اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

شیطان اور انسان

جب اللہ تعالٰی نے انسان کی تخلیق کا ارادہ کیا اور اپنی پہلے سے موجود مخلوق یعنی ملائکہ سے اسکا تذکرہ کیا تو فرشتوں کا محض ایک ہی خدشہ تھا کہ اتنی خوبصورت کائنات کو یہ نئی مخلوق اپنی انا پرستی اور خود پسندی کی آگ میں جھونک کر جہنم بنا ڈالے گی۔ لیکن خدا جسکا علم سب پر محیط ہے، وہ بہتر جانتا تھا کہ فساد کی آگ اور اطاعت کے گلزار میں توازن کیونکر رکھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس نے فرشتوں کے تمام تر خدشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف انسان کو خلق کیا بلکہ اشرف المخلوقات کا تاج پہنا کر اسے مسجودِ ملائک بھی قرار دیا۔ تمام فرشتوں نے اطاعتِ خالق میں سرِتسلیم خم کیا اور اپنے تمام خدشات کو بھلاتے ہوئے اپنی جبیں ہائے مقدس کو نو تخلیق شدہ خاک کے ذی روح پتلے کے قدموں میں رکھ دیا۔ رہ گیا فقط ابلیس۔۔۔ تو نہ صرف وہاں راندہء درگاہ ہوا، بلکہ فساد کا جو خدشہ فرشتوں کو انسان کی جانب سے درپیش تھا، وہ اس نے خود اپنے ہی کاندھوں کا بوجھ بنا لیا۔ 

خدا نے بھی نہ کوئی قدغن لگائی اور نہ ہی کوئی سزا سنائی، بلکہ اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھٹی دے کر آزاد بھی کر دیا۔ یوں لمحہء تخلیقِ آدم سے ہی دو راستوں نے بھی جنم لیا۔ ایک لشکرِ ملائک کا، یعنی حق، اطاعت، تسلیم و رضا، خود شناسی اور صبر و شکیبائی کا راستہ جبکہ ایک اکیلے ابلیس کا پسند کردہ باطل، طاغوت، بغاوت، عجلت، خود پسندی اور فساد کا راستہ۔ اور وہ لمحہ وہی وقت ہے جب سے حق اور باطل کے دو جدا راستوں میں صورِ اسرافیل کی پھونک کے وقت تک جاری رہنے والی ایک جنگ کا آغاز ہوا۔ فرشتے اس تمام احوال کے چشم دید گواہ قرار پائے اور یہ جاننے، یہ کھوج میں لگ گئے کہ دیکھیں اب خدا کا پسندیدہ انسان فساد کرتا ہے یا اصلاح۔۔۔

اس جنگ کا اولین مرحلہ تو آگ کے بنے شیطان اور خاک کے بنے آدم کے مابین جنت کے باغات میں ہی طے پایا جو کہ آدم کے خروج از جنت کا باعث بھی قرار پایا اور بالآخر پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ آدم زمین پر وارد ہوئے۔ صاحبِ اولاد ہوئے تو اب شیطان کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملا، جسکا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور آدم ہی کے بیٹوں کو آپس میں بِھڑوا کر ایک بیٹے پر اپنا مکمل تسلط حاصل کیا، اپنا بنیادی عنصر آگ قابیل کے پیکر میں منتقل کیا اور "قتلِ انسانی" نامی فساد کی بنیاد ڈالی۔ وہ وقت ہے اور یہ وقت، ناگہانی قتلِ انسان کا سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔

وقت گزرتا رہا۔۔۔ زمین پر اسکے وارث آدمی کی آباد کاری پھیلتی رہی۔ ترقی کا عمل بھی شروع ہوا اور ساتھ ساتھ یہ بھی ہوا کہ زمین میں فساد پھیلانے کا وہ ذمہ جو شیطان نے اٹھایا تھا، انسان نما شیطانوں نے اس بوجھ کو بانٹنے کے واسطے اپنے شانے پیش کر ڈالے۔ جب جب فرشتوں کو زمین پر اپنا خدشہ درست ثابت ہوتا نظر آتا، وہین خدائے عادل کی جانب سے اسکے زمین پر اصل نمائندگان اس فساد کے دریا پر بند باندھتے رہے۔ شیطان کا پھیلتا ہوا فساد، اصلاح کے نتیجے میں ایک خوبصورت انجام کو پہنچ جاتا اور یوں ہر معرکے میں حق کی فتح ہوتی۔ فرشتے ہمیشہ مجبور ہی رہے اور خدا کا خلیفہ "انسان" انکو ہمیشہ چپ سادھنے پر مجبور کئے رہا۔

چونکہ خدا نے شیطان کی رسی کو دراز چھوڑا تھا، اسی لئے اسکے حربے بھی طوالت کے حامل رہے۔ دوسری جانب نمائندگانِ خدا کا صبر اور برداشت بھی کمال کا رہا۔ چنانچہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کس طرح سے معمولی اور بے تکی باتیں سالوں پر محیط جنگوں کا باعث بنیں، جن میں لاکھوں انسانی جانیں، آبادیاں، معاشرے، معیشتیں، مویشی اور کائنات کی دیگر خوبصورتیاں شیطانی جنون کا شکار ہو کر آگ کی نذر ہوتی رہیں۔ اور خلفائے خدا بندگانِ خدا کو اس آگ سے بچا کر انسانیت کو فروغ دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ ہر دور کا پیغمبر صرف انسانیت کی بقا اور توحیدِ خداوندی کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا رہا۔ یہاں تک کہ پیغمبری کی تاریخ حضرت عیسٰی (ع) کی تصلیب پر آکر رک گئی۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جب انسان اپنی اصل سے روگرداں ہو کر شیطان کے چنگل میں ایسا پھنسا کہ پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا گیا، اور اپنے دور کو رہتی دنیا تک "زمانہء جاہلیت" کا نام دے کر دم لیا۔

زمانہء جاہلیت کی چند چیدہ چیدہ خصوصیات میں دنگا فساد، جنگ و جدل، دھونس دھاندلی، غم و غصہ، طاقت کا بے دریغ استعمال، املاک پر قبضہ، عورت سے عناد اور بت پرستی سرِفہرست ہیں۔ بیک وقت اتنی ڈھیر ساری معاشرتی برائیوں کی گھٹن نے جب عام انسان کا جینا محال کر دیا تو ایسے میں خدا نے اپنے آخری پیغمبر (ص) کی صورت میں پژمردہ انسانوں اور دم توڑی ہوئی انسانیت کے لئے امید کے ایک روشن چراغ کو سرزمینِ عرب پر بھیج دیا۔ اس ایک چراغ نے طاغوت کی منہ زور آندھیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بالآخر باطل کا طوفان تھم گیا اور چہار جا حق پرستی، امن و آشتی، اخوت و بھائی چارے، پیار و محبت اور عزت و وقار کی نرم و گداز روشنی نے اپنا زور جما لیا۔ ایک مثالی معاشرے نے جنم لیا اور صدیوں کی پسی ہوئی انسانیت کا وقار بحال ہوا۔ فرشتے پھر انگشت بدندان کہ فساد کے مقابلے میں پھر اصلاح کی جیت ہوگئی۔ رسولِ اکرم (ص) کی ذمہ داری پوری ہوئی اور خدا نے آپکو اپنے پاس واپس بلوا لیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

شیطان اس شرمناک شکست پر آگ بگولہ ہو کر اپنی خفت کا بدلہ لینے تیار بیٹھا تھا۔ اب وہ مرحلہ آن پہنچا، جب وہ اپنے شیطانی کھیل کا وہ مرحلہ طے کرتا جسکی نوبت اس سے قبل پوری تاریخِ کائنات میں نہ آئی تھی۔ اس کام کے لئے شیطان نے اپنی اولاد میں سے چن کر ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو سورۃ الفاتحہ کی زبان میں ضال و مغضوب تھا۔ جسکے راستے سے اہلِ ایمان خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ زمانہء جاہلیت کا سپوت، فخرِ ابلیس، انا پرستی کی آگ میں ایسا جلا کہ پچھلے ادوار کے تمام مظالم ایک طرف اور اسکا ایک جرم ایک طرف۔ دورِ جاہلیت کی تمام چیدہ چیدہ خصوصیات ابھر کر ایک شخص میں مجتمع ہوئیں۔ دنگا فساد، جنگ و جدل، دھونس دھاندلی، غم و غصہ، طاقت کے نشے، اپنے نفس کی بت پرستی کی جبلت اور عورت سے عناد نے اس شیطان زادے کے تن بدن میں آگ کا طوفان بھر دیا، جسے لیکر یہ اس دروازے تک پہنچا، جہاں خدا کے فرشتے اپنی جبین ہائے نیاز کو ٹیکتے تھے اور اپنے روزِ ازل کئے گئے اپنے خدشے پر پشیمان ہوتے تھے کہ اس دروازے کے اس پار ایسے انسان بستے تھے کہ جنکے بارے میں خدا نے ان سے کہا تھا کہ "جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے"۔

دروازے کے اس پار ایک نحیف و نزار عفت مآب بی بی رہا کرتی تھی، جسکا باپ چند روز قبل ہی اس دنیا کو ایک مثالی معاشرے کا روپ دے کر دنیا سے پردہ کرگیا تھا۔ خدا کی تخلیق کردہ وسعت کی حامل تمام کائناتیں اسکے حصارِ رحمت میں تھیں اور یہ بیٹی خود اسکے لئے باعثِ رحمت تھی۔ اس گھر میں موجود ایک اور "انسان" تھا، جو سراپا ایمان تھا۔ یہ بی بی اس ُکلِ ایمان کا نصف تھی۔ اسی صحن میں دو بچے کھیل رہے تھے، جن کو خدا نے فردوس کی وسعتوں کا شہنشاہ بنایا تھا۔ اس بی بی کے پاکیزہ قدموں تلے ان مالکانِ خلد کی جنت تھی۔ الغرض یہ بی بی مرکزِ پرکارِ عشق تھی، جسکے گرد ملائکہ طواف کرتے تھے۔

یہ دروازہ ایک خاص اہمیت کا حامل دروازہ ہے۔ یہ وہ دروازہ ہے، جہاں ٹھہر کر سردار الانبیاء دردود و سلام پڑھا کرتے تھے۔ ملائکہ اس دروازے تک آنا اپنا افتخار سمجھتے تھے۔ کبھی درزی کے روپ میں، کبھی فقیر کے روپ میں، کبھی خادم کے روپ میں تو کبھی ستاروں کو لئے۔ یہی وہ دروازہ تھا جہاں اصحاب المنتجبین اپنی ریشِ مبارک سے جھاڑو کا کام لیا کرتے تھے۔ اس دروازے سے نفرت اور عناد شیطان کو جوش میں لائی اور اس نے اپنی اصل یعنی آگ کو اس دروازے پر دے مارا۔۔۔۔۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔۔۔ تاریخِ اسلام میں مسلح دہشت گردی کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ صد افسوس کہ اس ریاستی دہشت گردی کا پہلا شکار دخترِ رسول (ص) قرار پائی۔ فرشتوں کا خدشہ پھر سے جنم لینے لگا۔ حیرت زدہ نگاہیں جلتے ہوئے دروازے پر پڑتی ہیں تو فساد ہی فساد نظر آتا ہے۔

لیکن دروازے کی دوسری جانب دیکھا تو صبر، برداشتِ حلم، اطاعت، تسلیم و رضا اور اصلاح کے پہاڑ جمے نظر آتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک فساد کو لگام دینے کی خاطر خیبر اکھاڑ دینے والا حیدرِ کرار آج کے خیبر کو فتح کرنے کی حکمتِ عملی میں اپنے آقا کی اطاعت کا سراپا بنا کھڑا ہے۔ کل دروازہ اکھاڑنا آسان تھا، آج دروازہ گرتا دیکھ کر صبر کے گھونٹ پینا کتنا مشکل ہے! لیکن یہ ہے وہ انسان، جسکی اطاعت و صبر کی معراج خدا کا علم ہی جانے۔ چشم دید گواہان کے سامنے ایک جانب روزِ ازل خدا سے جھگڑنے والے ابلیس کا لشکر ہے تو دوسری جانب خدا کا نمائندہ انسان! فرشتوں نے ایک بار پھر چپ سادھ لی۔

آج اس سانحے کو بیتے 1423 برس بیت گئے۔ اس دن سے آج تک اہلِ بیت اطہار (ع) و محبانِ اہلبیت کے خلاف مسلح دہشت گردی جاری ہے۔ اسی دہشت گردی کے ذیل میں کربلا برپا ہوئی، کبھی شام کا مرحلہ آیا تو کبھی مدینہ و سامرہ لرز اٹھے۔ آج بھی جہاں جہاں نمائیندگانِ خدا کا نام لیا جاتا ہے، وہاں وہاں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ شیطان کا عناد محض ان انسانوں تک ہی محدود رہتا بھی کسی صورت قابلِ قبول نہیں، چہ جائیکہ ان ہستیوں کے مراقد کو بھی تاراج کیا جائے۔ آج کا شیطان ان انسانوں کی قبور سے بھی خوفزدہ ہے۔ اسی خوف کے پیشِ نظر وہ کبھی بقیع کو بلڈوز کرتا ہے تو کبھی سامرہ و دمشق پر بم برساتا ہے۔ "اسلام" کو کفر کہہ کر مسلمین کے خلاف قتال کے فتوے صادر کرتا ہے۔ آج پوری دنیا انسان نما شیطان کے ایجاد کردہ اسی فساد کا شکار ہے کہ جس کے خوف سے فرشتے خدشات کا شکار تھے۔ لیکن خدا نے کہا تھا کہ جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔ بیشک خدا ہی جانتا ہے کہ کب اس نے اپنے خلیفہ "انسان" کو فرشتوں کے خدشات کو حتمی طور پر ختم کرنے اور شیطان کو اسکے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے اذنِ ظہور دینا ہے۔

وَانتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ


source : http://www.shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روزہ کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں چند احادیث
اسامي قرآن کا تصور
ماہ رجب کےواقعات
نماز کی اذان دنیا میں ہر وقت گونجنے والی آواز
شہید مطہری کے یوم شہادت پر تحریر (حصّہ دوّم )
قرآن اور دیگر آسمانی کتابیں
بے فاﺋده آرزو کے اسباب
شیطان اور انسان
سمیہ، عمار یاسر کی والده، اسلام میں اولین شہید ...
"صنائع اللہ " صنائع لنا" صنائع ربّنا " ...

 
user comment