عدّت
عدت طلاق : بعد از نکاح ۔مقاربت سے پہلے اگر طلاق دی جائے توعدت نہیں ہوگی۔ ارشاد رب العزت ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِذَا نَکَحْتُمْ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوْہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَہَا فَمَتِّعُوْہُنَّ وَسَرِّحُوْہُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا ۔ "اے مومنو! جب تم مومنات سے نکاح کرو اور پھر ہاتھ لگانے سے پہلے انہیں طلاق دے دو تو تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انہیں عدت میں بٹھاؤ لہذا انہیں کچھ مال دو اورشائستہ انداز میں انہیں رخصت کرو ۔" عدت در حقیقت نسل انسانی کی محافظت ہے ۔ کہ اگرحمل ہے تو تین ماہ میں واضح ہو جائے گا نیز عورت مرد جنہوں نے کئی سال باہمی انس و محبت کے ساتھ گذارے ہیں انہیں پھر موقع مہیا کرنا ہے کہ تین ماہ میں جب چاہیں مل بیٹھیں اور پھر اکٹھا رہنے کا فیصلہ کریں کیونکہ طلاق جائز ہونے کے باجود ایسا جائز امرہے کہ جس سے عرش الٰہی کانپ جاتا ہے ۔ ارشاد رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے تزوجو ا ولا تطلقوا فان الطلاق یھتزمنہ العرش ( وسائل الشیعہ باب طلاق ص ۲۶۸) نکاح کرو ۔ طلاق نہ دینا کہ طلاق دینے سے عرش الٰہی کانپ اٹھتا ہے۔ پھر طلاق ساری زندگی موجب پریشانی رہے گی ۔ کیوں ؟ ۱: میاں بیوی کا اس قدرباہمی وقت گزارنا یا دسے محونہیں ہو گا گزرے ہوئے لمحات ذہن میں گردش کرتے رہیں گے۔ ۲: عورت کے لئے بعض اوقات دوسری شادی کرنا مشکل بعض اوقات آئیڈیل نہیں ملتا یہی حال مرد کا ہوگا۔ پھر خاندانی معاملات میں طلاق زہر والاکا م کرتی ہے صرف یہ دونوں نہیں پورا خاندان یا دونوں خاندان پریشانی میں مبتلا ر ہیں گے ۳: سب سے بڑی مشکل یہ کہ بچے کہاں جائیں گے باپ کے پاس یا ماں کے پاس اگرچہ اللہ نے معین کر دیا ہے پہلے ماں کے پاس پھر ۳ سال کا لڑکا ۷ سال کی لڑکی باپ کی حفاظت میں رہیں گے ظاہرہے جس کے پاس ہوں گے ماں یا باپ میں سے دوسرے کی کمی ستاتی رہے گی لہٰذا اپنے لیے نہیں تو کم از کم اولاد کی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر طرف سے طعن و تشیع کے تیر چلیں گے یہ بے چارے دبے سمے ہی رہیں گے۔ طلاق سے اجتناب کرنا چاہیے اللہ وصل چاہتاہے فصل نہیں۔
طلاق کی شرائط
عورت ماہانہ عادت میں نہ ہو انہی دنوں شوہر سے اختلاط نہ ہوہوا دو گواہ عادل۔ جن کا کوئی عیب نظر میں نہ ہوان کی موجودگی لازمی ہے باقاعدہ صیغہ جاری کیا جائے ۔ پھر بعد طلاق عدت کے ایام کا حساب مرد نے رکھنا ہے تاکہ طلاق کا احساس رہے ہو سکتا ہے پلٹ آئے۔ رجوع کرے یا عورت اسی گھر میں رہنا چاہے۔ عورت کے ا خراجات ادا کرنے ہوں گے اپنی حیثیت کے مطابق عام عدت ۳ ماہ۔ حاملہ کی عدت وضع حمل ارشاد رب العزت ہے: یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللہ رَبَّکُمْ لَاتُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ م بُیُوْتِہِنَّ وَلَایَخْرُجْنَ إِلاَّ أَنْ یَّأْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللہ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ لَاتَدْرِیْ لَعَلَّ اللہ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ أَمْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّأَشْہِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَأَقِیْمُوْا الشَّہَادَةَ لِلّٰہِ ذٰلِکُمْ یُوعَظُ بِہ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۔ "اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دے دیا کرو اور عدت کا شمار رکھو اور اپنے رب سے ڈرو تم انہیں (عدت کے دنوں)ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ عورتیں خود نکل جائیں مگر یہ کہ وہ کسی نمایاں برائی کا ارتکاب کریں اوریہ اللہ کی حدود ہیں اور جس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا تواپنے نفس پر ظلم کیا تجھے کیامعلوم اس کے بعد اللہ کوئی صورت پیدا کرے پھر جب عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کو آئیں تو انہیں اچھی طرح سے اپنے عقد میں رکھو یا انہیں اچھے طریقے سے علیحدہ کردو اور اپنوں میں سے دو صاحبان عدل کو گواہ بناوٴ اور اللہ کی خاطر درست گواہی دو یہ وہ باتیں ہیں جن کی تمہیں نصیحت کیجاتی ہے ہر اس شخص کیلئے جو اللہ اورروز آخرت پر ایمان رکھتاہو۔" ارشاد رب العزت ہے: وَاللاَّ ئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِسَائِکُمْ إِنْ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلاَ ثَةُ أَشْہُرٍ وَّاللاَّ ئِیْ لَمْ یَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ وَمَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّہ مِنْ أَمْرِہ یُسْرًا ۔ "تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے ناامید ہو گئی ہوں ان کے بارے میں اگر تمہیں شک ہو جائے (کہ خون کا بند ہونا سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عارضہ کی وجہ سے ہے) تو ان کی عدت تین ماہ ہوگی اور یہی حکم ان عورتوں کے لیے ہے جنہیں حیض نہ آیا ہو اورحاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے اور جو اللہ سے تو ڈرتاہے وہ اس کے معاملے میں آسانی پید ا کردیتا ہے۔" ارشاد رب العزت ہے: ذٰلِکَ أَمْرُ اللہ أَنزَلَہ إِلَیْکُمْ وَمَنْ یَّتَّقِ اللہ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّئَاتِہ وَیُعْظِمْ لَہ أَجْرًا أَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ وَلَاتُضَارُّوْہُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْہِنَّ وَإِنْ کُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَکُمْ فَآتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ وَأْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہ أُخْرٰی لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِہ وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللہ لاَیُکَلِّفُ اللہ نَفْسًا إِلاَّ مَا آتَاہَا سَیَجْعَلُ اللہ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا ۔ "یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے اور جوا للہ سے ڈرے گا اللہ اسکی برائیاں دور کردے گا اور ا س کے لیے اجر کو بڑھا دے گا ان عورتوں کو( زمانہ عدت میں)بقدر امکان وہاں سکونت دو جہاں تم خو د رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ پہنچاؤ اگر وہ حاملہ ہوں تو انکو زمانہ وضع حمل تک خرچہ دو پھر اگر وہ تمہارے کہنے پر دودھ پلائیں تو انہیں (اس کی) اجر ت دو اور احسن طریقہ سے باہم مشورہ کر لیا کرو (اور اجرت طے کرنے میں) اگر تمہیں آپس میں دشواری پیش آئے تو ماں کی جگہ اور کوئی عورت دودھ پلائے گی وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچہ کرے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہیے کہ جتنا اللہ نے اسے د ے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرے اللہ نے جس کوجتنا دیا ہے اس سے زیادہ مکلف نہیں بناتا جنت تنگدستی کے بعد عنقریب اللہ آسانی پیدا کرے گا ۔ "( سورہ طلاق: ۵،۷) ارشاد رب العزت ہے: وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِہِنَّ ثَلَا ثَةَ قُرُوْءٍ وَلَایَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللہ فِیْ أَرْحَامِہِنَّ إِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللہ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُوْلَتُہُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذٰلِکَ إِنْ أَرَادُوْا إِصْلَاحًا وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَةٌ وَاللہ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔ "اور طلاق یافتہ عورتیں (تین مرتبہ ماہواری سے پاک ہونے تک )انتظار کریں اور اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر یقین رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ رکھا ہے اسے چھپائیں ان کے شوہر اصلاح و سازگاری کے خواہاں ہیں تو عدت کے دنوں میں انہیں اپنی زوجیت میں واپس لینے کے پورے حق دار ہیں اور عورتوں کو بھی دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں البتہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے اورا للہ بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے "۔( سورہ بقرہ: ۲۲۸) گویا بعد از طلاق عدت کے ایام میں مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے لیکن رجوع سے مقصد اصلاح ہو باہمی اکٹھا رہنا ہو یہ خیال رہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔
عدت وفات
جیسے طلاق کے بعد عدت کی ضرورت ہے اسی طرح اگر شوہر فوت ہو جائے تو بھی اسلام نے عدت کا حکم دیا ہے ارشاد رب العزت ہے: وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَّعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِی أَنفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَاللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۔ "اور تم میں جو وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں پھر جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو شریعت کے مطابق اپنے بارے میں جو فیصلہ کریں اسکا تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے "۔ ( سورہ بقرہ : ۱۳۴) ارشادِ رب العزت ہے: وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ أَزْوَاجًا وَّصِیَّةً لِّأَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا إِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْ أَنفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوفٍ وَاللہ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔ اور تم میں سے جو وفات پاجائیں انہیں چاہیے کہ بیویوں کے بارے میں وصیت کر جائیں ایک سال تک انہیں (نان و نفقہ سے) بہر ہ مند رکھا جائے اور گھر سے نہ نکا لی جائیں اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں تو دستور کے دائرہ میں رہ کر جو بھی اپنے لیے فیصلہ کرتی ہیں تمہارے لیے کوئی مضائقہ نہیں اور اللہ بڑا غالب آنے والا ،حکمت والا ہے ۔( سورہ بقرہ : ۲۴۰) عدت کے اختتام کے بعد اگرعورت شادی کرنا چاہیے تودستور کے مطابق کر سکتی ہے کوئی مرد اس سے شادی کا خواہاں ہے تو شادی کے لیے خطبہ کر سکتاہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: وَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُمْ بِہ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَکْنَنْتُمْ فِیْ أَنفُسِکُمْ عَلِمَ اللہ أَنَّکُمْ سَتَذْکُرُوْنَہُنَّ وَلَکِنْ لَّا تُوَاعِدُوْہُنَّ سِرًّا إِلاَّ أَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَلَاتَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللہ یَعْلَمُ مَا فِیْ أَنفُسِکُمْ فَاحْذَرُوْہُ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللہ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ ۔ "اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم ان عورتوں کے ساتھ نکاح کا اظہار اشارے کنائے میں کرو یا اسے تم اپنے دل میں پوشیدہ رکھو اللہ کو تو علم ہے کہ تو ان سے ذکر کرو گے مگر ان سے خفیہ قول و قرار نہ کرو ہاں اگر کوئی بات کرنا ہے تو دستور کے مطابق کرو البتہ عقد کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک عدت پور ی نہ ہو جائے اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ کو سب معلوم ہے لہذا اس ے ڈرو اور جان رکھو اللہ بڑا بخشنے والا ، بردبار ہے "۔( سورہ بقرہ :۲۳۵) عدت کے دنوں میں نکاح کرنے سے( خصوصا مقاربت بھی کرلی جائے) عورت ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے اصطلاح شرع میں اسے کہتے ہیں حرام موٴبد۔ لہٰذا انتظار ضروری ہے عدت ختم ہوجائے تو نکاح کر لیا جائے ۔ جس طرح عدت کے دوران نکاح حرمت ابدی کا باعث ہے اسی طرح شوہردار عورت کے ساتھ نکاح کرنا بھی حرمت ابدی کا موجب ہوتا ہے پس یہ جانتے ہوئے کہ یہ شوہردار ہے کوئی شخض اگر اس سے نکاح کرے تو وہ عورت ہمیشہ کے لیے اس شخص پر حرام ہو جائے گی ۔