اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

نور عظمت حق

 

خداوند عالم پوری کائنات کا مالک و مختار ہے۔ وہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ کوئی بھی اس کے اختیار و اقتدار کو محدود نہیں کر سکتا ہے۔ خداوند عالم نے ائمہ معصومین علیہم السلام کو اپنے تمام فیوض و نعمات کے لئے واسطہ قرار دیا ہے۔ اس بنا پر یہ حضرات کائنات میں ہر طرح کا تصرف کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان حضرات کی معرفت حاصل کریں جنہیں خداوند عالم نے اس کائنات ارضی و سماوی پر اختیار و اقتدار عطا فرمایاہے۔

اس کے علاوہ اگر ہم دنیا میں سعادت مند زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور صراط مستقیم پر گامزن رہنا چاہتے ہیں تو حق و باطل کو پہچاننا ضروری ہے۔ لہٰذا وہ حضرات جو حق کا آئینہ ہے جن کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے جن کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے جن کی اطاعت خدا کی اطاعت اور جن کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے۔ ان کی معرفت حاصل کرنا ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے اور ہماری سعادت کا سبب ہے۔

منزلت حضرت زہراء (س) برتر از عصمت

جناب زہراء سلام اللہ علیہا کی منزلت عام عصمت سے بہت زیادہ بلند ہے۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اِنَّ اللهَ یَرْضٰي لِرِضَا فَاطِمَةَ وَ یِغْضِبَ لِغضَبِہَا

یقینا خداوند عالم جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خوشنودی سے خوشنود ہوتا ہے اور ان کی ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے۔

(بحار الانوار، ج ۳۰، ص ۳۵۳؛ مستدرک حاکم، ج ۳، ص ۱۵۴؛ معجم الکبیر، ج ۲۲، ص ۴۰۱؛ صحیح بخاری، ج ۵، ص ۸۳)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی منزلت مافوق عصمت ہے کیونکہ عصمت کا مفہوم ہے کہ انسان کے تمام اعمال اس کی خوشی ناخوشی، مسرت و غضب خدا کی مرضی کے پابند ہوں۔ وہ خدا کی خوشنودی سے خوش ہو اور خدا کی ناراضگی سے ناراض ہو۔ اس کا یہ عمل مرضی خدا کا آئینہ ہو لیکن حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا مسئلہ یہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں خداوندعالم جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خوشنودی سے خوشنود ہوتا ہے اور خداوند عالم ان کی ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے۔

معرفت حضرت زہراء (س) ممکن نہیں

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اِنّمَا سُمِّیَتْ فَاطَمَةَ لِاَنَّ الْخَلْقَ فَطَمُوْا عَنْ مَعْرِفَتِہَا

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا کہ تمام مخلوقات ان کی معرفت سے عاجز ہیں۔(بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۶۵)

حدیث کے جملہ خاص توجہ کے طالب ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: لِاَنَّ الْخَلْقَ – اَلْخَلْقْ پر الف و لام ہے۔ یعنی تمام مخلوقات- ماسوا اللہ جو بھی ہے سب کے سب مخلوقات خدا ہیں۔ یہ صرف انسانوں کو شامل نہیں ہے۔ بلکہ اس میں ناموس وحی الٰہی امین خداوند جناب جبرئیل، عزرائیل، دیگر مقربان بارگاہ فرشتہ انبیاء عظام، مرسلین کرام، اوصیاء... سب کو شامل ہے۔

وہ ذات اقدس کس قدر بزرگ ہوگی جبرئیل امین جیسا فرشتہ بھی جس کی مکمل معرفت حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام جس کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ وہ عظیم ذات ہے کہ بس خدا ہی جانتا ہے وہ کیا ہیں۔

اس سلسلہ میں ذرا اس روایت پر توجہ فرمائیں۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے فرمایا:

اِذَا اسْتَقَرَّ اَوْلِیَآءَ اللهَ فِيْ الْجَنَّةِ زَارَکِ آدَمُ مِنْ دُوْنِ النَّبِیِّیْنَ۔

جس وقت اولیاء خدا اپنی اپنی جگہوں پر قیام پذیر ہو جائینگے۔ اس وقت جناب آدم اور بقیہ تمام انبیاء (علیہم السلام) تمہاری زیارت کو آئینگے۔(بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۲۲۷)

یہ کیا منزلت ہے۔ کیا رفعت، بلندی ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لئے صفوں میں کھڑے ہوں گے۔ عقل اس منزلت کو درک کرنے سے قاصر ہے خدا اس عظیم الشان خاتون کو منتخبہ روزگار و یگانہ آفرینش کو کیا عظیم ترین منزلت عطا فرمائی ہے۔ یقینا انبیاء علیہم السلام جنت میں جس خاتون کی زیارت کے لئے صفوں میں کھڑے ہوں اس کی عظمتوں کو کون درک کر سکتا ہے۔ عقل انبیاء علیہم السلام کی منزلتوں کو درک نہیں کر سکتی ہے تو اس ذات کی منزلت کو کیونکر درک کر سکتی ہے جس کی زیارت کے لئے انبیاء علیہم السلام صفوں میں کھڑے ہوں۔

خلقت حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا

ذیل میں جو روایت نقل کرنے جا رہے ہیں شیعہ اور سنی علماء نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے اس قدر صحیح اور مستحکم ہے کہ اس کی بنیاد پر فتویٰ دیا جا سکتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں:

کَانَ النَّبِيُّ یَکْثُرُ تَقْبِیْلُ فَاطِمَةَ فَعَاتَبْتُہ عَلٰي ذٰلِکَ عَایِشَةُ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ اِنَّکَ لَتَکْثُرُ تَقْبِیْلُ فَاطِمَةَ۔

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا بہت زیادہ بوسہ لیتے تھے۔ عایشہ نے اس پر اعتراض کیا۔ اور کہا: اے اللہ کے رسول کیا وجہ ہے آپ بہت زیادہ فاطمہ کا بوسہ لیتے ہیں۔(بحار الانوار، ج ۱۸، ص ۳۱۵)

اس اعتراض کا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے اس طرح جواب دیا۔ اس جواب کو اہل سنت کے عالم سیوطی نے در المنثور میں اور طبرانی نے 'معجم' میں نقل کیا ہے۔

(در المنثور، ج ۴، ص ۱۵۳؛ المعجم الکبیر، ج ۲۲، ص ۴۰۱)

لَمَّا اَسْرٰي بِيْ اِلَي السَّمَآءِ اَدْخَلْتُ الْجَنَّةَ فَوَقَعْتُ عَلٰي شَجَرَةٍ مِنْ اَشْجَارِ الْجَنَّةِ لَمْ اَرْفَي الْجَنَّةِ اَحْسَنُ مِنْہَا وَ لاَ اَبْیَضُ وَرَقًا وَ لاَ اَطْیَبُ ثَمَرَةً فَتَنَاوَلْتُ ثَمَرَةً مِنْ ثَمَرَاتِہَا فَاَکَلْتُہَا فَصَارَتْ نُطْفَةٌ فِيْ صُلْبِيْ فَلَمَّا ہَبَطْتُ اِلَي الْاَرْضِ وَاقَعْتُ خَدِیْجَةَ فَحَمَلَتْ بِفَاطِمَةَ فَاِذَا اَنَا اِشْتَقْتُ اِلٰي رِیْحِ الْجَنَّةِ شَمَمْتْ رِیْحَ فَاطِمَةَ۔

جب میں معراج کے سفر میں جنت میں گیا میں نے جنت کے درختوں میں ایک درخت دیکھا جس سے بہتر جنت میں کوئی درخت نہیں تھا نہ اس سے زیادہ سفید کوئی درخت تھا اور نہ اس سے زیادہ خوشبودار کوئی درخت تھا۔ میں نے اس درخت کا ایک پھل تناول کیا۔ اس پھل نے میری صلب میں نطفہ کی شکل اختیار کی اور جب میں زمین پر واپس آیا تو میں نے یہ امانت جناب خدیجہ کے رحم میں منتقل کر دی جس سے فاطمہ تشکیل ہوئی۔ لہٰذا میں جب بھی جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں فاطمہ کو سونگھ لیتا ہوں۔(تفسیر نور الثقلین، ج ۳، ص ۹۸)

اس روایت پر غور کریں۔ رسولوں میں نبیوں میں تمام خلقت میں سب سے افضل و اشرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ جنت سب سے زیادہ پاکیزہ جگہ اس جنت میں سب سے بہتر ارفع واعلیٰ درخت اس درخت کا سب سے بہتر پھل۔ یہاں سے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے وجود اقدس کی ابتداء ہوئی ہے۔ اور یہ خلقت بھی جسمانی خلقت ہے۔ یعنی جس چیز سے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا جسم اطہر تشکیل پایا وہ جنت کا سب سے حسین پھل ہے۔

جسم و روح میں مناسبت

قرآنی نقطہ نظر سے جسم اور روح میں ایک مناسبت پائی جاتی ہے۔ قرآن کریم حضرت آدم کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے:فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ

جب جناب آدم کا جسد خاکی ہر طرح سے مناسب بنا دیا گیا۔پھر وہ اس لائق ہوا کہ اس میں روح پھونکی جائے۔ جب میں نے اس بدن کو پوری طرح مناسب کر دیا پھر اس میں اپنی روح پھونکی۔

(سورہ حجر، آیت ۲۹)

ایک دوسری جگہ اس طرح ارشاد ہوتا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔

یقینا ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔(سورہ تین، آیت ۴)

دنیا کی کوئی بھی مخلوق شکل و صورت میں انسان سے بہتر نہیں ہے۔

انسان کی بہترین شکل و صورت اس کے بدن کا بہترین مناسب اس لائق ہے کہ اس میں روح پھونکی جائے۔ لہٰذا روح پھونکنے سے پہلے بدن کو پوری طرح مناسب بنایا گیا۔ یعنی دنیا کا ہر بدن اس لائق نہیں ہے کہ اس میں روح پھونکی جائے۔ جب ہر بدن ایک عام روح کو دریافت نہیں کر سکتا ہے۔ تو خداوند عالم کے فیض خاص کے لئے کچھ اور ہی بدن کی ضرورت ہے۔

دنیوی مواد سے بنا ہوا بدن اس لائق ہے کہ اس میں روح پھونکی جائے۔ اور وہ بھی وہ روح جو اللہ کی طرف منسوب ہے جس کو اللہ اپنی روح کہہ رہا ہے۔ تو وہ جسم اطہر جس کی تشکیل جنت کے میوہ سے ہوئی ہے۔ اس بدن کے لئے کس روح کی ضرورت ہوگی۔ جب یہ جسم اطہر دنیا کے تمام اجسام سے مختلف ہے تو اس کی روح بھی دنیا کی تمام ارواح سے مختلف ہوگی۔ شاید اس بنا پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ارشاد فرماتے ہیں:

تمام مخلوقات ان کی معرفت حاصل کرنے سے عاجز ہیں۔

جناب جابر ابن یزید جعفی کا شمار ائمہ علیہم السلام کے خاص اصحاب میں ہوتا ہے۔ انہوں نے حضرت امام جعفر صادقسے دریافت کیا۔ جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو زہراء کیوں کہا جاتا ہے۔ امام نے فرمایا:

لِاَنَّ اللهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلْقَہَا مِنْ نُوْرٍ عَظْمَتِہ، فَلَمَّا اَشْرَقَتْ اَضَائَتِ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ بِنُوْرِہَا، وَ غَشِیَتْ اَبْصَارُ الْمَلآَئِکَةِ وَ خَرَّتِ الْمَلآَئِکَةُ لِلّٰہِ سَاَجِدِیْنَ وَ قَالُوْا: اِلٰہَنَا وَ سَیِّدَنَا مَا ہٰذَا النُّوْرُ؟ فَاَوْحَي اللهُ اِلَیْہِمْ: ہٰذَا نُوْرُ مِنْ نُوْرِيْ وَ اَسْکَنْتُہ فِيْ سَمَائِيْ، خَلَقْتُہ مِنْ عَظَمَتِيْ اَخْرَجَہ مِنْ صُلْبِ نَبِيْ مِنْ اَنْبِیَآئِيْ اَفْضَلُہ عَلٰي جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ وَ اَخْرَجَ مِنْ ذٰلِکَ النُّوْرُ اَئِمَّةِ یَقُوْمُوْنَ بِاَمْرِیْ یَہْدُوْنَ اِلَي حَقِّيْ وَ اجْعَلْہُمْ خُلَفَائِيْ فِيْ اَرْضِيْ بَعْدَ اِنْقِضَاءِ وَحِیِيْ۔

خداوند عالم نے ان کو اپنے نور عظمیت سے پیدا کیا ہے۔ جب یہ نور چمکا تو تمام آسمان اور زمین اس نور سے منور ہو گئے۔ ملائکہ کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ ملائکہ خدا کی بارگاہ میں سجدہ میں گر گئے اور عرض کرنے لگے: پروردگارا، معبود: یہ کیسا نور ہے؟

خداوند عالم نے ان کی طرف وحی کی اور فرمایا: یہ نور میرے نور سے ہے۔ اس کو میں نے اپنے آسمان میں جگہ دی ہے۔ اس کو میں نے اپنی عظمت سے پیدا کیا ہے۔ میں اس کو اپنے انبیاء سے ایک نبی کی صلب میں ظاہر کروں گاجن کو تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہو گی۔ پھر اس نور سے اپنے امام قرار دوں گا جو میرے حکم سے قیام کرنیگے اور میرے حق کی طرف لوگوں کی ہدایت کرینگے۔ سلسلہ وحی کے منقطع ہونے کے بعد ان کو اپنی زمین میں اپنا جانشین قرار دوں گا۔(بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۱۲)

اس طرح حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا جسد اطہر جنت کے بہترین پھل سے تشکیل پایاہے اور آپ کی روح کو خدا نے اپنے نور عظمت سے پیدا کیا ہے۔ جب اس مادی دنیا میں آنے کے لئے اس نور کی یہ شان ہے تو آخرت میں اس کے درجات کیا ہوں گے؟

حضرت امام جعفر صادق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے روایت نقل فرماتے ہیں:

قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہ: خُلِقَ نُوْرُ فَاطِمَةَ قَبْلَ اَنْ تَخْلُقَ الْاَرْضَ وَ السَّمَآءَ فَقَالَ بَعْضُ النَّاسُ: یَا نَبِيَّ اللهِ فَلَیْسَتْ ہِيَ اِنْسِیَّةُ؟ فَقَالَ: فَاطِمَةُ حَوْرَاءُ اِنْسِیَّةَ۔ فَقَالُوْا: یَا نَبِیَّ اللهِ کَیْفَ ہِيَ حَوْرَاءُ اِنْسِیَّةَ؟ قَالَ: خَلَقَہَا اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ نُوْرِہ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ آدَمَ اِذْ کَانَتِ الرُّوْحُ۔ فَلَمَّا خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ آدَمَ عَرَضَتْ عَلٰي آدَمَ۔ قِیْلَ یَا نَبِيَّ اللهِ وَ اَیْنَ کَانَتْ فَاطِمَةَ؟ قَالَ: کَانَتْ فِيْ حُقَّةِ تَحْتَ سَاقِ الْعَرْشِ۔ قَالُوْا یَا نَبِیَّ اللهِ فَمَا کَانَ طَعَامُہَا؟ قَالَ: اَلتَّسْبِیْحُ وَ التَّقْدِیْسُ وَ التَّہْلِیْلُ وَ التَّمْجِیْدُ۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: خداوند عالم نے آسمان و زمین کی خلقت سے پہلے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا نور پیدا کیا۔ اس وقت بعض لوگوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول کیا یہ انسان نہیں ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: فاطمہ انسانی حور ہے۔ لوگوں نے دریافت کیا: وہ کس طرح انسانی حور ہیں؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: خدا نے ان کو جناب آدم کی خلقت سے پہلے اپنے نور سے پیدا کیا ہے۔ جب صرف روحیں تھیں۔ جب جناب آدم کی خلقت ہوئی تو یہ نور ان کے سامنے پیش کیا گیا۔

لوگوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول اس وقت جناب فاطمہ کہاں تھیں؟ فرمایا: عرش کے نیچے ایک خزانے میں۔

لوگوں نے دریافت کیا: اس وقت ان کی غذا کیا تھیں؟

فرمایا: خداوند عالم کی تسبیح، تقدیس، تمجید اور تہلیل ان کی غذا تھی۔

(بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۴)

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی عبادت

اس روایت کے آخر میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:

اس عالم ارواح میں تحت عرش الٰہی جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی غذا خداوند عالم کی حمد اور تسبیح تھی اس وقت جو حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی تسبیح ہے۔ شاید اس کی وجہ یہی آسمانی تسبیح ہو۔ جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے نور کو خزانہ عرش میں رکھا گیا تھا ان کی غذا خدا کی حمد اور اس کی تسبیح تھی۔ آپ محراب عبادت میں اس قدر عبادت کرتی تھیں کہ پیروں پر ورم آجاتا تھا۔

مَا کَانَ فِيْ ہٰذِہ الْاُمَّةِ اَعْبَدُ مِنْ فَاطِمَةَ (عَلَیْہَا السَّلاَمُ) کَانَتْ تَقُوْمُ حَتّٰي تُوَرِّمَ قَدَمَاہَا۔

اس امت میں کوئی بھی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے زیادہ عبادت گذار نہ تھا آپ نے کھڑے ہو کر اس قدر عبادت کی پیروں پر ورم آ گیا تھا۔( مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳، ص ۳۸۹)

زمین کی یہ عبادت اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ عالم ارواح میں حمد و تسبیح و عبادت پروردگار کا جو سلسلہ تھا وہ اس دنیا میں بھی باقی رہا۔

حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں:

 

فَمَنْ عَرَّفَ فَاطِمَةَ حَقَّ مَعْرِفَتِہَا فَقَدْ اَدْرَکَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ۔

جس شخص کو حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی حقیقی معرفت نصیب ہو جائے اسے شب قدر مل گئی ہے۔(بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۶۶؛ تفسیر فرات کوفی، ص ۵۸۱)

ایک دوسری جگہ امام جعفر صادق اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:

ہِیَ الصِّدِّیْقَةُ الْکُبْرٰی وَ عَلٰي مَعْرِفَتِہَا دَارَتِ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی۔

یہ صدیقہ کبریٰ ہیں ان کی معرفت کی بنیاد پر گذشتہ زمانہ گردش کر رہا ہے۔(امالی شیخ طوسی قدس سرہ، ص ۶۶۸)

یعنی نہ صرف یہ دنیا جناب زہراء سلام اللہ علیہا کی معرفت پر گردش کر رہی ہے بلکہ گذشتہ زمانوں کی زندگی کا یہی محور ہیں۔

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا جزء رسالت

خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَ سَلَّمَ وَ ہُوَ آخِذٌ بِیَدِ فَاطِمَةَ فَقَالَ: مَنْ عَرَّفَ ہٰذِہ فَقَدْ عَرَّفَہَا وَ مَنْ لَمْ یَعْرِفْہَا فَہِيَ فَاطَمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، وَ ہِيَ بَضْعَةٌ مِنِّيْ وَ ہِيَ قَلْبِيْ وَ رُوْحِيَ الَّتِيْ بَیْنَ جَنْبِيْ فَمَنْ آذَاہَا فَقَدْ آذَانِيْ، وَ مَنْ آذَانِيْ فَقَدْ آذَي اللهَ۔

پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن اس طرح اپنے گھر سے باہر تشریف لائے کہ جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں تھا۔ اور فرمایا:

جو ان کو پہچانتا ہے وہ پہنچانتا ہے۔ اور جنہیں ان کی معرفت حاصل نہیں ہے تو یہ فاطمہ بنت محمد ہیں۔ یہ میرا جزء ہیں یہ میرا قلب ہیں۔ یہ میری روح ہیں جو میرے دو پہلوؤں کے درمیان ہے۔ جس نے ان کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی۔(بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۵۴)

اس روایت کی روشنی میں جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جزء ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے یہ نہیں فرمایا: یہ میرے بدن کا جزء ہے۔ میرے جسم کا ٹکڑا ہیں بلکہ فرمایا: بَضْعَةٌ مِّنِّيْ میرے وجود کا جزء ہیں۔ نبوت و رسالت کا جزء ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کا قلب ہیں ان کی روح ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا قلب بقیہ دوسروں کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ قلب ہے جو تمام اول و آخر کے علوم کا مرکز ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام کے تمام علوم اس قلب میں موجود ہیں۔ تمام انبیاء و اولیاء کے تمام کمالات اس قلب میں موجود ہیں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ان تمام علوم اور کمالات کا آئینہ ہیں۔ تمام علوم و کمالات کی مکمل تصویر ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق کی بیان کردہ روایت کے مطابق گذشتہ زمانے بھی انہیں کی معرفت پر گردش کر رہے ہیں۔ یعنی اگر گذشتہ زمانے میں یہ معرفت نہ ہوتی اور اس معرفت کے اثرات نہ ہوتے تو ان زمانوں کا کوئی وجود ہی نہ ہوتا۔ یعنی یہ پوری کائنات اول سے آخر تک – حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی معرفت پر گردش کر رہی ہے۔

اصحاب کا سلوک

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ان عظمتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان احادیث کو ذہن میں رکھتے ہوئے جو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے ارشاد فرمائی ہیں – ایک سوال ابھرتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کا ان کے ساتھ کیا سلوک رہا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی وفات کے بعد لوگ ان کے ساتھ کس طرح پیش آئے؟ تاریخ کا بیان کچھ اس طرح ہے:

جب غاصبین حضرت امیر المومنین کے دروازے پر آئے اور امام کو طلب کرنے لگے۔ حضرت علی نے چاہا کہ بڑھکر دیکھیں دروازہ پر کون ہے۔ لیکن جناب زہراء سلام اللہ علیہا نے امام کو جانے سے روک دیا اور خود آگے بڑھیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب عمر، ابوبکر کی بیعت لینے آئے تھے۔ اس وقت عمر نے کہا:

وَ الَّذِيء نَفْسَ عُمَرَ بِیَدِہ لَتَخْرُجَنَّ اَوْ لَاَحَرُقَنَّہَا عَلٰي مَنء فِیْہَا۔ فَقِیْلَ: یَا اَبَا حَفْص! اِنَّ فِیْہَا فَاطِمَةَ۔ فَقَالَ: وَ اِنْ

قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری زندگی ہے۔ آپ لوگ ان کو باہر نکال دیں ورنہ میں یہ گہر گھروالوں کے سمیت جلا دوں گا۔ اس پر لوگوں نے کہا: اے ابو حفص (عمر کی کنیت) اس گھر میں تو جناب فاطمہ ہیں۔ کہا: ہوا کریں۔(الامامة و السیاسة، ج ۱، ص ۱۹)

اس پر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے فرمایا:

میں نے تم لوگوں سے زیادہ بے حیا اور بے ادب لوگ نہیں دیکھے۔تم لوگ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے جسد اطہر کو چھوڑ کر ہمارے حق کو غصب کرنے دوڑ پڑے۔

(الامامة و السیاسة)

یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے سایہ میں پلے بڑھے ہیں ان کی ساری حیثیت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی مرہون منت ہے۔ یہ آج جو کچھ ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی بنا پر ہیں۔ مگر اس کے باوجود ان لوگوں نے ان کی میت کو چھوڑ دیا اور دنیا کی طرف چلے گئے۔ اور اب اس کے بعد ان کی بیٹی خاتون جنت کے گھر میں آگ لگا رہے ہیں۔

یہاں پر سوال ابھر تا ہے۔ دو تین دنوں میں کیا ہو گیا کہ لوگ اس طرح بدل گئے وہ لوگ جو کل تک حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ اور جس وقت آنحضرت نے اپنے آخری وقت میں لوگوں کو مسجد میں بلایا اور پیراہن اوپر کرنے کی بات آئی ہے تو ساری مسجد سے ہر طرف سے گریہ و زاری کی آواز بلند تھی۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اس قدر بدل چکے ہیں آگ لیکر گھر جلا رہے ہیں اور ذرا بھی ادب و احترام نہیں کر رہے ہیں۔

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے مصائب

سعید بن جبیر نے جناب ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے:

ایک دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ تشریف فرما تھے۔ امام حسن تشریف لائے۔ آنحضرت نے ان کا استقبال کیا اور خوش ہو کر ان کو اپنے داہنے زانو پر بٹھایا۔ اس کے بعد امام حسین آئے۔ آپ نے ان کا بھی استقبال کیا اور خوش ہو کر ان کو اپنے بائیں زانو پر بٹھایا۔ اس کے بعد جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا تشریف لائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ پھر امیر المومنین تشریف لائے آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کے داہنی جانب بیٹھ گئے۔

ان میں سے جب کوئی آتا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ شدت سے گریہ فرماتے تھے۔ کسی نے سوال کیا۔ اے اللہ کے رسول آپ اتنی شدت سے کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے جواب میں ہر ایک کے فضائل و مصائب بیان فرمائے۔ جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا تک بات پہونچی تو ان کے فضائل بیان کرنے کے بعد فرمایا:

اِنِّيْ لَمَّا رَاَیْتُہَا ذَکَرْتُ مَا یَصْنَعُ بِہَا بَعْدِیْ۔

جب میری نظر ان پر پڑی مجھے وہ مصائب یاد آگئے جو میرے بعد ان پر ڈھائے جائینگے۔

(امالی شیخ صدوق قدس سرہ، مجلس ۲۴، ح ۲، ص ۹۹؛بحار الانوار، ج ۲۸، ص ۳۷)

اہل سنت نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

(فرائد السمطین، ج ۲، ص۲۵)

کیا ان لوگوں نے روایت نقل کرنے کے بعد اس کے معنی پر توجہ نہ دی؟! اگر جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے اور ان کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے تو ستانے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے!؟

جس وقت عمر اور ابو بکر حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے ملنے گئے تو انہوں نے ان دونوں سے فرمایا:

فَاِنِّيْ اُشْہِدُ اللهَ وَ مَلآَئِکَتَہ اَنَّکُمَا اسْخَطَتَمَانِيْ وَ مَا اَرْضَیْتَمَانِيْ۔

میں خدا اور ملائکہ کو گواہ قرار دے کر کہتی ہوں۔ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا ہے اور مجھے ہرگز خوش نہیں کیا ہے۔(الامامة و السیاسة، ج ۱، ص ۲۰)

کیا جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ناراضگی خدا کی ناراضگی نہیں ہے اور ان کی ناراضگی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی ناراضگی نہیں ہے۔ اور وہ شخص جو حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو ناراض کرے کیا وہ صراط مستقیم اور راہ حق سے منحرف نہیں ہے؟

کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے واقعات بیان نہ فرمائیں۔ اس وقت جو ہوا ہو گیا۔ اب اس وقت اس کو دہرانے سے کیا فائدہ؟ اگر اس وقت ہم کو یہ معلوم ہو جائے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کا خلیفہ کون تھا اور کون نہیں تھا اس وقت اس کا فائدہ کیا ہے؟

در حقیقت اس وقت بھی یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کا جانشین کون ہے؟ تاکہ حق واضح ہو اور حقیقت کا پتہ چلے۔ اور ان لوگوں کی بھی شناخت بہت ضروری ہے جنہوں نے حق کا راستہ روکا۔ اور لوگوں کوباطل کے راستے پر لگایا۔ تاکہ حق کی پیروی کریں اور باطل سے پرہیز کریں۔ زیارت آل یٰسین کا یہ جملہ کس قدر بلیغ ہے:

اَلْحَقُّ مَا رَضِیْتُمُوْہُ وَ الْبَاطِلُ مَا اَسْخَطْتُمُوْہُ

(اے امام وقت) حق وہ ہے جس سے آپ راضی و خوشنود ہیں اور باطل وہ ہے جس سے آپ ناراض ہیں۔

در اصل امام وقت کی خوشنودی اور ناراضگی حق و باطل کا معیار ہے۔

آنحضرت نے یہ بھی فرمایا:

کَاَنِّيْ بِہَا وَ قَدْ دَخَلَ الذُلَّ بَیْتَہَا

گویا میں اس وقت موجود ہوں اور دیکھ رہا ہوں کس طرح پست اور ذلیل افراد اس گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔

اس سے زیادہ اور کیا توہین ہو سکتی ہے کہ بے ادب لوگ دروازہ پر کھڑے ہوں اور گھر کو آگ لگانا چاہتے ہوں؟ کیا اس طرح کا جواب دینا اور بیت نبوت و ہدایت میں آگ لگانا گھر والوں کی توہین نہیں ہے؟ کیا امیر المومنین کی اس سے زیادہ کی توہین وجسارت کا تصور ہے کہ ان کی نگاہوں کے سامنے ان کی شریک حیات پر دروازہ گرایا جائے اور اس قدر ستایا جائے کہ پسلی شکستہ ہو جائے۔ ذرا اس واقعہ پر توجہ دیں:

اہل سنت کے عالم معتزلی مکتب فکر کے بزرگ ابن ابی الحدید معتزلی نے لکھا ہے۔ میں اپنے استاد جناب ابو جعفر نقیت کے سامنے فتح مکہ اور ھبّار ابن اسود کا قصہ دہرایا۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی تمام رحمت واسعہ کے باوجود فتح مکہ کے بعد کچھ لوگوں کا خون مباح کر دیا تھا ان میں ایک ھبّار بن اسود بھی تھا۔ اس کا جرم یہ تھا – ہجرت کے وقت جب خاندان رسول کی خواتین مکہ سے مدینہ جا رہی تھیں ان میں ایک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی پروردہ جناب زینب بھی تھیں۔ ھبّار نے اس محمل کی طرف ایک نیزہ پھینکا تھا جس کے نتیجے میں زینب کا بچہ ساقط ہو گیا تھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی نظر مبارک میں یہ جرم اس قدر بڑا تھا کہ آپ نے ھبّار بن اسود کا خون حلال کر دیاتھا۔ ابن ابی الحدید کا بیان ہے: میرے استاد ابوجعفر نقیب نے کہا۔

اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ زندہ ہوتے تو جن لوگوں نے جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو ڈرایا دھمکایا تھا ستایا تھا۔ جس کے نتیجہ میں جناب محسن کی ساقط ہونے سے شہادت ہو گئی تھی۔ کیا ان لوگوں کا خون مباح نہ جانتے؟

(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ۳، ص ۳۵۱)

اب اہل سنت کے معتبر عالم جناب ذہبی کا یہ جملہ سماعت فرمایئے جو انہوں نے اپنی کتاب "میزان الاعتدال" میں لکھا ہے:

اِنَّ عُمَرَ رَفَسَ فَاطِمَةَ حَتّٰي اسْقَطَتْ بِمُحْسِنْ

عمر نے جناب فاطمہ کو اس زور سے دھکہ دیا کہ محسن سقط ہو گئے (اور ان کی شہادت ہو گئی)۔

(میزا ن الاعتدال، ج ۱، ص ۱۳۹ شمارہ ۵۵۲)

جناب ابو بصیر کا بیان ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق سے دریافت کیا: جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کیوں جوانی میں دنیا سے رخصت ہو گئیں؟ فرمایا:

وَ کَانَ سَبَبُ وَفَاتِہَا اَنَّ قُنْفُذَ مَوْلٰي عُمَرَ لَکَزَہَا بِنَعْلِ السَّیْفِ بِاَمْرِہ فَاسْقَطَتْ مُحْسِنًا وَ مَرَضَتْ مِنْ ذٰلِکَ مَرْضًا شَدِیْدًا۔

جوانی میں ان کی شہادت کا سبب یہ ہے کہ عمر کے غلام قنفذنے عمر کے کہنے سے تلوار کی نیام سے جناب زہراء پر ایسا وار کیاکہ محسن سقط ہو گئے جس کی بنا پر جناب فاطمہ زہراء بہت زیادہ شدید بیمار ہو گئیں۔

(دلائل الامامة، صفحہ ۱۳۴)

 


source : http://www.ahlulbaytportal.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عاشورا کا انقلاب اور امام حسین علیہ السلام کے ...
عباس بن علی
13 جمادي الأول استشهاد الصديقة فاطمة الزهراء (ع)
قرآن مجید میں امانت داری کی اہمیت
نور عظمت حق
امام خمینی(رہ) کی تحریک کا مقصد اسلامی اقدار کا ...
امام معصوم طلاق کا عمل اتني مرتبہ کيونکر انجام دے ...
شب قدر کی اہمیت و منزلت
دعا ،اسلامی تعلیمات کا بیش بہا خزانہ
''شوہر داري'' يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال

 
user comment