اردو
Tuesday 5th of November 2024
0
نفر 0

دسویں امام : حضرت علی نقی علیہ السلام

دسویں امام :   حضرت علی نقی علیہ السلام

آپ "نقی" او ر"ھادی" کے لقب سے مشهور تھے۔

آپ کی ولادت باسعادت ۱۵/ ذی الحجہ   ۲۱۲ھ کو مدینہ منورہ میں هوئی۔

آپ کی کچھ زندگی معتصم کے زمانہ میں گذری اور یھی وہ زمانہ تھا جس میں "سرمن رائے" تشکیل پائی کیونکہ اس زمانہ میں ترکوں او رممالک نے حکومت اسلامی کے لئے بہت سی مشکلیں ایجاد کردی تھیں لہٰذا معتصم ان مشکلوںکا مقابلہ کرنے کی تیاریوں میں مشغول تھا۔

اس کے بعد واثق کا زمانہ آیا یہ وہ زمانہ تھا جس میں امام علیہ السلام او رخلیفہ کے درمیان اچھے تعلقات رھے ھیں۔

اس کے بعد متوکل کا زمانہ آیا لیکن یہ وہ زمانہ تھا جس میں اھل بیت  (ع) سے علی الاعلان دشمنی او رمقابلہ کیا جانے لگا اور لوگوں کو ان سے منحرف کیاجانے لگا۔

اور جب مدینہ میں متوکل کے والی کو امام علیہ السلام کی شان وشوکت کو دیکھ کر اپنی حکومت کے ڈگمگانے کا خوف لاحق هوا تو اس نے متوکل کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ امام علیہ السلام تیری حکومت کے خلاف انقلاب لانا چاہتے ھیں۔

 جب ان تقاریر کا سلسلہ بڑھنے لگا تو متوکل نے امام علیہ السلام کو خط لکھ کر سرمن رائے بلایا تاکہ آپ او رآپ کے اھل بیت وھاں پر رھیں تاکہ لوگوں کا رجحان آپ کی طرف سے ہٹ جائے اور والی مدینہ کو لکھا کہ امام علیہ السلام کے ساتھ کچھ محافظین بھیجے تاکہ امام علیہ السلام کے احترام واکرام کا مزید مظاھرہ هوسکے۔

چنانچہ امام علیہ السلام نے ان حالات کو دیکھ کر سفر کا ارادہ کرلیا اور سرمن رائے جانے کے لئے رختِ سفر باندھ لیا اور جب امام علیہ السلام متوکل کے تیار کردہ مکان میں پهونچے، چند روز رہنے کے بعد آپ نے اس کا مکان چھوڑ دیا اور اپنے مال سے ایک مکان خریدا تاکہ خلیفہ کے مھمان بن کر نہ رھیں ، یھی وہ مکان تھا جس میں آپ کو دفن بھی کیا گیا، جو آج بھی لاکھوں افراد کی زیات گاہ ھے۔

امام علیہ السلام نے مجبوراً سرمن رائے میںقیام فرمایا، یھاں تک کہ آپ کی شھادت واقع هوئی کیونکہ ھمیشہ آپ کے خلاف سازش هوتی رھی او رآپ کو ھر طرح کی اذیت دی جانے لگی،اس جرم میں کہ یہ ھماری حکومت کے خلاف انقلاب لانا چاہتے تھے او رھماری حکومت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے۔

ان تمام حالات کے بعد بھی خلیفہ کو جب بھی کوئی شرعی مشکل پیش آتی تھی تو وہ امام علیہ السلام کے پاس آکر پنا ہ لیتا تھا کیونکہ خلیفہ میں مسائل شرعی سمجھنے کی صلاحیت نہ تھی او رنہ ھی وہ شرعی سوالات کا جواب دے سکتا تھا۔

امام علیہ السلام کے علمی آثار نفیس وقیمتی ھیں جن میں "جبر وتفویض" کے موضوع پر بہترین رسالہ ھے جس میں مسئلہ کے ھر پھلو پر روشنی ڈالی گئی اور اس میں موجود ہ پیچیدگیوں کا مکمل حل بیان کیا گیا ھے خلاصہ یہ کہ اس مسئلہ میں مکمل وضاحت کی گئی ھے او رآپ کے جد امجد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے قول: "لا جبر ولا تفویض ، بل امر بین الامرین" [37]کی مکمل شرح کی گئی ھے۔

آپ کی شھادت رجب  ۲۵۴ھ[38] کو سامرہ میں هوئی اور آپ کو اپنے ھی گھر میں دفن کیا گیا جو ہزاروں مومنین کی زیارت گاہ بنا هوا ھے۔

گیارهویں امام :   حضرت حسن عسکری علیہ السلام

آپ "عسکری " کے نام سے مشهور تھے ، عسکری "عسکر" کی طرف منسوب ھے جوسرمن رائے کے ناموں میں سے ایک نام تھا۔

آپ کی ولادت باسعا دت ربیع الاول  ۲۳۲ھ کو مدینہ منورہ میں هوئی۔

آپ کی حیات طیبہ میں درج ذیل حکام کا زمانہ تھا:

۱۔ خلیفہ المعتز ؛ اس زمانہ میں خلیفہ اور امام کے درمیان کوئی دشمنی یا سازش نھیں تھی کیونکہ اس زمانہ میں تُرک لشکر نے خلیفہ کے لئے بہت سی مشکلیں ایجاد کر رکھی تھیں ،اس کی حکومت میں تباہ کاری وخرابکاری کر رکھی تھی اورخلیفہ ان مشکلات سے دست وپنجہ نرم کر رھا تھا لیکن آخر کار خلیفہ کو خلافت سے معزول هونا پڑا۔

۲۔ خلیفہ مہتدیٰ؛ اس کے امام علیہ السلام کے ساتھ اچھے روابط تھے اور اسی وجہ سے خلیفہ شراب، محفلِ رقص وسرور سے دور تھا اور نیکی وخیر کا مظاھر ہ کرتا تھا۔

۳۔ خلیفہ معتمد ؛ یہ خلیفہ اھل بیت  (ع)کا سخت دشمن تھا اسی وجہ سے اس نے امام علیہ السلام کو ایک مدت تک قید خانہ میں رکھا لیکن مجبور هوکر امام علیہ السلام کو آزاد کرنا پڑا کیونکہ اس وقت کے نصاریٰ نے خلیفہ سے کچھ علمی سوالات کر لئے تھے چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے اور نصاریٰ کے کھوٹے پن کو ظاھر کرنے کے لئے امام علیہ السلام کی مدد لی جیسا کہ تاریخی کتابیں اشارہ کرتی ھیں۔

جس وقت امام علیہ السلام کی وفات کی خبر ملی تو وہ نگران تھا کیونکہ اس وقت "محمد" مہدی بن امام عسکری علیھما السلام کی بحث شروع هوچکی تھی اور اس سلسلہ میں امام مہدی علیہ السلام کے چچاحعفر بن علی میں حسد وکینہ بھرا هوا تھا او رآپ کے مال ومنال او رآپ کے مقام کی طرف چشم طمع لگائے هوئے تھا، اور اپنے بھتیجے (امام مہدی (ع)) کو تلاش کرنا چاہتا تھا لیکن یہ اور خلیفہ دونوں اپنے ارادوں میں ناکام هوگئے اور امام مہدی دشمنوں کی نظروں سے مخفی رھے اور خداوندعالم نے ان کو حاسدوں کے حسد سے نجات دی۔

 حالانکہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا زمانہ پُر آشوب تھا لیکن پھر بھی راویوںنے بہت سی روایات نقل کی ھیں جو علم ومعرفت میں اپنا مقام رکھتی ھیں۔

آپ کی شھادت ۸/ربیع الاول  ۲۶۰ھ [39] کو سرمن رائے میں هوئی اور آپ کو اپنے پدر بزرگوار کے جوار میں (آپ کے ھی مکان میں)دفن کیا گیا۔

بارهویں امام :حضرت محمد بن الحسن (مہدی منتظر (عج)

آپ کے "مہدی" اور "القائم المنتظر" دو مشهور ومعروف لقب ھیں ۔

آپ کی ولادت با سعادت ۱۵/شعبان المعظم  ۲۵۵ھ کو فجر کے وقت سامراء میں هوئی۔

جب حکومت وقت نے آ پ کے پدربزرگوار کی وفات کے وقت آپ کے بارے میں سنا تو آپ کو تلاش کیا گیا، لیکن آپ ان کی نظروں سے پوشیدہ رھے۔

آپ نے غیبت صغریٰ میں کچھ مخصوص افراد منتخب کئے جو شیعوں کے مسائل او رسوالات کو امام سے جاکر بیان کرتے او ران کے جواب لاتے تھے۔

اور جب اس غیبت میں بھی خطرہ در پیش آیا تو پھر ملاقات کا یہ سلسلہ بھی بند هوگیا اور آپ مکمل طور پر پوشیدہ هوگئے یھاں تک کہ آپ کے نائیبین بھی نہ مل سکے، (اور امام علیہ السلام آج تک مخفی ھیں)

انشاء اللہ ایک روز آئے گا جب خداوندعالم آپ کو ظهور کا حکم دے گا او ر آپ ظلم وجور سے بھری دینا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ آپ کے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے بہت سی احادیث میں اس طرف اشارہ فرمایا ھے؛مثلاً:

"ان علیا وصیي ومن ولدہ القائم المنتظر المہدی الذی یملاء الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت جوراً وظلماً"

(بے شک علی میرے وصی ھیں اور ان ھی کی اولاد میں سے مہدی منتظر هوں گے جو ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے)

ایضاً:

"ابشروا بالمہدی رجل من قریش من عترتی تخرج فی اختلاف من الناس وزلزال، فیملاٴ الارض عدلاً وقسطاً کما ملئت ظلماً وجوراً"[40]

(اے لوگو ! میں تم کو مہدی کے بارے میں بشارت دیتا هوں جو قریش سے هوں گے جب لوگوں میں اختلاف اور لغزشیں پائی جائیں اسی وقت ان کا ظهور هوگا اور وہ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے)

قارئین کرام !    چونکہ موضوع امام مہدی ایک اھم موضوع ھے لہٰذا اس سلسلہ میں ایک مستقل باب میں بحث کرتے ھیں اور اس باب میں تین مرحلوں میں بحث کریں گے:

۱۔ نظریہ "مہدویت" او راس کااسلام سے رابطہ۔

۲۔مسلمانوں کے درمیان متفقہ احادیث نبوی میں امام مہدی کی شناخت او رتعین۔

۳۔ امکانِ غیبت اور اس کے دلائل۔

لہٰذا اس سلسلہ میں تفصیلی معلومات کے لئے آئندہ باب میں رجوع فرمائیں۔

قارئین کرام !    بحث "امامت" عقل وروایات کی روشنی میں آپ نے ملاحظہ فرمائی اور امامت کے سلسلہ میں "احادیث" صاف اور واضح طور پر ملاحظہ کیں۔

نیز ائمہ  (ع)کی پاک وپاکیزہ زندگی، سیرت اور علمی عظیم آثار پر بھی توجہ فرمائی۔ کیا ان سب حقائق کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی شخص یہ کہہ سکتا ھے کہ شیعہ یهودیوں کے پیروکار ھیں اوردائرہ اسلام سے خارج ھیں؟! اسی طرح گذشتہ وضاحت کے بعد بھی کیا کوئی یہ کہنے میں حق بجانب هوگا کہ شیعیت کا ظهور خلافت عثمان بن عفان کے زمانہ میں هوا، اور مسلمانوں کے ایک گروہ نے قیام کیا۔

کیا عبد اللہ بن سبا کو شیعیت کا موٴسس کھا جاسکتا ھے کہ اس نے اسلام کا لبادہ پہن کر اسلام کو نابود کرنے کی کوشش کی؟!

اور کیا تاریخ میں عبد اللہ بن سبا کا وجود ھے جس کی طرف شیعیت کی ایجاد کی نسبت دی جائے؟!

اب ھم اس سلسلہ میں مورخین کے نظریات قلمبند کرتے ھیں:

۱۔ ڈاکٹر برنارڈلویس نے عبد اللہ بن سبا کا وجود صرف خیالی بتایا ھے اور اس بات کی تاکید کی ھے کہ مختلف زمانے میں ابن سبا کی طرف نسبت دینا متاخرین علماء کی من گھڑت کھانی ھے۔[41]

۲۔ڈاکٹر طٰہ حسین صاحب نے ابن سبا کی طرف منسوب تمام واقعات کو نا قابل قبول مانا ھے اور مورخین کی روایات پر حاشیہ  لگاتے هوئے کھا:

"شیعوں پر یہ سب تھمتیں ،شیعہ مخالفین اور شیعہ دشمنوں نے لگائی ھیں"۔[42]

۳۔ ڈاکٹر جواد علی صاحب نے عبد اللہ بن سبا کی تمام باتوں کو مشکوک قرار دیا ھے کیونکہ اس کی تمام روایتیں سیف بن عمرھی سے ھیں اور اس کے علاوہ کسی نے بھی بیان نھیں کی جبکہ سیف بن عمر خود بھی اور اس کی روایات بھی غیر قابل قبول ھیں۔ [43]

۴۔ ڈاکٹر علی الوردی صاحب کا نظریہ ھے کہ اموی حکّام نے جلیل القدر صحابی جناب عمار بن یاسر کو عبد اللہ بن سبا کا لقب دیا ھے اور اس پر بہت سے قرائن وشواہد ھیں۔[44]

          ۵ استاد احمد عباسی صالح صاحب کی نظر میں عبد اللہ بن سبا کا وجود ایک افسانہ ھے، جیسا کہ موصوف اپنی گفتگو کے دوران فرماتے ھیں:

"اس میں کوئی شک وشبہ نھیں ھے کہ عبد اللہ بن سبا ایک خرافی تصور کا نام ھے اور لوگوں نے اس خرافی شخص کا وجوداس لئے تصور کیاکہ اس کی طرف جو کچھ بھی نسبت دینا چاھیں وہ دے سکیں، چنانچہ عبد اللہ بن سبا کے جو واقعات موجود ھیں وہ سب متاخرین کی من گھڑت کھانیاں ھیں کیونکہ قدیمی منابع اور کتابوں میں اس کے وجود پر کوئی دلیل نھیں ھے چہ جائیکہ اس کے نظریات کا کوئی وجود بھی هو" [45]

پس خلاصہ یہ هوا کہ عبد اللہ بن سبا صرف ایک افسانہ ھے جس کا ذکر تاریخ میں نھیں ملتا تو پھر حقیقت میں شیعیت کی بنیاد رکھنے والا کون ھے؟ اور کس نے سب سے پھلے اس لفظ کو استعمال کیا؟

جواب :

 سب سے پھلے اس لفظ کو حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے استعمال کیاجیسا کہ طبری اور حافظ ابن حجر نے اپنے مشهور حفاظ سے اس روایت کو نقل کیا ھے کہ ایک روز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس آیہ ٴ کریمہ کی تلاوت فرمائی:

<اِنَّ الَّذِینَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اُوْلٰئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ>[46]

"بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرتے ھیں یھی لوگ بہترین خلائق ھیں"

اور اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:

"ھم انت وشیعتک"[47] (وہ آپ او رآپ کے شیعہ ھیں)

اب جبکہ یہ معلوم هوگیا کہ سب سے پھلے اس کلمہ کا استعمال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے کیا اور شیعہ سے مراد حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو لیا تو پھر خود غرض او ر شک کرنے والوں کے بے جا اعتراضات کا خاتمہ هوجاتا ھے۔

اَلْحَمُدْ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَاکُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَو لَا اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ۔

والسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...
روزہ اور تربیت انسانی میں اس کا کردار
قرآن میں مخلوقات الٰہی کی قسمیں
حكومت نہج البلاغہ كی روشنی میں
اسلام اور سیاست
آخری پیغام
قرآن کریم میں گفتگو کے طریقے
بدطینت لوگوں سے دوستی مت رکھو
مقاصدِ شریعت
شب يلدا کي تاريخ

 
user comment