اسلام جاوداں اور عالمی دین
اسلام وہ تنھا دین ھے ،جو پروردگار کی طرف سے نازل ھوا ،اور وہ یگانہ مکتب ھے ،جو تمام انسانی کمالات کو سمیٹے ھوئے ھے ،وہ منفرد دین ھے جو تمام غیر اسلامی ادیان پر غالب اور کامیاب ھوا ، جو پوری دنیا میں قابل عمل ھے اور زمین کے چپہ چپہ پر اس سے استفادہ کیا جاسکتا ھے۔ چنانچہ اس کے پاس وہ دستور العمل ھونا چاھئے جس پر ھمیشہ عمل ھوتا رھے اور جو انسانیت کو ارتقاء و کمال بخشنے میں پورا اترے۔
اسلام کے عالمی ھونے کا راز یہ ھے کہ یہ دین انسانی فطرت کو پروان چڑھانے کے لئے بنایا گیا ھے اور انسان کو کمال تک پھنچانے کے لئے نازل ھوا ھے کیونکہ انسانی فطرت اور بشری نھاد کسی خاص سرزمین سے مخصوص کسی خاص تاریخ کی محتاج اور کسی خاص زمانہ میں مقید نھیں ھوسکتی ۔ نسلی و قومی اثرات اس پر مرتب نھیں ھوتے ، نہ وہ جغرافیائی حدبندیوں کا شکار ھوتی ھے۔ لھذا اس دین کو ایک ثابت، بنیادی ، تعلیمی اور ھدایت کی ایک محکم اصل عنوان سے قبول کیا جائے گا ، اور چونکہ انسان کا معلم اور بشریت کا پالنے والا وہ خدا ھے جس کے لا محدود علم و آگاھی کے دائرہ میں نہ جھل کو رسای ھے نہ سھو اس کے دائمی ظھور و شھود کے حریم میں داخل ھوسکتا ھے لھذا خدا کا دین بھی تمام انسانی معاشروں کی ھدایت کے سلسلہ میں ایک ثابت و استوار اصل بنیاد کی حیثیت سے قبول کیا جائے گا۔
چونکہ اسلام عالمی ھے، ایک عالمی سبق آموز منصوبے کے عنوان سے نازل ھواھے لھذا ضروری ھے کہ اس کے منصوبے اور قوانین عالمی اور کلیت و دوام کا زندہ نمونہ ھوں۔ اسی بنیادپر”حج“ کو اسلام کے مشخص ترین عالمی منصوبوں میں شمار کیا جاسکتا ھے اور اس کی عمومییت اور ھمیشگی کو الھٰی دین کی کلیت و دوام کی بولتی ھوئی سندقرار دیا جاسکتا ھے، کیونکہ یہ ایک ایسا دینی فریضہ ھے جو بھت سے مقدمات و اصول پر استوار ھے اور ان مقدمات کی بجا آوری کے بغیر حج انجام نھیں پاسکتا ۔
حج زمانہ اور تاریخ کی وسعتوں میں
حج وھی کعبہ کی زیارت کا قصد اور کچھ اعمال کے بجالانے کا نام ھے جو صدیوں سے مختلف زمانوں میں گوناگون شکلوں میں رائج رھا ھے۔ کعبہ وہ پھلا گھر ھے جس کی بنیاد لوگوں کی عبادت کے لئے ڈالی گئی اور وہ اولین مرکز ھے جو عبادت کرنے والوں کو اپنی طرف بلاتا اور سب کو اپنے محور کی طرف کھینچتا ھے۔
”بلا شبہ سب سے پھلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایاگیا وہ (کعبہ) ھے جو مکہ میں ھے جو مبارک اور عالمین کے لئے ھدایت ھے، اس میں (بھت سی) واضح و روشن نشانیان (منجملھ) مقام ابراھیم ھے، جو اس میں داخل ھوا امن و امان میں ھے۔ استطاعت اور طاقت رکھنے و الے لوگوں پر واجب ھے کہ خدا کے لئے خانہ کعبہ کا حج کریں، اور جس نے اس کے باوجود حج سے انکار کیا رتو خداعالمین سے بے نیاز ھے“ (۱)
حج اقوام و ملل کے نزدیک
قرآن کریم جس طرح کعبہ کو حج کا محور، زیارت گاہ ، عبادت کا اولین و قدیم ترین گھر جانتا ھے یوں ھی وہ اسے پوری دنیا کے انسانوں کی بندگی و عبادت کا محور بھی جانتا ھے، لھذا جھاں وہ فرماتا ھے:
” اوّل بیت وضع للنّاس “ وھیں یہ بھی فرماتا ھے” هدیً للنّاس “
یعنی وہ سب سے پھلا گھر جو تمام انسانوں کے لئے بنایاگیا اور تمام عالمین کے لئے ھدایت ھے ،کعبہ ھے۔
وہ کسی گروہ یا کسی خاص نسل سے مخصوص نھیں ھے، کسی معین ملک یا کسی ملکہ کے افراد کو کعبہ کے سلسلہ میں کوئی اولویت نھیں ھے۔
” واذ جعلنا البیت مثابة للنّاس و امناً“ (۲)
اور جب ھم نے کعبہ کو تمام انسانوں کے لئے مرجع و مرکز اور امن و امان کی جگہ قرار دیا“۔
حج ، پوری دنیا کے تمام انسانوں کے لئے
کعبہ کی زیارت اور تمام الٰھی احکام کی بجا آوری، وحی کے دائرہ اور قرآن کی زبان میں کسی معین سرزمین کے لوگوں سے مخصوص نھیں ھے، کسی بھی علاقہ کے افراد اعمال حج بجالانے کے سلسلہ میں دوسرے علاقہ کے افراد پر برتری نھیں رکھتے اس روحانی سفر میں منزل کی دوری، قرب منزل کے ھی معنی میں ھوگی ۔
” انّ الّذین کفروا و یصدّون عن سبیل الله و المسجد الحرام الّذی جعلنا ہ للنّاس سواءً العاکف فیہ و الباد“ (۳)
اس آیت کریمہ کے مطابق جو مسجد حریم کعبہ بنائی گئی ھے، جو نماز و عبادت اور کعبہ کے گرد طواف کی جگہ ھے مساوی طور سے سب کے لئے ھے اور اس سلسلہ میں اھل مکہ اور دنیا کے کونے کونے سے آنے والے مسافروں میں کوئی فرق نھیں ھے۔
کعبہ کی اھمیت اس کے بانیوں کے اعتبار سے
کعبہ کی بنیاد پروردگار عالم کے حکم سے اس کے دو عظیم الشان پیغمبروں حضرت ابراھیم اور حضرت اسماعیل علیھماالسلام کے ھاتھوں رکھی گئی۔ اس تعمیر میں معماروں کا خلوص اور پاکیزگی ایک خاص انداز میں جلوہ گرتھی اس کے نقشہ اور طرز تعمیر میں خلوص نیت کا تقدس شامل تھا، وہ صرف خدا کے لئے بنایاگیا اور اس تعمیر کی جزا بھی رضائے پروردگا کے علاوہ کچھ اور نھیں ھوسکتی:
”و اذ یرفع ابراھیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقتل منّا انّک انت السمیع العلیم“ ( ۴)
”جس وقت یہ دو عظیم شخصیتیں یعنی جناب ابراھیم و اسماعیل علیھماالسلام کعبہ کی تعمیر کررھی تھیں اور اس کے پایوں کو بلند کررھی تھیں تو ان کے پاک باطن اور صاف ضمیر سے یہ حقیقت یوںمجسم ھو رھی تھی کہ خداوندا اسے ھماری طرف سے قبول فرما یقینا تو سننے اور جاننے والا ھے۔
بنابر ایں کعبہ کی تعمیر اور اس کے معماروں کا مقصد رضائے خداوند عالم کے سوا کچھ اور نھیں تھا اور چونکہ نیت عمل کی روح ھے نیز اس عمل میں خدا کے سوا کوئی اور نیت نھیں تھی لھذا کعبہ کی اھمیت اس جھت سے بھی واضح ھے۔
کعبہ آزادی کا محور اورآزادی پسندوں کے طواف کی جگہ
کعبہ جس طرح سے انسانوں کی عبادت کی سب سے پرانی اور قدیم ترین جگہ ھے یوں ھی وہ بیت عتیق اور انسانی ملکیت سے آزاد ھے، وہ ایسا گھر ھے جو کسی کی ملکیت نھیں بنا اور کسی بھی انسان کی مالکیت میں قرار نھیں پایا۔ لھذا کعبہ ایسا گھر جو تاریخ میں ھمیشہ آزاد و عتیق رھااور ایک آزاد گھر کے گرد طواف حریت و آزادی کا سبق دیتا ھے۔ وھی لوگ اس کی زیارت سے حقیقی طور پر مشرف ھوتے ھیں جو باطنی حرص و آز کے غلام اور کسی اور کے بندے نہ ھوں کیونکہ آزادگی کے مدار ومحور پر غلامی کے ساتھ طواف سازگار نھیں ھے۔ اسی جھت سے قرآن کریم کعبہ کو بیت عتیق کے نام سے یاد کرتا ھے:
”و لیطّوّفوا بالبیت العتیق“ (۵)
” ثمّ محلھا الیٰ البیت العتیق“( ۶)
کعبہ طھارت کا محور اور پاکیزہ لوگوں کے طواف کی جگہ
جس طرح کعبہ کی تعمیر وحی کے حکم سے ھوئی تھی، یوں ھی اسے ھر شرک و آلودگی سے پاک کرنے اور ھر طرح کے عناد و تمرد کے غبار سے صاف رکھنے کا حکم بھی وحی الٰھی کے حکم سے تھا، تا کہ وہ گھر آلودگی و عصیان سے پاک رھے اور شرک و عناد سے منزہ متقی پرھیز گار افراد اس کے حریم میں آسکیں۔
”و طھر بیتی للطائفین و القائمین و الرّکع السجود“ (۷)
” وعھدنا الیٰ ابراھیم و اسماعیل ان طھر بیتی للطائفین و العاکفین و الرّکع السجود“ ( ۸)
لھذا کعبہ ھر طرح کی آلودگی سے پاک گھر ھے اور اس کے حریم کا طواف طھارت و پاکیزگی کا سبق دیتا ھے۔ وھی لوگ اس کی زیارت سے مشرف ھوتے ھیں جنھوں نے ھر شرک و عیب سے اور ھر رجس و کثافت جیسے نقائص سے دور ھوکر اس کی طرف ھجرت کی ھو۔
حج کے سلسلہ میں اسلامی حکومت کی ذمہ داری
کعبہ کی زیارت اور اعمال کی انجام دھی دین کے اھم ترین و واجبات میں سے ھے اگر کوئی مسلمان بلا کسی عذر کے فریضہ حج کو انجام نہ دے تو موت کے وقت اس سے کھا جائے گا کہ وہ مسلمانوں کی صف سے خارج تھا اوراسے دوسروں کی صف میں کھڑا کیا جائے گا۔ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی وصیت سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ اگر الله کے گھر کی زیارت ترک کردی جائے تو الله کا عذاب فوراً اور بغیر مھلت کے نازل ھوجائے گا۔
”الله الله فی بیت ربّکم لا تخلوہ ما بقیتم فانّہ ان ترک کم تناظر“(۹)
دیکھو اپنے پروردگارکے گھر کے بارے میں الله سے ڈرتے رھنا اسے جیتے جی خالی نہ چھوڑنا ، کیونکہ اگرخالی چھوڑدیا گیا تو تم ( عذاب سے) مھلت نہ پاؤ گے۔
اگر کسی سال لوگ کعبہ،حج کیلئے نہ جائیں اور ا لله کا گھر سونا رھے تو اسلامی حکومت پر واجب ھے کہ کچھ لوگوں کو اعمال حج بجالانے کی غرض سے مکہ روانہ کرے اور اس کا خرچ بیت المال سے دے ۔
بنابر ایں حج، اسلام کا عبادی، سیاسی پھلو ھے( اگر چہ ھمارا دین عین سیاست اور ھماری سیاست ھی عین دین ھے)اور حج کا عبادی، سیاسی ھونا ان فرائض کے جائزہ سے بخوبی ظاھر ھوجاتا ھے جواس سلسلہ میں امام مسلمین پر عائد ھوتے ھیں۔
کعبہ توحید و اتحاد کے رواج کا مرکز
کعبہ دو پیغمبر وںکے ھاتھوں تعمیر ھوا تاکہ توحید کے رواج کا مرکز قرار پائے اور جس وقت حضرت خاتم الانبیاء (ص)کے زمانے میں اس کی دوبارہ تعمیر کی ضرورت ھوئی ،دیواریں جب ایک حد تک بلند ھوگئیں اور حجر اسود نصب کرنے کے سلسلہ میں عرب قبائل کے درمیان یہ اختلاف ھوا کہ یہ شرف کس قبیلہ کو نصیب ھو تو سب نے حضرت محمد (ص) کو غیر جانبدار عاقل اور بے غرض صاحب نظر کی حیثیت سے تسلیم کیا آپ(ص) جو فیصلہ کریں گے اسی پر عمل ھوگا۔ لوگوں نے جب آنحضرت(ص) کی طرف رجوع کیا تو آپ(ص) نے حکم دیا کہ ایک چادر بچھائی جائے اور حجر اسود کو اس میں رکہ کر ھر قبیلہ چادر کا ایک گوشہ پکڑ کر اٹھائے اس اقدام کے ذریعہ حضرت(ص) نے حجر اسود کو بلند کر کے اس نصب کرنے کی جگہ تک لانے کے سلسلہ میں لوگوں میں عمومی اتحاد کی فضاقائم کی پھر خود اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو موجودہ جگہ پر نصب فرمایا۔ اس طرح آنحضرت(ص) کی رھنمائی میں حجر اسود کے نصب کے سلسلہ میں پیدا ھونے والاقومی اختلاف، نسلی امتیاز اور جاھلانہ قبائلی فخر و مباھات کافی حد تک بر طرف ھوگیا۔
اور حجر اسود کو اس طریقہ سے اس کے نصب کئے جانے کی جگہ تک بلند کیا گیا کہ قبائلی خصوصیات جنھیں قومی تعصبات اور دشمنی کھا جاتاھے، اتحاد، برابری اور برادری میں تبدیل ھوگئی جو ایمانی محبت کا نمونہ ھے، بالکل یوں ھی جیسے گناہ،نیکیوں میں تبدیل ھوجاتے ھیں۔ اسی وجہ سے ھمیں اس الٰھی گھر سے اتحاد و یکجھتی کا سبق ملتا ھے۔
کعبہ تقویٰ و پرھیز گاری کی بنیاد
تمام انبیائے الٰھی اس لئے مبعوث ھوئے ھیں کہ توحید کی بلند چوٹی تک شرک کا پرندہ پر نہ مارسکے اور وحدانیت کے مقدس حریم تک شیطان رسائی نہ پاسکے۔
” و لقد بعثنا فی کل امة رسولاً ان اعبدوا الله اجتنبوا الطاغوت“ (۱۰)
”اور ھم نے ھر امت میں ایک رسول ضرور بھیجا ھے کہ ( وہ لوگوں سے کھے) الله کی عبادت کرواور طاغوت (بتوں) کی عبادت سے پرھیز کرو“۔
قرآن کریم کعبہ،اس کی زیارت اور حج کو تقویٰ کا محور ا ور طا غوت اور طغیان سے پرھیز کی اساس جانتا ھے۔ خدا وند عالم نے وحی کے ذریعہ جناب ابراھیم علیہ السلام کو اس طرح حج کے مناسک اور اعمال سکھائے:
”وارنا مناسکنا“یک(۱۱)
جنکا ثمرہ صرف توحید تھا۔ یھی توحیدی اعمال خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے اپنی راہ پر چلنے والوں( مسلمانوں )کو تعلیم دئیے اور فرمایا:
”خذوا عنّی مناسککم “ مجھ سے اپنے اعمال و مناسک سیکھو۔
نیز زمانہٴ جاھلیت کے تلبیہ ( لبیک کھنے) کہ جو شرک آمیز تھا اور خانہ توحید جو بتکدہ کی صورت اختیار کر چکا تھا، اس کے طواف کو پاکیزگی عطا کی۔ احرام اور لبیک کھنے کو شرک کی آمیزش سے نجات دی اور کعبہ کو بھی بتوں سے پاک کیا۔
زمانہٴ جاھلیت کا تلبیہ جو اس صورت سے ادا ھوتا تھا:
”لبیک لبیک لا شریک لک الّا هو لک“
یعنی تیراکوئی شریک نھیں ھے مگر وہ شریک جو تیرے لئے اور تیرا ھے۔
اسے محض توحید اور خالص وحدانیت کی شکل میں جلوہ گر کیا۔ چنانچہ اسلام میں تلبیہ کھتے وقت ھر طرح کے شریک کی نفی کرتے ھوئے یوں کھا جاتا ھے:
”لبیک لبیک لا شریک لک لبیک“
یعنی خداوند تیرا ھر گز کوئی شریک نھیں ھے اور نہ ھوگا۔
حج، تقویٰ کا بھترین توشہ اور انسانی کمال کی راہ کا بھترین زاد سفر ھے۔ قربانی جو حج کے اعمال کا ایک حصہ شمار ھوتی ھے اور زمانہٴ جاھلیت میں بھی طویل عرصہ سے ھوتی آرھی ھے، شرک ،کفر، خرافات اور غلط خیالات کی آماجگاہ بن گئی تھی۔ ذبح کے بعد جانور کا خون کعبہ کی دیوار پر ملا جاتا تھا اور گوشت وھاں لٹکایا جاتا تھا۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم یہ تقویٰ آمیز رھنمائی کرتا ھے:
”․․․لن ینال الله لحومهاو لا دمائها و لٰکن یناله التقویٰ منکم“ (۱۲)
یعنی قربانی کا گوشت اور خون خدا تک نھیں پھنچتا، بلکہ اس عمل کی پاکیزہ روح یعنی گناہ اور گناہ گاروں سے دوری، بدکاروں سے پرھیز، عصیان سے خود کو روکنا، عاصی و ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا، طغیان سے اجتناب اور طاغوت کے خلاف جنگ جیسی چیزیں خداوند عالم تک پھنچیں گی۔
بھر حال کعبہ کا حج اور اس کی زیارت، تقویٰ و پرھیز گاری کی محکم و مضبوط اساس نیز ظالم اور ظلموں سے دوری کی بنیاد ھے اور اگر حج و زیارت ایسی نہ ھو تو نہ کعبہ کا حق ادا ھوا ھے، نہ حج کا فریضہ انجام پایا، نہ کعبہ کی زیارت ھوئی اور نہ قرآن کی ملکوتی آواز ” و اذن فی النّاس بالحج“ کا جواب دیا گیاھے، کیونکہ ھر عمل کی قبولیت کی شرط میں تقویٰ و پریھز گاری ھے اور ھر عمل کی کامل طور پر قبول ھونے کی شرط یہ ھے کہ زندگی کے تمام پھلوؤں میں ھر جھت سے تقویٰ و پرھیز گاری کے ساتھ عمل کیا جائے۔
لھذا اگر حج میں تقویٰ کی رعایت نہ کی جائے تو نہ صرف وہ کامل طور پر قبول نہ ھوگا بلکہ سرے سے قبول ھی نھیں ھوگا اور اگر حج و زیارت میں تقویٰ پیش نظر رھے لیکن دوسرے اعمال میں اس پر عمل نہ کیا جائے تو اس غیر متقی کا حج و زیارت قبولیت کے کمال تک نھیں پھنچ سکتا ۔ چونکہ کعبہ کی بنیاد رکھنے والے (جناب ابراھیم و اسماعیل علیھماالسلام) نے خالص تقویٰ و پرھیز گاری کے ساتھ اسے بنایا اور اپنے تمام وجود کے ساتھ دعا کی ”ربّنا تقبّل منّا“ ( پالنے والے ھماری طرف سے اسے قبول کر) اس وجہ سے چونکہ کعبہ کا مل قبولیت کے ساتھ بیانا گیا ھے۔ لھذا غیر متقی شخص کا عمل بانی کعبہ جناب ابراھیم علیہ السلام کے مقصد کے مطابق نہ ھوگا۔
حج و طواف ، شرک اور مشرکوں سے اظھار پرھیزکاری کا بھتیرن موقع
اگر چہ ھر عبادت شرک سے دوری اورطاغوت سے اظھار نفرت ھے اور حج و طواف کعبہ بھی جو بمنزلہ نماز ھے یا نماز اس کے ھمراہ ھے ” الطواف بالبیت فانّ فیه صلوة “۔(۱۳) لھذا یہ بھی طاغوت سے دوری اور شرک سے نفرت کی حکایت کرتا ھے۔ لیکن چونکہ یہ ایک ایسی مخصوص عبادت ھے جو سیاست کے ھمراہ ھے اور دنیا کے گوناگوں انسانوں کے مختلف طبقوں کے جمع ھونے کا مناسب موقع ھے ، تاکہ دوسری عبادتوں کے مانند اس عبادت کی روح اس عظیم اجتماع میں بخوبی جلوہ گر ھو اور اس خصوصی عبادت کے آثار و نتائج پوری طور سے ظاھرھوں اس کیلئے پیغمبر اسلام(ص) نے وحی الٰھی کے حکم سے اسلامی حکومت کے خطیب و معلن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو مشرکوں سے اظھار برائت کے اعلان کے لئے معین فرمایا تا کہ پوری قاطعیت کے ساتھ توحید کی حد، شرک و الحاد سے جدا ھوجائے اور مسلمانوں کا منظم گروہ کفار کی صف سے علیٰحدہ ھوجائے۔ اسی جھت سے حج کا سیاسی ۔عبادی چھرہ بھی واضح ھوجائے اور حاجی ، اسلامی قرار داد کوسن کر ( جس میں شرک سے بیزاری کا اظھار اور مشرکین سے قطع تعلق کا حکم ھے) توحید کی سوغات اپنے ھمراہ لے جائیں۔
حج الٰھی:
انسانی قدروں کی تعیین کا بھترین عامل زمانہٴ اھل بیت کی رسم یہ تھی کہ لوگ حج سے فارغ ھونے کے بعد ”منیٰ“ میں جمع ھوتے تھے اور اپنے قومی و نسلی خصوصیات و افتخارات بیان کرتے تھے۔ عھد جاھلی کی قدروں کی بنیاد پر نظم و نثر کے قالب میں اپنے بزرگوں کا ذکر کرتے تھے اور ان پر فخر کرتے تھے ، لیکن اسلام میں حج کے نظام نے ان جاھلانہ باتوں کو ختم کرکے الٰھی قدروں کا نظام بیان کیا اور لوگوں کو اس کی طرف ھدایت کی۔
”پس جب تم عرفات سے چل پڑو تو مشعر الحرام کے نزدیک خدا کا ذکر کرو اور اس کا تذکرہ کرو کہ اس نے کس طرح تمھاری ھدایت کی اگر چہ تم اس سے پھلے گمراھوں میں سے تھے۔ پھر جھاں سے لوگ چل پڑیں تم بھی چل پڑو اور خدا سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک خدا بڑا بخشنے ولا اور مھربان ھے۔ پھر جب حج کے اعمال بجالا چکو تو اس طرح خدا کا ذکر کرو جیسے تم اپنے باپ داداؤں کا ذکر کرتے ھو بلکہ اس سے بھی بڑہ کر خدا کو یاد کرو۔ پس بعض لوگ ایسے ھیں جو کھتے ھیں، اے پالنے والے ھمیں دنیا میں جو دینا ھے دے دے، پھر آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نھیں ھے اور بعض ایسے ھیں جو کھتے ھیں، خداوندا ھمیں دنیا میں نعمت اور آخرت میں اجر و ثواب عطا فرما اور دوزخ کی آگ سے بچا“(۱۴)
ان آیات میں حاجیوں اور منیٰ کے مھمانون کی باھم گفتگو کا محور خدا کی نعمت ، اس کی ھدایت ، ما ضی کی گمراھی سے نجات اور ھدایت کے حصول پر خدا کے ذکر کو قرار دیاگیا ھے الله کے نام اور اس کی یاد کو اپنے بزرگوں کے نام اور ان کی یاد سے زیادہ شدید قرار دیا گیا ھے۔ خدا کی یاد جس طرح کثرت و فراوانی کے ساتھ متصف کی گئی۔
یوںھی اسے شدت کے ساتھ یاد بھی کیا گیا ھے لھذا خداوند عالم نے فرمایا کہ جس طرح تم اپنے بزرگوں کی یاد میں مشغول ھو یوں ھی بلکہ اس سے زیادہ اپنے خدا کو یاد کرو۔
حرم اور سرزمین حج میں احرام کے بغیر داخل ھونا جائز نھیں
جس طرح دنیا کے مسلمانوں کا قبلہ ، سچے موحدوں کا مرکز طواف ، وہ تنھا گھر جس کی طرف رخ کرنا عبادت میں ضروری ھے اور واجبی عبادتوں میں جس کی طرف سے منہ پھیرنا جائز نھیں مکہ ھی میں ھے جسے کعبہ کھتے ھیں۔
یوں ھی حرم اور سر زمین حج کی بھی ایک خصوصیت ھے جو روئے زمین پر کسی اور علاقہ کو حاصل نھیں اور وہ یہ ھے کہ احرام باندھے اور لبیک کھے بغیر اور میقات سے احرام کے ساتھ گزرے بغیر حرم اور اس کے دائرہ میں داخل ھی نھیں ھوا جاسکتا۔ یہ حکم صرف موسم حج کے دنوں سے مخصوص نھیں ھے بلکہ پورے سال کے دوران جب بھی کوئی اس سرزمین پر وارد ھونا چاھے اسے احرام باندہ کراور لبیک کھہ کر کوئے معبود میں قدم رکھنا ھوگا، کعبہ کے گرد طواف کرنا ھوگا، صفا و مروہ کے درمیان سعی ، جو الٰھی شعائر میں سے ھے، انجام دینی ھوگی اس کے بعد وہ احرام اتار سکتا ھے تا کہ جو کام محرم ( احرام باندھنے والے) کے لئے جائز نہ تھے اور اسے نماز گزاروں کے مانند ان سے پرھیز ضروری تھا اب اس کے لئے جائز ھوجائیں۔ یھی وجہ ھے کہ حرم کے حدود اور مکہ کے دائرے میں غیر مسلم افراد کا داخلہ جائز نھیں ھے، کیونکہ غیر محرم افراد کا داخلہ حرم میں منع ھے اور غیر مسلم احرام اور لبیک کی فضیلت سے محروم ھیں۔ وہ غیر اسلامی ھونے کی حالت میں احرام باندکر توحید کے علاقہ،اولین زیادگاہ وحی اور مرکز نزول قرآن میں داخل ھونے کا حق نھیں رکھتے ۔ یہ معنوی خصوصیت فقط حج کی سرزمین اور حرم کے دائرہ کو حاصل ھے، اور کرہ زمین پر کسی بھی جگہ کو یہ امتیاز حاصل نھیں ھے۔
حج و عمرہ کے احرام کا زمانہ آزمائش اور تربیت کا سب سے اھم زمانہ
حج اور طواف ،خاص عبادتوں کے سلسلے کے ایک منظم مجموعہ کا نام ھے جس میں سے ھر ایک اپنی جگہ اھم ھے۔ جس طر ح نماز میں تکبیرة الاحرام کے ساتھ بھت سے کام جو عبادت کی روح سے سازگار نھیں اور نمازگزار پر حرام ھوجاتے ھیں، سلام پھیر تے ھی وہ ساری پابندیاں ختم ھوجاتی ھیں اور جیسے روزہ کی نیت کے ساتھ صبح ھوتے ھی بھت سے کام جو عبادت کی روح اور الٰھی آزمائش کے لئے مناسب نھیں روزہ دار پر حرام اور شام ھوتے ھی پھر حلال ھوجاتے ھیں، یوں ھی حج و عمرہ میں احرام باندھنے اور لبیک کھنے کے ساتھ ھی بھت سے ایسے امور جنکا تعبدی پھلو قوی تھا اور جن کے الٰھی آزمائش ھونے میں کوئی کلام نھیں تھا انسان پرحرام ھوجاتے ھیں اور احرام کا دور محض ایک تعبد اور امتحان کی شکل میں ڈھل جاتا ھے پھر اعمال حج کے انجام پانے اور مراسم تحلیل کی ادائگی کے بعد احرام کھل جاتا ھے اور انسان ان پابندیوں سے آزاد ھو جاتا ھے۔ الٰھی امتحان کا ایک نمونہ شکار کے دوران پابندیوں سے بخوبی واضح ھے کیونکہ ایک طرف صحرائی جانوروں کا شکار محرم پر حرام ھے ” لا تقتلو ا الصید و انتم حرم۔ “(۱۵) دوسری طرف صحرائی ھرن، کبوتر و غیرہ اور دوسرے غیر دریائی جانور اس کے تیر رس اور دستر س میں بھی نظر آتے ھیں، تاکہ یہ بات واضح ھوسکے کون الٰھی امتحان میں پورا اترتا ھے اور کون اس الٰھی فریضہ کی انجام دھی سے محروم ھوجاتا ھے:
”لیبلونّکم الله بشیٴٍ من الصید تناله ایدیکم و رماحکم “ (۱۶)
تربیت کا یہ دور اسلامی معاشرہ میں ایسا موٴثر واقع ھوا کہ جو لوگ توحش اور جاھلیت کے زمانہ میں سوسمار تک کھانے سے نھیں چوکتے اور اس کے شکار کے لئے ایک دوسرے پر بازی لے جاتے تھے، اب حکم خدا سے صحرائی ھرن کو بھی نظر انداز کر دیتے ھیں اور اسلامی تھذیب کے دائرہ میں حکم وحی کے تحت اپنی تمام خواھشات پر قابو پائے ھوئے ھیں۔ احرام کا قیمتی دور انسان کو انسان کامل بنانے میں کیسی بنیادی تاثیر رکھتا ھے اس کا خوش گوار نتیجہ حج کے آئینہ میں ایک معتقدو با ایمان معاشرہ کی شکل میں بخوبی دیکھا جا سکتا ھے۔
حج میں اور اس کے مختلف مقامات پر دعا
اگر چہ زندگی کے تمام حالات میں دعا کی جاسکتی ھے لیکن حج کے پر ثمر ایام میں حرم کے مختلف مقامات پر خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا ایک خاص شکوہ اور بڑی تاثیر رکھتی ھے۔ قرآن کریم خود دعا کی اھمیت و حرمت کا اس قدر قائل ھے کہ اس کی تاثیر جلد اور قطعی طور پر قبول ھونے کے سلسلہ میں ایک مختصر سی آیت کے اندر سات مرتبہ خود خدائے متعال اپنی زبانی حکایت فرماتا ھے:
”(۱)و اذا ساٴلک عبادی عنّی (۲) فانّی (۳) قریب اجیب (۴) دعوة الداع اذا دعان (۵) فلیستجیبوا لی (۶) و لیوٴمنوا بی(۷) لعلّهم یرشدون “ (۱۷)
اور چونکہ دعا صاف اور پاک باطن سے قبول ھوتی ھے نیز احرام اور آزاد وپاک کعبہ کا قصد باطن کی طھارت و صفائی میں بڑا اثر رکھتا ھے لھذا حج اور حرم کے مختلف مقامات پر دعا کے بھترین اثرات مرتب ھوں گے اسی لئے حج کے تمام اعمال کے سلسلہ میں خاص حکم دیا گیا ھے۔ ان میں سب سے اھم عرفات کے صحرا میں دنیا کے کونے کونے سے سمٹ کر آنے والے انسانوں ، مشعر کے عاشقوں اور کوئے منیٰ کے مشتاقوں کے ھمراہ پڑھی جانے والی دعائے عرفہ وہ سب سے بھترین دعا جو حج و زیارت کعبہ کے سیاسی عبادی پھلو کو بخوبی بیان کرتی ھے وہ اھل معرفت کے مشھور عارف کوچہٴ شھود و شھادت کے سید الشھداء پاکیزہ وآزاد انسانوں کے سردار حضرت امام حسین ابن علی علیھما السلام کی دعا عرفہ ھے، کیونکہ حضرت نے اس دعا میں جھاں کفر سے جھاد کرنے ، طاغوت کا قلع قمع کرنے ، نیز دلیری و جوانمردی اور ظالموں کی سرکوبی کا حکم دیا ھے وھیں اسلامی و دینی حکومت کی قدر و ستائش اور الٰھی ولایت کے ظھور کا ذکر کیا ھے۔ ساتھ ھی ذات خداوند قدوس کی تجلی، اس کی ھمہ گیر جلوہ گری، اس کے نور کے پرتو میں تمام ماسوا الله کے چھپ جانے ، اس کی معرفت خود اس کے ذریعہ حاصل کرنے غیر الله کو ھیچ جاننے اس کے غیر کو اس کی معرفت کرانے کی ذات کو عین شھود اور دلیلوں سے بے نیاز جاننے کا ذکر فرمایا ھے۔
کعبہ وامامت اور حج و ولایت کا ربط
اگر چہ کعبہ عالمین کے مسلمانوں کا قبلہ اور جائے طواف ھے اور تمام مسلمان اپنی زندگی اور موت میں اسی کی طرف رخ کرتے ھیں اس کی طرف قصد و ارادہ بھی خدا کی طرف ھجرت ھے کہ اگر ھجرت کی راہ میں موت آجائے تو اسے مھاجر کی جزا ملے گی اور اس کا اجر دینے کا الله نے خود وعدہ فرمایا ھے:
”و من یخرج من بیته مهاجراً الیٰ الله و رسوله ثمّ یدرکه الموت فقد وقع اجره علیٰ الله (۱۸)
نیز اگر چہ مکہ کی فقھی و سیاسی خصوصیت ثابت ھے جس سے دوسری جگھیں اور شھر محروم ھیں، یوں ھی حج اور اس کے مخفلت مقامات ان خاص سیاسی عبادی پھلووٴں کے حامل ھیں کہ دوسری عبادتوں میں وہ خصوصیات نھیں پائی جاتیں لیکن اس کی یہ تمام خصوصیتں اور اھمیتیں ولایت و امامت کی رھین منّت ھیں یعنی ملکوتی قیادت و رھبری، اعمال ، نیتیں ،دعائیں ،روشن اور واضح نشانیوں کا مشاھدہ حج کے معنوی اسرار سے آگاھی وغیرہ بھی امام معصوم کی تکوینی ولایت کے پر تو میں ھے جس کا حج تمام حجوں کا امام ھے اور امت کے اعمال کے آگے آگے خداوند عالم کی بارگاہ قبول کیطرف صعود کرتا ھے اور دوسروں کے اعمال اس کے پیچھے بلند ھوتے ھیں ۔
معصومین علیھم السلام کی ولایت تکوینی امت کو اعمال کی ھدایت ، اس کے تمام ظاھری و باطنی اعمال کا مشاھدہ اور قیامت میں ان تمام اعمال کی گواھی ایک ایسا حقیقی منصب و مقام ھے جسے نہ قانونی طور سے نصب کرنے کی ضرورت ھے اور نہ غصب کیا جا سکتا ھے۔
یوں ھی حج اور اس کے مختلف مقامات پر سیاسی قیادت و رھبری پوری دنیا سے آئے ھوئے انسانوں کے عظیم اجتماع کو ایک پاک و آزاد محور و مکان کی طرف جھت دینا، دنیا بھر کے مختلف افکار و خیالات سے فائدہ اٹھا نا، آزاد ی و استقلال کے تشنہ کاموں کو سیراب کرنا اور عالمی جبر و استکبار سے انھیں نجات دینا حقیقی معنیٰ میں امام معصوم کی امامت و قیادت کے پرتو میں اور غیبت کے زمانہ میں امام معصوم کے نائبوں کی رھنمائی میں ھی انجام پاتا ھے۔ ھر علاقہ میں شب و روز کی نماز کے لئے نماز جماعت کے عنوان سے اور ھفتہ میں ایک بار نماز جمعہ کے نام پر لوگوں کے اکٹھا ھونے کا راز یہ ھے کہ لوگ جماعت کے چھوٹے چھوٹے علاقائی اجتماع سے نماز جمعہ کے اجتماع اور وھاں سے حج کے عالمی اجتماع میں حرم کی حدود میں اکھٹا ھوں تاکہ قیادت و رھبری اور ایک فکری روش کے ذریعہ توحید کے ارکان مستحکم ھوجائیں اور شرک و الحاد و استکبار کی بنیاددنیا سے اکھڑ جائے مظلوم انسان بڑی طاقتوں کے خداؤں کی پرشتش سے آزاد ھوں ظالموں کا ھاتھ محروموں اور بے کسوں تک نہ پھنچنے پائے، خود سر اور غارتگر افراد مظلوموں کی سرزمین پر قدم نہ رکھنے پائیں۔
ولایت کے بغیر حج، امامت کے بغیر کعبہ کا قصد ، امام کی معرفت کے بغیر میدان عرفات میں حاضری، امامت کی راہ میں فداکاری کے بغیر قربانی، ظاھری و باطنی استکباری شیطان کو خود سے دور بھگائے بغیر رمی جمرہ،امام کی معرفت اور اس کی اطاعت کی کوشش کے بغیر صفاو مروہ کے درمیان سعی بے سود اور لا حاصل ھوگی، کیونکہ اگر چہ حج اسلام کی بنیادی چیزوں میں سے ھے :
” اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ھے، نماز ، زکوٰة، روزہ،حج اورولایت۔ (۱۹)
لیکن نماز، روزہ،زکوٰة، اورحج میں سے کوئی بھی ولایت کے مانند اسلام کا محکم و استوار رکن نھیں ھے۔ یھی وجہ ھے کہ ھمارے روائی جامعوں ( احادیث کے مجموعوں) میں آیا ھے کہ خداوند عالم کی طرف سے کوئی بھی دعوت اتنی نھیں دی گئی جتنی ولایت و امامت کی دعوت دی گئی۔
کیونکہ انسان کامل جو خود اسلام کا عملی نمونہ ھے، اسلام کے تمام پھلوٴوں سے آگاہ اور لوگوں کو اس کی تعلیم دے سکتا ھے، انھیں توحید کی روح یعنی طاغوت کے خلاف آواز اٹھانے اور ااٹھ کھڑے ھونے کے لئے آمادہ کرسکتا ھے۔
وحی کی زبان میں حرم اور کعبہ کا امامت و ولایت سے ربط
لا اقسم بهذا البلد و انت حلّ بهذا البلد (۲۰)
جس طرح سے زمانہ اور حساس و تاریخی زمانوں مثلاً وحی و رسالت کے زمانوں کی قسم قرآن میں ذکر ھوئی” و العصر انّ الانسان لفی خسرٍ“(۲۱) یوں ھی اھم تاریخی سر زمینوں کی قسم بھی قرآن میں آئی ھے مثلاً مذکورہ بالا آیت جس میں سرزمین مکہ اور بلد امین کو قسم کے ساتھ یادکیا گیا ھے۔ قرآن کی قسمیں انسانی قسموںکے مانند نھیں ھیں، کیونکہ انسانی قسمیں شھادت اور دلیل کے مقابل ھواکرتی ھیں لیکن قرآن کی قسم خود شھادت و دلیل میں ھے یعنی وہ انسان کو خود دلیل کی ھدایت کرتا ھے ۔ اسی وجہ سے اس نے اس زمین کی قسم کو ایک قید کے ساتھ رکھا ھے اور وہ یہ کہ پیغمبر خدا (ص) اس سرزمین میں ھو،یعنی خداوند عالم اس سرزمین کو قسم سے یاد کرتا ھے اور اس مکہ کی قسم کھاتا ھے جس میں پیغمبر اسلام موجود ھوں۔ ورنہ مکہ پیغمبر (ص) کے بغیر اور کعبہ الٰھی و آسمانی رھبر کے بغیر ایک معمولی زمین اور ایک عام گھر ھے ، جو رفتہ رفتہ مکمل طور پر ایک بتکدہ،بت پرستی کا مرکز، بت پرسروں کا اسیر اور ھوس پرستوں کے جنگل میں گرفتارھوجائے گا یھاں تک کہ کعبہ کا کلید دار ” ابو غیتان“ کعبہ کی تولیت کی بگڑی طائف میں شراب نو شی کی شب باشی میں دومشک شراب کے عوض بیچ دے اور کعبہ طائف کے شرابیوں کے درمیان شراب و کباب کے عوض خریدا اور بیچاجائے۔
اعمال حج کا اختتام اور کعبہ سے وداع
جس طرح کائنات ھستی کا مبداٴ و خالق خداوندا عالم تھا، اسے تمام کرنے والی اور اختتام تک پھنچانے والی بھی خدا کی ذات ھے ” هو الاوّل و الآخر“ (۲۲) یوں ھی کائنات کی تمام موجودات کا آغاز بھی خدا سے ھے اور ان تمام چیزوں کا انجام اور بازگشت بھی اسی کی جانب ھے ” انّا للّٰه و انّا الیه راجعون“ (۲۳) اسی بنا پر ضروری ھے کہ ھر کام جو ایک موحد و خدا پرست انسان انجام دیتا ہ اس کی ابتدا میں خدا کانام اور اس کی انتھا و انجام میں بھی خدا کی یاد اور اس کا ذکر رھے۔ وہ کوئی بھی کام خدا کے نام کے بغیر شروع نہ کرے اور اس کا عمل بھی خدا کی یاد سے الگ نہ ھو۔ عملی زندگی میں اس کے توحید ی اعتقاد اور شھود خدا وند کی طرف اس کی توجہ کا پتہ دیتا ھے۔ اسی لئے قرآن کریم ھمیں حکم دیتا ھے:
” کھو! کہ اے پاکنے والے مجھے جس منزل میں داخل فرما صداقت و خوبی کے ساتھ داخل فرما اور جھاں سے نکال سچائی کے ساتھ اور بھترین انداز میں نکال اور اپنی جانب سے میرے لئے ایک قوی و طاقتور مدد گار قرار دے“ (۲۴) یعنی دنیا میں میرا آنا اور یھاں سے جانا، یوں ھی عالم برزخ میں داخل ھونا اور وھاں سے نکل کر قیامت میں پھنچنا نیز ھر کام میں داخل ھونا اور اس سے عھدہ برآھونا سچائی اور بھتری کی بنیاد پر ھو۔ کعبہ کی زیارت اور حج بھی اسی قرآنی اصل و قانون کی بنیاد پر ھے، کیونکہ اس میں وارد ھونا توحید کی بنیاد پر ، صدق نیت کے ساتھ احرام باند کر اور لبیک کھہ کر نیز حج کا خاتمہ اور کعبہ سے وداع بھی توحید اور سچے ارادے کے ساتھ ھونا ضروری اور لازمی ھے۔ اس لئے حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے نقل ھے کہ آپ کعبہ سے وداع کے وقت فرماتے تھے:
”اللّٰهمّ انّی انقلب علی لا الٰه الّا انت“
پروردگارا میں توحید کی بنیاد پر نیز ھر طرح کے طاغوت اور جھوٹے خدا کی نفی کرتے ھوئے حج اور کعبہ کی زیارت سے واپس ھورھا ھوں“۔
جب حاجی اعمال حج بجالانے کے بعد ھر آلودگی و کثافت سے پاک ھوجاتا ھے تو اس وقت تک ایک نورانی انسان رھے گا جب تک گناھوں سے آلودہ نہ ھو۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے:
”الحاج لا یزال علیه نور الحج ما لم یلم بذنب“ (۲۵)
اگر حج کرنے والے نے یہ نورانیت اپنے اندر دیکھی تو سمجھ لے کہ اس کا حج مقبول ھے، ورنہ وہ حج مردود ھے۔
حجة وداع میں پیغمبر اسلام(ص) کا خطبہ اور فلسفہ حج
حج خانہٴ خدا و دوسری عبادتوں کی مانند کچھ ظاھری فقھی احکام و قوانین اور کچھ باطنی و معنوی اسرار و رموز پر مشتمل ھے اور چونکہ حضرت خاتم الانبیاء(ص) وہ انسان کامل ھیں جن میں ظاھری کمالات کے ساتہ معنوی مقامات بھی بدرجہٴ اتم موجود ھیں لھذا آپ نے لوگوں کو حج کے فقھی قوانین اور علمی احکام دیتے ھوئے فرمایا:
” خذوا عنّی مناسککم“ مجھ سے اپنے اعمال و مناسک یاد کرو“
بالکل یوں ھی جیسے آپ نے احکام نماز کی تعلیم کے سلسلہ میں فرمایا تھا:
”صلّوا کما راٴیتمونی اصلّی“ یوںنماز پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ھوئے دیکھتے ھو۔
اسی طرح آپ نے اسرار حج اور اس کے بعض باطنی خصوصیات کی تعلیم کے سلسلہ میں اپنے آخری حج میں بھی بھت سے مطالب بیان فرمائے ھیں ، جن کے کچھ نمونے ذیل میں پیش کئے جارھے ھیں:
۱۔ توحید کے دائرہ میں تھذیب نفس اور روح کا تزکیہ ، امام سے ربط ، اتحاد و اتفاق رائے اور اھل ایمان کے درمیان باھمی ھماھنگی بر قرار رکھنا۔
۲۔ لوگوں کے لئے ھر طرح سے امن وا ماں قائم کرنا اور راھزنون کے حملوں سے ان کی جان ومال کی حفاظت کرنا۔
۳۔ اجتماعی وانفرادی ونسلی مساوات اور برابری کی حفاظت کرنا یعنی تمام افراد قانون اسلام کی نگاہ میں برابر ھیں یوں ھی تمام قومیں اور قبیلے اسلام کی نظر میں برابر و یکساں ھیں۔
۴۔ خون کا بدلہ لینا اور خون بھانا جو زمانہٴ جاھلیت میں جابرانہ انتقام اوردشمنانہ کینہ توزیوں کی بنیاد پر رائج تھا ختم کردیا جائے اور ماضی کی سود خوری جو اقتصادی طور پر خون چوسنے کے مترادف تھی کالعدم سمجھی جائے پیغمبر اسلام (ص) نے ربا کی حرمت اور زمانہٴ جاھلی کی خونخواری کی اھمیت کے پیش نظر سود خوروں کی تمام سودی اسناد کو لغو اور بے اثر قرار دیتے ھوئے فرمایا: سب سے پھلے ربا کی سند جسے میں اپنے قدموں تلے روندتا ھوں اور اس کے باطل ھونے کا اعلان کرتا ھوں میرے چچا عباس ابن عبد المطلب کی سودی سند ھے۔
۵۔ عورتوں کے حقوق کی رعایت کرنا، انکے ساتہ نیکی کا سلوک کرنا اور ان کی زحمتون کے عوض انھیں برابر سے اس کا صلہ دینا یا حسن سلوک کے ذریعہ ان کی زحمتون کا جبران کرنا۔
۶۔ خدمت گزاروں، کا ریگروں اور ماتحتوں کو محترم جاننا اور اپنی طرح غذا اور لباس سے متعلق ان کی ضرورتیں پوری کرنا۔
۷۔ اپنے اسلامی بھائی کے ساتہ برادرانہ اصول اور اخلاقی خوبیوں کی رعایت کرنا، ان کی حیثیت اور عزت و آبرو کا احترام کرنا ان کی جان و مال کے ساتہ تجاوز اور ظلم نہ کرنا۔
۸۔ قرآن کریم عترت معصومین علیھم السلام اور اھلبیت وحی و رسالت کو لائق صد احترام جاننا ان دونوں گرانقدر چیزوں سے کسب فیض کرنا اور ان سے جدانہ ھونا۔
۹۔ سب کو الٰھی قانون کے مقابل ذمہ دار سمجھنا ، اسلامی احکام کی حفاظت کرنا اور حجة الوداع میں پیش آنے والے واقعات کی تبلیغ کرنا اور انھیں حج و زیارت کعبہ کے تحفہ کے عنوان سے ان افراد تک پھنچانا جو موجود نھیں تھے۔
۱۰۔ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت و امامت کا ذکر کرنا ، امت کو امام سے متعارف کرانا اور امام کو امت کی نظر میں پھچنوانا اس کی اطاعت کو پیغمبر اکرم (ص) کی اطاعت کے مانند جاننا تنیجہ میں معاشرہ کو جاھلی زندگی سے نجات دلاکر ایک معقول اور اسلامی زندگی فراھم کرنا:
” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ، اللّٰهم وال من والاه و عاد من عاداه “۔(۲۶)
تا ھم اس بحث کو یھیں ختم کرتے ھیں ۔ اس سلسلہ میں مزید اور جدید عنوانات کے تحت مباحث کا انتظار فرمائیے۔
حوالے
۱۔آل عمران/ ۹۷۔۹۶
۲۔ بقرھ/ ۱۲۵
۳۔ حج/ ۲۵
۴۔بقرھ/ ۱۲۷
۵۔حج/ ۲۹
۶۔حج/ ۳۳
۷۔حج/۲۶
۸س۔بقرھ/ ۱۲۵
۹۔ نھج البلاغہ،خط / ۴۷
۱۰۔نحل/ ۳۶
۱۱۔بقرھ/۱۲۸
۱۲۔حج/ ۳۷
۱۳۔(وسائل ،ج/ ۹، ص/ ۴۴۵)
۱۴۔بقرھ/ ۲۰۱۔۱۹۸
(۱۵)مائدہ / ۹۵
۱۶۔مائدہ /۹۴
۱۷۔بقرھ/ ۱۸۶
۱۸۔نساء/ ۱۰۰
۱۹۔وسائل جلد /۱، صفحہ /۷
۲۰۔ بلد/ ۲۔۱
۲۱۔والعصر ۲/۱
۲۲۔حدید/ ۳
۲۳۔بقرہ /۱۵۶
۲۴۔اسراء/ ۸۰
۲۵۔ وافی ،باب فضل الحج
۲۶۔الغدیر علامہ امینی رحمة اللہ علیہ ج/۱ ، ص /۱۵،تا