے ھیں ۔
عمر پر حملہ
ایرانیوں کے مقابلہ میں عمر کی مخصوص سیاست تھی ،اسی لئے عمر ایرانیوں سے نفرت کرتا تھا اور ایرانی عمر سے نفرت کرتے تھے ،ابو لو لو نے عمر کی عداوت کو چھپارکھا تھا ، ایک دن ان کاعمر کے پاس گذر ھوا تو عمر نے ان سے مذاق کرتے ھوئے کھا :مجھے خبر ملی ھے کہ تم یہ کہتے ھو :لوشئت ان اصنع رحی تطحن بالریح لفعلت؟
”اگر میں ھوا سے چلنے والی چکی بنا نا چا ھوں تو بنا سکتا ھوں “۔
یہ جملہ ان کو بُرا لگااور انھوں نے غضبناک ھوکر اپنا دفاع کر تے ھوئے یوں کھا: لاصنعنّ لک رحي یتحدّث بھا الناس۔۔۔”میں تیرے لئے ایسی چکی بناؤں گا جس کا لوگوں میں چرچا رھے گا “
دوسرے دن انھوں نے عمرپر حملہ کر دیا[26] اور اس کو تین نیزے مارے :ایک نیزہ اس کی ناف کےنیچے لگا جس سے اس کی نیچے والی کھال پھٹ گئی ،اس کے بعد ابو لو لو نے اھل مسجد پر حملہ کیا اور گیارہ آدمیوں کو نیزہ مارا ،عمر کو اٹھاکر اس کے گھر پرلیجایا گیا حالانکہ اس کے زحم سے خون بہہ رھا تھا ، اس نے اپنے اطراف والوں سے کھا :مجھے کس نے تیر مارا ھے ؟مغیرہ کے غلام نے ۔۔
کیا میں نے تم سے نھیں کھا تھا :لا تجلبوا لنا من العلوج احداً فغلبتموني ۔[27]
”کسی ایرانی کافر کو میرے پاس نہ لانا لیکن تم نے میری بات نہ ما نی “
عمرکے اھل و عیال طبیب کو بلا کر لائے تو طبیب نے عمر سے کھا :تم کونسی شراب زیادہ پسند کرتے ھو ؟عمر نے کھا : نبیذ۔
عمر کو وہ شراب پلا ئی گئی وہ اس کی بعض آنتوں سے نکل کر باھر آگئی ،لوگوں نے کھا :پیپ نکل رھا ھے ۔اس کے بعد دودھ پلایا گیا جو اس کی کچھ آنتوں سے باھر نکل گیا ،یہ دیکھ کر طبیب نے مایوس ھو کر کھا : اب تمھارا کو ئی علاج نھیں ھو سکتا ۔[28]
شوریٰ کا نظام
عمر کے مرض میں شدت آتی گئی تو وہ امت قیادت کو سونپنے کی فکر میں پڑگئے تو اس کی پارٹی کے وہ افراد جنھوں نے خاندان نبوت سے امت کی رھبری کو باھر نکالنے میں مدد کی تھی اس نے اُن سے کف افسوس ملتے ھوئے کھا :اگر ابو عبیدہ زندہ ھوتا تو میں اسے خلیفہ بناتا چونکہ وہ امت کا امین تھا اور اگر سالم مو لا ابو حذیفہ زندہ ھوتا تو اس کو خلیفہ بنا دیتا کیونکہ وہ اللہ سے بہت زیادہ لو لگاتا تھا۔
جب ھم تاریخ اسلام کے اوراق الٹتے ھیں تو نہ تو ھمیں ابو عبیدہ کا تاریخ میں کو ئی کارنامہ دکھائی دیتاھے اور نہ ھی اس کی عالم اسلام میں کو ئی خدمت دکھا ئی دی ۔
لیکن ھاں سالم مو لا ابو حذیفہ کی کمینہ پن کر نے کی عادت تھی ،ھاں ،اسی نے تو مو لا ئے کائنات کے بیت الشرف پر حملہ کرنے کا کردار ادا کیا تھا ۔۔۔ان حوادث کا گروھی اور تقلیدی تعصبات سے ہٹ کر جائزہ لینا چاہئے تاکہ مسلمانوں کو صحیح حالات کا علم ھو جائے ۔
بھر حال عمر نے شوریٰ کے نظام کی بنیاد رکھی ،جس نظام کا مھمل ھونا کسی پر مخفی نھیں ھے ، الغرض انھیں امام(ع)کو خلافت سے دور رکھنا تھا لہٰذا انھوں نے قرشیوں کو خوش رکھنے کےلئے امام امیر المو منین(ع) سے بغض و کینہ و عناد رکھنے والے اموی خاندان کے سردار عثمان بن عفان کو خلافت دیدی ۔
بھر حال شوریٰ کے نظام کے تقاضے کے مطابق عثمان نے امت کی قیادت قبول کرلی،وہ نظام جس سے مسلمان ھمیشہ کے لئے فتنہ و فساد اور عظیم شر ّ میں مبتلا ھوگئے ،ھم نے اس نظام کے متعلق اپنی کتاب”حیاةالامام امیر المو منین(ع)“میں مو ضوع کے اعتبار سے تذکرہ کیا ھے اور اب ھم سر سری طور پر ان واقعات کو پیش کرتے ھیں ۔
عثمان کی حکومت
جمھور مسلمین نے بڑے ھی اضطراب اور نا پسندی کے ساتھ عثمان کی حکومت تسلیم کر لی، مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ عثمان حکومت پا کر اپنے خاندان کو ھی کامیاب و کامران کر سکتا ھے چونکہ عثمان کا خاندان مسلسل اسلام کے خلاف بر سر پیکار رھا تھا اور طرح طرح کی سا زشیں رچتا رھا تھا،اور دوزی نے یہ مشاھدہ کرھی لیا ھے کہ اموی لوگ صرف اسی جماعت یا گروہ کی مدد کرتے ھیں جن کے دل اسلام کے بغض سے لبریز ھوں ۔[29]
بھر حال عثمان نے جان بوجھ کر حکومت کے تمام کا م کاج امویوں کے سپُرد کر دئے ،عام طورپر اقتصاد کو اپنی مصلحتوں کے مد نظر قرار دیا ،بنی امیہ نے عام اقتصاد کو اپنے اس نظام کی تعمیر کےلئے استعمال کیاجس کو اسلام نے فنا کر دیا تھا ۔جس سے عثمان کی شخصیت و حکومت کمزور ھو گئی ،وہ اس کو ناپسند کر نے لگے ،امام(ع) کی تعبیر کے مطابق وہ لوگ چیخنے چلانے لگے :”یَخْصِمُوْنَ مَالَ اللّٰہِ خِصْمَةَ الاِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِیْعِ “ ”وہ بیت المال کو اس طرح چرنے لگے جس طرح اونٹ مو سم بھار کی گھاس کو چرتا ھے “،اس سے قبیلوں میں فقروغربت پھیل گئی جو اس کی حکومت کے خاتمہ کا سبب بنی ۔
اس کی حکومت کے سلسلہ میں ایک اھم بات یہ ھے کہ اس نے اسلامی ممالک کو بنی امیہ اور ابو معیط کی اولاد سے منسوب کردیا تھا جن کو حکومت چلانے کی کو ئی خبر نھیں تھی ان میں سے بعض بڑے گناھوں کے مرتکب ھوئے ،اس نے ولید بن عقبہ کو کوفہ کا والی بنادیاجو اپنی پوری رات یھاں تک کہ صبح تک گویّوں کے ساتھ نشہ کی حالت میں گذارتا تھا ،اس نے لوگوں کو صبح کی نماز چار رکعت پڑھا ئی اور اس نے نماز رکوع و سجود کی حالت میں کھا : میں نے شراب پی ھے اور مجھے شراب پلا ئی گئی ھے ،اس کے بعد محراب میں ھی شراب کی قے کردی ، اس کے بعد سلام پھیر کر نمازیوں کی طرف رُخ کر کے کھا :کیا اور پڑھا ؤں ؟ابن مسعود نے اس کو جواب دیتے ھوئے کھا : نھیں ،خدا تمھاری نیکی میں اضافہ نہ کرے اور نہ اس شخص کی نیکی میں اضافہ کرے جس نے تمھیں ھمارے پاس بھیجا ھے ،اس نے اپنی جو تی اٹھا کر اس کے منھ پر ماری ،لوگوں نے اس پر کنکریاں برسائیں وہ قصر میںداخل ھو گیا جبکہ اس پر کنکریاں پڑ رھی تھیں وہ اپنی رسوا ئیوں اور دین سے دور ی میں مدھوش تھا۔[30]
حطیہ جرول عبسی کا کھنا ھے :
شَھِدَ الحَطِیْئَةُ یَومَ یَلْقیٰ رَبَّہُ
اَنَّ الوَلِیْدَ اَ حَقُّ بِالغَدرِ
نَادیٰ وَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُھُمْ
اَاَزِیْدُ کُمْ ؟ثَمِلاً وَلَا یَدْريْ!
لِیَزِیْدَھُمْ خَیْراً وَلَوْ قَبِلُوْا
مِنْہُ لَزَادَھُمْ علیٰ عَشْرِ !
فَاَبَوْا اَباوَھَبٍ وَلَوْ فَعَلُوا
لَقَرَنَتْ بَیْنَ الشَّفْعِ وَالوَتْرِ
حَبَسُواعَنَانَکَ اِذْجَرَیْتَ وَلَوْ
خَلَّوا عَنَانَکَ لَمْ تَزَلْ تَجْرِيْ
”حطیئہ روز محشر یہ گواھی دے گا کہ ولید غداری کئے جانے کا زیادہ مستحق ھے۔
حالانکہ نماز تمام ھو چکی تھی پھر بھی اس نے کھا مزید کچھ رکعتیں پڑھاؤں؟
تاکہ اُن کے ثواب میں اضافہ کرے ،اگرلوگ اس کی بات مان لیتے تو وہ دس سے بھی زیادہ رکعت نماز پڑھا دیتا۔
تو اے ابووھب لوگوں نے انکار کردیااگر وہ ولید کی بات مان لیتے تو آج تم نماز شفع اور وتر کو ایک ساتھ ملا کر پڑھتے ۔
جب تم دوڑ رھے تھے تو انھوں نے تمھاری مھار کھینچ لی اگر وہ تمھاری مھار ڈھیلی چھوڑ دیتے تو تم چلتے ھی رہتے “ ۔
کیاآپ نے ولید کے سلسلہ میں یہ توھین ملاحظہ کی ؟حطیئہ پھر اسی کے متعلق کہتے ھیں :
تَکَلَّمَ فِي الصَّلاةِ وَزَادَ فِیْھَا
عَلانِیَةً وَجَاھَرَ بِالنِّفَاقِ
وَمَجَّ الْخَمْرَ عَنْ سَنَنِ المُصَلي
وَنادیٰ وَالْجَمِیْعُ الیٰ افْتِرَاقِ
اَ زِیْدُکُمْ علیٰ اَنْ تَحْمَدُوْنِيْ
فَمَا لَکُمْ وَمَالِيْ مِنْ خَلَاقِ[31]
”ولید نے نماز میں کلام کیا ،علی الاعلان رکعات کا اضافہ کیا اور نفاق کا اظھار کیا ۔
شراب کی وجہ سے وہ نمازی کے آداب سے خارج ھو گیا جب سب نماز کامل کرچکے تھے۔
اس نے بلند آواز میں کھا کیا میں مزید رکعتیں پڑھاؤں ،اس شرط پر کہ تم میری تعریف کرو کیونکہ تم میں اور مجھ میں کو ئی اخلاق پسندیدہ نھیں ھے “۔
کوفہ کے نیک لوگوں کے ایک گروہ نے یثرب پھنچ کر جلدی سے عثمان کے پاس اس کی شکایت پھنچا ئی اور اس کے سامنے وہ انگوٹھی بھی پیش کی جس کو اس نے مستی کی حالت میں اُتار کر پھینک دیا تھا،ولید نے شراب پی کر جو کچھ انجام دیا تھا اس کے سلسلہ میں گفتگو کی تو عثمان نے کو ئی معقول جواب نھیں دیا ،زبر دستی ان کی بات تسلیم کر تے ھوئے کھنے لگا :کیا تمھیں علم ھے کہ اس نے شراب پی تھی ؟
ان لوگوں نے کھایہ وھی شراب توھے جس کو ھم زمانہ جاھلیت میں پیا کر تے تھے ۔
عثمان نے غضبناک ھو کر اُن کو اپنے پاس سے دور کردیا ،وہ سب غیظ و غضب کی حالت میں اس کے پاس سے نکل کر تیزی کے ساتھ امام(ع) کے پاس پھنچے اور آپ(ع) کو اپنے اور عثمان کے درمیان ھونے والی گفتگو کی خبر دی ۔امام(ع) عثمان کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا:”دَفَعَتَ الشَّھُوْدَوَبَطَلَتَ الْحُدُوْدَ“۔
عثمان ان امور کے نتائج سے گھبرا گیا اور اس نے امام(ع) کی خدمت میں عرض کیاکہ :آپ(ع) کی کیا رائے ھے ؟
”اریٰ اَنْ تَبْعَثَ الیٰ صَاحِبِکَ،فَاِنْ اَقَامَاالشَّھَادَةَ فِيْ وَجْھِہِ وَلَمْ یُدْلِ بِحُجَّةٍ اَقَمْتَ عَلَیْہِ الْحَدَّ۔۔“۔
”میری رائے یہ ھے کہ آپ اپنے دوست کے پاس بھیجیں اگر وہ شھادت قائم کر سکے جس کے مقابلہ میں کو ئی حجت نہ ھو تو اس پر حد جا ری کر دیجئے “۔
عثمان نے امام(ع) کا مشورہ قبول کر لیا اور ولید کو بلا بھیجا،جب وہ آگیا تو گواھوں کو بلا یا،جب انھوں نے گوا ھی دی تو ولید چُپ ھو گیا ،اور اس کے پاس اپنے دفاع کے لئے کو ئی دلیل نھیں تھی ، وہ خود حد شرعی جاری ھونے کےلئے خاضع ھو گیا ، وہ عثمان کے خوف سے حد جاری ھونے کی جگہ پر حاضر ھونے سے منع نہ کرسکا امام(ع) اس پر حد جا ری کرنے کے قصد سے بڑھے تو ولید نے آپ پر یوں سب و شتم کیا : اے ظلم کرنے والے، تو عقیل نے اس کے سب و شتم کا جواب دیا، امام نے کوڑا مارنے کےلئے ھاتھ بلند کیا تو عثمان غیظ و غضب کی حالت میں چیخ کر امام سے کھنے لگا :آپ(ع) کو ایسا نھیں کر نا چا ہئے ۔
امام(ع) نے شریعت کی روشنی میں اس کو یوں جواب دیا ”:بَلیٰ وشَرُّمِنْ ھَذَا اِذَافَسِقَ وَمَنَعَ حَقَّ اللّٰہِ اَنْ یُوْخَذَ مِنْہُ “۔
”لیکن اس سے بھی برا یہ ھے کہ فسق اختیار کیا جائے اور اللہ کا حق ادا کرنے سے انکار کیا جائے “۔
یہ تمام مطالب اس بات پر دلالت کر تے ھیں کہ عثمان اللہ کی حدود جا ری کر نے میں سستی سے
کام لیتا تھا اور خاندان والوں کے ساتھ بہت ھی لطف و مھربا نی کے ساتھ پیش آتا تھا وہ خاندان والے جو اللہ کے لئے کسی احترام کے قائل نھیں تھے ۔
عثمان کے لئے محاذ
نیک اور صالح مسلمانوں نے عثمان کے خلاف قیام کیا ،اس کے والیوں نے عثمان پر دھاوا بول دیا،اُس پر علی الاعلان تنقید کی ،یہ بات بھی شایان ذکر ھے کہ مخالفین کا یہ محاذ دائیں ،با ئیں ھرطرف سے تھا ، طلحہ ،زبیر ،عائشہ اور عمرو بن عاص اپنی خاص رغبت اور مصلحتوں کی بنا پراس کا دفاع کررھے تھے ،بعض دوسری اھم اسلامی شخصیات جیسے عمار بن یاسر (طبیب بن طبیب)،مجاھد کبیر ابوذر غفاری،صحابی قاری قرآن عبد اللہ بن مسعوداور ان کے علاوہ دوسرے افراد جنھوں نے اللہ کی راہ میں مصیبتیں اٹھا ئی ھیںجب انھوں نے سنت
رسول کو محو اور بدعت کو زندہ ھوتے ،سچوں کو جھٹلائے جانے اور بغیر حق کے اثر دیکھا تو انھوں نے عثمان کے منھ پر گرد وغبار پھینک دیا ،اس کو اس کی سیاست کی سزا دینے کی غرض سے اس سے راستہ بدلنے ، اور امویوں کو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے سے دور کرنے کا مطالبہ کیااور اُن کا اس تنقید میں اسلام کی خدمت کے علاوہ اور کو ئی مقصد نھیں تھا لیکن اس کامثبت جواب نھیں ملا ۔
عثمان پر حملہ
جب عثمان کے سامنے پیش کئے گئے تمام مسا ئل واضح ھو گئے اور ان کا کو ئی حل نہ نکل سکا تو انقلاب کے شعلے بھڑک اٹھے ،انقلابیوں نے اس کا محاصرہ کرلیااور اس سے حکومت واپس کرنے کا مطالبہ کیا تو اُس نے اُن کو کو ئی جواب نھیں دیا،انھوں نے اس سے مروان اور بنی امیہ کو دور کرنے کا مطالبہ کیاتو اُس نے اُن سے منھ مو ڑ لیا ،اموی اس سے شکست کھا گئے اور اس کو تنھا چھوڑ دیاتو مسلمانوں نے اس پر حملہ کردیاجن میں آگے آگے محمد بن ابی بکر تھے، انھوں نے آگے بڑھ کر عثمان کی ڈاڑھی پکڑ کر کھا : اے نعثل! (احمق )خدا تجھے رسوا و ذلیل کرے ۔
عثمان نے جواب دیا :میں نعثل نھیں ھوں ،لیکن اللہ کا بندہ اور امیر المو منین ھوں ۔۔۔
محمد بن ابی بکر نے اُن سے کھا :کیا معاویہ کو اپنے سے دور نھیں کر و گے ۔۔۔اور اس کا محاصر ہ کرنے والے بنی امیہ کو گننا شروع کر دیا ۔
عثمان نے محمدسے گریہ و زاری کرتے ھوئے یوں کھا :اے بھتیجے تم میری ڈا ڑھی چھوڑ دو کیا جس ڈاڑھی کو تم پکڑے ھوئے ھو تمھارا باپ اس ڈا ڑھی کوپکڑتا تھا؟
محمد نے ان کو یوں جواب دیا :میں تمھارے ساتھ بد سلوکی کر نا چا ہتا ھوں وہ ڈاڑھی پکڑنے سے زیادہ سخت ھے ۔
محمد نے اپنے ھاتھ میں لیا ھوا نیزہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا ،پھر اس کے جسم پر انقلابیوں کی تلواریں ٹوٹ پڑیں ،اس کا جسم زمین پر گر پڑا،بنی امیہ اور آل ابی معیط سے لیکر نجد تک کسی نے بھی آہ و بکا نھیں کیا ،انقلابیوں نے اس کی بہت زیادہ تو ھین کی،اس کا جسم رسوا کن مقام پر لا کر ڈال دیا ،انھوں نے اس کو دفن تک نھیں کیا ،یھاں تک کہ جب امام امیر المو منین(ع) نے اس کے دفن کے سلسلہ میں فرمایا تو انقلابیوں نے اس کو دفن کیا اس طرح خوفناک حالات میں عثمان کی زندگی کا خاتمہ ھوا ،اس کے قتل سے مسلمانوں کا بہت سخت امتحان ھوا کہ ان کےلئے ھمیشہ کی خاطر فتنے اور مصیبتیںان کے گلے کا ھار بن گئے ، امویوںجیسے طلحہ زبیر اور عائشہ نے اس کے قتل سے فائدہ اٹھاتے ھوئے اس کے خون کا مطالبہ کیا۔اُن کو اپنے فائدہ کے لئے ایک بھانہ مل گیااِن ھی لوگوں نے اس کی تجھیز و تکفین کی تھی ۔
امام(ع) کی خلافت
امام(ع) نے بڑے ھی قلق و اضطراب کے ساتھ عثمان کے قتل کاسامنا ، آپ(ع) ان تمام باتوں سے باخبر تھے کہ امویوںاور طا معین جس حکومت کا قلادہ ان کی گردن میں ڈال رھے ھیں وہ عنقریب اس حکومت کے خلاف ھو کر اُس (عثمان )کے خون کا مطالبہ کریں گے ۔
امام(ع) اس بات سے بھی مضطرب تھے کہ آپ امت کے قائد تھے، جب حکومت کی باگ ڈور آپ کے ھاتھوں میں آجا ئے گی تویہ حکومت امت کےلئے صرف حق اور عدالت کی سیاست پر مبنی ھو گی،طمع کاروں اور چوروں کو حکومت سے الگ کر دیا جا ئے گا ،اور یہ فطرت کا تقاضا ھے کہ حکمراں نظام آپ کے سیاسی خطوط کا مقابلہ کرے گااور آپ کے خلاف مسلح جد و جھد کا اعلان کردے گا ۔
بھر حال امام(ع)نے خلافت قبول کرنے سے منع فرمادیا،لیکن جم غفیر تھا جو آپ کی گردن میں حکومت کا قلادہ ڈالنے پر اصرار کر رھاتھا ۔امام(ع) نے اُن سے فرمایا:
”لَاحاجَةَ لِيْ فِيْ اَمْرِکُمْ،فَمَنِ اخْتَرْتُمْ رَضِیْتُ بِہِ “۔[32]
”مجھے اس حکومت کی کو ئی ضرورت نھیں تم جسے منتخب کرلوگے میں راضی ھو جا ؤںگا“۔
مجمع آپ کے اس قول پر راضی نہ ھوا اوربار بار آپ سے یہ کہہ رھاتھا :لاامام لناغیرک ۔۔۔ ”آپ کے علاوہ ھمارا کو ئی امام نھیں ھے “۔
انھوں نے پھر تکرار کی :ھم آپ کے علاوہ کسی اورکا انتخاب نھیں کر یںگے ۔
امام(ع) ان کے بالمقابل خلافت قبول نہ کرنے پر مصر تھے ،چونکہ آپ(ع) کو علم تھا کہ خلافت قبول کرنے کے بعد مشکلات کھڑی ھو جا ئیں گی ،ہتھیاروں سے لیس افراد نے امام(ع)کے خلافت قبول نہ کرنے کے اصرار پر ایک میٹنگ بلائی جس میں شھریوں اور بااثر افراد کو بلاکر اُ ن کے سامنے یہ طے کیا کہ اگر مسلمانوں [33]کا حاکم معین نہ ھوا تو وہ طلحہ اور زبیر کو موت کے گھاٹ اُتار دیں گے ،مدنی یہ کہتے ھوئے آگے بڑھے :
بیعت ۔ بیعت ۔ماتریٰ مانزل بالاسلام ، وماابتلینابہ من ابناء القریٰ ۔۔۔
”جب ھم مختلف مصیبتوں والے امتحان میں مبتلا ھوگئے “
امام(ع) ان کو یہ جواب دے کرانکار پر مصر رھے :”دَعُوْنِيْ وَالْتَمِسُواغَیْرِيْ“۔
”مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کے لئے )میرے علاوہ کسی اور کوتلاش کرلو“
آپ(ع) کی نظر میں وہ تمام واقعات تھے جن کا آپ(ع) کو عنقریب سامنا کرنا تھا:
”ایھاالناس،اِنّا مستقبلون امراً لہ وجوہُ ولَہُ الوانُ ،لا تقومُ بہِ القلوبُ ،ولا تثبتُ عَلَیہِ العقُولُ “۔”لوگو !ھمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ھے جس کے کئی رُخ اور کئی رنگ ھیں ،جس کی نہ دلوںمیں تاب ھے اور نہ عقلیں اسے برداشت کر سکتی ھیں“۔
انھوں نے امام(ع)کی بات قبول نھیں کی اور آپ(ع) کا نام لے کر کھنے لگے: امیرالمومنین انت امیرالمومنین انت ۔”آپ امیر المو منین ھیں ،آپ امیر المو منین ھیں “۔
امام(ع)نے ان کے سامنے اس طریقہ کی وضاحت فر ما ئی جس پر حکومت چلنا تھی :”وَ اعْلَمُوْااَنِّیْ اِنْ اَجَبْتُکُمْ رَکِبْتُ بِکُمْ مَااَعْلَم،وَلَمْ اُصْغِ اِلیٰ قَوْلِ الْقَائِلِ وَعَتْبِ الْعَاتِبِ،وَاِنْ تَرَکْتُمُوْنِیْ فَاَنَاکَاَحْدِکُمْ،وَلَعَلِّي اَسْمَعُکُمْ وَاَطْوَعُکُمْ لِمَنْ وَلَّیْتُمُوْہُ اَمْرَکُمْ، وَاَنَا لَکُمْ وَزِیْراً،خَیْرُ لَکُمْ مِنِّي اَمِیْراً !“۔
”یادر کھو کہ اگر میں نے بیعت کی دعوت کو قبول کر لیا تو تمھیں اپنے علم ھی کے راستے پر چلاؤں گا اور کسی کی کو ئی بات اور سر زنش نھیں سنوں گا ۔لیکن اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو تمھاری ایک فرد کی طرح زندگی گذاروں گا بلکہ شائد تم سب سے زیادہ تمھارے حاکم کے احکام کا خیال رکھوں میں تمھارے لئے وزیر کی حیثیت سے امیر کی بہ نسبت زیادہ بہتر رھوں گا “۔
امام(ع)نے اس طریقہ و راستہ کی وضاحت فرما ئی جس پر انھیں گامزن رھنا ھے ۔۔۔وہ راستہ حق اور عدالت کا راستہ ھے تمام لوگوں نے آپ(ع) کے اس فرمان پر راضی ھوتے ھوئے نعرہ بلند کیا : ھم آپ(ع) سے اس وقت تک جدا نھیں ھو ں گے جب تک آپ(ع) کی بیعت نھیں کرلیں گے ۔
لوگ ھر طرف سے آپ(ع) پر زور ڈال رھے تھے اور آپ(ع) سے خلافت قبول کرنے کا مطالبہ کر رھے تھے ،امام(ع) نے اُن کے اصرار پر اپنی بیعت کی یوں وضاحت فرما ئی :فَمَارَاعَنِي اِلَّا وَالنَّاسُ کَعُرْفِ الضَّبُعِ [34]یَنْثَالُوْنَ عَلَيَّ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ، حَتّٰی لَقَدْ وُطِيَ الْحَسَنَانِ،وَشُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِیْنَ حَوْلِيْ کَرَبِیْضَةِ الْغَنَمِ“۔
”اس وقت مجھے جس چیز نے دھشت زدہ کر دیا تھا وہ یہ تھی کہ لوگ بجّو کی گردن کے بال کی طرح میرے گرد جمع ھو گئے اور ھرطرف سے مجھ پر ٹوٹ پڑے یھاں تک کہ حسن و حسین(ع) کچل گئے اور میری ردا کے کنارے پھٹ گئے یہ سب میرے گرد بکریوں کے گلہ کی طرح گھیرا ڈالے ھوئے تھے“۔
امام(ع)کا خلافت قبول کر نا
امام کے پاس خلافت قبول کرنے کے علاوہ کو ئی اور چارہ نھیں تھاچونکہ آپ(ع) کو یہ خوف تھا کہ کھیں بنی امیہ کا کو ئی فاسق حاکم نہ بن جا ئے لہٰذا آپ(ع) نے فرمایا:”وَاللّٰہِ مَا تَقَدَّ مَتُ عَلَیْھَا(ای علی الخلافة)اِلَّاخَوْفاًمِنْ اَنْ یَنْزُوَ عَلیٰ الْاُمَّةِ تَیْسُ مِنْ بَنِيْ اُمَیَّةَ،فَیَلْعَبَ بِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔۔۔“[35]۔
”خدا کی قسم میں نے خلافت اس خوف سے قبول کی ھے کہ کھیں بنی امیہ کا کو ئی بکرا امت کی خلافت کو اُچک لے اور پھر کتاب خدا کے ساتھ کھلواڑ کرے “۔
مجمع جا مع اعظم کی طرف دوڑ کر آیااور امام کا تکبیر اور تھلیل کے سایہ میں استقبال کیا، طلحہ نے اسی اپنے شل ھوئے ھاتھ سے بیعت کی جس کے ذریعہ اس نے عھد الٰھی کا نقض کیا تھا ،امام(ع) نے اس کو بد شگو نی تصور کرتے ھوئے ارشاد فرمایا:”مَااَخْلَقَہُ اَنْ یَّنْکُثَ !“۔”بیعت توڑنا تو تمھاری پرا نی عادت ھے “۔
تمام لوگوں نے آپ(ع) کی بیعت کی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی بیعت تھی ،عام بیعت تمام ھوگئی جس کے مانند کو ئی ایک خلیفہ بھی بیعت لینے میں کامیاب نھیں ھو سکا تھا ،جس سے مسلمانوں کی خو شی کا کوئی ٹھکانہ ،نہ رھا ،امام امیر المو منین(ع) فرماتے ھیں :”وَبَلَغَ مِنْ سُرُوْرِالنَّاسِ بِبَیْعَتِھِمْ اِیّايَ اَنِ ابْتَھَجَ بِھَاالصَّغِیْرُ،وَھَدَجَ اِلَیْھَا الْکَبِیْرُ،وَتَحَامَلَ نَحْوَھَاالْعَلِیْلُ،وَحَسَرَتْ اِلَیْھَا الْکِعَابُ“۔
”تمھاری خو شی کا یہ عالم تھا کہ بچوں نے خو شیاں منا ئیں، بوڑھے لڑکھڑاتے ھوئے قدموں سے آگے بڑھے بیمار اٹھتے بیٹھتے ھوئے پھنچ گئے اور میری بیعت کےلئے نوجوان لڑکیاں بھی پردہ سے باھر نکل آئیں “
دنیائے اسلام میں ھمیشہ کے لئے عدالت اور حق کا پرچم لھرادیا گیااور اسلام کو اس کا اصلی اور حقیقی ملجا و ماویٰ مل گیا ۔
سخت فیصلے
امام(ع) نے حاکم ھوتے ھی مندرجہ ذیل قوا نین معین فرمائے :
۱۔وہ تمام زمینیں واپس لی جا ئیں جو عثمان نے بنی امیہ کو دی تھیں ۔
۲۔ان اموال کو واپس کرایا جو عثمان نے بنی امیہ اور آل ابو معیط کو دئے تھے ۔
۳۔عثمان کا تمام مال یھاں تک کہ اس کی تلوار اور زرہ کو بھی ضبط کر لیاجائے۔
۴۔تمام والیوں کو معزول کیا چونکہ انھوں نے زمین پر ظلم و جور اور فساد پھیلا رکھا ھے ۔
۵۔مسلمانوں اور وطن میں رھنے والے غیر مسلمانوں کے ساتھ مساوات سے کام لیااور یہ مساوات مندرجہ ذیل امور پر مشتمل ھے :
۱۔عطا و بخشش میں مساوات ۔
۲۔قانون کے سلسلہ میں مساوات۔
۳۔حقوق اور واجبات کی ادا ئیگی میں مساوات۔
ان قوانین کے نافذ ھونے سے قریش کی ناک بھوں چڑھ گئی اوروہ گھوٹالا کئے ھوئے اپنے پاس مو جودہ مال کے سلسلہ میں خوف کھا گئے ،وہ مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے اسی لئے انھوں نے آپ کی مخالفت کی اور لوگوں کے ما بین معاشرتی اور سیاسی عدالت نافذ کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کیں ۔
بھر حال امام(ع)کے خلاف اور ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے جنگو ں کے شعلے بھڑکائے گئے ،ھم ذیل میں بہت ھی اختصار کے ساتھ اُن جنگوں کا تذکرہ کر رھے ھیں جو اسلام میں عدالت کا پرچم اٹھانے والے ،امیر بیان اور محروموں کے صدیق کے خلاف بھڑکا ئی گئیں ۔
۱۔جنگ جمل
جنگ جمل کا واقعہ سیاست کی ھوس کا نتیجہ ھے ،معاویہ نے زبیراور طلحہ کودھوکہ دیا اور ان کو یہ لالچ دیا کہ وہ امام(ع) کی حکومت کا تختہ پلٹ کر ان دونوں کو خلیفہ بنائے گا ،ان کے لئے بیعت لے گا ، اُدھر عائشہ جس کا سینہ امام(ع) کے کینہ سے لبریز تھا لہٰذا اِن تینوں آدمیوں نے مکہ میں امام(ع) کے خلاف محاذ قائم کیا ،لوگوں میں سے طمع کاروں ،دھوکہ کھا جانے والوںاور سادہ لوحوں نے ان کا ساتھ دیا ،انھوں نے لشکر تیار کیا ،امویوں نے لشکر کو جنگی ساز و سامان سے لیس کیا ،انھوں نے اُن پر عثمان کی حکومت کے دور میں جو مال والیوں کے عنوان سے بیت المال سے چُرایا تھا وہ خرچ کیا ۔
عائشہ ، طلحہ اور زبیر کی قیادت میں لشکر بصرہ پھنچا ،جب امام(ع) کو اس بات کی اطلاع ھو ئی تو آپ(ع)نے فیصلہ کی خاطر اپنا لشکر روانہ کیاتو دونوں لشکروں میں گھمسان کی لڑا ئی ھو ئی ،طلحہ اور زبیر قتل کردئے گئے تو لشکر کی قیادت عا ئشہ کے ھاتھوں میں آگئی ،لشکر نے اُن کے اونٹ کو گھیر لیا،اس کے پیروں کو کاٹ دیا ،جس کے اطراف میں لاشے ھی لاشیں پڑی تھیں ،عائشہ کا اونٹ زخمی ھو کر زمین پر گر پڑا،اس کا لشکر شکست کھا گیا ، اس جنگ میں بہت زیادہ نقصان ھوا ،مسلمانوں کی صفوف میں بھی نقصان ھوا،اُن کے درمیان تفرقہ اور دشمنی پھیل گئی اور بصرہ والوں کے گھرحزن و الم اور ما تمی لباس میں ڈوب گئے۔
۲۔جنگ صفین
امام(ع) جنگ جمل کے بعد کچھ آرام نھیں کر پائے تھے کہ آپ(ع) کو ایسے دشمن نے آزمایا جس نے پوری انسانیت کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا ۔جو نفاق اور مکر و فریب کے ہتھیار سے لیس تھا اور ان صفات میں ماھر تھا ،وہ معاویہ بن ابو سفیان جس کو ”کسریٰ عرب “کے لقب سے یاد کیاجاتاھے ،جس کو لوگوں نے اس کے صحیفہ اعمال پر نگاہ ڈالے بغیر شام کی حکومت دے رکھی تھی ،جس کا قرآن کریم نے شجرئہ ملعونہ کے نام سے تعارف کرایا ھے، کیا لوگوں کو وہ جنگیں یاد نھیں تھیںجوابو سفیان اور بنی امیہ نے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے لڑی تھیں اور اُن کو ابھی چند سال ھی گذرے تھے ؟
مسلمانوں نے کس مصلحت کی بنا پر اس جاھل بھیڑئے کو شام کی حکومت کا مالک بنا دیا تھاجو اسلام کا اھم علاقہ ھے ؟اور اس اھم منصب کے لئے خاندان نبوت کی اولاد کو منتخب کیوں نھیں کیا ،یا یہ منصب اوس اور خزرج کی اس خاص انتظامیہ کو کیوں نھیں دیا جس نے صاف طور پراسلام کا ساتھ دیا؟
بھر حال معاویہ نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بھا ئی اور باب مدینة العلم سے جنگ کر نے کے لئے صفین میں اپنا لشکر اتارا،اس کے لشکر نے امام(ع) کے لشکر کو فرات سے پانی پینے سے روک دیا ،اس کو انھوں نے اپنی فتح میں مدد سے تعبیر کیا ،امام(ع) نے بھی فیصلہ کے لئے اس نا فرمان اور جلدی فتنہ برپا کرنے والے مکار دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنا لشکر اُتارا،امام(ع) کے لشکر کو اتنا اطمینان اور بصیرت تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن سے جنگ کر رھے ھیں لہٰذا جب وہ صفین پھنچے تو انھوں نے دیکھا کہ اُ ن کے دشمن معاویہ کی فوج نے فرات کے تمام گھاٹ اپنے قبضہ میں لے لئے ھیںاور امام(ع) کے لشکر کو پا نی پینے کے لئے کو ئی گھاٹ نہ مل سکا اور معاویہ کا لشکر امام کے لشکر کو پانی سے محروم رکھنے پرمصر رھا تو امام کے لشکر کی ٹکڑیوں کے سرداروں نے معاویہ کے لشکر پر حملہ کر کے ان کا حصار توڑنے کا پلان بنایا اور امام(ع) کے لشکر نے بڑی ھمت کے ساتھ معاویہ کے لشکر پر حملہ کرکے ان کو فرات کے کنارے سے دور بھگادیاجس سے ان کو بہت زیادہ نقصان پھنچا ، امام(ع) کے لشکر میں موجود کچھ فرقوں کے سرداروں نے معاویہ کی طرح اس کے لشکر کو پانی دینے سے منع کرنا چا ھا تو امام(ع) نے ان کو ایسا کرنے سے منع فرمادیا ،چونکہ اللہ کی شریعت میں ایسا کرنا جا ئز نھیں ھے ، اور پانی سب کےلئے یھاں تک کہ کتّے اور سوَروں کے لئے بھی مباح ھے ۔
امام(ع) نے خونریزی نہ ھونے کی وجہ سے معاویہ کے پاس اُس کو صلح پرآمادہ کرنے کے لئے صلح کا پیغام دے کر ایک وفدروانہ کیا،لیکن معاویہ نے صلح قبول نھیں کی ،اور وہ نافرمانی کرنے پر مصر رھا ،لہٰذا دونوں فریقوں کے مابین جنگ کی آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور دو سال تک اسی طرح بھڑکتے رھے، ان میں سب سے سخت اور ھو لناک وقت لیلة الھریر تھا جس میں طرفین کے تقریباً ستر ہزار سپاھی اور قائد قتل ھو ئے ،جس سے معاویہ کے لشکر کی شکست کے آثار نمایاں ھو گئے ،اس کے تمام دستور و قوانین مفلوج ھو کر رہ گئے وہ فرار کر نے ھی والا تھا کہ اس کو ابن طنابہ نے کچھ سمجھایاجس سے وہ پھر سے جم گیا ۔
قرآن کو بلند کرنے کی بیھودگی
امام کے لشکر نے مالک اشتر کی قیادت میں معاویہ کے لشکر پر حملہ کیا ،لشکرفتح پانے ھی والا تھا اور مالک اشتر کے معاویہ پر مسلط ھونے میں ایک ھاتھ کا فاصلہ ھی رہ گیا تھا کہ دھوکہ باز عمرو عاص نے امام(ع) کے لشکر میں کھل بلی مچانے اور ان کی حکومت کے نظام میں تغیر و تبدل کا مشورہ دیاوہ پوشیدہ طور پر اشعث بن قیس اور امام کے لشکر کے بعض سرداروں سے ملا اُن کو دھوکہ ،لالچ اور رشوت دی ،قرآن کریم کو نیزوں پر بلند کرنے اور اپنے درمیان اختلاف کو حل کرنے کے لئے اُس کو حَکَم قرار دینے کے سلسلہ میں اُ ن کے ساتھ متفق ھو گئے ،انھوں نے قرآن کو نیزوں پر بلند کردیا اور معاویہ کے لشکر سے یہ آواز آنے لگی کہ ھمارا حکم قرآن ھے، ہ دھوکہ امام(ع) کے لشکر میں بجلی کی طرح کوند گیا ،بیس ہزار فوجیوں نے آپ کو گھیر لیا اور کھنے لگے قرآن کے فیصلہ کو قبول کیجئے ،امام(ع) نے ان کو تحذیر کی اور ان کو نصیحت فرما ئی کہ یہ دھوکہ ھے ،لیکن قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور وہ اس بات پر اڑ گئے ، امام(ع) سے کھنے لگے کہ اگر آپ(ع) نے یہ تسلیم نہ کیا تو ھم آپ(ع) سے مقابلہ کریں گے ، تو امام کو مجبوراً یہ تسلیم کر نا پڑا ،ان ھی خو فناک حالات میں امام(ع) کی حکومت کا خاتمہ ھو ا۔
اشعری کا انتخاب
امام(ع) کے ساتھ اِن واقعات کے پیش آنے کے بعد اشعری کو عراقیوں کی طرف سے منتخب کرلیا گیا، امام(ع) نے اُن کو ایسا کرنے سے منع کیا مگر انھوں نے زبردستی اشعری کو منتخب کر لیا ،اور اھل شام نے عمرو عاص کو منتخب کر لیا اس نے اشعری کو دھوکہ دیا اور اس کو امام(ع) اور معاویہ کو معزول کرکے ان کے مقام پر مسلمانوں کا حاکم بنا نے کےلئے عبداللہ بن عمر کا انتخاب کیا ،اشعری اس سے بہت خوش ھوا ، اور جب دونوں حَکَم ایک مقام پر جمع ھوئے تو اشعری نے امام کو معزول کر دیا اور عمرو عاص نے معاویہ کو اسی عھدہ پر برقرار رکھا ۔
۳۔خوارج
امام(ع) کے لشکر میں فتنہ واقع ھو گیا ،لشکر میں سے ایک گروہ تحکیم کے بعد جنگ کرنے پر مصر رھا ، امام(ع) پر کفر کا فتویٰ لگایا،کیونکہ امام(ع) نے دعوت تحکیم قبول کر لی تھی ،لیکن بڑے تعجب کی بات ھے کہ انھوں نے ھی تو تحکیم پر مجبور کیا تھا اور یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ :”لا حکم اِلّا اللّٰہ “۔
لیکن جلد ھی نعرہ تلوار کی مار کاٹ میں بدل گیا ،امام(ع) نے اُن کو سمجھایا اور ایسا کرنے سے منع فرمایا ، ان میں سے کچھ لوگوں نے آپ(ع) کی بات تسلیم کر لی لیکن قوم کے کچھ افراد اپنی جھالت و گمرا ھی پر اسی طرح اصرار کرتے رھے ،وہ زمین پر فساد برپا کرنے لگے ،انھوں نے ابریاء کو قتل کر دیا جس سے لوگوں میں خوف و ھراس پھیل گیا ،امام(ع) اُ ن کا مقابلہ کر نے کے لئے مجبور ھو گئے ،جس سے نھروان کا واقعہ پیش آیا ، ابھی یہ جنگ ختم نھیں ھونے پا ئی تھی کہ امام(ع) کے لشکر نے نافرمانی کی ایک خو فناک صورت اختیار کرلی ،جب آپ(ع) نے ان کو معاویہ سے جنگ کرنے کی دعوت دی تو کسی قبول نھیں کی،اور سیاسی طور پرمعاویہ کی طاقت ایک عظیم طاقت کے عنوان سے اُبھری ،اس نے اسلامی شھروں کو اپنے تحت لینا شروع کیا اور یہ ظاھر کر دیا کہ امام(ع) ان کی حمایت کرنے کی طاقت و قوت نھیں رکھتے ھیں ۔امام کی مقبولیت کم ھو تی جارھی تھی ،یکے بعد دیگرے آپ پر مصیبت کے پھاڑ ٹوٹ رھے تھے، معاویہ کی باطل حکومت مستحکم ھو تی جا رھی ھے ،اس کی تمام آرزوئیں پوری ھو تی جا رھی ھیں اور آپ(ع) کے پاس حق کو ثابت کرنے اور باطل کو نیست و نابود کرنے کے لئے ضروری قوت و طاقت مو جود نھیں ھے ۔
امام(ع) کی شھادت
امام(ع) نے پروردگار عالم سے دعا کرنا شروع کیا ،آپ(ع) نے دعا کی کہ اے خدا ئے عظیم مجھے اس قوم کی گمراھی سے نجات دے ،اور مجھے دارِ حق کی طرف منتقل کردے جس سے میں اپنے چچازاد بھا ئی کو اس امت کی طرف سے پھنچنے والے مصائب کی شکایت کر سکوں ،اللہ نے آپ(ع) کی دعا مستجاب فرمائی،آپ(ع) کو ناقہ صالح کو پئے کرنے والے ایک بدبخت شخص نے شھید کر دیا ،جس کا نام عبد االر حمن بن ملجم تھا ،امام(ع) اللہ کے گھر میں محراب عبادت میں مشغول تھے ،اس بد بخت نے اپنی تلور اٹھالی ،جب آپ(ع) نے اس کی تلوار کی ضرب کا احساس کیا تو فرمایا :”فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ “”کعبہ کے رب کی قسم میں کا میاب ھو گیا “ امام متقین کا میاب ھو گئے ،آپ(ع) کی پوری زندگی اللہ کی راہ میں جھاد ،کلمہ حق کو بلند کرنے میں گذر گئی ،سلام ھو اُن پر جس دن وہ کعبہ میں پیدا ھوئے ،جس دن اللہ کے گھر میں شھادت پائی ،آپ(ع) کی شھادت سے حق و عدالت کے پرچم لپیٹ دئے گئے ،جن ھدایت کے چراغ اور نو ر کی مشعلوں سے دنیائے اسلام روشن و منور ھو رھی تھی وہ خاموش ھو گئے ۔
[1] حیاة الامام الحسین(ع)جلد ۱،صفحہ ۱۹۵۔منقول از تاریخ یعقوبی، جلد ۲،صفحہ ۹۰۔
[2] سورئہ مائدہ ،آیت۶۷۔
[3] الغدیر، جلد ۲،صفحہ ۳۴۔
[4] مسند احمد، جلد ۴،صفحہ ۲۸۱۔
[5] الغدیر، جلد ۱،صفحہ ۲۷۱۔
[6] البدایہ والنھایہ، جلد ۵،صفحہ ۲۶۔
[7] یہ واقعہ تمام مو رخین نے دلیل کے ساتھ نقل کیا ھے ،بخاری نے اس واقعہ کو متعدد مر تبہ جلد ۴،صفحہ ۶۸، ۶۹۔جلد ۶ ،صفحہ ۸میں نقل کیا ھے لیکن اس کے قائل نام نھیں بیان کیا ۔نھایہ ابن اثیراور شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد ۳، صفحہ ۱۱۴ میں اور دوسرے راویوں نے اس واقعہ کو نقل کرنے والوں کے نام بیان کئے ھیں ۔
[8] سورئہ نجم ،آیت ۲۔۵۔
[9] سورئہ تکویر ،آیت ۱۹۔۲۰۔
[10] مسند احمد، جلد ۱،صفحہ ۳۵۵۔
[11] مناقب، جلد ۱،صفحہ ۲۹۔اس مطلب پر متعدد متواتر احا دیث دلالت کر تی ھیں کہ جب نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی وفات ھو ئی تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا سر اقدس علی(ع) کی آغوش میں تھا ملاحظہ کیجئے طبقات ابن سعدجلد ۲صفحہ ۵۱۔مجمع الزوائدجلد ۱صفحہ ۲۹۳۔کنز العمال، جلد ۴،صفحہ ۲۵۵۔ذخائر العقبیٰ، صفحہ ۹۴۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۹۔
[12] انساب الاشراف ،جلد ۱،صفحہ ۵۷۴۔
[13] تاریخ خمیس، جلد ۲،صفحہ ۱۹۲۔
[14] سیر اعلام النبلاء، جلد ۲،صفحہ ۸۸۔سنن ابن ماجہ، جلد ۲،صفحہ ۲۸۷۔۲۸۸۔اس میں حماد بن زید سے روایت ھے کہ : میں نے راوی حدیث کی اس حدیث کو بیان کرتے وقت روتے اور اس کی حالت متغیر ھو تی دیکھی ۔
[15] نہج البلاغہ، جلد ۲،صفحہ ۲۵۵۔
[16] حلیة الاولیاء، جلد ۴، صفحہ ۷۷۔
[17] کنزالعمال، جلد۴ ،صفحہ ۵۴۔
[18] نہج البلاغہ، صفحہ ۴۰۹۔
[19] حیاة الامام الحسین(ع)، جلد ۱،صفحہ ۲۳۵۔
[20] ملاحظہ کیجئے انساب الاشراف بلاذری ،اور مو رخین کا اس بات پر اجماع ھے کہ عمر نے امام(ع) کے بیت الشرف کو جلانے کی دھمکی دی تھی ۔ اس سلسلہ میں ملاحظہ کیجئے :تاریخ طبری ،جلد ۳،صفحہ ۲۰۲۔تاریخ ابو الفداء، جلد ۱،صفحہ ۱۵۶۔تاریخ یعقوبی ،جلد ۲
[21] امامت والسیاست ،صفحہ ۲۸۔۳۱۔
[22] سورئہ آل عمران آیت ۱۴۴۔
[23] نہج البلاغہ، جلد ۲،صفحہ ۱۸۲۔
[24] نہج البلاغہ، جلد ۲،صفحہ ۱۸۲۔
[25] ابوبکر پر عمر کے ولی بنائے جانے پر طلحہ وغیرہ نے انتقاد کیا ،ملاحظہ کیجئے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد ۹،صفحہ ۳۴۳۔
[26] مروج الذھب، جلد ۲،صفحہ ۲۱۲۔
[27] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۲،صفحہ ۱۸۵۔
[28] اصابہ، جلد ۲،صفحہ ۴۶۲۔امامت اورالسیاسة، جلد ۱،صفحہ ۲۱۔
[29] تاریخ شعر عربی ،صفحہ ۲۶۔
[30] سیرہ حلبیہ، جلد ۲،صفحہ ۳۱۴۔
[31] اغانی ،جلد ۴،صفحہ۱۷۸۔
[32] حیاة الامام امیر المو منین ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔
[33] تاریخ ابن اثیر، جلد ۳،صفحہ ۸۰۔
[34] عرف الضبع یعنی بہت زیادہ بال جوبجّو کی گردن پر ھوتے ھیں اور یہ ضرب المثل اس وقت استعمال ھوتی ھے جھاں پر لوگوںکا ازدھام ھو۔
[35] عقد الفرید ،جلد ۲،صفحہ ۹۲۔