عورت اورحجاب
حجا ب کے متعلق آیات قرآنی (۱) قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ أَزْکٰی لَہُمْ إِنَّ اللہ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوبِہِنَّ وَلَایُبْدِیْنَ زِینَتَہُنَّ إِلاَّ لِبُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلاَیَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ وَتُوْبُوا إِلَی اللہ جَمِیْعًا أَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ "آپ مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے۔اور مومنہ عورتوں سے بھی دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کر یں اوراپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اوراپنی زیبائش کی جگہوں کو ظاہر نہ کریں سوائے اسکے جو خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں آبا ء شوہر کے آبا ء اپنے بیٹوں، شوہر کے بیٹوں اپنے بھائیوں بھائیوں کے بیٹوں بہنوں کے بیٹوں اپنی ہم صنف عورتوں، اپنی کنیزوں، ایسے خادموں جو عورتوں کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ا ن بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی بات سے واقف نہ ہوں اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ چلتے ہوئے اپنے پاوٴں زور سے نہ رکھیں کہ ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہوجائے ۔اور اے مومنو سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو امید ہے کہ تم فلاح پا وٴ گے ۔ (سورہ نور :۳۰،۳۱) (۲ ) یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ أَدْنٰی أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَیُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللہ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۔ "اے نبی! اپنی ازواج اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں ۔ یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے) قریب تر ہو گا ۔ پھرکوئی انہیں اذیت نہیں دے گا ۔ اور اللہ بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے ۔" (سورہ احزاب :۵۹) (۳) وَإِذَا سَأَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ ۔ "اور جس وقت وسائل زندگی میں سے کوئی چیز عاریتاً ان رسول کی بیویوں سے طلب کرو درمیان میں پردہ حائل ہونا چاہیے یہ کا م تمہارے اور انکے دلوں کو زیادہ پاک رکھتاہے۔" ( سورہ احزاب :۵۳) (۴) وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُوْلَی ۔ "اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو ۔" ( سورہ احزاب :۳۳) (۵) وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللاَّ تِیْ لاَیَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْہِنَّ جُنَاحٌ أَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ م بِزِیْنَةٍ وَأَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّہُنَّ وَاللہ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ "اور جو عورتیں ضعف السنی کی وجہ سے گھروں میں خانہ نشین ہو گئی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں ان کے لیے اپنے حجاب کے اتار دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں ۔ تاہم عفت کاپاس رکھنا ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ بڑا سننے والا جاننے والا ہے ۔" ( سورہ نور:۶۰) پردہ ہر زمانہ میں شافت و عظمت کی نشانی سمجھا جاتا رہاہے اسلام نے اس کاحکم دے کرایک عورت کی عظمت کی حفاظت کی ہے ۔ پردہ چادر برقعہ دو پٹہ غرضیکہ ایسا کپڑ ا جس سے عورت کا بدن اور اس کے بال نظر نہ آئیں ۔ ۱)حکم ہے کہ نرم لہجہ میں ہنستے ہوئے غیر مردسے بات نہ کریں ۔ ارشاد رب العزت ہوتاہے : فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۔ "نرم لہجہ میں بات نہ کرو کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔" ( سورہ احزاب : ۳۲ ) ۲) میک اپ بن سنور کا بازار یاباہر کسی جگہ جاناممنوع ،زینت صرف شوہر وں کے لیے ہونا چاہیے۔ہاں محرموں کے سامنے آنے میں کوئی حرج نہیں۔ وَلاَیُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلاَّ لِبُعُوْلَتِہِنَّ ۔ "اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں مگر شوہر وں اور محروں کے لئے ۔"(سورہ نور:۳۱) ۳) چلتے ہوئے کوئی ایسی علامت نہیں ہونی چاہیے جس سے لوگ متوجہ ہوں مثل پاؤں زور سے مارنا پا زیب یا اس طرح کا زیور جس سے آواز پید اہو پرفیوم عطریات جس سے لوگ خصوصی توجہ شروع کریں ۔ ارشاد رب العزت ہوتاہے : لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ۔ "جس سے پوشیدہ زینت ظاہرہو جائے ۔ " (سورہ نور:۳۱) ۴)ایسی چادر دوپٹہ اوڑھیں جس سے بدن کے اعضا سینہ گردن بال ظاہر نہ ہوں ۔ ارشاد ِرب العزت ہے : وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ ۔ "اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش ظاہر نہ ہونے دیں۔(نور:۳۱) ۵)ا رشادِ رب العزت ہے : یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ یُعْرَفْنَ ۔ اپنی چادراور اوڑھنی اس طرح ڈالے رکھیں تاکہ ان کی پہچان ہو سکے ۔ ۶) ارشاد رب العزت ہے : فَاسْأَلُوہُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۔ عورتوں سے ضرورت کی کوئی چیز طلب کرنا ہو تو پردہ یا دروازے کے پیچھے رہ کر طلب کرو۔ (احزاب :۵۳) ۷)بناؤ سنگھار کے ساتھ باہر نکلنا اسلام سے پہلے کا (جاہلیت)طور طریقہ ہے، اسلام کے بعد ایسا کرنا گویا جاہلیت کی طرف پلٹناہے ۔ ارشاد رب العزت ہوتاہے : وَلاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُوْلٰی "قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو "۔(سورہ احزاب ۳۳) آخر بحث میں رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کافرمان وجناب سیدہ سلام اللہ علیھا کا جواب : قال رسول اللہ لابنتہ فاطمةعلیھا السلام ایُّ شیء خیر للمرئة قالت ان لا تری رجلا ولا یراھا رجل۔ رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنی بیٹی فاطمہ زہرا سے پوچھا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا ہے؟ عرض کیا عورت مرد کو نہ دیکھے او رمرد اس عورت کونہ دیکھ سکے ۔ عورت کی عظمت جناب سیدہ سلام اللہ علیہا جن کی تعظیم کے لیے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )بنفس نفیس کھڑے ہو جاتے تھے ،اے بیٹی !اے ماں! جس قدر سیرت زہرا پرعمل ہوگا اسی قدر تیری عزت وعظمت ہوگی ۔ قرآن مجید و ازدواج ازدواج او رنکاح مرد و عورت کے درمیان اتصال۔ جس میں حدود شرعی کو مدنظر رکھتے ہوئے جسمانی وروحانی لذت کا حصول اورنسل انسانی کی بقاء مقصود ہوتی ہے ۔ النکاح سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی فطری لذت بھی حاصل او رانسانیت کی بقاء بھی موجود ۔ فرمان رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) المحجة البیضاء جلدنمبر ۳ ص۵۴ نکاح میری سنت ہے میری سنت سے روگردانی کرنے والامیرا نہیں ہو سکتا۔ نکاح کا ذکر قرآن مجید میں ۲۴ دفعہ آیا ہے ۔ فطرت انسانی میں مرد بہ عنوان طالب او ر محب او رعورت پھول او رشمع کی حیثیت رکھتی ہے مرد۔ مائل جاتا ہے او رعورت اسکا مقصود بنتی ہے لذا اسی فطرت کے مطابق خطبہ ازدواج کی خواہش مرد کی طرف سے ہوتی ہے، ناز ونعم میں پروردہ عورت کے لیے افتخار مرد کی بار بار آمد تاکہ قبولیت ہوجائے۔ مرد محبت خرید رہا ہے ، محبت اور چاہت رکھتا ہے اس بیوی کو اپنے گھر میں لانا چاہتا ہے اوراس شمع سے اپنے گھر کو روشن چاہتا ہے ۔یہ ہے اظہار۔ محبت اسی میں عورت کا شرف او رعورت کی عظمت ہے ۔ پھر برات مرد کی طر ف سے جاتی ہے تاکہ عزت کے ساتھ اپنے گھر میں اس عظیم شخصیت اس محبوبہ کو لایا جاسکے تاکہ گھر میں رونق ہو گھرمیں چہل پہل ہو مرد کیلئے سکون واطمینان ہو۔ لیکن جب صیغہ نکاح پڑھاجاتا ہے تو عورت کی طرف سے ابتدا ہوتی ہے انشاء عورت کی طرف سے او رقبول مرد کی طرف سے یہ در حقیقت مرد کا استقبال ہے ۔ اپنی طرف سے رضا مندی کا اظہار ہے تا کہ مرد سمجھ لے کہ اسکی محنت رائگاں نہیں گئی ۔ مجھے محبت کاجواب محبت سے ملا ہے ۔کتنی چاہت کے ساتھ کتنی خوشی کے ساتھ مرد اس عورت کو اپنے گھرلے جاتا ہے ۔ جو گھر مرد کا تھا بنانے والے مرد کا تھا لیکن اب اس گھر کی سجاوٹ عورت ہے ۔ گھر کی زینت عورت ہے، گھرمیں روشنی عورت سے، گھر میں خوشبو عورت سے ۔مردگھر سے باہر ہوتے ہوئے بھی فورا گھر جانے کی خواہش رکھتا ہے تاکہ اپنے اس پھول کی خوشبو سے مستفید ہو ۔ یہ ہے خداکا عطیہ یہ ہے فطری ملاپ ملاپ بھی ایسا کہ ((تو من شدی من تو شدم)) کا مصداق ہیں۔ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ " وہ تمہارے لباس اور تم ان کے لبا س ہو ۔" (بقرہ:۱۸۷) ارشا د رب العزت ہے: وَمِنْ آیَاتِہ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ "اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے ۔ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پید ا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کردی۔ غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا ان میں(خداکی) نشانیاں ہیں ۔" (روم :۲۱) عورت کی طرف سے محبت او رپیار مرد کی طرف سے محبت کے ساتھ رحمت و مہربانی تاکہ باہمی ارتباط مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے خد ا کرے یہ شادی یہ خوشی دائمی ہو ساری زندگی ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی ملاپ و صل و ارتباط ہو۔ ارشادِ رب العزت : ہُمْ وَأَزْوَاجُہُمْ فِیْ ظِلَالٍ عَلَی الْأَرَائِکِ مُتَّکِئُوْنَ "وہ اور انکی ازواج سا یوں میں مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے ۔" (یٰسین:۵۶) انسانی فطر ت میں اس محبت کوودیعت کیا گیاہے ۔ صحیح محبت حدود شرعی میں رہتے ہو ئے محبت فطری کہلائے گی۔ ارشاد رب العزت ہے: زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْث " لوگوں کوان کی مرغوب چیزوں یعنی بیویوں، بیٹیوں ، سونے چاندی کے خزانے۔ عمدہ گھوڑوں اورمریشیوں اورکھیتوں کی الفت و زینت دکھا دی گئی ہے۔ " (آل عمران:۱۴) لیکن یہ تو دنیا وی سامان ہے انجام و عاقبت میں بھی ازواج و عورت کی اہمیت واضح ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے : قُلْ أَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَةٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللہ وَاللہ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ ۔ "کہہ دیجیے کیامیں تمہیں ان چیزوں سے بہتر چیز نہ بتادوں جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغا ت ہیں جن کے نیچے نہریں جا ری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ نیز ان کے لیے پاکیزہ بیویا ں ہیں اور اللہ کی خوشنودی ہوگی اورا للہ بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے ۔"