اردو
Thursday 26th of December 2024
0
نفر 0

اگر چہ اس حدیث کا ھر جملہ مفصل تشریح کا طالب ھے، لیکن ھم یھاں بعض جملوں سے متعلق چند نکات ذکر کرتے ھیں

اگر چہ اس حدیث کا ھر جملہ مفصل تشریح کا طالب ھے، لیکن ھم یھاں بعض جملوں سے متعلق چند نکات ذکر کرتے ھیں:

الف۔پھلے جملے میں امام(ع) نے ائمہ ھدیٰ کو خطبے کا موضوع قرار دیا،کیونکہ امت کے لئے وجود امام کی ضرورت واضح ھے <یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اٴُنَاسٍ بِإِمَامِھِمْ >[147]اور امت کے امام کا امامِ ھدایت هونا ضروری ھے جیسا کہ خداوند متعال نے فرمایا:<وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اٴَئِمَّةً یَّھْدُوْنَ بِاٴَمْرِنَا>[148]،ِٕنَّمَا اٴَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ>[149] اور امامِ ھدایت کی معرفت، معرفتِ ھدایت پر متوقف ھے۔معرفتِ ھدایت کے لئے اس موضوع سے متعلق قرآن مجید میں موجود ان آیات میں تدبر وتفکر ضروری ھے جن کی تعداد تقریبا دو سونوے ھے۔ اس مقدمے میں ان کی تشریح کرنا مشکل ھے، اس لئے کہ ھدایت، کمالِ خلقت ھے <قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْ اٴَعْطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ ھَدیٰ>[150]،<سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ اْلاٴَعْلیٰ  ة اَلَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی ة وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدیٰ>[151] اور مخلوق میں ھر ایک کی ھدایت اس کی خلقت کے تناسب سے ھے۔ اب چونکہ خلقتِ انسان کی اساس احسن تقویم ھے،لہٰذا اس کی ھدایت بھی  عالم امکان کا سب سے  بڑا کمال اور اشرف المخلوقات کو عنایت کی جانے والی بزرگترین نعمت ھے۔<وَیُتِمَّ نِعْمَتَہ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا>[152]امام(ع)نے ((ائمہ ھدی)) فرما کر مقام امامت کی عظمت کو بیان فرمایا، بلکہ اھل نظر کے لئے تو امام کی خصوصیات کو واضح کردیا کہ ایسے ملزوم کے لئے کن لوازم کی ضرورت ھے۔ پھر اس اجمال کے بعد تفصیل بیان کی، دین میں امام کے کردار پر روشنی ڈالی کہ خداوند متعال نے اپنے قانون کی تفسیر کا حق  ایسی مخلوق کو عطا نھیں کیا جن کی آراء میں خطا اور اختلاف پایا جاتا ھے، اس لئے کہ ان دو آفتوںسے تشریع دین کی غرض نقض هو جائے گی اور امت، نورِ ھدایت کی بجائے گمراھی کی تاریک وادیوں میں بھٹک جائے گی، بلکہ پروردگا رعالم نے اصول وفروع دین میں، انسان کے لئے پیش آنے والے مبھم نقاط کو ائمہ ھدیٰ کے ذریعے دور کیا ھے ((اٴن اللّٰہ عزوجل اٴوضح باٴئمة الھدی  من اٴھل بیت نبینا عن دینہ))

ب۔چونکہ فطری تقاضے کے مطابق انسان  اپنے خالق اورپروردگا ر عالم کی تلاش وجستجو میں ھے اور یہ فطرت راہ خداتک،جوکہ دین خدا ھے، پھنچے اور اس پر ثابت قدم رھے بغیر اپنے مقصد میں کامیاب نھیں هوسکتی <قُلْ ھٰذِہ سَبِیْلِی اٴَدْعُوْا إِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَةٍ اٴَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ>[153]اور چونکہ اشتباھات اور  خواھشاتِ نفسانی  جیسے راہ خدا سے منحرف کرنے والے اسباب  او ر شیاطینِ جن وانس جیسے لٹیرے، ھر وقت موجود ھیں <وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ)[154]، <اِشْتَرَوْا بِآیَاتِ اللّٰہ ثَمَنًا قَلِیْلاً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِہ إِنَّھُمْ سَآءَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ>[155] لہٰذا تکوین ِفطرت کی غرض  یعنی خدا تک رسائی کے حصول اور دین کی سیدھی راہ، جو خدا تک رسائی کی راہ  ھے، کی تشریع کے لئے، ایک ایسے ھادی ورھبر کی ضرورت ھے جس کے نور سے یہ ھدف ومقصد پایہٴ تکمیل تک پھنچ سکے ((وابلج عن سبیل منھاجہ))۔

ج۔انسان میں خلقتِ عقل کی غرض، علم ومعرفت کی حقیقت تک پھنچنا ھے اور ذاتِ انسان کی، خالقِ عقل وادراک سے یہ استدعا ھے کہ پروردگارا!  ھر چیز کی حقیقت کو جیسی ھے ویسی ھی مجھ پر نمایاں کر دے۔ وہ یہ جاننا چاہتا ھے کہ کھاں سے آیا ھے ؟ کھاں ھے؟ کس طرف جارھا ھے؟ اس کے وجود اور کائنات کا آغاز وانجام کیا ھے؟اور ادراکِ انسان کی یہ پیاس، علمِ الٰھی جیسے آبِ حیات کو حاصل کئے بغیر نھیں بجھ سکتی، ور نہ حکمت کا آخری مرحلہ بھی جو حیرةالکمل(کامل ترین افراد کے لئے مقام تحیر ھے) کا مقام ھے،اس کے سوا کچھ نھیںھے کہ انسان یہ جان لے کہ میںنھیں جانتا۔یھی وجہ ھے کہ ایک ایسے الٰھی انسان کے وجود کی ضرورت ھے جو علومِ الٰھی کے سرچشموں کا وارث هو، تاکہ تشنگانِ حقیقت اس کے ھاتھوں سیراب هوں اور خلقتِ عقل وادراک کی غرض حاصل هو، جیسا کہ امام نے ایک معتبر نص میں فرمایا ھے :((من زعم اٴن اللّٰہ یحتج بعبد فی بلادہ ثم یستر عنہ جمیع ما یحتاج إلیہ فقد افتری علی اللّٰہ))[156]

یقینا یہ سمجھنا کہ خداوند متعال کسی کو اپنے بندے پرحجت قرار دے اوروہ تمام چیزیں جن کی اسے ضرورت ھے، اپنی حجت سے چھپالے اور ان کا علم اسے عطا نہ کرے تو یہ ایک ایسی تھمت ھے جو لامتناھی علم،قدرت اور حکمت کی  عدم شناخت کی بنا پر لگائی گئی ھے ۔ اسی لئے فرمایا:((و فتح بھم عن باطن ینا بیع علمہ))۔

د۔((والبسہ تاج الوقار))علم اور قدرت ھے جو امام کے سر پر وقار کا تاج ھے،((فدلالة الامام فیما ھی؟ قال:فی العلم واستجابة الدعوة))[157] اس لئے کہ انسان کے اضطراب اور پستی کی وجہ اس کا عجز اور اس کی جھالت ھے اور چوںکہ امام، کتاب خدا کا معلم ھے، جب کہ حدیث ثقلین کی صریح نص کے مطابق، کتاب خدا اور امام ایک دوسرے سے کبھی جدا نھیں هو سکتے اور اس آیت<وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ>[158] کے مطابق، قرآن ھر چیز کو بیان کرنے والا ھے،لہٰذا ممکن ھی نھیں ھے کہ وہ قرآن میں موجود تمام علوم پر احاطہ نہ رکھتا هو اور یہ بات اس معتبر حدیث سے ثابت ھے ((عن ابن بکیر عن ابی عبد اللّٰہ(ع) قال:کنت عندہ فذکرواسلیمان وما اٴعطی من العلم وما اٴوتی من الملک، فقال(ع) لی:وما اٴعطی سلیمان ابن داود إنما کان عندہ حرف واحد من الإسم الاٴعظم، وصا حبکم الذی قال اللّٰہ قل کفی باللّٰہ  شھیدا بینی وبینکم ومن عندہ علم الکتاب، وکان واللّٰہ عند علیٍّ علم الکتاب، فقلت:صدقت واللّٰہ، جعلت فداک))امر اللہ سے مرتبط هونے کی بنا پر امام [159]مستجاب الدعوہ ھے اوراسی علم وقدرت کی وجہ سے تاجِ وقا ر، امام کے سر مبارک کی زینت ھے۔

ہ۔((وغشاہ من نور الجبار)) لفظ نور،اسم مقدس جبار کی طرف اضافہ هواھے۔اسماء الٰھی کی جانب اضافہ هونے والا ھر اسم اضافے کی وجہ سے اسی اسم کی خصوصیات کسب کرلیتاھے اور خداوند عالم جبار هونے کے ناطے ھر ٹوٹ پھوٹ کا مداوا کرنے والا ھے ((یا جابر العظم الکسیر))[160]، امام کے وجود کو نورِ جبار کے نور سے منور کیا گیا ھے تاکہ پیکرِ اسلام ومسلمین میں پڑنے والی دراڑوں کا اس نور کے ذریعے مداوا  و  ازالہ کرسکے۔

    و۔((ائمة من اللّٰہ یھدون بالحق وبہ یعدلون)) امام وہ ھے جو خدا کے اختیار سے مختار، اس کے برگزیدہ کرنے سے مصطفی اور اس کے انتخاب سے امامت ورھبری کے لئے مجتبی ھے۔ اسی لئے ضروری ھے کہ ایک امام کی رحلت کے بعد پروردگار عالم دوسرا امام نصب کرے جو واضح علامت، راہِ دین کو روشن کرنے والا ھادی، سرپرستی کرنے والا رھبر اور صاحب علم حجت هو تاکہ خلقتِ انسان اور بعثتِ انبیاء کی غرض جو دو کلموںمیں خلاصہ هوتی ھے، حاصل هوسکے اور وہ دو کلمے،حق کی جانب ھدایت اور حق کے ساتھ عدالت کا برقرار کرنا ھے جو نظری اور عملی حکمت کا لب لباب اور انسان کے ارادے وعقل کا نقطہ کمال ھے اور ان دو کا تحقق سوائے ایسی عقل، جو ھر چیز کو اس کی حقیقت کے ساتھ جان لے، اور ایسے ارادے، جو ھر کام کو اس کی اصل وحقیقت کے مطابق انجام دے، کے بغیر نا ممکن ھے جو علمی اور عملی عصمت کا منصب ھے،  لہٰذا فرمایا((اٴئمة من اللّٰہ یھدون بالحق وبہ یعدلون))

ز۔((اصطفاہ اللّٰہ بذلک واصطنعہ علی عینہ فی الذرحین ذراٴہ))امام وہ ھے جس کے گوھرِ وجود کو خود پروردگار عالم نے عالم ذرّ میں عرش کے دائیں بنایا، اپنی نگرانی میں اس کی تربیت فرمائی اور علم غیب کے ذریعے جو اس ذات مقدس کے علاوہ کسی اور کے پاس نھیں ِٕلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ>[161]اسے حکمت عطا کی ھے۔خلقت میں نسب کے اعتبار سے ذریت نوح کا بہترین، آل ابراھیم کا  برگزیدہ، سلالہٴِ اسماعیل اور عترت محمد   سے منتخب شدہ ھے۔

اس کا جسم تمام عیوب سے منزہ، جب کہ روح ھر قسم کی لغزش سے معصوم  اور ھر گناہ سے محفوظ ھے۔

ابلیس، جس نے کھا تھا کہ <فَبِعِزَّتِکَ لَاٴُغْوِیَنَّھُمْ اٴَجْمَعِیْنَ ة إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ>[162] امام کی مقدس ذات سے اس قدرت کی وجہ سے دور ھے کہِٕنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ>[163]

((وصار اٴمر اللّٰہ إلیہ من بعد ))،وہ امر اللہ کو جو ایک امام کے بعد دوسرے کو نصیب هوتا ھے، چھٹے امام   (ع)نے حدیث صحیحہ میں یوں بیان فرمایاھے :((إن اللّٰہ واحد متوحد بالواحدانیة، متفرد بامرہ فخلق خلقا فقدرہ لذلک الامر، فنحن ھم یابن ابی یعفور، فنحن حجج اللّٰہ فی عبادہ وخزانہ علی علمہ والقائمون بذلک ))[164]

ح۔((واٴیدہ بروحہ)) جس روح کے ساتھ خدا نے امام کی تائید فرمائی ھے یہ وہ روح ھے جسے ابو بصیر نے حدیث صحیحہ میں بیان کیا ھے :”میں نے ابی عبد اللہ(ع) کو یہ فرماتے هوئے سنا: <وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قَلِ الرُّوْحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی>[165]جو جبرئیل ومکائیل سے بھی اعظم مخلوق ھے۔ گذشتگان میں سے محمد(ص) کے علاوہ کسی اور کو عطانھیں کی گئی اور وہ روح اب ائمہ کے پاس ھے  جو استقامت وثابت قدمی میں ان کی مدد کرتی ھے…۔“[166]

((وآتاہ علمہ ))اور اسے اپنا علم عطا فرمایا ھے۔امام محمد باقر(ع) سے مروی صحیح نص کے مطابق خدا کے دو علم ھیں، ایک علم وہ ھے جسے اس کی ذات کے علاوہ کوئی دوسرا نھیں جانتا اور دوسرا علم وہ ھے جسے اس ذات اقدس نے ملائکہ وپیغمبران علیھم السلام کو تعلیم فرمایا ھے اور جس علم کی ملائکہ وانبیاء علیھم السلام کو تعلیم دی ھے، امام اس سے آگاہ ھے۔[167]

((واستودعہ سرہ))اور اپنا راز اس کے سپرد کیا ھے۔ صحیح حدیث کے مطابق امام ابوالحسن (ع)نے فرمایا:”خدا نے اپنا راز جبرئیل(ع) کے سپرد کیا، جبرئیل نے محمد(ص) کے سپرد کیا اور محمد(ص)نے اس کے سپرد کیا جس کے بارے میں خود خدا نے چاھا۔“[168]

ط۔((رضی اللّٰہ بہ إماما لھم))اس میں کسی قسم کے شک وتردید کی گنجائش نھیں کہ امت کو امام کی ضرورت ھے اور امت کے امام کا خدا کا مورد پسند هونا ضروری ھے۔ وہ خدا جو علم وجھل میں سے علم کو پسند فرماتا ھے<قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ>[169]،سلامتی وآفت میں سے سلامتی کو پسند فرماتا ھے<یَھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ سُبُلَ السَّلَامِ >[170]، حکمت وسفاہت میں سے حکمت کو پسند فرماتا ھے<یُوٴْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّوٴْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اٴُوْتِیَ خَیْراً کَثِیْرًا>[171]، عدل وفسق میںسے عدل کو پسند فرماتا ھےِٕنَّ اللّٰہَ یَاٴْمُرُ بِالْعَدْلِ وَاْلإِحْسَانِ>[172]، حق وباطل میں سے حق کو پسند فرماتا ھے <وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقاً>[173]، اورصواب وخطا میں سے صواب کو پسند فرماتا ھے<لَاَ یَتَکَلَّمُوْنَ إِلاَّ مَنْ اٴَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا>[174]، امت کی اطاعت کے لئے بھی یقینا اس کو پسند فرمائے گا جس کی امامت علم، عدل، سلامتی، حکمت، صواب، حق او رھدایت کی امامت هو۔ ساتھ اس کے کہ بہترین کا انتخاب کرنا خدا کے نزدیک پسندیدہ ھے <اَلَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبُعُوْنَ اٴَحْسَنَہ>[175]، بہترین کو ھی حاصل کرنے کاحکم فرمایاھے<وَاٴْمُرْ قَوْمَکَ یَاٴْخُذُوْا بِاٴَحْسَنِھَا>[176]اور بہترین قول کا حکم دیا ھے <قُلْ لِّعُبَادِی یَقُوْلُوا الَّتِیْ ھِیَ اٴَحْسَنُ>[177] اور مجادلے کے وقت بہترین طریقے سے گفتگو کرنے کا حکم فرمایا ھے <وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اٴَحْسَنُ>[178]اور رد کرتے وقت، بہترین طریقے سے رد کرنے کی تلقین فرمائی ھے <اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اٴَحْسَنُ>[179] اور جو خود ھی احسن جزا دینے والا ھے <وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اٴَجْرَھُمْ بِاٴَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُوْنَ>[180]اور جو خود بہترین حدیث نازل کرنے والا ھے<اَللّٰہُ نَزَّلَ اٴَحْسَنَ الَحَدِیْثِ>[181]، کیا ممکن ھے امت کی امامت کے لئے اکمل، افضل، اعلم،اعدل اوراس  احسن حدیث میں موجود تمام صفات کے مالک کے علاوہ کسی او ر کو پسند فرمائے؟!

جب احسن کی اتباع کے حک کا لازمہ یہ ھے کہ احسن کی پیروی هو تو کیسے ممکن ھے کہ پروردگار عالم کسی غیر احسن کی امامت وپیروی سے راضی هوجائے ؟!

<وَمَنْ اٴَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ>[182]اور اسی لئے فرمایا:((وانتدبہ بعظیم اٴمرہ واٴنباٴہ فضل بیان علمہ ونصبہ علما لخلقہ وجعلہ حجة علی اٴھل عالمہ وضیاء لاٴھل دینہ والقیم علی عبادہ رضی اللّٰہ بہ إماما لھم ))۔

                            

 


0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام محمد باقر علیہ السلام کا عہد
گناہوں سے آلودہ معاشر ہ
فطرت کی راہ
اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
حضرت رقیہ بنت الحسین(ع) کے یوم شہادت کی مناسبت سے
قرآن مجید ایک عالمی کتاب ہے
خلفا کے کارستانیاں
روایات اسلامی میں ”صلہ رحم“ کی اہمیت
دس سالہ بچہ کے اسلام پر گفتگو
قرآن کی نظر میں وحدت کا مفہوم

 
user comment